’اماں، یہ کمرہ مجھے چاہیے!‘ بڑی بیٹی نے پورے گھر کا جائزہ لینے کے بعد ماسٹر بیڈ روم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اعلان کیا۔
’ٹھیک ہے بیٹا۔‘ ابا نے رسان سے جواب دیا۔
باقی دو کمروں پر منجھلی اور سب سے چھوٹی نے فوراً دعویٰ کردیا،
اب باری آئی رنگ و روغن اور آرائش کی۔
’اماں، مجھے یہ پنک وال پیپر لگوانا ہے۔‘ سب سے بڑی نے کیٹ لاگ دیکھتے ہی خوشی سے کہا۔
’مجھے تو یہ سینری والا اچھا لگ رہا ہے۔‘ چھوٹی بول پڑی۔
منجھلی نے غور سے کیٹ لاگ پلٹا اور مضبوط لہجے میں کہا:
’مجھے بلیک اور گرے والا چاہیے۔‘
’ارے بیٹا، اس سے تو کمرہ بہت ڈارک ہو جائے گا،‘ اماں نے نرمی سے سمجھایا۔
’نہیں، مجھے یہی پسند ہے۔‘ منجھلی نے مختصر مگر پُراعتماد جواب دیا۔
’ہاں بیٹا، جو تمھیں اچھا لگے گا، وہی لیں گے۔‘ ابا نے شفقت سے بیٹی کا ہاتھ تھپتھپایا۔
کئی برس کرائے کے مکانوں میں بھٹکنے کے بعد اب قسمت نے موقع دیا تھا کہ اپنا ذاتی آشیانہ خرید سکیں۔ میاں بیوی کی خوشی دیدنی تھی اور بیٹیاں بھی جیسے خوشی سے اڑتی پھرتی تھیں۔ آخر اپنا
گھراپنا ہی ہوتا ہے۔
کمرے، ڈرائنگ روم، لاؤنج اور باورچی خانہ سب کی تزئین و آرائش زور و شور سے کی گئی۔ محض ایک ڈیڑھ ماہ میں گھر نئے روپ میں جگمگانے لگا، اور پھر وہ لمحہ بھی آ گیا جب پورا کنبہ اپنے چمکتے دمکتے آشیانے میں آن بسا۔ دن رات معمول کے مطابق گزرنے لگے۔
ابا ہر صبح دفتر کے لیے روانہ ہوتے اور بچیاں ماں کے ہمراہ اسکول چلی جاتیں۔ شام ڈھلے جب سب گھر میں ساتھ ہوتے تو مکان کی خاموش دیواروں میں ہنسی، باتوں اور قدموں کی چاپ گونجنے لگتی۔ یوں آہستہ آہستہ وہ مکان ایک زندہ دل گھر میں ڈھلنے لگا۔
چھوٹے سے لان میں ایک جانب سدا بہار بیل لپک لپک کے دیواروں سے لپٹنے لگی تو دوسری طرف رنگ برنگے پھول کھلنے لگے، ساتھ ہی لیموں کے ننھے پودے بھی جڑ پکڑ گئے۔ مالی نے دھنیا، پودینہ اور ہری مرچ کی کیاریاں بھی جما دیں، جو دیکھتے ہی دیکھتے خوشبو اور تازگی سے صحن کو بھرنے لگیں۔
پورا گھر خوشی اور زندگی کی ایک نرم سی روشنی میں نہانے لگا۔
دوست احباب کو یہ گھر کسی مہمان خانے سے زیادہ اپنائیت کا ٹھکانہ محسوس ہوتا تھا۔
گھر میں طرح طرح کی محفلیں ہوتی اور بچیاں بھی ان میں شریک ہوتیں۔
’تمھارا گھر تو بڑا ہوملی لگتا ہے۔‘ عرصے بعد ملنے والے ایک پرانے دوست نے مسکراتے ہوئے کہا۔
اس وقت یوں لگتا تھا جیسے وقت تھم گیا ہو اور زندگی کا پہیہ اب اسی ڈگر پر چلتا رہے گا، مگر ایک دن بڑی بیٹی نے حسبِ عادت اپنا فیصلہ سنا دیا:
