فلسطینی ریاست کو اب تک یا عنقریب تسلیم کرنے والے ممالک
اشاعت کی تاریخ: 12th, August 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 12 اگست 2025ء) فلسطینی ریاست کا معاملہ اور مشرق وسطیٰ کے تنازعے کا دو ریاستی حل نو ستمبر سے شروع ہونے والے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے ایجنڈے میں نمایاں طور پر شامل ہوں گے۔
فرانس، کینیڈا، آسٹریلیا اور مالٹا نے اعلان کیا ہے کہ وہ جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر فلسطینی ریاست کو باقاعدہ تسلیم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
برطانیہ نے کہا ہے کہ اگر اسرائیل غزہ پٹی میں امن کی طرف کوئی اہم قدم نہیں اٹھاتا، جیسے کہ حماس کے ساتھ جنگ بندی پر رضامندی اور اقوام متحدہ کی طرف سے مہیا کردہ امداد کو اس خطے میں داخل ہونے کی اجازت دینا، تو وہ بھی ایسا ہی کرے گا۔اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے 10 اگست کو ایک پریس کانفرنس میں ان اقدامات کو ''شرمناک‘‘ قرار دیا اور کہا کہ اس سے ''امن نہیں آئے گا۔
(جاری ہے)
‘‘دنیا کے زیادہ تر ممالک پہلے ہی فلسطینی علاقوں کو ایک ریاست کے طور پر تسلیم کر چکے ہیں، لیکن اہم طاقتوں کی جانب سے سخت مخالفت برقرار ہے۔ 11 مئی 2024 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 193 میں سے 143 رکن ممالک نے ایک قرارداد کے حق میں ووٹ دیا، جو فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے سے متعلق تھی۔
فلسطین کو فی الحال اقوام متحدہ میں غیر رکن مبصر کی حیثیت حاصل ہے، مگر مکمل رکنیت کا فیصلہ صرف سلامتی کونسل کر سکتی ہے۔
اپریل 2024 میں، امریکہ جو سلامتی کونسل کا مستقل رکن اور ویٹو پاور کا حامل ہے، نے ایک مسودہ قرارداد کو ویٹو کر دیا تھا، جس میں فلسطین کو مکمل رکنیت دینے کی سفارش کی گئی تھی۔ فلسطینی ریاست کا تسلیم کیے جانے کے لیے سفراب تک کل 147 ممالک فلسطینی علاقوں کو باضابطہ طور پر ریاست کے طور پر تسلیم کر چکے ہیں۔ ان میں سے تقریباً نصف ممالک نے یہ قدم نومبر 1988 کے بعد اٹھایا، جب فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) نے باضابطہ طور پر فلسطین کو ایک آزاد ریاست قرار دیا۔
یہ حمایت کمیونسٹ ریاستوں جیسے سوویت یونین اور چین کے ساتھ ساتھ غیر جانبدار ممالک یوگوسلاویہ اور بھارت سے بھی ملی تھی۔بعد میں مزید ممالک بھی اس عمل میں شامل ہو گئے۔ بیسویں صدی کے آخری عشرے میں وسطی ایشیائی ممالک، جنوبی افریقہ، فلپائن اور روانڈا نے بھی فلسطینی علاقوں کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کیے۔ 2000 کی دہائی کے اوائل میں ارجنٹائن، بولیویا، ایکواڈور اور وینزویلا نے بھی فلسطینی علاقوں کو ایک خود مختار ملک کے طور پر تسلیم کر لیا۔
فلسطینی اتھارٹی نے سن دو ہزار گیارہ میں اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت کے لیے درخواست دی، لیکن سلامتی کونسل نے اسے مسترد کر دیا۔
اس کے باوجود فلسطینی اتھارٹی کی سفارتی کوششوں اور اسرائیلی فلسطینی امن عمل میں جمود سے پیدا ہونے والی مایوسی کے نتیجے میں چلی، یوروگوائے اور پیرو سمیت ایک درجن سے زائد ممالک نے فلسطینی علاقوں کو ایک ریاست کے طور پر تسلیم کیا۔
اسی سال فلسطین یونیسکو کا مکمل رکن بن گیا، جو فلسطینی سفارت کاری کے لیے ایک بڑی کامیابی تھی۔ آئس لینڈ پہلا مغربی یورپی ملک بنا، جس نے اسے ریاست کے طور پر تسلیم کیا، اور 2014 میں سویڈن نے آئس لینڈ کی پیروی کرتے ہوئے ایسا ہی فیصلہ کیا۔
حالیہ پیش رفتسن دو ہزار چوبیس میں، بہاماس، ٹرینیڈاڈ و ٹوباگو، جمیکا اور بارباڈوس نے بھی فلسطینی علاقوں کو بطور ریاست تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا۔
