آزاد کشمیر، وہ سرزمین جو قدرتی حسن، بہتے جھرنوں، سرسبز وادیوں، خوشبودار قدرتی گل و برگ، پھلوں، جنگلوں، سبزہ زاروں، تن بدن کو جگا دینے والی لہراتی میٹھی ہواؤں، چمکتے آسمانوں، خوبصورت انسانوں سے مزین انتہائی پرامن خطہ تھا، آج اپنے ہی باسیوں کے لہو سے رنگین ہو چکا ہے۔
جہاں کبھی امن کی ہوائیں بہتی تھیں، آج وہاں نفرت، تقسیم اور اضطراب کی لہر دوڑ رہی ہے۔ سوال یہ نہیں کہ ’عوامی ایکشن کمیٹی‘ کا پلیٹ فارم کیوں بنا؟ احتجاج کیوں ہوا؟، بلکہ سوال یہ ہے کہ وہ پرامن احتجاج کیسے شوریدہ ہوا؟ کس نے اس ’سوہنی دھرتی ‘ کو نفرت کی داغدار چادر تھما دی، اس کا فائدہ کس کو ہوا، مزید کون فائدہ اٹھائے گا؟
خطہ آزاد کشمیر میں جاری ’تحریک‘ نے ایک مرتبہ پھر ہمیں آئینہ دکھایا ہے کہ دشمن صرف سرحد کے اُس پار نہیں، بلکہ ہمارے اندر گھس کر سازشیں کرنے کی بھرپور صلاحیت بھی رکھتا ہے۔
جب بھارتی وزیر دفاع ’راجناتھ سنگھ بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ ’ہمیں آزاد کشمیر کو فوج کے ذریعے فتح کرنے کی ضرورت نہیں، یہ خود ہی پاکستان کا حصہ نہیں رہے گا‘، تو یہ محض ایک بیان نہیں، بلکہ ایک منصوبہ ہے، ایک ایسا منصوبہ جو برسوں سے کشمیر کی وحدت کو ہمیشہ کے لیے بگاڑنے، عوام کو باہم الجھانے اور پاکستان کو داخلی طور پر کمزور کرنے کی کوشش کرتا آیا ہے۔
بدقسمتی سے، ہم نے خود دشمن کو یہ موقع فراہم کیا۔ مہاجرین کی نشستوں کا معاملہ ہو یا اشرافیہ کی مراعات، یہ وہ سوالات ہیں جن پر بات ہونی چاہیے، لیکن اس کی تکمیل بندوقوں اور لاشوں کی گواہی پر نہیں، بلکہ دلیل، ووٹ اور آئینی راستے سے ہونی چاہیے۔
اشرافیہ کی بات کی جائے تو یہ بالکل درست ہے کہ آزاد کشمیر کے عوام اپنے چندے پر سڑکیں بنا رہے ہیں، اپنی مدد آپ ’پیادہ‘ راستے بنا رہے ہیں، سرکاری اسکولوں کی عمارتیں نا گفتہ بہ ہیں، اسپتالوں میں علاج کی سہولتیں نا پید ہیں، جعلی ادویات کی بھرمار ہے، تھانہ، کچہری، محکمہ مال کرپشن اور رشوت ستانی کے گڑھ ہیں، ٹرانسپورٹ کا نظام درہم برہم ہے۔
یہ سب وہ ساختی برائیاں اور مسائل ہیں جو ہماری حکمران اشرافیہ کے پیدا کردہ ہیں، ان کا احتساب یقیناً ضروری ہے لیکن اس کے لیے بھی قصور وار یہی عوام ہے کہ وہ ایسے نمائندوں کو بار بار اسمبلی میں کیوں بھیجتی ہے جو ان کے حقوق کے تحفظ کے بجائے، ان کے حقوق پر ’غاصب‘ بن جائیں، یہ تبدیلی بھی جمہوری طریقوں اور ووٹ سے لائی جا سکتی ہے۔
اگر آزاد کشمیر کے عوام واقعی ’مرعات یافتہ اشرافیہ‘ سے چھٹکارا چاہتے ہیں، تو انہیں سب سے پہلے اپنے سیاسی شعور کو بیدار کرنا ہوگا۔ وہ نمائندے جو عوامی مسائل کو نظر انداز کر کے صرف مراعات اور اقتدار کی سیاست کرتے ہیں، ان کا احتساب صرف اور صرف ووٹ کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