’اماں، اے لیول کے بعد مجھے باہر جانا ہے۔‘
ماں نے نرمی سے سمجھایا:
’بیٹا، یہیں کسی اچھی یونیورسٹی میں داخلہ لے لو۔ ماسٹرز کے لیے چلی جانا جہاں تم چاہو۔‘
بیٹی نے گہرا سانس لیا اور بولی:
’نہیں اماں، یہاں کی یونیورسٹیوں کا معیار اچھا نہیں، مجھے وہیں پڑھنا ہے۔‘
ابا ہمیشہ کی طرح مسکرا کر بولے:
’ہاں بیٹا، جیسا تم چاہو۔‘
اور پھر وہ دن آیا جب بڑی نے اپنا بیگ کپڑوں، جوتوں اور کتابوں سے بھرنا شروع کیا۔ گھر کے ہر کونے میں جدائی کی ہلکی سی کسک پھیل گئی۔ آخر کار وہ سب کو الوداع کہہ کر پڑھائی کی خاطر پردیس کی راہ پر نکل کھڑی ہوئی۔
اب گھر میں صرف دو بچیاں رہ گئی تھیں۔ دن رات ان کی کلکاریاں اور ہنسی سے گھر اب بھی زندگی سے لبریز تھا۔ کبھی ان کے دوستوں کے گروپ یلغار کر دیتے تو چاروں جانب جشن کا سا سماں بندھ جاتا۔ مگر بڑی کی کمی دل کے کسی کونے میں پھر بھی چبھتی رہتی تھی۔
اسی دوران ایک دن منجھلی نے بات چھیڑی:
’ابا، میں بھی اسی ملک سے ڈگری کرنا چاہتی ہوں جہاں بڑی گئی ہے۔‘
ابا نے لمحہ بھر کو خاموشی اوڑھی، پھر مسکراتے ہوئے کہا:
’ہاں بیٹا، دونوں بہنیں ساتھ رہو گی تو ایک دوسرے کا سہارا بنو گی۔‘
یوں ایک بار پھر گھر پر جدائی کی گھڑی آن پہنچی۔ وہ دن پھر سے سر پر آپہنچا جب منجھلی نے اپنا سامان سمیٹا، سب کو گلے لگایا اور اڑان بھر کے پردیس سدھار گئی۔ گھر کی فضاؤں میں اس کے جانے کی خاموشی دیر تک گونجتی رہی۔
اب گھر میں صرف چھوٹی رہ گئی تھی، بہنوں کی کمی اسے کاٹ کھاتی، اور ماں باپ کو دو بڑی بیٹیوں سے دوری بار بار اداس کر دیتی۔ مگر چھوٹی باپ کی طبیعت پر گئی تھی، اچھی کتابوں، اچھی فلموں اور موسیقی کی دیوانی۔ یوں وہ باپ کے ساتھ مل کر انہی مشاغل میں تنہائی کم کرنے لگی۔
چار برس پر لگا کر اڑ گئے، اور اب باری چھوٹی کی تھی۔ ظاہر ہے جب دونوں بڑی بہنیں باہر پڑھنے گئیں، تو اس کا بھی حق بنتا تھا۔
’ابا، اماں۔۔۔ میں کینیڈا جانا چاہتی ہوں، وہاں شہریت بھی مل جاتی ہے، پھر آپ دونوں کو اپنے پاس بلا لوں گی،‘ چھوٹی نے سادگی اور معصومیت سے کہا۔
ماں باپ نے پھر دل پر ایک اور پتھر رکھا اور ہمیشہ کی طرح نرمی سے بولے:
’ہاں بیٹا، جاؤ۔۔۔ دنیا دیکھو، خوب پڑھو، آگے بڑھو۔‘
داخلے اور سفر کے سارے مراحل طے ہوئے، اور پھر وہی لمحہ آگیا، تیسری بھی سات سمندر پار اعلیٰ تعلیم کے لیے رختِ سفر باندھ بیٹھی۔
ایئرپورٹ بھی عجب جگہ ہے خوشی غمی کا ملاپ، ملنے بچھڑنے کی کسک۔۔۔ کوئی آتا ہے تو کوئی جاتا ہے، مگر آنسو دونوں مرحلوں پر بہتے ہیں۔
