Express News:
2025-09-26@21:56:13 GMT

تاریخ کے وارث یا مجرم

اشاعت کی تاریخ: 11th, August 2025 GMT

یہاں عروج کی گونج بھی محفوظ ہے اور زوال کی کراہیں بھی دفن ہیں۔ یہاں وقت کے قدموں کی چاپ بھی سنائی دیتی ہے اور تقدیر کے بھنور میں گم داستانوں کی سرگوشیاں بھی۔ تاریخ انسانی کے سینے میں وہ سیکڑوں، ہزاروں کہانیاں دفن ہیں جنہیں کبھی مورخ نے لکھا، کبھی فاتح نے مٹایا، اور کبھی مٹی نے خود اپنے سینے میں چھپا لیا۔ یہ کہانیاں صرف ماضی کی گرد میں لپٹی یادیں نہیں۔ یہ وہ زندہ سائے ہیں، جو آج بھی ہمارے اطراف منڈلاتے ہیں، ہمیں پکار پکار کر کچھ سمجھانا چاہتے ہیں، بس ہم ہیں کہ سنتے نہیں۔

 ذرا نظر دوڑائیں تو کہیں روم کے عالی شان سینیٹ یا کیوریا جولیا میں سنگ مرمر کے ستونوں تلے بیٹھے سینیٹرز طاقت اور اختیار کے فلسفے پر تلخ بحثوں میں الجھے نظر آتے ہیں، تو کہیں قدیم ایتھنز میں ایکروپولس کے پہاڑی علاقے کے نزدیک پاتھنوں کے عبادت خانے میں ایتھنا کے سامنے جھکے پجاری جو یونانی دیوی کو اپنی قسمت سونپتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ایک منظر میں چنگیز خان منگولوں کے یاک کی نو دُموں والے علم کے سائے تلے اپنے بیٹوں کو ایک سانپ کی تمثیل کے ذریعے اتحاد کا درس دے رہا ہے تو دوسرے میں مغل سلطنت کا معمار بابر ایک باپ کی بے بسی اوڑھے ہمایوں کے بستر کے گرد یوں چکر لگا رہا ہے گویا اپنی جان اپنے وارث کے لیے کسی اَن دیکھے دربار میں گروی رکھ چکا ہو۔

دوسری طرف، سلطنت عثمانیہ کے بانی عثمان اول درویش شیخ ادیبالیس کے روبرو بیٹھا اپنے اس خواب کی تعبیر تلاش کر رہا ہے جس میں چاند اس کے سینے میں اترتا ہے اور پھر ایک ایسا درخت اُگاتا ہے جس کی شاخیں تمام دنیا پر سایہ فگن ہوجاتی ہیں تو کہیں فارس کا نوجوان شہزادہ سائرس اعظم، آنثان کے تخت پر بیٹھا دنیا کی سلطنت کو مٹھی میں لینے کے خواب بن رہا ہے۔ کہیں مدینے کی گلیوں میں صدیقؓ کا صبر، فاروقؓ کی عدالت، عثمانؓ کی حیاء اور علیؓ کی جرأت رب کی رضا کے سفر میں تاریخ کے سب سے روشن باب رقم کر رہے ہیں تو کہیں بیبرس، بہ طور سپاہ سالار، پہلی بار منگولوں کے قدم روک کر عالمِ اسلام کے ماتھے پر تحفظ کی لکیر کھینچتا دکھائی دیتا ہے، میدانِ بیت المقدس میں فتح کے جھنڈے تلے رحم اور عظمت کی چادر اوڑھے سلطان صلاح الدین ایوبی نمودار ہوتا نظر آتا ہے تو کسی منظر میں شیر میسور ٹیپو سلطان اپنے لہو سے وفاداری لکھنے کو تیار کھڑا ہے۔

یہ داستانیں فقط فتوحات کی نہیں بلکہ اطاعت کی بھی ہیں، کیوںکہ زندگی کی اصل اس کی تمام تر معنویت، اطاعت کے دامن میں ہی پنہاں ہے۔ چاہے وہ اطاعت رب کی ہو، بندوں کی ہو یا حکم رانوں کی اور اطاعت کا یہ دریا صرف دو چشموں سے پھوٹتا ہے۔ محبت اور خوف۔ یہ جو گم نامی کی دھول سے اٹھ کر پہاڑوں کو سرنگوں کرنے والے کردار تھے، ان کی عظمت کا راز ان کی تلوار کی جھنکار میں نہیں بلکہ اس حکمت و دانائی میں تھا جس نے معاشروں کو وہ نظام عطا کیا جہاں رعایا حکم راں کی محبت میں جھکتی تھی اور قانون کے رعب سے سنبھلتی تھی۔ ان کے نظام میں صرف حکم نہیں تھا، اس میں یقین، وابستگی اور ایک ایسا تعلق تھا جو زبردستی نہیں بلکہ فطری طور پر دلوں میں گھر کر جاتا تھا۔