خود اسمبلیوں میں پہنچانے والوں کو ہٹانے کا فیصلہ سڑکوں پر قطعاً ممکن نہیں، اس کے لیے عوام کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ صرف لسانی، قبائلی یا جذباتی بنیادوں پر ووٹ نہیں دیں گے بلکہ کارکردگی، امانت و دیانت کی بنیاد پر اپنے نمائندے منتخب کریں گے۔
دشمن یقیناً طاق میں تھا، ایسا لگتا ہے کہ ایک جانب ہمارا دشمن مقبوضہ کشمیر کی ’ڈیموگرافی‘ تبدیل کرتے ہوئے اکثریت کو اقلیت میں بدلنے میں کامیاب ہونے جا رہا ہے، تو دوسری جانب ہمارے ’اندر‘ نفرتوں کی آگ لگانے میں بھی کامیاب ٹھہرا۔
کشمیر ایک ’وحدت‘ ہے، جس کی، آزاد کشمیر، گلگت بلتستان، جموں کشمیر اور لداخ، 4 اکائیاں ہیں۔ جب تک یہ چاروں اکائیاں باہم ایک نہیں ہوتیں تکمیلِ ’ریاست جموں کشمیر‘ خواب ادھورا رہے گا، ’عوامی ایکشن کمیٹی‘ کی جانب سے مہاجرین کی سیٹوں کے خاتمے کا مطالبہ تبھی پورا ہو سکتا ہے جب ’ریاست جموں کشمیر‘ کی چاروں اکائیوں کے ساتھ تکمیل ریاست کے لیے بھرپور جدوجہد کی جائے گی‘۔
عوامی ایکشن کمیٹی کا مہاجرین کی سیٹوں کے خاتمے کا مطالبہ یقیناً ’تکمیل ریاست جموں کمشیر‘ کا ایجنڈا نہیں ہو سکتا، یہ چاروں اکائیاں ریاست جموں کشمیر کا وجود ہیں، جن کے لیے ’خطہ آزاد کشمیر‘ کو ان کا ’بیس کیمپ‘ قرار دیا گیا، ان چاروں اکائیوں کی نمائندگی ہمارے ’مہاجر‘ بھائی ہی کرتے ہیں، ان مہاجر بھائیوں کو اپنے وجود سے الگ کرنے کا مطلب چاروں اکائیوں کو الگ کرنے کے مترادف ہے اور ہمارا دشمن بھی یہی چاہتا ہے، مہاجرین کی سیٹوں کی تعداد میں کمی کی بات تو کی جا سکتی ہے لیکن ان کا خاتمہ ’وحدت کشمیر‘ کے خاتمے سے کم نہیں تصور ہوگا۔
مہاجرین وہی لوگ ہیں جو ریاستِ جموں کشمیر کی دیگراکائیوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ان کی نشستوں کا خاتمہ دراصل کشمیر کی چاروں اکائیوں کو کمزور کرنے کے مترادف ہے۔
مہاجرین کی نمائندگی کا تحفظ، اشرافیہ کے احتساب کا مطالبہ اور عوامی مسائل کا حل سب ضروری ہیں، لیکن یہ سب تبھی ممکن ہیں، جب ہم عقل، شعور اور جمہوری اقدار کے ساتھ اپنے مسائل کا حل تلاش کریں۔ خونریزی، انتشار اور نفرت کا راستہ نہ صرف مسئلہ کشمیر کو کمزور کرے گا بلکہ دشمن کے بیانیے کو بھی تقویت فراہم کرے گا۔
یقیناً جہاں عوام کو پانی، بجلی، تعلیم، علاج اور انصاف جیسی بنیادی سہولیات سے محروم رکھا جاتا ہے، وہاں غصہ اور اضطراب فطری ہے۔ لیکن اس اضطراب کو استعمال کرنے والے عناصر کون ہیں؟ جب پولیس اور مظاہرین کو آمنے سامنے لاکھڑا کیا گیا، جب تھوڑ پھوڑ ہو رہی ہے، جب اسلحہ کھلے عام استعمال ہو رہا ہے، تو یہ واضح ہو گیا کہ معاملہ صرف مہنگائی یا مہاجرین کی نشستوں تک محدود نہیں ہے۔