جون 2023 میں میکسیکو نے فلسطینی ریاست کی مکمل حمایت کا اعلان کیا، اور اس کے فوراً بعد میکسیکو کی حکومت نے فلسطینی علاقوں میں ایک مکمل سفارت خانہ قائم کرنے کے اقدامات کیے، جسے سفارتی مشنز کو دی جانے والی تمام مراعات اور استثنیٰ حاصل ہونا تھے۔
سن دو ہزار اٹھارہ میں کولمبیا نے صدر خوآن مانوئل سانتوس کے دور کے اختتام سے قبل ہی فلسطین کو ایک خود مختار ملک تسلیم کر لیا۔
غزہ پٹی پر اسرائیلی حملے کے آغاز سے ہی یہ لاطینی امریکی ملک، جس نے 2023 میں اسرائیل کو ایک بلین ڈالر کی برآمدات کی تھیں، نے اسرائیل کے ساتھ اپنے سیاسی اور اقتصادی تعلقات کم کر دیے۔ صدر گستاف پیٹرو نے اسرائیل سے تعلقات منقطع کر دیے، اور اس ہفتے کے اوائل میں مغربی کنارے کے مقبوضہ شہر رام اللہ میں اپنے ملک کا سفارت خانہ کھولے جانے کا حکم دے دیا۔ مغرب کا موقف کیا ہے؟امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا، کئی مغربی یورپی ممالک اور ان کے اتحادی جاپان اور جنوبی کوریا طویل عرصے سے ایک آزاد فلسطینی ریاست کے تصور کی حمایت کرتے آئے ہیں، جو اسرائیل کے ساتھ موجود ہو اور مشرق وسطیٰ کے دیرینہ تنازع کا حل پیش کرے۔ تاہم ان میں سے بہت سے ممالک نے کہا ہے کہ وہ فلسطینی علاقوں کو ایک آزاد ملک کے طور پر صرف اسی صورت میں تسلیم کریں گے جب یہ کسی جامع امن معاہدے کے فریم ورک کے تحت ہو۔
یہ موقف اس وقت بدلنا شروع ہوا، جب فرانس فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے ارادے کا اعلان کرنے والا جی سیون کا پہلا ملک بن گیا۔ کینیڈا، مالٹا اور آسٹریلیا نے بھی اس کی پیروی کی۔
یورپی کونسل برائے خارجہ تعلقات کے سینئر پالیسی فیلو اور مشرق وسطیٰ کے امور کے ماہر ہیو لوواٹ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ دیگر یورپی ممالک بھی فرانس کے ساتھ شامل ہو کر فلسطینی ریاست کو تسلیم کر سکتے ہیں۔
انہوں نے بیلجیم، ڈنمارک، لکسمبرگ اور ممکنہ طور پر پرتگال کا ایسے ممالک کے طور پر ذکر کیا، جو یہ قدم اٹھا سکتے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ جرمنی، جو یورپی یونین میں اسرائیل کے سب سے بڑے حامیوں میں سے ایک ہے، کا موجودہ موقف بدلنے کا امکان نہیں نظر آتا۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یہ بات تو درست ہے کہ کسی امکان کو ہمیشہ کے لیے مسترد نہیں کیا جا سکتا، لیکن میرا خیال ہے کہ جرمنی نے یہ بالکل واضح کر دیا ہے کہ وہ فلسطین کو تسلیم کرنے والے سب سے آخری ممالک میں شامل ہو گا۔‘‘
ادارت: مقبول ملک
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے فلسطینی علاقوں کو ایک ریاست کے طور پر تسلیم فلسطینی ریاست کو اقوام متحدہ کی کو تسلیم کر تسلیم کرنے فلسطین کو ممالک نے کے ساتھ شامل ہو کر دیا کے لیے نے بھی اور اس
پڑھیں:
آسٹریلیا کا بڑا فیصلہ: اگلے ماہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان
آسٹریلیا کے وزیرِاعظم انتھونی البانیز نے اعلان کیا ہے کہ آسٹریلیا ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ دو ریاستی حل کے فروغ اور مشرقِ وسطیٰ میں تشدد کے خاتمے کے لیے اہم قدم ہے۔
انتھونی البانیز کے مطابق، فلسطینی اتھارٹی نے اس فیصلے کے بدلے کئی وعدے کیے ہیں، جن میں حماس کو مستقبل کی ریاست سے الگ رکھنا، اسرائیل کے پرامن وجود کو تسلیم کرنا، غیر مسلح ہونا، عام انتخابات کرانا، شہدا و قیدیوں کے خاندانوں کو ادائیگیاں ختم کرنا، گورننس میں اصلاحات، تعلیمی و مالی شفافیت، اور عالمی نگرانی کی اجازت شامل ہیں تاکہ نفرت اور تشدد کی ترغیب روکی جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ یہ موقع فلسطینی عوام کو اس انداز میں حقِ خود ارادیت دینے کا ہے جو حماس کو مکمل طور پر خطے سے باہر کر دے۔
اس فیصلے کو عرب لیگ کے حالیہ مطالبے سے بھی تقویت ملی ہے جس میں حماس سے کہا گیا تھا کہ وہ غزہ میں حکمرانی چھوڑ کر ہتھیار فلسطینی اتھارٹی کے حوالے کرے۔