لیکن افسوس جب وہ عظیم لوگ رخصت ہوئے اور ان کے جانشین مسندِاقتدار پر جلوہ افروز ہوئے تو وہ اس راز کو بھول بیٹھے۔ نشۂ اقتدار نے ان کی بصیرت کو دھندلا دیا، اور انہوں نے ریاست کو صرف قانون کی زنجیروں سے باندھنے کی سعی کی۔ وہ یہ نہ جان سکے کہ جس ریاست سے محبت کا رشتہ منقطع ہوجائے وہاں قانون صرف خوف پیدا کرتا ہے، وفاداری نہیں۔ اور پھر وہی ہوا جو ہمیشہ ہوتا آیا ہے۔ قانون کی چھڑی سے چلنے والی سلطنتیں وقت کی گرد میں دفن ہوگئیں۔ نہ وہ وقار باقی رہا، نہ وہ نظام، اور نہ ہی وہ نام جو کبھی تاریخ کے ہر صفحے پر رقم ہوتے تھے۔

مذہب کی حکمت انسان کی انفرادی بدکرداری کو روزِمحشر کے ترازو پر تولا کرتی ہے مگر فطرت کو انتظار کی عادت نہیں۔ وہ قوموں کے اجتماعی گناہوں کا حساب یہیں اسی دنیا میں چُکتا کرتی ہے۔ تاریخ کے مزار میں دفن ہر عظیم قوم کے تابوت پر ایک مشترک نوحہ کندہ ہے ’’ہم نے خود اپنے چراغ بجھا دیے‘‘ اور جب ان قوموں کے زوال کا وقت آیا تو ان کے گلی کوچے ظلم و زیادتی سے آلودہ تھے، فضا میں حسدوحرص کی بدبو تھی، ادارے مفاد پرستی کی دلدل میں دھنستے جا رہے تھے اور بستیوں میں منشیات کے اڈے، ہوس کی منڈیاں، شراب خانے، جوئے کے ٹھکانے، زنا کے بازار، چوراہوں پر ڈکیتی، گلیوں میں قتل، عدالتوں میں رشوت، مسجدوں کے قریب سود کی چمکتی عمارتیں، دلوں میں جھوٹ، زبانوں پر خوشامد، چہروں پر دوغلاپن، بازاروں میں ملاوٹ، ناپ تول میں خیانت، دفاتر میں بدعنوانی اور رشوت ستانی، اور ہر دل میں ایک خودغرض ’’میں‘‘ کا شور سنائی دیتا تھا۔

یہی تنہائی اور یہی زہر پھر راستہ بناتی ہے اُن آسیبوں کے لیے جو نظام پر قابض ہوجاتے ہیں۔ میرٹ دفن ہو جاتا ہے، اور اقتدار اُن کے ہاتھ آتا ہے جو بددیانتی میں سب سے آگے ہوں۔ ان کے لیے قومیت ایک جھنڈا نہیں بلکہ کاروبار اور مذہب ایک عقیدہ نہیں بلکہ اشتہار بن جاتا ہے۔ یوں برائی کے کارندے مذہب و قومیت کا لبادہ اوڑھ کر سیاست کی تجارت کرتے ہیں۔ سیاسی کرپشن تلوار بن جاتی ہے۔

