زبانی تاریخ: کیا اس پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 10th, August 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 10 اگست 2025ء) زبانی تاریخ کا تعلق فرد کی یادداشت اور حافظے سے ہوتا ہے۔ انسان کے ذہن میں دور اور نزدیک کے واقعات اور اشخاص کی یادیں ہوتی ہیں۔ ہمارا ذہن طویل عرصے میں ہونے والے واقعات میں یا تو کوئی اضافہ کرتا ہے یا اس کے کچھ حصوں کو یادداشت سے نکال دیتا ہے۔ دوسری وہ زبانی تاریخ ہوتی ہے جس کو بیان کرنے والا شخص اس کا عینی شاہد ہوتا ہے۔
ایسے کسی فرد سے لیے گئے انٹرویو میں دیکھا جاتا ہے کہ اس کے بیان میں کوئی تضاد ہے یا نہیں۔ اس کا تعلق انٹرویو لینے والے پر بھی ہوتا ہے کہ اس سے وہ سوالات کرے جن کا تعلق اس کی ذات اور واقعات سے ہو۔زبانی تاریخ کو ہم دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ پہلا حصہ تاریخی شخصیات کے بارے میں ہے۔
(جاری ہے)
ان کے بارے میں ان کے اپنے عہد اور بعد میں جو زبانی بیانات مشہور ہوئے وہ لوک کہانیوں کے ذریعے ہم تک پہنچے ہیں۔
مثلاً مغل بادشاہ اکبر کے بارے میں ایسی بہت سی روایتیں ہیں جن کا تعلق مستند تاریخ سے نہیں ہے۔ ان روایتوں کے ذریعے اکبر کی رواداری کو بیان کیا گیا ہے۔ ایک روایت میں کہا گیا ہے کہ ایک بار جب وہ پیدل معین الدین چشتی کے مزار کی زیارت کے لیے جا رہا تھا تو راستے میں اسے ایک مندر سے گانے کی آواز سنائی دی۔ وہ اس آواز سے متاثر ہو کر مندر میں گیا جہاں میرا بائی بھجن گا رہی تھی۔ وہ اسے سنتا رہا۔ جب اس کا بھجن ختم ہوا تو اکبر نے اپنا ہیروں کا ہار اتار کر اس کے گلے میں ڈال دیا اور خاموشی سے مندر سے باہر آ گیا۔ میرا بائی کو بعد میں پتہ چلا کہ یہ ہار اکبر نے اس کے گلے میں ڈالا تھا۔ڈاکٹر مبارک علی کی مزید تحاریر:
کیا تاریخ اپنے آپ کو دُہراتی ہے؟
خاموشی – ڈاکٹر مبارک علی کی تحریر
اکبر سے ایسی دیگر کئی کہانیاں منصوب ہیں۔
اس کے دربار میں بیربل اور ملا دوپیازہ کا ذکر ہے جن کے لطیفے مشہور ہیں مگر ان کا تاریخ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ زبانی تاریخ میں اولیاء اور پیروں کی شفقت کے بارے میں ان کے مریدوں نے ان کی کرامات فیاضی اور رواداری کی روایت کے ذریعے ان کو عام لوگوں میں مقبول بنا دیا ہے۔ اس کا فائدہ سجادہ نشینوں کو بھی ہے جو کئی نسلوں سے مریدوں سے عطیات وصول کرتے ہیں۔ سیاست میں حصہ لے کر لیڈر بن جاتے ہیں اور اپنے پیر یا ولی کا عرس منا کر اس کی یاد کو باقی رکھتے ہیں۔زبانی تاریخ کے ذریعے سیاسی شخصیتوں کو بھی اہمیت دی جاتی ہے۔ ہندوستان میں سبھاش چندر بوس جو برطانوی حکومت کے سخت مخالف تھے۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران یہ فرار ہو کر جرمنی چلے گئے۔ وہاں سے ریڈیو پر برطانوی حکومت کی مخالفت میں تقریریں کرتے رہے۔
