’اماں، یہ کمرہ مجھے چاہیے!‘ بڑی بیٹی نے پورے گھر کا جائزہ لینے کے بعد ماسٹر بیڈ روم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اعلان کیا۔
’ٹھیک ہے بیٹا۔‘ ابا نے رسان سے جواب دیا۔
باقی دو کمروں پر منجھلی اور سب سے چھوٹی نے فوراً دعویٰ کردیا،
اب باری آئی رنگ و روغن اور آرائش کی۔
’اماں، مجھے یہ پنک وال پیپر لگوانا ہے۔‘ سب سے بڑی نے کیٹ لاگ دیکھتے ہی خوشی سے کہا۔
’مجھے تو یہ سینری والا اچھا لگ رہا ہے۔‘ چھوٹی بول پڑی۔
منجھلی نے غور سے کیٹ لاگ پلٹا اور مضبوط لہجے میں کہا:
’مجھے بلیک اور گرے والا چاہیے۔‘
’ارے بیٹا، اس سے تو کمرہ بہت ڈارک ہو جائے گا،‘ اماں نے نرمی سے سمجھایا۔
’نہیں، مجھے یہی پسند ہے۔‘ منجھلی نے مختصر مگر پُراعتماد جواب دیا۔
’ہاں بیٹا، جو تمھیں اچھا لگے گا، وہی لیں گے۔‘ ابا نے شفقت سے بیٹی کا ہاتھ تھپتھپایا۔
کئی برس کرائے کے مکانوں میں بھٹکنے کے بعد اب قسمت نے موقع دیا تھا کہ اپنا ذاتی آشیانہ خرید سکیں۔ میاں بیوی کی خوشی دیدنی تھی اور بیٹیاں بھی جیسے خوشی سے اڑتی پھرتی تھیں۔ آخر اپنا
گھراپنا ہی ہوتا ہے۔
کمرے، ڈرائنگ روم، لاؤنج اور باورچی خانہ سب کی تزئین و آرائش زور و شور سے کی گئی۔ محض ایک ڈیڑھ ماہ میں گھر نئے روپ میں جگمگانے لگا، اور پھر وہ لمحہ بھی آ گیا جب پورا کنبہ اپنے چمکتے دمکتے آشیانے میں آن بسا۔ دن رات معمول کے مطابق گزرنے لگے۔
ابا ہر صبح دفتر کے لیے روانہ ہوتے اور بچیاں ماں کے ہمراہ اسکول چلی جاتیں۔ شام ڈھلے جب سب گھر میں ساتھ ہوتے تو مکان کی خاموش دیواروں میں ہنسی، باتوں اور قدموں کی چاپ گونجنے لگتی۔ یوں آہستہ آہستہ وہ مکان ایک زندہ دل گھر میں ڈھلنے لگا۔
چھوٹے سے لان میں ایک جانب سدا بہار بیل لپک لپک کے دیواروں سے لپٹنے لگی تو دوسری طرف رنگ برنگے پھول کھلنے لگے، ساتھ ہی لیموں کے ننھے پودے بھی جڑ پکڑ گئے۔ مالی نے دھنیا، پودینہ اور ہری مرچ کی کیاریاں بھی جما دیں، جو دیکھتے ہی دیکھتے خوشبو اور تازگی سے صحن کو بھرنے لگیں۔
پورا گھر خوشی اور زندگی کی ایک نرم سی روشنی میں نہانے لگا۔
دوست احباب کو یہ گھر کسی مہمان خانے سے زیادہ اپنائیت کا ٹھکانہ محسوس ہوتا تھا۔
گھر میں طرح طرح کی محفلیں ہوتی اور بچیاں بھی ان میں شریک ہوتیں۔
’تمھارا گھر تو بڑا ہوملی لگتا ہے۔‘ عرصے بعد ملنے والے ایک پرانے دوست نے مسکراتے ہوئے کہا۔
اس وقت یوں لگتا تھا جیسے وقت تھم گیا ہو اور زندگی کا پہیہ اب اسی ڈگر پر چلتا رہے گا، مگر ایک دن بڑی بیٹی نے حسبِ عادت اپنا فیصلہ سنا دیا:
’اماں، اے لیول کے بعد مجھے باہر جانا ہے۔‘
ماں نے نرمی سے سمجھایا:
’بیٹا، یہیں کسی اچھی یونیورسٹی میں داخلہ لے لو۔ ماسٹرز کے لیے چلی جانا جہاں تم چاہو۔‘
