مسابقتی کمیشن طاقتور شوگرمافیا کے سامنے بے بس‘سماعت موخرکردی
اشاعت کی تاریخ: 4th, August 2025 GMT
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔04 اگست ۔2025 )مسابقتی کمیشن نے چینی مافیا کیس کی سماعت 70 شوگر ملز کے وکلا کی درخواست پر اگلے مہینے تک موخر کر دی گئی ہے نجی ٹی وی کے مطابق 70 سے زائد شوگر ملز نے سماعت موخر کرنے کی درخواست دی تھی جس پر مسابقتی کمیشن نے سماعت22ستمبر تک ملتوی کرنے کی منظوری دیدی التوا کی درخواستوں میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ کی کی تعطیلات کے باعث سماعت ملتوی کی جائے جبکہ50 سے زائد ملوں نے ٹربیونل کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں بھی اپیل دائر کر دی ہے.
(جاری ہے)
مسابقتی کمیشن نے کہا کہ انصاف کے تقاضے پورے کرنے کی غرض سے ایک بار سماعت ملتوی کی جاتی ہے مزید تاخیر یا التوا نہیں دیا جائے گا کیس کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر کی جائے گی ٹربیونل نے کمپٹیشن کمیشن کو کیس کی دوبارہ سماعت کرنے کا حکم دیا تھا دوسری جانب تحریک تحفظِ آئین پاکستان نے شوگر اسکینڈل پر چیف جسٹس پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی کو خط لکھ کر شوگر اسکینڈل پر ازخود نوٹس لینے کا مطالبہ کیاہے. خط میں چیف جسٹس سے شوگر اسکینڈل پر تحقیقاتی کمیشن تشکیل دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے خط میں کہا گیا ہے کہ شوگر اسکینڈل میں عوام سے اربوں لوٹ لیے گئے، حکومت میں موجود چند خاندانوں کا بالواسطہ شوگر انڈسٹری سے تعلق ہے خط میں کہا گیا کہ یہ مفادات کے ٹکراو¿ اور ذاتی کاروباروں کو فائدہ دینے کی بدترین مثال ہے چیف جسٹس کو خط محمود خان اچکزئی، علامہ راجہ ناصر عباس، اسد قیصر اور مصطفیٰ نواز کھوکھر کی جانب سے لکھا گیا ہے. واضح رہے کہ مسابقتی کمیشن (سی سی پی) نے پریس ریلیز میں بتایاہے کہ 70 سے زائد شوگر ملز نے سماعت موخر کرنے کی درخواست کی تھی ملوں نے مو¿خر کرنے کی درخواست میں موقف اپنایا کہ وہ سپریم کورٹ کی تعطیلات کے باعث پیش نہیں ہو سکیں گی مزید یہ کہ 50 سے زائد ملز نے کمپٹیشن اپیلٹ ٹربیونل (سی اے ٹی) کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیلیں بھی دائر کر رکھی ہیں. جولائی میں سی سی پی نے پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن (پی ایس ایم اے) اور اس کی رکن ملز کو شوکاز نوٹسز کے معاملے میں دوبارہ سماعت کے لیے طلب کیا تھا شوگر مل مافیا کے خلاف مسطابقتی کمیشن میں سال2010اور 2020 کی شکایات پر سماعتیں ابھی تک مکمل نہیں کی جاسکیں اور عام تاثر پایا جاتا ہے کہ ملک کے طاقتور ترین شوگر مل مالکان کے خلاف ماضی کی طرح اب بھی کوئی کاروائی نہیں کی جاسکے گی . ماضی میں اعلی عدالتوں کے ازخود نوٹس بھی شوگر مل مالکان کے حق میں رہے سال2009میں چینی کی خوردہ قیمت 30روپے کلو تک تھی اور اسی سال چینی کے بحران کے خلاف ملک کی اعلی ترین عدالت کے ازخود نوٹس کے بعد حکومت اور شوگر مل مالکان نے” مشاورت“ سے چینی کی قیمت40روپے کلو طے کی جس کے بعد چینی کی قیمت میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا گیااسی طرح کوکنگ آئل اور گھی کی قیمت 140روپے فی لیٹریا کلو گرام تک تھی جو آج 570روپے فی لیٹریا کلو گرام ہے اور بنیادی ضرورت کی اشیاءکی قیمتوں میںہزاروں گنا اضافے کو مسابقتی کمیشن اور اعلی عدلیہ کے نوٹس لینے سے قانونی تحفظ ملا. مسابقتی کمیشن نے پی ایس ایم اے اور ملز پر کارٹیل بنانے اور غیر منصفانہ کاروباری طرزعمل کا الزام عائدکیا تھا تاہم سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس نے کمیشن کو فیصلے سے روک دیا اور برسوں سے یہ مقدمات سرد خانوں میں پڑے ہیں رواں سال جاری ہونے والے نوٹس پر سماعتیں 4، 5، 6 اور 7 اگست 2025 کو ہونا تھیں سی سی پی کے مطابق یہ نوٹس سی اے ٹی کے 21 مئی 2025 کے فیصلے کی تعمیل میں جاری کیے گئے تھے جس میں ہدایت دی گئی تھی کہ کیس کی دوبارہ سماعت کمیشن کے ایسے چیئرمین یا رکن کریں جو پہلے متنازع رائے کا حصہ نہ رہے ہوں ٹربیونل نے یہ بھی ہدایت کی تھی کہ کیس کو ممکنہ طور پر 90 دن کے اندر نمٹا دیا جائے. یاد رہے کہ سی سی پی نے 2021 میں پی ایس ایم اے اور اس کی رکن ملز پر مسابقتی قوانین کی خلاف ورزی پر تقریباً 44 ارب روپے کا جرمانہ عائد کیا تھا تاہم یہ فیصلہ کمپٹیشن اپیلٹ ٹربیونل میں چیلنج کر دیا گیا کمپٹیشن اپیلٹ ٹربیونل نے چار رکنی بینچ میں 2-2 کی برابری کی صورت میں اس وقت کی چیئرپرسن کی کاسٹنگ ووٹ کے استعمال کو غیرقانونی قرار دیتے ہوئے حکم کالعدم قرار دے دیا. سی سی پی نے کہا کہ جاری کردہ نئے نوٹسز کے ذریعے تمام فریقین کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اپنے نمائندے مقرر کریں اور متعلقہ شواہد اور مواد کے ساتھ سماعت میں شریک ہوں بزنس ریکارڈر کے مطابق سی سی پی نے اکتوبر 2020 میں ایک تفصیلی انکوائری کے ذریعے شوگر انڈسٹری میں کارٹیل کی نشاندہی کی جس میں یہ انکشاف ہوا کہ پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن (پی ایس ایم اے) 2010 سے کارٹیلائزیشن کی قیادت کرتی آئی ہے انکوائری رپورٹ میں کہا گیا کہ چینی کے بحران اور قیمتوں میں اضافے کے پسِ پردہ وجوہات کی جانچ کرتے ہوئے یہ معلوم ہوا کہ ملز پی ایس ایم اے کے پلیٹ فارم پر اجتماعی فیصلے کر رہی تھیں، خاص طور پر چینی کی برآمدات کو قیمتوں کے استحکام یا کنٹرول کے آلے کے طور پر استعمال کرنے کا. رپورٹ میں کہا گیا کہ چینی کی قیمتوں میں اضافے کی بنیادی وجہ چینی کے ذخائر سے متعلق غلط معلومات فراہم کرنا تھا جس سے چینی کی درآمد میں تاخیر کا فیصلہ ہوا اور یوں جولائی تا ستمبر 2020 کے دوران چینی کی قیمت میں فی کلو 11.6 روپے کا اضافہ ہوا سی سی پی کے پاس موجود شواہد کے مطابق صرف 2019 میں چینی کی برآمد کے باعث مقامی مارکیٹ میں اس کی قیمت میں فی کلو 18 روپے کا اضافہ ہوا جبکہ شوگر مالکان کو 40 ارب روپے کا اضافی منافع حاصل ہوا اس کے علاوہ حکومت نے انہیں 29.22 ارب روپے کی سبسڈی بھی دی رپورٹ کے مطابق پی ایس ایم اے اور جے ڈی ڈبلیو شوگر ملز پر چھاپوں کے دوران حاصل کردہ شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ غیر مسابقتی سرگرمیاں 2010 سے جاری ہیں.