یہ سب ایک منظم منصوبے کا حصہ ہے جس کا مقصد ریاست کو کمزور کرنا، عوام کو اشتعال دلانا اور بیرونی پروپیگنڈے کو ’انسانی لاشوں‘ کے ذریعے خوراک مہیا کرنا ہے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ انٹرنیٹ کی بندش پر سب سے زیادہ چیخ و پکار ہوئی، کیوں؟ کیونکہ سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا کو ایک مخصوص بیانیہ دکھایا جانا مقصود تھا۔
یہی بیانیہ بھارت کے مفاد میں استعمال ہو رہا ہے جو دنیا کو یہ تاثر دینا چاہتا ہے کہ ’آزاد‘ کشمیر بھی کسی قید سے کم نہیں۔ اس ماحول میں بیرون ملک بیٹھے اپنے ہی خطے کے لوگوں نے اپنے ہی لوگوں کے خلاف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے زہر اُگلا، ریاست کو بدنام کیا اور احتجاج کو تحریکِ آزادی کا رنگ دینے کی کوشش کی گئی، آزاد کشمیر کو پاکستان کا ’مقبوضہ کشمیر‘ قرار دے کر کشمیریوں کی پاکستان کے ساتھ وابستگی کو کمزور کیا گیا۔
ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ احتجاج کرنا ایک جمہوری حق ہے، لیکن ریاست پر حملہ، عوامی و قومی اداروں کو تباہ کرنا، اپنے ہی بھائیوں پر گولیاں برسانا اور نفرت کی بنیاد پر بیانیہ بنانا دشمن کا ایجنڈا ہی ہو سکتا ہے۔
پولیس، ایف سی، رینجرز پر حملہ صرف اداروں پر نہیں بلکہ پاکستان کے ساتھ کشمیریوں کی نظریاتی وابستگی اور ریاست جموں کشمیر کی بنیادوں پر حملہ ہے اور اگر دشمن کو فائدہ پہنچ رہا ہے تو پھر یہ ضرور جانچنا ہوگا کہ ہم کہیں دانستہ یا نادانستہ طور پر اس کے ایجنڈے کو مکمل تو نہیں کر رہے؟
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ’عوامی محرومیوں کا حل بندوق نہیں، بیلٹ ہے۔ بدعنوان اشرافیہ کا محاسبہ نفرت سے نہیں بلکہ آئینی اصلاحات سے بھی ممکن ہے۔ ہمیں اپنی صفوں میں موجود اُن عناصر کو بھی بے نقاب کرنا ہوگا جو سچے عوامی مطالبات کو اپنے خفیہ ایجنڈوں کی تکمیل کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
اب بھی وقت ہے کہ ہم لاشوں کے پیچھے چھپی سازشوں کو سمجھیں، اپنی ریاستی وحدت کو مضبوط کریں اور آئندہ نسلوں کے لیے ایک پرامن، خوشحال اور متحد کشمیر کا خواب بچا سکیں۔ ہمیں اس دھرتی کو پھر سے وہی امن، محبت، اور بھائی چارے کی زمیں بنانا ہوگا جہاں خون نہیں، علم اور شعور اگتا ہو۔
آزاد کشمیر کے عوام کو اب فیصلہ کرنا ہے کہ ’کشمیر ایک وحدت ہے اور اس کی کسی ایک ’اکائی‘ میں کسی بھی قسم کا ’انتشار‘ قابل قبول نہیں، عوام کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ ’سوہنی دھرتی‘ کے رنگ کو اپنے لہو سے رنگنے دیں گے یا اس کو امید، ترقی اور اتحاد کے رنگ سے سجا کر دشمن کو یہ پیغام دیں گے کہ ’کشمیر ایک ہے، کشمیر زندہ ہے اور کشمیر آزاد ہو کر رہے گا‘۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: مہاجرین ریاست جموں کشمیر چاروں اکائیوں مہاجرین کی کرنا ہوگا کشمیر کی کرتے ہیں کے ذریعے کو کمزور عوام کو کے ساتھ اپنے ہی رہا ہے کے لیے ہے اور