گھر اب سناٹے میں ڈوبا رہنے لگا، صبح ہوتی تو ابا حسبِ معمول دفتر کو نکلتے، اماں گھر کے معمولات میں مصروف رہتیں، مگر وہ چہل پہل، وہ کھلکھلاہٹ جو کبھی دیواروں میں گونجتی تھی، کہیں گم ہو چکی تھی۔
شام ڈھلتے ہی در و دیوار ان کی آنکھوں سے جیسے سوال کرتے وہ قہقہے کہاں گئے؟ وہ قدموں کی دوڑ دھوپ اور وہ ضدیں کہاں کھو گئیں؟ ٹی وی کے سامنے اب تینوں بیٹیوں کی جھگڑالو بحثوں کی جگہ خاموشی بیٹھ گئی تھی۔ باورچی خانے میں پلیٹوں اور چمچوں کی کھنک اب صرف اماں کے ہاتھوں کی رہ گئی تھی۔ بچیوں کی اپنے پسندیدہ کھانوں کی فرمائشیں تو کب کی چپ سادھ چکی تھیں۔
ابا کبھی کتاب ہاتھ میں لیتے، کبھی موسیقی چلاتے، کبھی کوئی فلم لگا کر دیکھنے لگتے اور اماں یونہی باورچی خانے میں بلاوجہ کوئی ہانڈی بنانا شروع کردیتی یا بچیوں کے کپڑے، جوتے، کتابوں کو دوبارہ بے وجہ سینت سینت کر رکھنے لگتی۔ دونوں جانتے تھے کہ بیٹیاں اپنی دنیا بنانے نکل گئی ہیں، مگر خالی کمروں کا سکوت بار بار دل کو کچوکے لگاتا۔
یوں لگتا تھا جیسے پورا گھر ایک وسیع ڈائری ہے، جس کے ہر کمرے میں یادوں کے اوراق بند ہیں، کھولنے پر صرف ہنسی، مذاق، ہلا گلا، پرمغز بحث و مباحث اور جدائی کی خوشبو نکلتی ہے۔
بچیوں کے جانے پر گھر اب سناٹے کا اسیر تھا، مگر چھٹی والے دنوں میں یہ سکوت ٹوٹ جاتا۔ فون کی گھنٹی بجتی یا موبائل اسکرین پر بیٹیوں کے نام جگمگاتے تو اماں اور ابا کے چہرے پر مسکراہٹ دوڑ جاتی۔
’اماں! آج میں نے خود کھانا بنایا، تصویریں بھیجی ہیں دیکھیں ذرا!‘ بڑی شوخی سے بتاتی۔
’ابا، آپ نے وہ نئی کتاب پڑھی؟ یاد ہے ہم نے ساتھ خریدی تھی؟‘ منجھلی محبت سے پوچھتی۔
اور چھوٹی ہنستے ہوئے کہتی:
’میرے پروفیسر میری بین الاقوامی سنیما پر معلومات سے بہت متاثر ہوئے اور کل میں نے میلے میں پیانو بھی بجایا، ویڈیو بھیجی ہے آپ دونوں کو۔‘
ویڈیو کال پر تینوں بیٹیوں کے ہنستے چہرے، کمرے میں گونجتی آوازیں، اور شوخ قہقہے کچھ لمحوں کے لیے دیواروں کو پھر سے زندہ کر دیتے۔ اماں بار بار اسکرین پر ہاتھ پھیرتی جیسے بچیوں کے رخسار چھو رہی ہوں۔ ابا مسکراتے مگر آنکھوں کی نمی چھپ نہ پاتی۔
مگر کال ختم ہوتے ہی کمرے پھر سے سنسان ہو جاتے۔ سکوت کی دبیز چادر دوبارہ بچھ جاتی۔ اور ماں باپ آہستہ آہستہ اپنے کام کی طرف لوٹ جاتے مگر دلوں کے کسی کونے میں اگلی کال کا انتظار ہر دم زندہ رہتا۔