اختلاف دفن، اور گونگے تاج دار تخت پر بٹھا دیے جاتے ہیں جن کے ذہنوں میں تاریکی بسی ہوتی ہے۔ ریاست عوام کے زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے ترقی کے نام پر سرابوں کا تعاقب کرتی ہے۔ خوف کو امید کے ریشمی کاغذ میں لپیٹ کر خوب بیچا جاتا ہے۔ سچائی بے وقوفی کہلاتی ہے، جھوٹ ذہانت، رشوت روزمرہ کا معمول اور دیانت داری بے وقوفی۔ اعتبار کی جڑیں بے یقینی کاٹتی ہے، افواہیں اجتماعی مشغلہ بن جاتی ہیں، اور کل کیا ہوگا، جیسے سوال وقتی سکون کی چادر تلے دب جاتے ہیں۔ منصوبے ضرور بنتے ہیں مگر ان کی پرواز کاغذوں اور تقریروں سے آگے نہیں بڑھ پاتی اور جب قومیں صرف نعروں میں زندہ رہنے لگتی ہیں تو فطرت بے آواز مگر فیصلہ کن انداز میں مداخلت کرتی ہے۔ پھر ایسی قومیں صرف تاریخ کی ایک سطر بن کر رہ جاتی ہیں پڑھنے کے قابل، مگر پلٹنے کے لائق نہیں۔

تاریخ تو ہمیشہ ہمیں آئینہ دکھانے کی کوشش کرتی ہے۔ ہر ورق پر ایک چیخ اور ہر واقعے میں ایک نصیحت پوشیدہ ہوتی ہے مگر یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ ہم نے اسے کبھی سنجیدگی سے سننے کی زحمت ہی نہیں کی۔ ہم نے تاریخ کو استاد نہیں، افسانہ گو سمجھا۔ اس کی صدائیں نہیں سنیں بس اس کے سائے میں دل بہلانے کے افسانے تراشتے رہے۔ شاید یہی وہ ہنر ہے جو ہمیں خوب آتا ہے۔ سبق سے گریز اور تسلیوں سے رفاقت۔ اور افسوس یہ ہنر شاید ہمیشہ ہمارے ساتھ رہے گا کہ تاریخ کا سب سے بڑا سبق یہی ہے، کوئی بھی تاریخ سے سبق نہیں سیکھتا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: نہیں بلکہ تاریخ کے کرتی ہے تو کہیں رہا ہے

پڑھیں:

بھارت کا سیکولر چہرہ ہندوتوا انتہا پسندی کی نئی شکل

پروفیسر شاداب احمد صدیقی

 