بیٹی نے گہرا سانس لیا اور بولی:
’نہیں اماں، یہاں کی یونیورسٹیوں کا معیار اچھا نہیں، مجھے وہیں پڑھنا ہے۔‘
ابا ہمیشہ کی طرح مسکرا کر بولے:
’ہاں بیٹا، جیسا تم چاہو۔‘
اور پھر وہ دن آیا جب بڑی نے اپنا بیگ کپڑوں، جوتوں اور کتابوں سے بھرنا شروع کیا۔ گھر کے ہر کونے میں جدائی کی ہلکی سی کسک پھیل گئی۔ آخر کار وہ سب کو الوداع کہہ کر پڑھائی کی خاطر پردیس کی راہ پر نکل کھڑی ہوئی۔
اب گھر میں صرف دو بچیاں رہ گئی تھیں۔ دن رات ان کی کلکاریاں اور ہنسی سے گھر اب بھی زندگی سے لبریز تھا۔ کبھی ان کے دوستوں کے گروپ یلغار کر دیتے تو چاروں جانب جشن کا سا سماں بندھ جاتا۔ مگر بڑی کی کمی دل کے کسی کونے میں پھر بھی چبھتی رہتی تھی۔
اسی دوران ایک دن منجھلی نے بات چھیڑی:
’ابا، میں بھی اسی ملک سے ڈگری کرنا چاہتی ہوں جہاں بڑی گئی ہے۔‘
ابا نے لمحہ بھر کو خاموشی اوڑھی، پھر مسکراتے ہوئے کہا:
’ہاں بیٹا، دونوں بہنیں ساتھ رہو گی تو ایک دوسرے کا سہارا بنو گی۔‘
یوں ایک بار پھر گھر پر جدائی کی گھڑی آن پہنچی۔ وہ دن پھر سے سر پر آپہنچا جب منجھلی نے اپنا سامان سمیٹا، سب کو گلے لگایا اور اڑان بھر کے پردیس سدھار گئی۔ گھر کی فضاؤں میں اس کے جانے کی خاموشی دیر تک گونجتی رہی۔
اب گھر میں صرف چھوٹی رہ گئی تھی، بہنوں کی کمی اسے کاٹ کھاتی، اور ماں باپ کو دو بڑی بیٹیوں سے دوری بار بار اداس کر دیتی۔ مگر چھوٹی باپ کی طبیعت پر گئی تھی، اچھی کتابوں، اچھی فلموں اور موسیقی کی دیوانی۔ یوں وہ باپ کے ساتھ مل کر انہی مشاغل میں تنہائی کم کرنے لگی۔
چار برس پر لگا کر اڑ گئے، اور اب باری چھوٹی کی تھی۔ ظاہر ہے جب دونوں بڑی بہنیں باہر پڑھنے گئیں، تو اس کا بھی حق بنتا تھا۔
’ابا، اماں۔۔۔ میں کینیڈا جانا چاہتی ہوں، وہاں شہریت بھی مل جاتی ہے، پھر آپ دونوں کو اپنے پاس بلا لوں گی،‘ چھوٹی نے سادگی اور معصومیت سے کہا۔
ماں باپ نے پھر دل پر ایک اور پتھر رکھا اور ہمیشہ کی طرح نرمی سے بولے:
’ہاں بیٹا، جاؤ۔۔۔ دنیا دیکھو، خوب پڑھو، آگے بڑھو۔‘
داخلے اور سفر کے سارے مراحل طے ہوئے، اور پھر وہی لمحہ آگیا، تیسری بھی سات سمندر پار اعلیٰ تعلیم کے لیے رختِ سفر باندھ بیٹھی۔
ایئرپورٹ بھی عجب جگہ ہے خوشی غمی کا ملاپ، ملنے بچھڑنے کی کسک۔۔۔ کوئی آتا ہے تو کوئی جاتا ہے، مگر آنسو دونوں مرحلوں پر بہتے ہیں۔
گھر اب سناٹے میں ڈوبا رہنے لگا، صبح ہوتی تو ابا حسبِ معمول دفتر کو نکلتے، اماں گھر کے معمولات میں مصروف رہتیں، مگر وہ چہل پہل، وہ کھلکھلاہٹ جو کبھی دیواروں میں گونجتی تھی، کہیں گم ہو چکی تھی۔