بچے جب پڑھنے کے لیے دوسرے ملک جاتے ہیں تو وہ اکیلے نہیں جاتے، وہ اپنے ساتھ اپنی ہنسی، کھلکھلاہٹ، شوخیاں، مستیاں، شور شرابہ، ہلا گلا، کمرے میں بکھرے کپڑے، مسہری کے سرہانے پڑی کھانے کی پلیٹ، باتھ روم کے سِنک پر دھرا ادھ کھلا ٹوتھ پیسٹ اور اپنی چھوٹی چھوٹی شرارتیں بھی باندھ کر ساتھ لے جاتے ہیں۔ گھر کی دیواروں کو جو آوازیں جِلا بخشتی ہیں، وہ سب ایک دم خاموش ہو جاتی ہیں، شوخی اور قہقہوں کی گونج کہیں کھو جاتی ہے۔
ماں اپنے دل کو سمجھاتی ہے کہ یہ جدائی عارضی ہے، یہ فاصلہ ضرورت ہے، یہ تعلیم کے نام پر قربانی ہے، لیکن جب وہ کمرے میں پڑا خالی بستر دیکھتی ہے تو دل کہتا ہے، ’کتنی چھوٹی چھوٹی چیزیں تھیں جو میرے حصے میں خوشی بن کر آئی تھیں، اور آج وہ بھی سامانِ سفر بن گئیں۔‘
کیا بچیاں مستقل بیرون ملک چلی گئیں ہیں؟ ایک دوست نے پوچھا۔
مستقل؟ مستقل کیا ہوتا ہے؟ مستقل تو کچھ بھی نہیں سب عارضی ہے، ماں نے جواب دیا۔
ماں باپ بظاہر مضبوط دکھتے ہیں، وہ بچوں کے سامنے کمزور نہیں پڑتے مگر رات کی تنہائی میں آنسو خود بخود تکیے میں جذب ہوتے رہتے ہیں اور دل سے یہی دعا نکلتی ہے کہ اللہ بچوں کے قدم ہمیشہ محفوظ رکھے، ان کے خوابوں کو راستہ ملے، اور وہ اپنی ہنسی کبھی نہ کھوئیں۔
اولاد کا پردیس جانا دراصل والدین کی روح کا بٹ جانا ہے۔ ایک ٹکڑا وہاں رہ جاتا ہے، اور ایک ٹکڑا یہاں سانس لیتا ہے۔ مگر والدین کا دل بھی عجب ہے کہ جدائی میں بھی سکون ڈھونڈ لیتا ہے، کیونکہ اُسے یقین ہوتا ہے کہ اس جدائی کے پیچھے بچوں کی کامیابی، ان کا مستقبل اور ان کی خوشی پوشیدہ ہے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
صنوبر ناظر ایک متحرک سیاسی و سماجی کارکن ہیں۔ تاریخ میں ماسٹرز کر رکھا ہے جبکہ خواتین کی فلاح اور مختلف تعلیمی پراجیکٹس پر کام کر چکی ہیں۔ کئی برس سے قومی و بین الاقوامی میڈیا اداروں کے لیے باقاعدگی سے لکھتی ہیں۔
wenews اعلیٰ تعلیم کا حصول بچے بیرون ملک والدین وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اعلی تعلیم کا حصول بچے بیرون ملک والدین وی نیوز ہاں بیٹا گھر میں گئی تھی ماں باپ کے لیے
پڑھیں:
ہمارے بھاجی… جج صاحب
اُس روز نومبر کی آٹھ تاریخ تھی،9 نومبر کو ہونے والی یومِ اقبال کی تقریبات کے سلسلے میں کچھ نوٹس تحریر کررہا تھا کہ گاؤں سے ہمارے مینیجر شبّیر احمد کی کال آئی، جب اس نے یہ کہاکہ ’’جج صاحب کی طبیعت بہت زیادہ خراب ہوگئی ہے‘‘ تو ہاتھ لرز گیا اور ایک انجانے خوف نے دل ودماغ کو جکڑ لیا، فون پر کچھ ہدایات دیں۔