بھارت کے مسلمان پاکستان کے خلاف زہر اُگلنے اور ہرزہ سرائی کر کے جتنی بھی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کر لیں لیکن اپنی وفاداری ثابت نہیں کر سکتے ۔بھارت کے مسلمان اور وہاں کا نام نہاد مسلم رہنما اسد الدین اویسی زہریلا انسان ہے اور مودی کا ایجنٹ ہے بہت فخریہ انداز میں دو قومی نظریہ کی مخالفت کرتا ہے ۔اپنے آپ کو محب وطن بھارتی کہتا ہے لیکن آج تک مسلمانوں کے حقوق اور ہندوتوا سوچ سے آزادی نہیں دلا سکا۔صرف میڈیا پر بھاشن جھاڑتا ہے ۔بھارت کے مولوی بھی دوغلے ہیں ۔یہ پاکستان مخالفت میں اسلام کی غلط تشریح کرتے ہیں، ان کا ایجنڈا بھی پاکستان مخالف بیانیہ ہے ۔اسی وجہ سے بھارتی متعصب ہندو لیڈروں اور تنظیموں کی وجہ سے وہاں شر پھیلاتا ہے ۔گزشتہ دنوں ایسا ہی واقعہ رونما ہوا جس کی وجہ سے پوری دنیا کے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے ۔
بھارت میں( I Love Muhammad) کے جملے نے جس تیزی سے ایک تحریک کی شکل اختیار کی ہے ، وہ محض نبی کریم ۖ سے محبت اور عقیدت کا اظہار تھا مگر اس نے ملک کے سیاسی، سماجی اور مذہبی منظرنامے کو ہلا کر رکھ دیا ہے ۔ ابتداء ایک سادہ سی کارروائی سے ہوئی جب اُتر پردیش کے شہر کنپور کے علاقے راوت پور میں عید میلاد النبی ۖ کے جلوس کے دوران ایک برقی بورڈ پر I Love Muhammad تحریر نمایاں کی گئی۔ مقامی پولیس اور انتظامیہ نے اسے نئی روایت قرار دیتے ہوئے مخالفت کی اور کچھ افراد کے خلاف مقدمات درج کیے ۔ پولیس نے دعویٰ کیا کہ اس طرح کی علامتی اشیاء پہلے کبھی جلوس کے روایتی راستے پر استعمال نہیں کی گئیں اور اس سے فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا ہو سکتی ہے ۔ یہی وہ لمحہ تھا جب ایک محبت بھرا پیغام تنازع کا شکار ہو کر پورے ملک میں پھیل گیا۔کنپور کے بعد یہ معاملہ صرف ایک شہر تک محدود نہ رہا بلکہ جلد ہی اتر پردیش کے دیگر اضلاع جیسے انّاؤ، کاوشامبی، مہرّاج گنج، بَرے لی اور لکھنؤ تک پھیل گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ تلنگانہ کے دارالحکومت حیدرآباد، مہاراشٹر کے شہر ناگ پور اور اتراکھنڈ کے کاشی پور میں بھی یہی نعرہ بلند ہوا۔ جگہ جگہ مسلمان نوجوان اور مذہبی تنظیمیں بینرز لے کر سڑکوں پر نکل آئے ۔ ان کا مؤقف یہی تھا کہ یہ ان کا آئینی اور مذہبی حق ہے کہ وہ اپنے نبی ۖ سے محبت کا اظہار کریں اور اس پر کوئی قدغن نہیں لگائی جا سکتی۔دوسری طرف متعصب ہندو تنظیموں کا ردعمل انتہائی سخت اور جارحانہ تھا۔ انہوں نے اسے ایک نئی روایت قرار دے کر مخالفت شروع کر دی۔ بعض جگہوں پر ہندو انتہا پسند گروپوں نے بینرز کو پھاڑنے اور جلوس روکنے کی کوششیں کیں۔ کنپور میں ایک ہندوتوا تنظیم نے کھلم کھلا ایک بورڈ توڑ ڈالا لیکن اس کے باوجود پولیس نے کارروائی مسلمانوں کے خلاف ہی کی اور ایف آئی آر میں صرف ان کے نام درج کیے گئے ۔ ان گروپوں کا دعویٰ تھا کہ ایسی نئی روایات جلوسوں میں شامل کرنا سماجی امن کو نقصان پہنچا سکتا ہے ۔ یوں یہ معاملہ فرقہ وارانہ کشیدگی کی شکل اختیار کر گیا اور ملک کے مختلف حصوں میں احتجاجی مظاہرے دیکھنے میں آئے ۔
اس تحریک میں کئی مسلم سیاسی رہنما اور جماعتیں بھی سامنے آئیں۔ آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اسد الدین اویسی نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ I Love Muhammad کہنا کسی بھی صورت جرم نہیں ہے ، یہ محض ایک جذباتی اظہار ہے اور اس پر ایف آئی آر کاٹنا غیر آئینی اور امتیازی رویہ ہے ۔ سماج وادی پارٹی کے رہنماؤں نے بھی اس اقدام کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ پولیس اور انتظامیہ مسلمانوں کو بلاوجہ ہراساں کر رہی ہے اور ان کے بنیادی حقوق پامال کیے جا رہے ہیں۔ صوفی تنظیموں اور مذہبی اداروں جیسے ورلڈ صوفی فورم اور جماعت رضا مصطفی نے بھی اپنے بیانات میں واضح کیا کہ مسلمانوں کا یہ اظہار پرامن ہے اور اسے روکنے کی بجائے اس کا احترام کیا جانا چاہیے ۔ ساتھ ہی انہوں نے اپنے ماننے والوں کو صبر اور تحمل کا دامن تھامنے کی تلقین کی تاکہ کسی طرح کا تشدد یا انتشار نہ پھیلے ۔ادھر بی جے پی اور ریاستی حکومتوں کا مؤقف اس کے برعکس رہا۔ ان کا کہنا ہے کہ جلوس اور مذہبی تقریبات میں نئی چیزیں شامل کرنا سماجی ہم آہنگی کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے اور اس پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو کارروائی کا حق ہے ۔ بی جے پی کے کئی رہنماؤں نے اسے امن و امان کا مسئلہ قرار دیا اور کہا کہ ریاستی حکومتیں صرف اپنا آئینی فرض ادا کر رہی ہیں۔مرکزی حکومت یعنی مودی سرکار نے اگرچہ اس معاملے پر کھلا بیان دینے سے گریز کیا لیکن اس کا عمومی مؤقف یہی رہا کہ ریاستی حکومتیں اپنے دائرہ کار میں قانون کے مطابق کارروائیاں کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایف آئی آر میں اصل اعتراض بینر کے الفاظ پر نہیں بلکہ جلوس میں نئی روایت شامل کرنے پر تھا۔ تاہم اس وضاحت نے مسلمانوں کو مطمئن نہیں کیا بلکہ ان کے خدشات کو مزید بڑھا دیا کہ حکومت دراصل تعصب کا شکار ہے اور اقلیتوں کو اپنے عقیدے کے اظہار کا حق نہیں دیا جا رہا۔یہ تمام صورتحال بھارت کے آئین میں درج مذہبی آزادی اور اظہار رائے کے حق کو سوالیہ نشان بنا رہی ہے ۔
ایک طرف مسلمان پرامن طریقے سے اپنے نبی ۖ سے محبت کا اظہار کر رہے ہیں تو دوسری طرف انتظامیہ اسے جرم بنا کر پیش کر رہی ہے۔ اگر ریاست اس قدر امتیازی رویہ اپنائے گی تو یہ تحریک محض ایک نعرے تک محدود نہیں رہے گی بلکہ ایک بڑے سیاسی اور سماجی دباؤ میں بدل جائے گی۔ اس وقت بھارت کو دراصل سب سے زیادہ ضرورت مذہبی رواداری اور یکجہتی کی ہے ۔ اگر ہر طبقہ دوسرے کے جذبات کا احترام کرے تو ایسے تنازعات جنم ہی نہ لیں۔
آخر میں یہ بات واضح ہے کہ I Love Muhammad تحریک صرف ایک بینر یا بورڈ نہیں بلکہ کروڑوں مسلمانوں کے دل کی آواز ہے ۔ اس آواز کو دبانے کی کوشش دراصل ایک ایسی چنگاری کو ہوا دینا ہے جو ملک کے سماجی تانے بانے کو نقصان پہنچا سکتی ہے ۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اس تحریک کو تعصب کی عینک سے دیکھنے کے بجائے اسے ایک پرامن مذہبی اظہار سمجھے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ انتظامیہ ایف آئی آر واپس لے ، مسلمانوں کے بنیادی حقوق کا احترام کرے اور متعصب عناصر کو قابو میں کرے ۔ عوام کو بھی چاہیے کہ صبر اور تحمل کا مظاہرہ کریں اور احتجاج کو پرامن رکھیں تاکہ مخالفین کو الزام تراشی کا کوئی موقع نہ ملے ۔ اگر بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو یہ معاملہ مزید شدت اختیار کر سکتا ہے اور بھارت کی سیکولر شناخت پر ایک بڑا سوال کھڑا ہو سکتا ہے ۔ بھارتی مسلمان ذہنی غلامی سے ابھی تک آزاد نہیں ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں کے متعصب ہندو ان کو مذہبی دباؤ میں رکھتے ہیں۔بھارت کے مسلمان اور وہاں کے مسلم رہنما پاکستان کی فکر چھوڑیں اور اپنے حقوق کے حصول مسائل پر توجہ دیں۔
٭٭٭

