Express News:
2025-08-11@22:07:18 GMT

تاریخ کے وارث یا مجرم

اشاعت کی تاریخ: 11th, August 2025 GMT

یہاں عروج کی گونج بھی محفوظ ہے اور زوال کی کراہیں بھی دفن ہیں۔ یہاں وقت کے قدموں کی چاپ بھی سنائی دیتی ہے اور تقدیر کے بھنور میں گم داستانوں کی سرگوشیاں بھی۔ تاریخ انسانی کے سینے میں وہ سیکڑوں، ہزاروں کہانیاں دفن ہیں جنہیں کبھی مورخ نے لکھا، کبھی فاتح نے مٹایا، اور کبھی مٹی نے خود اپنے سینے میں چھپا لیا۔ یہ کہانیاں صرف ماضی کی گرد میں لپٹی یادیں نہیں۔ یہ وہ زندہ سائے ہیں، جو آج بھی ہمارے اطراف منڈلاتے ہیں، ہمیں پکار پکار کر کچھ سمجھانا چاہتے ہیں، بس ہم ہیں کہ سنتے نہیں۔

 ذرا نظر دوڑائیں تو کہیں روم کے عالی شان سینیٹ یا کیوریا جولیا میں سنگ مرمر کے ستونوں تلے بیٹھے سینیٹرز طاقت اور اختیار کے فلسفے پر تلخ بحثوں میں الجھے نظر آتے ہیں، تو کہیں قدیم ایتھنز میں ایکروپولس کے پہاڑی علاقے کے نزدیک پاتھنوں کے عبادت خانے میں ایتھنا کے سامنے جھکے پجاری جو یونانی دیوی کو اپنی قسمت سونپتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ایک منظر میں چنگیز خان منگولوں کے یاک کی نو دُموں والے علم کے سائے تلے اپنے بیٹوں کو ایک سانپ کی تمثیل کے ذریعے اتحاد کا درس دے رہا ہے تو دوسرے میں مغل سلطنت کا معمار بابر ایک باپ کی بے بسی اوڑھے ہمایوں کے بستر کے گرد یوں چکر لگا رہا ہے گویا اپنی جان اپنے وارث کے لیے کسی اَن دیکھے دربار میں گروی رکھ چکا ہو۔

دوسری طرف، سلطنت عثمانیہ کے بانی عثمان اول درویش شیخ ادیبالیس کے روبرو بیٹھا اپنے اس خواب کی تعبیر تلاش کر رہا ہے جس میں چاند اس کے سینے میں اترتا ہے اور پھر ایک ایسا درخت اُگاتا ہے جس کی شاخیں تمام دنیا پر سایہ فگن ہوجاتی ہیں تو کہیں فارس کا نوجوان شہزادہ سائرس اعظم، آنثان کے تخت پر بیٹھا دنیا کی سلطنت کو مٹھی میں لینے کے خواب بن رہا ہے۔ کہیں مدینے کی گلیوں میں صدیقؓ کا صبر، فاروقؓ کی عدالت، عثمانؓ کی حیاء اور علیؓ کی جرأت رب کی رضا کے سفر میں تاریخ کے سب سے روشن باب رقم کر رہے ہیں تو کہیں بیبرس، بہ طور سپاہ سالار، پہلی بار منگولوں کے قدم روک کر عالمِ اسلام کے ماتھے پر تحفظ کی لکیر کھینچتا دکھائی دیتا ہے، میدانِ بیت المقدس میں فتح کے جھنڈے تلے رحم اور عظمت کی چادر اوڑھے سلطان صلاح الدین ایوبی نمودار ہوتا نظر آتا ہے تو کسی منظر میں شیر میسور ٹیپو سلطان اپنے لہو سے وفاداری لکھنے کو تیار کھڑا ہے۔

یہ داستانیں فقط فتوحات کی نہیں بلکہ اطاعت کی بھی ہیں، کیوںکہ زندگی کی اصل اس کی تمام تر معنویت، اطاعت کے دامن میں ہی پنہاں ہے۔ چاہے وہ اطاعت رب کی ہو، بندوں کی ہو یا حکم رانوں کی اور اطاعت کا یہ دریا صرف دو چشموں سے پھوٹتا ہے۔ محبت اور خوف۔ یہ جو گم نامی کی دھول سے اٹھ کر پہاڑوں کو سرنگوں کرنے والے کردار تھے، ان کی عظمت کا راز ان کی تلوار کی جھنکار میں نہیں بلکہ اس حکمت و دانائی میں تھا جس نے معاشروں کو وہ نظام عطا کیا جہاں رعایا حکم راں کی محبت میں جھکتی تھی اور قانون کے رعب سے سنبھلتی تھی۔ ان کے نظام میں صرف حکم نہیں تھا، اس میں یقین، وابستگی اور ایک ایسا تعلق تھا جو زبردستی نہیں بلکہ فطری طور پر دلوں میں گھر کر جاتا تھا۔