شام ڈھلتے ہی در و دیوار ان کی آنکھوں سے جیسے سوال کرتے وہ قہقہے کہاں گئے؟ وہ قدموں کی دوڑ دھوپ اور وہ ضدیں کہاں کھو گئیں؟ ٹی وی کے سامنے اب تینوں بیٹیوں کی جھگڑالو بحثوں کی جگہ خاموشی بیٹھ گئی تھی۔ باورچی خانے میں پلیٹوں اور چمچوں کی کھنک اب صرف اماں کے ہاتھوں کی رہ گئی تھی۔ بچیوں کی اپنے پسندیدہ کھانوں کی فرمائشیں تو کب کی چپ سادھ چکی تھیں۔
ابا کبھی کتاب ہاتھ میں لیتے، کبھی موسیقی چلاتے، کبھی کوئی فلم لگا کر دیکھنے لگتے اور اماں یونہی باورچی خانے میں بلاوجہ کوئی ہانڈی بنانا شروع کردیتی یا بچیوں کے کپڑے، جوتے، کتابوں کو دوبارہ بے وجہ سینت سینت کر رکھنے لگتی۔ دونوں جانتے تھے کہ بیٹیاں اپنی دنیا بنانے نکل گئی ہیں، مگر خالی کمروں کا سکوت بار بار دل کو کچوکے لگاتا۔
یوں لگتا تھا جیسے پورا گھر ایک وسیع ڈائری ہے، جس کے ہر کمرے میں یادوں کے اوراق بند ہیں، کھولنے پر صرف ہنسی، مذاق، ہلا گلا، پرمغز بحث و مباحث اور جدائی کی خوشبو نکلتی ہے۔
بچیوں کے جانے پر گھر اب سناٹے کا اسیر تھا، مگر چھٹی والے دنوں میں یہ سکوت ٹوٹ جاتا۔ فون کی گھنٹی بجتی یا موبائل اسکرین پر بیٹیوں کے نام جگمگاتے تو اماں اور ابا کے چہرے پر مسکراہٹ دوڑ جاتی۔
’اماں! آج میں نے خود کھانا بنایا، تصویریں بھیجی ہیں دیکھیں ذرا!‘ بڑی شوخی سے بتاتی۔
’ابا، آپ نے وہ نئی کتاب پڑھی؟ یاد ہے ہم نے ساتھ خریدی تھی؟‘ منجھلی محبت سے پوچھتی۔
اور چھوٹی ہنستے ہوئے کہتی:
’میرے پروفیسر میری بین الاقوامی سنیما پر معلومات سے بہت متاثر ہوئے اور کل میں نے میلے میں پیانو بھی بجایا، ویڈیو بھیجی ہے آپ دونوں کو۔‘
ویڈیو کال پر تینوں بیٹیوں کے ہنستے چہرے، کمرے میں گونجتی آوازیں، اور شوخ قہقہے کچھ لمحوں کے لیے دیواروں کو پھر سے زندہ کر دیتے۔ اماں بار بار اسکرین پر ہاتھ پھیرتی جیسے بچیوں کے رخسار چھو رہی ہوں۔ ابا مسکراتے مگر آنکھوں کی نمی چھپ نہ پاتی۔
مگر کال ختم ہوتے ہی کمرے پھر سے سنسان ہو جاتے۔ سکوت کی دبیز چادر دوبارہ بچھ جاتی۔ اور ماں باپ آہستہ آہستہ اپنے کام کی طرف لوٹ جاتے مگر دلوں کے کسی کونے میں اگلی کال کا انتظار ہر دم زندہ رہتا۔
بچے جب پڑھنے کے لیے دوسرے ملک جاتے ہیں تو وہ اکیلے نہیں جاتے، وہ اپنے ساتھ اپنی ہنسی، کھلکھلاہٹ، شوخیاں، مستیاں، شور شرابہ، ہلا گلا، کمرے میں بکھرے کپڑے، مسہری کے سرہانے پڑی کھانے کی پلیٹ، باتھ روم کے سِنک پر دھرا ادھ کھلا ٹوتھ پیسٹ اور اپنی چھوٹی چھوٹی شرارتیں بھی باندھ کر ساتھ لے جاتے ہیں۔ گھر کی دیواروں کو جو آوازیں جِلا بخشتی ہیں، وہ سب ایک دم خاموش ہو جاتی ہیں، شوخی اور قہقہوں کی گونج کہیں کھو جاتی ہے۔