جب ایمبولینس گھر پہنچ گئی تو تھوڑی سی تسلّی ہوئی کہ ضرورت پڑنے پر آکسیجن فراہم ہوجائے گی۔ مگر دل مسلسل دھڑکتا رہا کہ کوئی بری خبر نہ مل جائے۔ ڈرائیور کو بار بار تاکید کرتا رہا کہ جاتے ہی ڈاکٹر سے میری بات کرانا۔ امراضِ قلب کے اسپتال پہنچنے کے چند منٹ بعد ہی ڈاکٹر صاحب نے بتادیا کہ ’’حرکتِ قلب بند ہوجانے (Cardiac arrest) کی وجہ سے جج صاحب اب ہم میں نہیں رہے‘‘۔
اس کے چند منٹ بعد گاؤں سے کئی کالیں آتی رہیں، سب ایک ہی بات کررہے تھے ’’پِنڈ یتیم ہوگیا جے‘‘ ’’ساڈی چَھت ٹُٹ گئی اے‘‘۔ حالت ایسی نہیں تھی کہ جواب دے سکتا، صرف آخری کالر کو اتنا کہا کہ ’’ہم تو خود آج دوسری بار یتیم ہوگئے ہیں‘‘۔ فون پر ایسے فقرے بار بار کانوں میں پڑتے رہے ’’جج صاحب نے بڑی مثالی زندگی گزاری ہے ، وہ ایک غیر معمولی شخصیّت تھے، جج صاحب ولی اللہ تھے‘‘۔
کچھ دیر بعد ذہن نے کام کرنا شروع کیا تو یوں لگا جیسے کوہ ہمالیہ سر پر آگرا ہو۔ پھر سوچنے لگا کہ کیا واقعی ہم اپنے اس عظیم بھائی کے سائے سے ہمیشہ کے لیے محروم ہوگئے ہیں جو ہمارے لیے ایسے تھا جیسے تیزدھوپ میں سایہ دار درخت اور سائبان۔ کیا اب ہم اس پاکیزہ کردار اور شفیق ہستی کی رفاقت اور راہنمائی سے محروم ہوگئے ہیں جس سے ہم پچھلی چھ دہائیوں تک مستفیض ہوتے رہے ہیں؟ یہ سوچ کر اپنے آپ کا ہوش نہ رہا۔ کچھ حواس بحال ہوئے تو دماغ کی اسکرین پر نصف صدی کی فلم چلنے لگی۔
بھائی جان (ر)جسٹس افتخار احمد چیمہ صاحب ہم سے پندرہ سولہ سال بڑے تھے، اس لیے وہ ہمارے (میرے اور بھائی نثار احمد کے) کے گائیڈ بھی تھے، استاد بھی تھے، ٹرینر بھی تھے اور mentor بھی تھے۔ ہمیں قلم پکڑنا اور لکھنا بھی انھوںنے سکھایا اور بولنا بھی انھوں نے ہی سکھایا تھا۔ گاؤں کے پاس بہت بڑا شیشم کا درخت ہمارا اسکول بھی تھا اور ہماری تربیّت گاہ بھی تھی۔ ٹاہلی کی چھاؤں میں ہی ہمیں مضمون لکھنے اور تقریر کرنے کی پریکٹس کرائی جاتی تھی۔
بھائی جان ہمیں کشتی بھی کراتے ، کبڈّی بھی کھلاتے، دوڑ بھی لگواتے اور مختلف موضوعات پر مضامین بھی لکھواتے تھے۔ اُس وقت ہمارے چھوٹے سے گاؤں میں پختہ سڑک بھی نہیں جاتی تھی، بجلی آنے کا دو ر دور تک امکان نہیں تھا مگر اس وقت بھی وہ گاؤں میں اسٹیج ڈرامے اور تقریری مقابلے منعقد کرایا کرتے تھے۔ پڑھائی کے معاملے میں وہ ہمارے ساتھ سختی بھی بہت کرتے تھے مگر پیار بھی بے تحاشا کرتے تھے۔ میری خاص طور پر ان کے ساتھ بے تحاشا محبّت تھی۔