لیکن افسوس جب وہ عظیم لوگ رخصت ہوئے اور ان کے جانشین مسندِاقتدار پر جلوہ افروز ہوئے تو وہ اس راز کو بھول بیٹھے۔ نشۂ اقتدار نے ان کی بصیرت کو دھندلا دیا، اور انہوں نے ریاست کو صرف قانون کی زنجیروں سے باندھنے کی سعی کی۔ وہ یہ نہ جان سکے کہ جس ریاست سے محبت کا رشتہ منقطع ہوجائے وہاں قانون صرف خوف پیدا کرتا ہے، وفاداری نہیں۔ اور پھر وہی ہوا جو ہمیشہ ہوتا آیا ہے۔ قانون کی چھڑی سے چلنے والی سلطنتیں وقت کی گرد میں دفن ہوگئیں۔ نہ وہ وقار باقی رہا، نہ وہ نظام، اور نہ ہی وہ نام جو کبھی تاریخ کے ہر صفحے پر رقم ہوتے تھے۔

مذہب کی حکمت انسان کی انفرادی بدکرداری کو روزِمحشر کے ترازو پر تولا کرتی ہے مگر فطرت کو انتظار کی عادت نہیں۔ وہ قوموں کے اجتماعی گناہوں کا حساب یہیں اسی دنیا میں چُکتا کرتی ہے۔ تاریخ کے مزار میں دفن ہر عظیم قوم کے تابوت پر ایک مشترک نوحہ کندہ ہے ’’ہم نے خود اپنے چراغ بجھا دیے‘‘ اور جب ان قوموں کے زوال کا وقت آیا تو ان کے گلی کوچے ظلم و زیادتی سے آلودہ تھے، فضا میں حسدوحرص کی بدبو تھی، ادارے مفاد پرستی کی دلدل میں دھنستے جا رہے تھے اور بستیوں میں منشیات کے اڈے، ہوس کی منڈیاں، شراب خانے، جوئے کے ٹھکانے، زنا کے بازار، چوراہوں پر ڈکیتی، گلیوں میں قتل، عدالتوں میں رشوت، مسجدوں کے قریب سود کی چمکتی عمارتیں، دلوں میں جھوٹ، زبانوں پر خوشامد، چہروں پر دوغلاپن، بازاروں میں ملاوٹ، ناپ تول میں خیانت، دفاتر میں بدعنوانی اور رشوت ستانی، اور ہر دل میں ایک خودغرض ’’میں‘‘ کا شور سنائی دیتا تھا۔

یہی تنہائی اور یہی زہر پھر راستہ بناتی ہے اُن آسیبوں کے لیے جو نظام پر قابض ہوجاتے ہیں۔ میرٹ دفن ہو جاتا ہے، اور اقتدار اُن کے ہاتھ آتا ہے جو بددیانتی میں سب سے آگے ہوں۔ ان کے لیے قومیت ایک جھنڈا نہیں بلکہ کاروبار اور مذہب ایک عقیدہ نہیں بلکہ اشتہار بن جاتا ہے۔ یوں برائی کے کارندے مذہب و قومیت کا لبادہ اوڑھ کر سیاست کی تجارت کرتے ہیں۔ سیاسی کرپشن تلوار بن جاتی ہے۔

اختلاف دفن، اور گونگے تاج دار تخت پر بٹھا دیے جاتے ہیں جن کے ذہنوں میں تاریکی بسی ہوتی ہے۔ ریاست عوام کے زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے ترقی کے نام پر سرابوں کا تعاقب کرتی ہے۔ خوف کو امید کے ریشمی کاغذ میں لپیٹ کر خوب بیچا جاتا ہے۔ سچائی بے وقوفی کہلاتی ہے، جھوٹ ذہانت، رشوت روزمرہ کا معمول اور دیانت داری بے وقوفی۔ اعتبار کی جڑیں بے یقینی کاٹتی ہے، افواہیں اجتماعی مشغلہ بن جاتی ہیں، اور کل کیا ہوگا، جیسے سوال وقتی سکون کی چادر تلے دب جاتے ہیں۔ منصوبے ضرور بنتے ہیں مگر ان کی پرواز کاغذوں اور تقریروں سے آگے نہیں بڑھ پاتی اور جب قومیں صرف نعروں میں زندہ رہنے لگتی ہیں تو فطرت بے آواز مگر فیصلہ کن انداز میں مداخلت کرتی ہے۔ پھر ایسی قومیں صرف تاریخ کی ایک سطر بن کر رہ جاتی ہیں پڑھنے کے قابل، مگر پلٹنے کے لائق نہیں۔

