UrduPoint:
2025-08-10@12:55:33 GMT

زبانی تاریخ: کیا اس پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 10th, August 2025 GMT

زبانی تاریخ: کیا اس پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 10 اگست 2025ء) زبانی تاریخ کا تعلق فرد کی یادداشت اور حافظے سے ہوتا ہے۔ انسان کے ذہن میں دور اور نزدیک کے واقعات اور اشخاص کی یادیں ہوتی ہیں۔ ہمارا ذہن طویل عرصے میں ہونے والے واقعات میں یا تو کوئی اضافہ کرتا ہے یا اس کے کچھ حصوں کو یادداشت سے نکال دیتا ہے۔ دوسری وہ زبانی تاریخ ہوتی ہے جس کو بیان کرنے والا شخص اس کا عینی شاہد ہوتا ہے۔

ایسے کسی فرد سے لیے گئے انٹرویو میں دیکھا جاتا ہے کہ اس کے بیان میں کوئی تضاد ہے یا نہیں۔ اس کا تعلق انٹرویو لینے والے پر بھی ہوتا ہے کہ اس سے وہ سوالات کرے جن کا تعلق اس کی ذات اور واقعات سے ہو۔

زبانی تاریخ کو ہم دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ پہلا حصہ تاریخی شخصیات کے بارے میں ہے۔

(جاری ہے)

ان کے بارے میں ان کے اپنے عہد اور بعد میں جو زبانی بیانات مشہور ہوئے وہ لوک کہانیوں کے ذریعے ہم تک پہنچے ہیں۔

مثلاً مغل بادشاہ اکبر کے بارے میں ایسی بہت سی روایتیں ہیں جن کا تعلق مستند تاریخ سے نہیں ہے۔ ان روایتوں کے ذریعے اکبر کی رواداری کو بیان کیا گیا ہے۔ ایک روایت میں کہا گیا ہے کہ ایک بار جب وہ پیدل معین الدین چشتی کے مزار کی زیارت کے لیے جا رہا تھا تو راستے میں اسے ایک مندر سے گانے کی آواز سنائی دی۔ وہ اس آواز سے متاثر ہو کر مندر میں گیا جہاں میرا بائی بھجن گا رہی تھی۔

وہ اسے سنتا رہا۔ جب اس کا بھجن ختم ہوا تو اکبر نے اپنا ہیروں کا ہار اتار کر اس کے گلے میں ڈال دیا اور خاموشی سے مندر سے باہر آ گیا۔ میرا بائی کو بعد میں پتہ چلا کہ یہ ہار اکبر نے اس کے گلے میں ڈالا تھا۔

ڈاکٹر مبارک علی کی مزید تحاریر:
کیا تاریخ اپنے آپ کو دُہراتی ہے؟

خاموشی – ڈاکٹر مبارک علی کی تحریر

اکبر سے ایسی دیگر کئی کہانیاں منصوب ہیں۔

اس کے دربار میں بیربل اور ملا دوپیازہ کا ذکر ہے جن کے لطیفے مشہور ہیں مگر ان کا تاریخ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ زبانی تاریخ میں اولیاء اور پیروں کی شفقت کے بارے میں ان کے مریدوں نے ان کی کرامات فیاضی اور رواداری کی روایت کے ذریعے ان کو عام لوگوں میں مقبول بنا دیا ہے۔ اس کا فائدہ سجادہ نشینوں کو بھی ہے جو کئی نسلوں سے مریدوں سے عطیات وصول کرتے ہیں۔

سیاست میں حصہ لے کر لیڈر بن جاتے ہیں اور اپنے پیر یا ولی کا عرس منا کر اس کی یاد کو باقی رکھتے ہیں۔

زبانی تاریخ کے ذریعے سیاسی شخصیتوں کو بھی اہمیت دی جاتی ہے۔ ہندوستان میں سبھاش چندر بوس جو برطانوی حکومت کے سخت مخالف تھے۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران یہ فرار ہو کر جرمنی چلے گئے۔ وہاں سے ریڈیو پر برطانوی حکومت کی مخالفت میں تقریریں کرتے رہے۔

وہاں سے یہ جاپان چلے گئے اور آزاد ہند فوج کی بنیاد رکھی۔ یہ ہوائی جہاز کے ایک حادثے میں مر گئے مگر ہندوستان میں ان کے چاہنے والوں نے ان پر یقین نہیں کیا اور یہ مشہور کر دیا کہ وہ زندہ ہیں اور بنگال کے ایک دور دراز گاؤں میں بحیثیت سنیاسی کے زندگی گزار رہے ہیں۔ عقیدت مند لوگ اپنے ہیرو کی موت کا یقین نہیں کرتے۔ دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد ہندوستان میں یہ بھی مشہور ہو گیا تھا کہ ہٹلر مرا نہیں ہے بلکہ روپوش ہو گیا ہے اور دوبارہ آ کر انگریزوں سے جنگ کرے گا۔

سیموئل رافیل نے اپنی کتاب ’ہسٹری اینڈ پولیٹکس‘ میں کئی مؤرخین کے مضامین زبانی تاریخ کے سلسلے بھی شامل کیے ہیں۔ ان میں ایک مضمون گیلی پولی کی جنگ پر ہے۔ اس میں آسٹریلیا کے فوجی پہلی مرتبہ یورپی ملکوں کے ساتھ جنگ میں شریک ہوئے تھے۔ آسٹریلیا اس بات پر خوش تھا کہ یورپی ملکوں نے اس کی سیاسی حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئے اسے مساوی مقام دیا۔