ماں اپنے دل کو سمجھاتی ہے کہ یہ جدائی عارضی ہے، یہ فاصلہ ضرورت ہے، یہ تعلیم کے نام پر قربانی ہے، لیکن جب وہ کمرے میں پڑا خالی بستر دیکھتی ہے تو دل کہتا ہے، ’کتنی چھوٹی چھوٹی چیزیں تھیں جو میرے حصے میں خوشی بن کر آئی تھیں، اور آج وہ بھی سامانِ سفر بن گئیں۔‘
کیا بچیاں مستقل بیرون ملک چلی گئیں ہیں؟ ایک دوست نے پوچھا۔
مستقل؟ مستقل کیا ہوتا ہے؟ مستقل تو کچھ بھی نہیں سب عارضی ہے، ماں نے جواب دیا۔
ماں باپ بظاہر مضبوط دکھتے ہیں، وہ بچوں کے سامنے کمزور نہیں پڑتے مگر رات کی تنہائی میں آنسو خود بخود تکیے میں جذب ہوتے رہتے ہیں اور دل سے یہی دعا نکلتی ہے کہ اللہ بچوں کے قدم ہمیشہ محفوظ رکھے، ان کے خوابوں کو راستہ ملے، اور وہ اپنی ہنسی کبھی نہ کھوئیں۔
اولاد کا پردیس جانا دراصل والدین کی روح کا بٹ جانا ہے۔ ایک ٹکڑا وہاں رہ جاتا ہے، اور ایک ٹکڑا یہاں سانس لیتا ہے۔ مگر والدین کا دل بھی عجب ہے کہ جدائی میں بھی سکون ڈھونڈ لیتا ہے، کیونکہ اُسے یقین ہوتا ہے کہ اس جدائی کے پیچھے بچوں کی کامیابی، ان کا مستقبل اور ان کی خوشی پوشیدہ ہے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
صنوبر ناظر ایک متحرک سیاسی و سماجی کارکن ہیں۔ تاریخ میں ماسٹرز کر رکھا ہے جبکہ خواتین کی فلاح اور مختلف تعلیمی پراجیکٹس پر کام کر چکی ہیں۔ کئی برس سے قومی و بین الاقوامی میڈیا اداروں کے لیے باقاعدگی سے لکھتی ہیں۔
wenews اعلیٰ تعلیم کا حصول بچے بیرون ملک والدین وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اعلی تعلیم کا حصول بچے بیرون ملک والدین وی نیوز ہاں بیٹا گھر میں گئی تھی ماں باپ کے لیے
پڑھیں:
ہم بڑے لوگ کیوں پیدا نہیں کررہے؟
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251005-03-7
شاہنواز فاروقی
ایک زمانہ تھا کہ مسلم دنیا ’’دیوقامت‘‘ لوگوں کی دنیا تھی۔ اس دنیا میں بڑے مفسرین تھے، بڑے محدثین تھے، بڑے متکلمین تھے، بڑے مفکر تھے، بڑے دانش ور تھے، بڑے شاعر تھے، بڑے ادیب تھے، بڑے سیاست دان تھے، بڑے اساتذہ تھے، بڑے ماں باپ تھے، بڑے دوست احباب تھے۔ پھر ایک زمانہ وہ آیا کہ ہم لوگوں نے ’’بونے‘‘ پیدا کرنے شروع کیے۔ مذہب کے دائرے میں بھی بونے تھے، شعر و ادب کے دائرے میں بھی بونے تھے، سیاست میں بھی بونے تھے، مگر ہمارا زمانہ ’’بالشتیوں‘‘ اور ’’حشرات الارض‘‘ کا زمانہ ہے۔ اب نہ ہمارے پاس بڑے مفسرین ہیں، نہ بڑے سیرت نگار ہیں، نہ بڑے محدثین ہیں، نہ بڑے متکلمین ہیں، نہ بڑے شاعر ہیں، نہ بڑے ادیب ہیں، نہ بڑے دانش ور ہیں، نہ بڑے سیاست دان ہیں، نہ بڑے اساتذہ ہیں، نہ بڑے ماں باپ، نہ بڑی اولادیں ہیں، نہ بڑے دوست احباب ہیں، اس حوالے سے صورت حال اتنی ہولناک ہے کہ اس کی اطلاع عطا الحق قاسمی کے فرزند یاسر پیرزادہ تک کو ہوگئی ہے۔ چنانچہ یاسر پیرزادہ نے اپنے ایک کالم میں اس موضوع پر گفتگو کی ہے کہ ہمارے معاشرے میں بڑے سائنس دان، دانش ور اور فلسفی کیوں پیدا نہیں ہورہے۔ یاسر پیرزادہ نے اس حوالے سے کیا لکھا ہے انہی کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے۔ لکھتے ہیں۔