والد صاحب بڑے بااصول اور سخت گیر منتظم تھے، بچپن کے دنوں میں ایک دو بار والد صاحب سے کسی بات پر اختلاف کے باعث بھائی جان احتجاجاً گھر سے چلے گئے تو میں نے بھی والدہ صاحبہ سے کہا میں بھی بھائی جان کے ساتھ ہی جاؤں گا اور واپس نہیں آؤں گا، اس پر والد صاحب کچھ نرم ہوجاتے اور والدہ صاحبہ کے کہنے پر بھائی خوشی محمد کو بھیجتے جو بھائی جان کو منا کر واپس گھر لے آتا۔ میں چھٹی جماعت میں تھا جب انھوں نے گوجرانوالہ کے سب سے بڑے ٹیلر سے میرا نیوی بلو کلر کا سوٹ سلوایا تھا او ر پھر اس سوٹ میں وزیرآباد کے اکلوتے فوٹو گرافر کے اسٹوڈیو سے میرا فوٹو بنوایا تھا۔ وہ فریم شدہ فوٹو اور بھائی جان کی اپنی لاء کالج کی گروپ فوٹو بڑی مدت تک ہمارے گھر میں لٹکی رہیں، دیکھنے والے یہ کمنٹس ضرور کیا کرتے تھے کہ ’’جج صاحب نوجوانی میں بڑے ہینڈسم تھے‘‘۔
وہ واقعی بہت خوبرو تھے۔ ہم اُس وقت پرائمری اسکول میں تھے جب بھائی جان نے ہم دونوں چھوٹے بھائیوں کی کاپیوں پر لکھ دیا تھا کہ بھائی نثار احمد ڈاکٹر بنے گا اور میں سول سروس میں جاؤں گا۔ وہ چاہتے تھے میں بہترین درسگاہوں سے تعلیم حاصل کروں، جب ان کی خواہش اور محنت کے نتیجے میں مجھے کیڈٹ کالج حسن ابدال میں داخلہ ملا تو ان کی خوشی دیدنی تھی، وہ خود مجھے کیڈٹ کالج چھوڑنے گئے تھے۔
ان کی پرکشش شخصیّت میں ایک غیر معمولی جاذبیّت اور مقناطیسیت تھی، مقامی زبان میں بات کریں تو ان کا ستارہ بہت بلند تھا، جب وہ صرف طالب علم اور یا جونئیر وکیل تھے اُس وقت بھی ہر جگہ اور ہر ادارے کے لوگ انھیں بے حد اہمیّت دیتے اور بہت زیادہ احترام کرتے تھے۔
ہمارے بلند کردار والد ِمحترم غیر محسوس طریقے سے ہماری تربیت کیا کرتے تھے۔چار چیزوں پر بہت زور تھا۔پہلی یہ کہ چاہے فاقے کرنے پڑیں مگر ہر حال میں رزقِ حلال کھانا ہے، دوسرا یہ کہ ایک فریق کتنا بھی بااثر یا طاقتور کیوں نہ ہو مگر پھر بھی انصاف ، چاہے طاقتور لوگ ناراض ہی کیوں نہ ہو جائیں مگر آپ انصاف کے مطابق فیصلہ کریں۔ تیسرا یہ کہ ْسب انسان برابر ہیں، چوہدری اور کمّیں یا امیر اور مزدور سب برابر ہیں۔
غریب اور کم وسیلہ لوگوں سے ہمدردی اور پیارکرو اور انھیں عزت دو۔ اور چوتھا یہ کہ ہمیشہ حق اور سچ کا ساتھ دو اور اپنے ضمیر اور اصول کا پرچم کبھی سر نگوں نہ ہونے دو، چاہے اس سے تمہیں کتنا ہی نقصان اٹھانا پڑے۔بھائی جان نے ان ہدایات کو حرزِ جاں بنایا اور ان سنہری اصولوں کے مطابق زندگی گذاری۔ ان کے بیرسٹر دوست بتایا کرتے تھے کہ برطانیہ میں بیرسٹری کے دوران سب طالب علم پبوں اور کلبوں میں جایا کرتے تھے مگر برائی کے گڑھ میں رہ کر بھی افتخار چیمہ صاحب ان خرافات سے محفوظ رہے اور ان کی جوانی مکمّل طور پر بے داغ رہی۔