اس جنگ میں ترکوں کے راہمنا مصطفی کمال نے یورپی فوجوں کو شکست دی۔ شکست کے بعد جب آسٹریلیا کے فوجی واپس آئے اور ان سے جنگ کے بارے میں انٹرویو لیے گئے تو فوجیوں کے بیانات مختلف تھے۔ ان میں سے کچھ نے جنگ میں ہونے والی سختیوں اور مسائل کا ذکر کیا۔ کچھ نے یہ کہا کہ وہ زندہ واپس آ گئے، ان کے لیے یہی بہت ہے لیکن ان میں سے کچھ فوجی ایسے تھے جنہوں نے انٹرویو دینے سے انکار کر دیا کیونکہ اس جنگ کی تلخ یادیں ان کے ذہن میں تھیں اور وہ ان یادوں کے ذریعے دوبارہ سے جنگ کی خونریزی اور مصائب کو بیان کرنا نہیں چاہتے تھے۔

ایک ایسی جنگ جس میں ان کے دوست مارے گئے تھے اور وہ مشکل سے اپنی جان بچا کر آئے تھے۔

یہی یادیں بنگلہ دیش اور پاکستان کے ان افراد کے ذہنوں میں ہیں جن کے رشتے دار اور دوست بنگلہ دیش میں مارے گئے تھے۔ میرے ایک جاننے والے تھے جن کا نام شبیر کاظمی تھا۔ ان کے پانچ بیٹوں کو مکتی باہنی نے قتل کر دیا تھا۔ میرے ساتھ ہونے والی کئی ملاقاتوں میں انہوں نے کبھی بنگلہ دیش کے بارے میں کوئی ذکر نہیں کیا۔

میری ملاقات جب ایک بنگلہ دیشی صحافی سے ہوئی جس کے والد اور بھائی کو پاکستانی فوج نے گولی ماری تھی۔ اس کی آنکھوں میں آنسو ضرور آئے مگر اس نے فوجی ایکشن کے بارے میں کوئی ذکر نہیں کیا۔

یہی صورتحال تقسیم کے دوران ہندو مسلم فسادات کی تھی۔ ان فسادات پر لوگوں کے انٹرویوز لیے گئے ہیں لیکن ان میں جذبات کا اس قدر غلبہ ہے کہ پوری صورتحال کو نہیں سمجھا جا سکتا ہے۔

اگرچہ زبانی تاریخ کو تاریخ نویسی میں اہمیت دی جاتی ہے لیکن زبانی تاریخ کے ذریعے جب زبانی بیانات کو تعصب، نفرت، تعریف اور مدح سرائی کے ذریعے تشکیل دیا جائے تو یہ تاریخ کے بیانیے کو مسخ کرتی ہے۔ زبانی تاریخ سے جھوٹ اور فریب کو نکالنا مشکل عمل ہے اس لیے اس پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے زبانی تاریخ کے بارے میں میں ان کے کے ذریعے تاریخ کے نہیں کیا کا تعلق

پڑھیں:

پاکستان سٹاک ایکسچینج میں تاریخ ساز کاروباری ہفتہ

 پاکستان سٹاک ایکسچینج (پی ایس ایکس) میں کاروباری ہفتہ تاریخ ساز رہا، 100 انڈیکس نے کاروباری ہفتے کے ہر دن نئی بلند ترین سطح بنائی۔100 انڈیکس ہفتہ بھر میں 4347 پوائنٹس اضافے سے 145382 پر بند ہوا جبکہ کاروباری ہفتے میں 100 انڈیکس 5372 پوائنٹس کے بینڈ میں رہا۔انڈیکس کی ہفتہ وار بلند ترین سطح 146813 رہی جبکہ کم ترین سطح 141440 رہی۔کاروباری ہفتے کے دوران بازار میں 3.26 ارب شیئرز کے سودے 233.9 ارب روپے میں طے ہوئے اور مارکیٹ کیپٹلائزیشن ہفتہ بھر میں 435 ارب روپے بڑھ کر 17342 ارب روپے ہو گئی۔

متعلقہ مضامین

  • ایکسکلیوسیو سٹوریز جولائی 2025
  • یوکرین علاقہ چھوڑے تو نیٹو رکن بن سکتا ہے، یورپی ممالک نے امریکا کو حیران کن تجویز دے دی
  • چاکلیٹ میں پایا جانیوالا ایک جز کس بیماری کا علاج کر سکتا ہے؟
  • پاکستان سٹاک ایکسچینج میں تاریخ ساز کاروباری ہفتہ
  • کشمیر میں 25 کتابوں پر پابندی تاریخ کو مٹانے کا ذریعہ نہیں بن سکتی ہے، آغا سید حسن الموسوی
  • زیادہ فرائز کھانا کس دائمی بیماری میں مبتلا کر سکتا ہے؟
  • کہانیاں سنانا صحت کی دیکھ بھال میں بہتری لا سکتا ہے،ماہرین
  • خون سے سیکھے گئے سبق کو فراموش نہیں کیا جا سکتا، تاریخ کے المیے دہرائے نہیں جا سکتے، چینی وزارت دفاع
  • ملکی تاریخ کا سب سے بڑا کرپشن اسکینڈل؟