پڑھیں:
چار محاذ، ایک ریاست؛ پاکستان کی بقا کی حقیقی لڑائی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251118-03-5
پاکستان آج ایک ایسے دوراہے پر کھڑا ہے جہاں دہشت گردی کی نئی لہر محض ایک داخلی سیکورٹی چیلنج نہیں رہی، بلکہ یہ چاروں طرف سے آنے والے اسٹرٹیجک دباؤ، خطے کی طاقتوں کی نئی صف بندی، عالمی پروپیگنڈے، اور بیانیاتی جنگ کا حصہ بن چکی ہے۔ گزشتہ چالیس برسوں میں شاید ہی کوئی ایسا ملک ہو جس نے اپنی سرزمین پر اتنا خون دیکھا ہو، اپنی نسلوں کو اتنی اذیت سے گزارا ہو، اور پھر بھی دنیا کے سامنے اپنے آپ کو مسلسل دفاع پر مجبور پایا ہو۔ افغانستان کی جنگ، عالمی طاقتوں کی پراکسی پالیسیاں، مشرقی سرحد کے تناؤ، دہشت گردی کے حملے، اور داخلی کمزوریوں نے پاکستان کو ایک ایسی پوزیشن میں لا کھڑا کیا ہے جہاں اسے ایک ساتھ چار محاذوں پر کھڑے ہو کر دنیا کو بتانا پڑ رہا ہے کہ وہ جنگجو نہیں، جنگ کا زخمی ہے؛ مگر افسوس یہ ہے کہ دنیا کے طاقتور حلقے آج بھی پاکستان کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں، جیسے وہ یہ سب کچھ اپنی مرضی سے برداشت کر رہا ہو، نہ کہ عالمی فیصلوں اور علاقائی سیاست کی قیمت کے طور پر۔
پاکستان میں دہشت گردی کی تاریخ 2001 سے نہیں، بلکہ 1979 سے شروع ہوتی ہے، جب سوویت یونین افغانستان میں داخل ہوا اور پاکستان کو ایک ایسی جنگ کا مرکز بنا دیا گیا جس میں شرکت ہماری اپنی ترجیح نہیں تھی۔ افغان جہاد کی دہائی میں امریکا اور مغربی طاقتوں نے پاکستان کو ایک فرنٹ لائن ریاست بنایا، مگر جب جنگ ختم ہوئی تو وہ یہاں بارود، اسلحہ، نظریاتی تقسیم، اور لاکھوں مہاجرین چھوڑ کر چلے گئے۔ 1990 کی دہائی میں افغانستان خانہ جنگی میں ڈوبا رہا اور پاکستان کو عسکریت پسندی، منظم گروہوں، ریاستی خلاؤں، اور بھارتی دباؤ کے درمیان سروائیو کرنا پڑا۔ پھر نائن الیون آیا اور پاکستان پر وہ فیصلہ تھوپ دیا گیا جو ہم نے خود نہیں کیا تھا: ’’آپ ہمارے ساتھ ہیں یا ہمارے خلاف؟‘‘ دو دہائیوں تک دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے اسی ہزار سے زائد زندگیاں کھو دیں، معیشت کو ایک کھرب ڈالر سے زیادہ نقصان پہنچا، قبائلی معاشرت اجڑ گئی، معصوم بچے، جوان، سپاہی شہید ہوئے اور ریاست ایک نہ ختم ہونے والی جنگ میں الجھ گئی۔ مگر دنیا نے کبھی سوچا نہیں کہ اس جنگ کی سب سے بھاری قیمت صرف پاکستان نے ادا کی۔