وہاں سے یہ جاپان چلے گئے اور آزاد ہند فوج کی بنیاد رکھی۔ یہ ہوائی جہاز کے ایک حادثے میں مر گئے مگر ہندوستان میں ان کے چاہنے والوں نے ان پر یقین نہیں کیا اور یہ مشہور کر دیا کہ وہ زندہ ہیں اور بنگال کے ایک دور دراز گاؤں میں بحیثیت سنیاسی کے زندگی گزار رہے ہیں۔ عقیدت مند لوگ اپنے ہیرو کی موت کا یقین نہیں کرتے۔ دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد ہندوستان میں یہ بھی مشہور ہو گیا تھا کہ ہٹلر مرا نہیں ہے بلکہ روپوش ہو گیا ہے اور دوبارہ آ کر انگریزوں سے جنگ کرے گا۔سیموئل رافیل نے اپنی کتاب ’ہسٹری اینڈ پولیٹکس‘ میں کئی مؤرخین کے مضامین زبانی تاریخ کے سلسلے بھی شامل کیے ہیں۔ ان میں ایک مضمون گیلی پولی کی جنگ پر ہے۔ اس میں آسٹریلیا کے فوجی پہلی مرتبہ یورپی ملکوں کے ساتھ جنگ میں شریک ہوئے تھے۔ آسٹریلیا اس بات پر خوش تھا کہ یورپی ملکوں نے اس کی سیاسی حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئے اسے مساوی مقام دیا۔
اس جنگ میں ترکوں کے راہمنا مصطفی کمال نے یورپی فوجوں کو شکست دی۔ شکست کے بعد جب آسٹریلیا کے فوجی واپس آئے اور ان سے جنگ کے بارے میں انٹرویو لیے گئے تو فوجیوں کے بیانات مختلف تھے۔ ان میں سے کچھ نے جنگ میں ہونے والی سختیوں اور مسائل کا ذکر کیا۔ کچھ نے یہ کہا کہ وہ زندہ واپس آ گئے، ان کے لیے یہی بہت ہے لیکن ان میں سے کچھ فوجی ایسے تھے جنہوں نے انٹرویو دینے سے انکار کر دیا کیونکہ اس جنگ کی تلخ یادیں ان کے ذہن میں تھیں اور وہ ان یادوں کے ذریعے دوبارہ سے جنگ کی خونریزی اور مصائب کو بیان کرنا نہیں چاہتے تھے۔ ایک ایسی جنگ جس میں ان کے دوست مارے گئے تھے اور وہ مشکل سے اپنی جان بچا کر آئے تھے۔یہی یادیں بنگلہ دیش اور پاکستان کے ان افراد کے ذہنوں میں ہیں جن کے رشتے دار اور دوست بنگلہ دیش میں مارے گئے تھے۔ میرے ایک جاننے والے تھے جن کا نام شبیر کاظمی تھا۔ ان کے پانچ بیٹوں کو مکتی باہنی نے قتل کر دیا تھا۔ میرے ساتھ ہونے والی کئی ملاقاتوں میں انہوں نے کبھی بنگلہ دیش کے بارے میں کوئی ذکر نہیں کیا۔
میری ملاقات جب ایک بنگلہ دیشی صحافی سے ہوئی جس کے والد اور بھائی کو پاکستانی فوج نے گولی ماری تھی۔ اس کی آنکھوں میں آنسو ضرور آئے مگر اس نے فوجی ایکشن کے بارے میں کوئی ذکر نہیں کیا۔یہی صورتحال تقسیم کے دوران ہندو مسلم فسادات کی تھی۔ ان فسادات پر لوگوں کے انٹرویوز لیے گئے ہیں لیکن ان میں جذبات کا اس قدر غلبہ ہے کہ پوری صورتحال کو نہیں سمجھا جا سکتا ہے۔
اگرچہ زبانی تاریخ کو تاریخ نویسی میں اہمیت دی جاتی ہے لیکن زبانی تاریخ کے ذریعے جب زبانی بیانات کو تعصب، نفرت، تعریف اور مدح سرائی کے ذریعے تشکیل دیا جائے تو یہ تاریخ کے بیانیے کو مسخ کرتی ہے۔ زبانی تاریخ سے جھوٹ اور فریب کو نکالنا مشکل عمل ہے اس لیے اس پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے زبانی تاریخ کے بارے میں میں ان کے کے ذریعے تاریخ کے نہیں کیا کا تعلق
پڑھیں:
امریکی ویزا اور گرین کارڈ کے قواعد مزید سخت کردیے گئے