’’یونیورسٹیاں محض اس لیے نہیں بنائی جاتیں کہ وہاں نو سے پانچ بجے تک دفتر آیا جائے، حاضری لگائی جائے، کلاس پڑھائی جائے اور تنخواہ وصول کی جائے، جامعات کا کام سائنس دان، فلسفی اور دانشور پیدا کرنا ہوتا ہے، نوکری پیشہ مزدور تو گورنمنٹ ڈگری کالج ساہیوال بھی پیدا کرلے گا (اہالیان ساہیوال سے معذرت کے ساتھ)۔ مجھے اکثر یونیورسٹی میں طلبہ اور اساتذہ سے گفتگو کا موقع ملتا رہتا ہے جہاں میں ایسی ہی جلی کٹی باتیں سناتا ہوں، جواب میں کچھ وی سی صاحبان اپنی غزل بھی سناتے ہیں جس میں مطلع سے لے کر مقطع تک وہ محبوب کے بجائے اپنی ذات کی تعریفیں یوں بیان کرتے ہیں کہ غالب بھی شرما جائے۔ میرا ایک ہی مدعا ہوتا ہے کہ اگر ملک کی یونیورسٹیاں اور ان کے وی سی خواتین و حضرات ایسا ہی عمدہ کام کررہے ہیں تو ہماری جامعات سائنس دان، دانشور اور فلسفی پیدا کرنے کے بجائے نوکری کے متلاشی روبوٹ کیوں پیدا کررہی ہیں؟ اس سوال کے جواب میں مسئلے کی جڑ موجود ہے‘‘۔ (روزنامہ جنگ، 28 ستمبر 2025ء)
یاسر پیرزادہ نے یونیورسٹیوں کی ناکارکردگی تو بیان کردی مگر انہوں نے اپنے پورے کالم میں اس سوال کا کوئی جواب فراہم نہیں کیا کہ ہم فلسفی، دانش ور اور سائنس دان کیوں پیدا نہیں کرپا رہے؟ لکھنے والوں کا فرض صرف یہ نہیں کہ مسئلے کی نشاندہی کریں بلکہ ان کا یہ فرض بھی ہے کہ وہ اپنے اٹھائے ہوئے سوال کا کوئی جواب بھی مہیا کریں۔
انسانی تاریخ کا پورا سفر ہمارے سامنے ہے۔ اس سفر کے سب سے بڑے لوگ تین ہیں۔ انبیا، اولیا اور مجدّدین۔ اتفاق سے انسانوں کی یہ تینوں اقسام مامور من اللہ ہوتی ہیں اور ان کا مقصد حیات بھٹکے ہوئے انسانوں کو صحیح راستہ دکھانا ہوتا ہے۔ ان عظیم ترین انسانوں کا مقصد حیات حق کا دفاع اور اس کا فروغ اور باطل کی مزاحمت ہوتا ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو انسان کی نفوس کا ’’تزکیہ‘‘ کرتے ہیں۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ سیدنا ابراہیمؑ نے نمرود کے سامنے کلمہ حق بیان کیا اور اس کے باطل کی مزاحمت کی۔ سیدنا موسیٰؑ نے فرعون کو مشرف بہ اسلام کرنے کی کوشش کی اور اس کے باطل کی مزاحمت کی۔ رسول اکرمؐ نے مکے کے کافروں اور مشرکوں کے سامنے حق کو پیش کیا اور ان کے باطل کی مزاحمت کی۔ یہی کام بعدازاں اولیا اور مجددین ِ وقت نے کیا۔ برصغیر میں اگر مجدد الف ثانیؒ نہ ہوتے تو بادشاہت کا پورا ادارہ اسلام دشمن بن جاتا اور ہندو ازم میں جذب ہوجاتا۔ شاہ ولی اللہ کے وقت میں برصغیر سے قرآن اور حدیث کا علم تقریباً اُٹھ چکا تھا۔ شاہ ولی اللہ اور ان کے فرزندوں نے برصغیر میں قرآن و حدیث کے علم کو زندہ کیا۔ مولانا مودودیؒ بھی مجدد وقت تھے۔ وہ نہ ہوتے تو پوری امت مسلمہ یہ بات بھول جاتی کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ ٔ حیات ہے اور مغرب اس دور کا سب سے بڑا باطل ہے۔ ہمیں اس بارے میں رتی برابر بھی شبہ نہیں ہے کہ مجدد الف ثانی بھی مامور من اللہ تھے۔ شاہ ولی اللہ بھی مامور من اللہ تھے اور مولانا مودودی بھی مامور من اللہ تھے۔ یہ ہماری تاریخ میں بڑے انسانوں کے ظہور کا سب سے اہم اسلوب ہے۔
مسلم تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ہماری تاریخ میں بڑی آرزو نے بھی بڑے انسانوں کو پیدا کیا ہے۔ برصغیر میں اقبال اس کی سب سے بڑی مثال ہیں۔ اقبال اپنے تخلیقی سفر کے آغاز میں ایک قوم پرست شاعر تھے۔ وہ ہمالے کی شان میں نظم لکھ رہے تھے۔ وہ ایک ہندو کی طرح کہہ رہے تھے۔
پتھر کی مورتوں کو سمجھا ہے تو خدا ہے
خاکِ وطن کا مجھ کو ہر ذرّہ دیوتا ہے
لیکن پھر اللہ تعالیٰ نے اقبال کی آرزو بدل ڈالی پہلے ان کی آرزو صرف ہندوستان کا جغرافیہ تھا پھر ان کی آرزو ایک سطح پر عالمگیر اور دوسری سطح پر آفاقی ہوگئی اور وہ کہنے لگے
چین و عرب ہمارا ہندوستاں ہمارا
مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا
٭٭
پرے ہے چرخِ نیلی خام سے منزل مسلماں کی
ستارے جس کی گردِ راہ ہیں وہ کارواں تُو ہے
آرزو کی اس تبدیلی نے اقبال کو اوسط درجے کے شاعر سے ایک عظیم شاعر میں ڈھال دیا۔ ایسے شاعر میں کہ جب تک فارسی اور اردو زندہ رہیں گی اقبال اس وقت تک زندہ رہیں گے۔ ایک وقت تھا کہ ہمارے پاس اقبال تھے مگر اب ہمارے پاس اقبال کا سایہ بھی نہیں ہے۔
انسانی شخصیت کا مطالعہ بتاتا ہے کہ بسا اوقات زندگی میں ہونے والا کوئی بڑا تجربہ بھی انسان کو دیوقامت بنا دیتا ہے۔ اردو شاعری میں اس کی سب سے بڑی مثال میر تقی میر ہیں۔ انہیں عشق کے تجربے نے ’’معمولی‘‘ سے ’’غیر معمولی‘‘ بنادیا۔ چنانچہ انہوں نے محبت کے تجربے سے عظیم الشان شاعری تخلیق کرکے دکھائی۔ انہوں نے کہا ؎
محبت نے کاڑھا ہے ظلمت سے نُور
نہ ہوتی محبت نہ ہوتا ظہور
٭٭
محبت مسبّب، محبت سبب
محبت سے ہوتے ہیں کارِ عجب
٭٭
مرے سلیقے سے میری نبھی محبت میں
تمام عمر میں ناکامیوں سے کام لیا