مگر پاکستان کو جو سب سے بڑا خطرہ آج درپیش ہے، وہ صرف بندوقوں کا نہیں، بلکہ چار مسلسل اور بیک وقت اسٹرٹیجک پریشر پوائنٹس کا ہے۔ ایسے پریشر پوائنٹس جن کا سامنا اس وقت شاید کسی اور ریاست کو نہیں ہے۔ پہلا دباؤ مشرقی سرحد پر ہے، جہاں بھارت کے ساتھ روایتی اسکیلیشن کسی بھی وقت شروع ہو سکتی ہے۔ پاکستان اور بھارت کا تعلق ہمیشہ ایک ’’کانیٹک تھریٹ‘‘ کے طور پر موجود رہا ہے، اور حالیہ برسوں میں اس فضا میں ہنگامی تناؤ مزید بڑھا ہے۔ دوسرا دباؤ اسی محاذ سے جڑا ہوا نیوکلیئر ڈیٹرنس ڈائنامک ہے، جو دونوں ریاستوں کی بقا کے لیے بنیادی ستون ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ اس ڈیٹرنس کو ذمے داری سے مینج کیا ہے، لیکن ماضی کے کچھ واقعات نے اس حساس توازن پر غیر معمولی دباؤ ڈالا ہے، اور بھارت کی جارحانہ حکمت عملی خطے کو مزید غیر مستحکم بنا رہی ہے۔ تیسرا محاذ افغانستان اور مغربی سرحد کا ہے، جو صرف دہشت گردی تک محدود نہیں رہا، بلکہ اب براہِ راست کانیٹک آپریشنز کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ سرحد پار گروہوں کی بڑھتی ہوئی فعالیت، ٹی ٹی پی کی ری گروپنگ، اور بدلتی ہوئی طالبان پالیسیوں نے پاکستان کی مغربی سرحد کو مستقل دباؤ کا مقام بنا دیا ہے۔ مگر چوتھا دباؤ باقی تینوں سے زیادہ پیچیدہ اور خطرناک ہے۔ وہ غیر رسمی اور غیر اقوام متحدہ منصوبہ جس کے تحت خبریں گردش کر رہی ہیں کہ پاکستانی دستے ممکنہ طور پر غزہ میں تعینات کیے جا سکتے ہیں۔ یہ ایک ایسا تنازع ہے جو عالمی سطح پر نسل کشی سمجھا جا رہا ہے اور کسی ایسے مشن میں شرکت جس کا یو این مینڈیٹ نہ ہو پاکستان کو نہ صرف خطے میں سیاسی طور پر تنہا کر سکتا ہے بلکہ داخلی سطح پر بھی شدید ردِعمل پیدا کر سکتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ جب پاکستان پہلے ہی مشرق، مغرب، اندرونی دہشت گردی اور عالمی بیانیاتی جنگ کے دباؤ میں ہے تو کیا ہم اپنی سیکورٹی فورسز کو مزید وسعت دینے کے متحمل ہو سکتے ہیں؟ اگر ہماری افواج کسی ایسے تنازعے میں ملوث ہو جاتی ہیں جس کا بلاواسطہ تعلق پاکستان سے نہیں، تو کیا یہ ٹی ٹی پی، بی ایل اے، ٹی ٹی اے اور بھارت جیسی طاقتوں کے لیے ’’سنہری موقع‘‘ نہیں بن جائے گا کہ وہ پاکستان پر کئی سمتوں سے دباؤ بڑھا دیں؟ کیا پاکستان کی نیشنل سیکورٹی پالیسی میں ایسی کوئی بنیادی تبدیلی ہوئی ہے جس کا قوم کو علم ہو؟ اور کیا ہماری معیشت، سفارت کاری، اور داخلی سیاست اس نئے بوجھ کو برداشت کر سکتی ہے؟