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے مسابقتی کمیشن نے میں کہا گیا کہ پی ایس ایم اے چینی کی قیمت کی درخواست سی سی پی نے سپریم کورٹ شوگر ملز کے مطابق روپے کا شوگر مل کرنے کی کے خلاف کیس کی
پڑھیں:
قلت جاری ‘ ذخیرہ اندوز شوگرڈیلرز کے خلاف مقدمات کریک ڈائون کے احکامات
اسلام آباد؍ لاہور (نمائندہ خصوصی+ نوائے وقت رپورٹ+ کامرس رپورٹر) حکومت چینی کی قیمت 173 روپے کلو کر کے بھول گئی۔ ملک بھر میں حکومت کے مقرر کردہ نرخ پر عوام کو چینی دستیاب نہیں، کئی شہروں میں چینی کی قلت کے باعث شہری 180سے 195 روپے فی کلو خریدنے پر مجبور ہیں۔ کراچی کے مختلف علاقوں میں ریٹیل میں چینی کی فی کلو 190 روپے میں فروخت جاری ہے۔ لاہور کے بازاروں سے چینی ہی غائب ہونے لگی۔ دکانوں پر 173 روپے کے ریٹ ضرور درج ہیں مگر چینی دستیاب نہیں۔ اس حوالے سے لاہور میں دکانداروں کا کہنا ہے کہ اکبری منڈی سے چینی کی سپلائی کئی روز سے بند پڑی ہے۔ وہ چینی کہاں سے لا کر بیچیں۔ اکبری مارکیٹ کے تاجروں کاکہنا ہے کہ شوگر ملوں کی طرف سے چینی فروخت ہی نہیں کی جا رہی۔ شوگر ڈیلرز نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ آنے والے دنوں میں چینی کی قیمت اور قلت میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ لاہور کے بازاروں میں چینی اس وقت بھی 180 اور 190 روپے فی کلو کے درمیان فروخت ہو رہی ہے۔ ادھر اسلام آباد کے بازاروں میں بھی چینی 195روپے فی کلو میں فروخت کی جا رہی ہے۔ پنجاب میں چینی مقرر کردہ نرخوں سے زائد پر بیچنے والوں کیخلاف کریک ڈاؤن کا سلسلہ جاری ہے۔ پرائس کنٹرول کمیٹیوں نے گزشتہ 24گھنٹوں کے دوران صوبے بھر میں 149 افراد گرفتار کر کے 27 کیخلاف مقدمات درج کر دئیے، 2 ہزار 665 افراد کو جرمانے بھی کئے گئے۔ دوسری جانب حکومت نے مزید 2 لاکھ ٹن چینی درآمد کرنے کا آرڈر دے دیا۔ ترجمان فوڈ سکیورٹی کے مطابق چینی کے 19 لاکھ ٹن ذخائر کو قبضے میں لے لیا گیا۔ کرشنگ کرنے کی صورت میں 3 کی بجائے 5 لاکھ ٹن چینی کی درآمد کا پلانٹ بنایا گیا ہے۔ درآمد شدہ چینی کی پہلی شپمنٹ ستمبر کے اوائل میں پاکستان پہنچے گی۔ ترجمان کا کہنا تھاکہ بین الاقوامی مارکیٹ میں خریداری کے وقت کامیابی سے ڈسکاؤنٹ بھی حاصل کیا گیا ہے۔ وفاقی حکومت نے صوبائی حکومتوں کو ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کارروائی اور خفیہ سٹاک کا پتا لگانے کی ہدایات جاری کر دیں۔ وفاقی حکومت نے ذخیرہ اندوزی میں ملوث ڈیلروں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا بھی حکم دے دیا۔ علاوہ ازیں حکومت نے شوگر ملز کو نومبر کے پہلے ہفتے کرشنگ شروع کرنے کی ڈیڈ لائن دے دی ہے۔ دریں اثناء لاہور میں ضلعی انتظامیہ کے اہلکار شوگر ملوں سے 165روپے کلو چینی لے کر بیکریوں، مٹھائی، مشروبات و دیگر کاروباری شعبوں کو مہنگے داموں فروخت کر کے اپنی جیبیں بھرنے لگے۔ موجودہ چینی کی حکومتی پالیسی کا غلط اور ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے سرکاری محکموں میں شامل فوڈ اور ریونیو کے اہلکار شوگر ملوں سے سرکاری نرخ 165 روپے فی کلو کے حساب سے روزانہ ہزاروں ٹن چینی حاصل کر کے عام غریب عوام کو فراہمی کی بجائے اپنے من پسند اور چہیتے کاروباری افراد کو بیچ رہے ہیں۔ پچھلے ادوار میں انہی محکموں کے کرپٹ اہلکار گندم کے خریداری مراکز پر اسی طرح کے ہتھکنڈوں سے بھرپور کرپشن کیا کرتے تھے۔