وہ بارایٹ لاء کرکے واپس آئے تو گاؤں کے لوگوں نے جھنڈیاں لگاکر ان کا پرجوش استقبال کیا۔ اس کے کچھ عرصے کے بعد وہ ایڈیشنل سیشن جج مقرر ہوگئے۔ ان کے جج بننے پر والدہ صاحبہ نے بڑی سخت دعا کی مگر اس سے یہ ہوا کہ زندگی گذارنے کے لیے ہماری سمت کا بڑا واضح تعیّن ہوگیا۔ ان کے جج بننے کے فوراً بعد ادھر ادھر سے مختلف کہانیاں نکلنے لگیں، کسی جگہ یہ مشہور ہوجاتا کہ کوئی چیمہ جج لگا ہے جو بڑا سخت ہے، نہ کسی کی چائے پیتا ہے اور نہ سفارش مانتاہے، کسی نے سنایا کہ قتل کے اصل حقائق تک پہنچنے کے لیے افتخار چیمہ صاحب بھیس بدل کر متعلقہ گاؤں میں چلے جاتے ہیں اور پھر فیصلے سے پہلے اللہ سے گڑگڑا کر دعائیں مانگتے ہیں کہ میرے ہاتھ سے بے انصافی نہ ہوجائے۔
عدلیہ میں شامل ہونے سے پہلے وہ ہمارے ہی نہیں پورے گاؤں بلکہ پورے علاقے کے بھاجی (بھائی جان) تھے۔ 1974میں ایڈیشنل سیشن جج مقرر ہوئے تو پھر سب لوگ انھیں جج صاحب کہنے لگے۔ ضلع وزیرآباد کا ہر شخص جانتا تھا کہ جج صاحب کون ہیں اور کیسے ہیں۔ بچپن کے دوست، گرائیں اور ان کے شاگرد سلیم منصو خالد اُس دور کو یاد کرکے بار بار کہتے رہے کہ ’’ایک تاریخی اور یادگار عہد کا خاتمہ ہوگیا ہے‘‘۔ انھوں نے ہی سنایا کہ بڑے بھائی ظفر صاحب بھی راوالپنڈی میں ملازم تھے جب جج صاحب کی پہلی تعیناتی راولپنڈی میں ہوئی تھی۔ ظفر صاحب بتاتے ہیں کہ ایک روز مجھے جج صاحب کا فون آیا، ’’ظفر کل تیار رہنا کہیں چلنا ہے‘‘۔
دوسرے روز انھوں نے مجھے ساتھ لیا اور ہم دونوں ویگن پر بیٹھ کر مری کی جانب چل پڑے، کوئی پینتالیس پچاس منٹ کے بعد ہم ایک اسٹاپ پر اُتر گئے اور جج صاحب پہاڑی پر چڑھنے لگے، ایک گھنٹہ چلنے کے بعد ایک چھوٹی سی بستی آئی، وہاں انھوں نے نماز پڑھی، مسجد سے نکلے تو بستی کے کچھ لوگ بھی نکل آئے۔ ان سے کہنے لگے ’’کتنا خوبصورت علاقہ ہے، یہ یقیناً بڑا پُرامن بھی ہوگا‘‘۔ پھر کہنے لگے ’’آپ لوگ بڑے خوش قسمت ہیں۔ یہاں تو کبھی کوئی جرم نہیں ہواہوگا‘‘۔ دو تین بزرگوں نے کہا ’’جی پہلے تو ایسا ہی تھا مگر اب ایسا نہیں ہے‘‘۔ اب ایسا کیوں نہیں ہے؟ ان کے پوچھنے پر لوگوں نے بولنا شروع کردیا ’’جی چند مہینے پہلے لالچ میں آکر ایک شخص نے قتل کردیا ہے‘‘۔
(جاری ہے)