اسی دباؤ کے بیچ ایک اور غلط فہمی ہے جس کا بوجھ پاکستان کو مسلسل اٹھانا پڑ رہا ہے۔ دہشت گردی کو ’’اسلام‘‘ اور ’’جہاد‘‘ کے ساتھ جوڑنا۔ مسلمان ریاستوں اور خاص طور پر پاکستان کے بارے میں دنیا کا ایک مخصوص بیانیہ طاقت کے ایوانوں میں بنایا اور پھیلایا گیا ہے، جس میں ’’جہاد‘‘ کو ایک عسکری اصطلاح کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، جبکہ اسلامی روایت میں جہاد کا بنیادی مفہوم ظلم کے خلاف مزاحمت، اخلاقی ذمے داری، انسانی وقار کا دفاع، اور عدل و انصاف ہے۔ مگر طاقتور ریاستوں نے اس مذہبی اصطلاح کو سیاسی مفادات کی سطح پر اتنا مسخ کر دیا کہ آج ہر دہشت گردی کے واقعے کو اسلام کے ساتھ جوڑ دینا سب سے آسان پروپیگنڈا بن چکا ہے۔ یہی غلط تعبیر پاکستان کے بیانیاتی تشخص کو شدید نقصان پہنچاتی ہے۔ پاکستان پر دہشت گردی کے الزامات کبھی بھی اس لیے نہیں لگائے گئے کہ وہ عسکریت کو پالتا ہے، بلکہ اس لیے کہ عالمی طاقتیں ’’جہاد‘‘ کو ایک convenient narrative tool کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔ اور چونکہ پاکستان دنیا کی واحد مضبوط ایٹمی مسلمان ریاست ہے، اس لیے اسے کمزور کرنا عالمی سیاست میں ایک آسان ہدف سمجھا جاتا ہے۔
مگر پاکستان کا اصل دکھ اس غلط تعبیر سے بھی بڑھ کر ہے۔ پاکستان نے دنیا کو اپنی قربانیوں کے بارے میں سمجھانے کی ہزار کوششیں کیں، مگر وہ سنی نہیں گئیں۔ پاکستان نے اسی ہزار شہادتیں دیں، بیس سال تک خطے کی سب سے بڑی جنگ لڑی، چالیس برس افغان مہاجرین کو سہارا دیا، اپنے شہر جلتے دیکھے، مسخ شدہ لاشیں اٹھائیں، خودکش حملوں کا صدمہ برداشت کیا، اپنے اسکولوں کے بچوں کو خون میں نہاتا دیکھا، اور اپنے محافظوں کو روز قبروں کے حوالے کیا۔ اس سب کے باوجود دنیا آج بھی کہتی ہے کہ ’’پاکستان دہشت گردوں کو پالتا ہے‘‘۔ اس سے بڑا ظلم کیا ہو سکتا ہے؟ یہ وہ مقام ہے جہاں بارود سے زیادہ بیانیہ جان لیتا ہے، اور حقیقت سے زیادہ پروپیگنڈا مضبوط ہو جاتا ہے۔
آج پاکستان کو جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ صرف سیکورٹی نہیں، بلکہ ایک مضبوط، مربوط اور عالمی سطح پر قابل ِ قبول قومی بیانیہ ہے۔ پاکستان کو دنیا کے سامنے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ دہشت گردی کا نہ صرف شکار ہے بلکہ اس کے خلاف سب سے مؤثر جنگ لڑنے والا ملک بھی ہے۔ ہماری قربانیاں، ہمارا خون، ہماری جدوجہد؛ یہ سب دنیا کے سامنے ایک نئی زبان، نئے انداز اور ایک متحد سیاسی آواز کے ذریعے لانا ہوں گی۔ داخلی اتحاد، معاشی استطاعت، سفارتی توازن، اور بیانیاتی جنگ کی مضبوط حکمت ِ عملی یہ سب آج پاکستان کی بقا کے ستون ہیں۔ دنیا چاہے کچھ بھی کہے، تاریخ کبھی جھوٹ نہیں بولتی۔ تاریخ ہمیشہ یہ لکھے گی کہ پاکستان دہشت گردی کا ملک نہیں، دہشت گردی کا زخمی ہے۔ اور جب زخمی سچ بولتا ہے، تو اس کی آواز دیر سے سہی، مگر دنیا تک ضرور پہنچتی ہے۔