امریکی محکمۂ خارجہ نے نئی ہدایات جاری کی ہیں جن کے مطابق ایسے غیر ملکی شہری جنہیں بعض مزمن امراض لاحق ہیں، مثلاً ذیابیطس یا موٹاپا کو امریکی ویزا یا مستقل رہائش (گرین کارڈ) سے محروم کیا جا سکتا ہے۔ یہ ہدایات ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے جاری کی گئیں اور انہیں دنیا بھر میں امریکی سفارت خانوں اور قونصل خانوں کو بھیج دیا گیا ہے۔
ویزا انکار کی نئی وجوہاتمحکمۂ خارجہ کی نئی گائیڈ لائنز کے مطابق، ویزا افسران اب درخواست گزاروں کی دل، سانس، اعصابی، ذہنی صحت اور میٹابولک بیماریوں (جیسے ذیابیطس) کو بھی ویزا نہ دینے کی ممکنہ وجوہات میں شمار کر سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے امریکی ویزے کے خواہشمندوں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ کی چھان بین کا فیصلہ
ہدایت نامے میں کہا گیا ہے کہ اگر کسی درخواست گزار کو ایسی بیماری لاحق ہے جس کے علاج پر زیادہ خرچ آتا ہے اور وہ مستقبل میں حکومتی مالی مدد کا محتاج ہو سکتا ہے، تو اس بنیاد پر ویزا مسترد کیا جا سکتا ہے۔
افسران کو یہ بھی دیکھنے کی ہدایت دی گئی ہے کہ آیا درخواست گزار اپنے طبی اخراجات خود برداشت کر سکتا ہے یا نہیں۔
خاندان کی صحت بھی زیرِ غوریہ ہدایات درخواست گزار کے اہلِ خانہ تک پھیلا دی گئی ہیں۔ ویزا افسران سے کہا گیا ہے کہ اگر انحصار کرنے والے افراد میں کوئی مزمن بیماری یا معذوری ہے جو درخواست گزار کی کارکردگی یا مالی خود کفالت پر اثر ڈال سکتی ہے، تو اسے بھی مدِنظر رکھا جائے۔
طویل پالیسی سے انحرافروایتی طور پر، امریکی ویزا درخواستوں میں صرف متعدی امراض، ویکسینیشن اور ذہنی صحت کے مخصوص پہلوؤں کو جانچا جاتا تھا۔
نئے قواعد کے تحت غیر متعدی مگر طویل المعیاد بیماریوں کو بھی اہمیت دی گئی ہے، جس سے غیر طبی تربیت یافتہ ویزا افسران کو زیادہ صوابدیدی اختیار مل جائے گا اور خدشہ ہے کہ یہ فیصلے ذاتی یا ثقافتی تعصب کی بنیاد پر بھی کیے جا سکتے ہیں۔
قانونی اور اخلاقی خدشاتامیگریشن ماہرین اور عوامی صحت کے ماہرین نے اس پالیسی پر شدید تنقید کی ہے۔ چارلس وہیلر، سینئر اٹارنی کیٿولک لیگل امیگریشن نیٹ ورک کے، نے کہا کہ یہ پالیسی غیر سائنسی اندازوں اور تعصبات پر مبنی فیصلوں کو فروغ دے سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیے مستقل رہائش کو فروغ دینے کے لیے امریکا نے نیا ویزا متعارف کرا دیا
جبکہ جارج ٹاؤن یونیورسٹی کی پروفیسر صوفیہ جینویس نے اسے تشویشناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے دنیا بھر میں کروڑوں افراد متاثر ہو سکتے ہیں جو عام مگر دائمی بیماریوں میں مبتلا ہیں اور یہ اقدام اخلاقی و انسانی حقوق کے سنگین سوالات کو جنم دیتا ہے۔
طبی معائنہ بدستور لازمیامریکی ویزا کے لیے درخواست گزاروں کو اب بھی سفارت خانے کے منظور شدہ معالج سے طبی معائنہ کرانا ہوگا، جس میں متعدی امراض، ذہنی صحت، منشیات کے استعمال اور ویکسینیشن کی جانچ شامل ہے۔
تاہم نئی ہدایات کے تحت اب مزمن بیماریوں اور ان کے طویل مدتی علاج کے مالی بوجھ کو بھی فیصلے کا اہم حصہ بنایا گیا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اگرین کارڈ امریکی ویزا امریکی ویزا اور گرین کارڈ کے قواعد