تاریخ کا علم بتاتا ہے کہ تاریخ کی بڑی کروٹ بھی بڑے انسان پیدا کرتی ہے۔ تاریخ کی کروٹ ایک چیلنج ہوتی ہے اور چیلنج کے بارے میں ٹوائن بی نے بنیادی بات کہی ہے۔ ٹوائن بی نے کہا ہے کہ چیلنج کے ساتھ انسان کے تعلق کی دو صورتیں ہیں۔ کچھ لوگ چیلنج کو اپنے لیے بوجھ بنالیتے ہیں اور وہ بوجھ کے نیچے دب کر رہ جاتے ہیں۔ اس کے برعکس کچھ لوگ چیلنج کو ایک ’’قوتِ محرکہ‘‘ یا Motivation میں ڈھال لیتے ہیں۔ ہماری تاریخ میں اس کی سب سے بڑی مثال قائداعظم ہیں۔ انہوں نے قیام پاکستان کو ایک چیلنج کے طور پر لیا اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے محمد علی جناح سے ’’قائداعظم‘‘ بن گئے۔ کبھی وہ صرف ’’افراد‘‘ کے وکیل تھے مگر چیلنج نے انہیں ایک مذہب، ایک تہذیب، ایک تاریخ اور ایک قوم کا ’’وکیل‘‘ بنا کر کھڑا کردیا۔ 20 ویں صدی میں لینن اور مائو بھی تاریخ کی کروٹ کا حاصل تھے۔ چنانچہ لینن نے روس میں اور مائو نے چین میں سوشلسٹ انقلاب برپا کیا۔
انسانی شخصیت کی تفہیم بتاتی ہے کہ بڑی ذہانت اور بڑا علم بھی انسان کو عظیم بنا کر کھڑا کردیتا ہے۔ ہماری ادبی تاریخ میں غالب اور محمد حسن عسکری اس کی سب سے بڑی مثالیں ہیں۔ بلاشبہ غالب اردو کے چار عظیم شاعروں میں سے ایک ہے۔ اس کی پشت پر نہ مذہب کی قوت تھی نہ اس کے پاس کوئی بڑا اور گہرا تجربہ تھا مگر اس کی ذہانت اور علم بے مثال تھا وہ فارسی کی پوری روایت کو جذب کیے بیٹھا تھا۔
محمد حسن عسکری کا مطالعہ قاموسی یا Encyclopedic تھا۔ برصغیر میں ان کی سطح کا مطالعہ صرف اقبال کے پاس تھا۔ چنانچہ عسکری صاحب اردو کے سب سے بڑے نقاد بن گئے۔ ان کے جیسا نقاد نہ ان سے پہلے کوئی تھا۔ نہ ان کے زمانے میں کوئی تھا اور نہ کسی دوسرے عسکری کی پیدائش کا امکان دور دور تک نظر آتا ہے۔
ہمارے عہد کا ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی عظیم اکثریت اپنے تہذیبی اور تاریخی تجربے سے کئی گئی اور فرد پرستی نے انسان کے اندر موجود اجتماعیت پرستی کو مار دیا ہے۔ اس کا اظہار سلیم احمد نے اپنے ایک قطعے میں کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے۔
ہر طرف سے انفرادی جبر کی یلغار ہے
کن محاذوں پر لڑے تنہا دفاعی آدمی
میں سمٹتا جارہا ہوں ایک نقطے کی طرح
میرے اندر مر رہا ہے اجتماعی آدمی
ہمارے اندر اجتماعی آدمی کی موت نے ہمارے چاروں طرف بالشتیوں کے ڈھیر لگادیے ہیں۔
ہماری ایک بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ ہم اعلیٰ درجے کے ادارے وجود میں لانے سے قاصر ہیں۔ چنانچہ ہماری ذہانتیں اور ہمارا علم ادارتی نہیں بن پا رہا یعنی Institutionalize نہیں ہوپا رہا۔ ہماری جامعات میں جو تحقیق ہورہی ہے اس کی سطح پست اور اس کا مقصد صرف عہدے اور تنخواہ کی ’’ترقی‘‘ ہے۔ چنانچہ جامعات ہوں یا مدارس ہم ہر جگہ لکیر کے فقیر بنے ہوئے ہیں۔ اس ماحول میں کوئی بڑا آدمی پیدا ہو تو کیسے؟