اسلام آباد:

کمپٹیشن کمیشن نے انتباہ جاری کیا ہے کہ ڈیلرشپ اور ڈسٹری بیوشن معاہدوں میں کمپٹیشن قانون کے خلاف شقیں شامل نہ کی جائیں، خصوصی صورتحال میں کمیشن سے لازمی استثنیٰ حاصل کیا جائے، استثنی کے بغیر معاہدوں میں کمپٹیشن مخالف شقوں پر بھاری جرمانہ کیا جائے گا۔

اپنے بیان میں کمپٹیشن کمیشن نے کہا ہے کہ کمیشن سے استثنیٰ کے بغیر ایسے کاروباری معاہدے کالعدم تصور ہوں گے، صرف صارفین کے مفاد اور معاشی ترقی کے پیش نظر ہی ایسے معادہوں کے لیے استثنیٰ دیا جا سکتا ہے، ایسے معاہدوں پر دیے جانے والے استثنیٰ مشروط اور مخصوص مدت کے لئے ہوتا ہے۔

کمیشن نے کہا ہے کہ کمپنیاں استشنی کی شرائط کی باقاعدہ رپورٹس جمع کرانے کے پابند ہیں، استثنیٰ کی شرائط کی خلاف ورزی پر ایگزیمپشن منسوخ ہوگا اور قانونی کارروائی کی جائے گی، استثنیٰ کی شرائط کی خلاف ورزی پر 7 کروڑ 50 لاکھ جرمانہ عائد کیا جاسکتا ہے۔

.

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

آدھار کارڈ کو شہریت کا ثبوت نہیں مانا جا سکتا ہے، الیکشن کمیشن

الیکشن کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ نو ستمبر 2025ء کو بہار کے چیف الیکٹورل آفیسر کو باقاعدہ ہدایات جاری کردی گئی تھیں کہ ووٹر لسٹ میں نام شامل یا خارج کرتے وقت آدھار کا استعمال صرف شناخت ثابت کرنے کیلئے ہی کیا جائے۔ اسلام ٹائمز۔ انتخابی نظام سے متعلق ایک اہم پیشرفت سامنے آئی ہے۔ الیکشن کمیشن آف انڈیا نے سپریم کورٹ کو آگاہ کیا ہے کہ بہار کی ووٹر لسٹ کی نظرثانی کے دوران آدھار کارڈ کا استعمال صرف اور صرف شناخت کی توثیق کے لئے کیا جائے گا، شہریت کے ثبوت کے طور پر نہیں۔ الیکشن کمیشن نے بتایا کہ 8 ستمبر کے سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق یہ واضح کیا جا چکا ہے کہ آدھار کارڈ شہریت، ڈومیسائل یا تاریخِ پیدائش کا ثبوت نہیں ہے، بلکہ محض شناخت کی تصدیق کا ذریعہ ہے، جیسا کہ عوامی نمائندگی ایکٹ 1950 کی دفعہ 23(4) میں بیان کیا گیا ہے۔ الیکشن کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ نو ستمبر 2025ء کو بہار کے چیف الیکٹورل آفیسر کو باقاعدہ ہدایات جاری کر دی گئی تھیں کہ ووٹر لسٹ میں نام شامل یا خارج کرتے وقت آدھار کا استعمال صرف شناخت ثابت کرنے کے لئے ہی کیا جائے۔

اسی معاملے میں ایڈووکیٹ اشونی کمار اُپادھیائے نے ایک درخواست دائر کی تھی، جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ آدھار کو صرف شناخت کی توثیق تک محدود رکھا جائے۔ الیکشن کمیشن نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ یو آئی ڈی اے آئی نے اگست 2023ء میں اپنے سرکاری میمورنڈم میں واضح کر دیا تھا کہ آدھار نہ تو شہریت کا ثبوت ہے، نہ رہائش کا اور نہ ہی تاریخ پیدائش کا۔ اسی نوٹ کا حوالہ دیتے ہوئے بمبئی ہائی کورٹ نے بھی یہی مؤقف اختیار کیا تھا۔ سپریم کورٹ نے سات اکتوبر کو اس درخواست پر نوٹس جاری کیا تھا اور بینچ نے واضح کیا کہ آدھار کو شہریت یا ڈومیسائل کا ثبوت قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہ اہم وضاحت انتخابات کے شفاف اور درست عمل کو یقینی بنانے کے لئے ایک نہایت معنی خیز قدم تصور کی جا رہی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • اردن‘ بھرتیوں کی بحالی کا قانون منظور
  • بچوں کے خلاف جرائم ناقابلِ معافی ہیں، ایسے مجرم سماج کے ناسور ہیں، مریم نواز
  • 28ویں آئینی ترمیم جلد پیش کی جائے گی، مقامی حکومت، این ایف سی اور صحت کے امور شامل ہوں گے: رانا ثناء اللہ
  • استثنیٰ کسی کے لیے نہیں
  • 28ویں آئینی ترمیم جلد پیش کی جائے گی، مقامی حکومت، این ایف سی اور صحت کے امور شامل ہوں گے: رانا ثناء اللہ:
  • اٹھائیسویں آئینی ترمیم میں بلدیاتی نظام سے متعلق ترامیم شامل کی جائیں گی، مصطفی کمال
  • محنت کشوں کے حقوق کا ضامن مزدور قانون
  • آدھار کارڈ کو شہریت کا ثبوت نہیں مانا جا سکتا ہے، الیکشن کمیشن
  • برطانیہ میں پناہ گزینوں کیلئے بُری خبر، پالیسی میں بڑی تبدیلی
  • صدارتی استثنیٰ: اختیار اور جواب دہی کے درمیان نازک توازن