متعلقہ مضامین

  • فلسطینیوں کا خون بہہ رہا ہے،نہ تاریخ معاف کرے گی نہ آنے والی نسلیں، بنگلا دیشی صدر
  • غزہ کیلیے کچھ نہ کرنے پر تاریخ اور آئندہ نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی؛ بنگلادیش
  • ’’عورت کی کمائی میں برکت نہیں‘‘؛ صائمہ قریشی اپنے بیان پر ڈٹ گئیں
  • جہاں کچھ بھی محفوظ نہ ہو
  • کراچی، را سے تعلق، بارودی مواد رکھنے پر مجرم کو 114 سال قید کی سزا
  • کراچی: بارودی مواد رکھنے کا جرم ثابت ہونے پر مجرم کو 114 سال قید کی سزا
  • پہلی بیوی سے اجازت لئے بغیر دوسری شادی کرنے والے شوہرکی سزا کے خلاف اپیل مسترد
  • بھارت کا سیکولر چہرہ ہندوتوا انتہا پسندی کی نئی شکل
  • آن لائن گیم کھیلتے والدہ، بھائی، 2 بہنوں کے قاتل کو 100 سال قید کی سزا سنادی گئی
  • لاہور: پب جی گیم کھیلتے ہوئے والدہ، بھائی اور 2 بہنوں کو قتل کرنے والے مجرم کو 100 سال قید کی سزا