تاریخ تو ہمیشہ ہمیں آئینہ دکھانے کی کوشش کرتی ہے۔ ہر ورق پر ایک چیخ اور ہر واقعے میں ایک نصیحت پوشیدہ ہوتی ہے مگر یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ ہم نے اسے کبھی سنجیدگی سے سننے کی زحمت ہی نہیں کی۔ ہم نے تاریخ کو استاد نہیں، افسانہ گو سمجھا۔ اس کی صدائیں نہیں سنیں بس اس کے سائے میں دل بہلانے کے افسانے تراشتے رہے۔ شاید یہی وہ ہنر ہے جو ہمیں خوب آتا ہے۔ سبق سے گریز اور تسلیوں سے رفاقت۔ اور افسوس یہ ہنر شاید ہمیشہ ہمارے ساتھ رہے گا کہ تاریخ کا سب سے بڑا سبق یہی ہے، کوئی بھی تاریخ سے سبق نہیں سیکھتا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: نہیں بلکہ تاریخ کے کرتی ہے تو کہیں رہا ہے

پڑھیں:

لوک سبھا میں مودی نے 2 گھنٹے کی تقریر میں پاکستانی طیارے گرانے کی بات کیوں نہیں کی سینیٹرعرفان صدیقی کا سوال

اسلام آبا د(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 11 اگست2025ء)پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما، سینیٹ میں پارلیمانی پارٹی لیڈر اور قائمہ کمیٹی خارجہ امور کے سربراہ سینیٹر عرفان صدیقی نے بھارتی فضائیہ کے سربراہ کے حالیہ بیان کو مضحکہ خیز، بے بنیاد اور جھوٹ پر مبنی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس طرح کے غیر ذمہ دارانہ دعوے بھارت کی عالمی سطح پر مزید جگ ہنسائی کا باعث بنیں گے۔

اپنے بیان میں انہوںنے کہاکہ بھارتی حکومت کے پاس اپنے الزامات کو ثابت کرنے کے لیے کوئی شواہد نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بی جے پی اپنی پالیسیوں کے ذریعے خود اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی مار رہی ہے۔ انہوں نے راہول گاندھی کے انتخابی دھاندلی کے ثبوتوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بھارتی جمہوریت پر سوالیہ نشان لگ چکا ہے، انتخابی دھاندلی، عالمی سطح پر جگ ہنسائی اور سفارتی تنہائی کے باعث مودی اور بھارتی افواج کے اعصاب پر دباؤ بڑھ رہاہے جس کے باعث وہ ایسے بیانات دے رہے ہیں۔

(جاری ہے)

سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ 9 مئی کے واقعات ملکی سلامتی کے خلاف سنگین جرم ہے، ان میں ملوث افراد کسی طور پر بھی سیاسی قیدی نہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ 9 مئی کے مجرموں نے ریاستی اداروں اور قومی سلامتی کو نشانہ بنایا، جس پر سخت سزائیں دینا انصاف اور قانون دونوں کا تقاضا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سزا یافتہ افراد کو اپیل کا حق حاصل ہے اور تمام قانونی راستے کھلے ہیں۔

نوازشریف والا معاملہ نہیں جنہیں اپیل، دلیل یا وکیل کا حق نہ ملا اور سپریم کورٹ سے ہی سزا ہو جاتی تھی۔ پی ٹی آئی کا سزا سے بچنے کے لیے واقعات کو سیاسی رنگ دینا قابل قبول نہیں۔ سانحہ 9 مئی سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کیا گیا، جسے کسی طور پر بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ بھارت، امریکہ یا برطانیہ میں ایسا سنگین جرائم کرنے والوں کو کب کی سزا مل چکی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • اپنے اپنے مفادات کی سیاست
  • پاکستان کی تاریخ میں اقلیتوں کا کردار ناقابلِ فراموش ہے، ناصر حسین شاہ
  • ناقابلِ فراموش واقعات، جو زندگی بدل دیں
  • لوک سبھا میں مودی نے 2 گھنٹے کی تقریر میں پاکستانی طیارے گرانے کی بات کیوں نہیں کی سینیٹرعرفان صدیقی کا سوال
  • ‎بھارت اپنے آپ کو ’’وشوا گرو‘‘ کے طور پر پیش کرنا چاہتا ہے، لیکن عملی طور پر ایسا کچھ بھی نہیں: فیلڈ مارشل سید عاصم منیر
  • زبانی تاریخ: کیا اس پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے؟
  • یومِ پاکستان: وہ داستان جس کا ہر لفظ لہو میں ڈوبا ہے
  • کشمیر میں 25 کتابوں پر پابندی تاریخ کو مٹانے کا ذریعہ نہیں بن سکتی ہے، آغا سید حسن الموسوی
  • شجاع آباد: داماد سے رنجش پر باپ نے 27 سالہ بیٹی، 2 نواسوں اور 1 نواسی کو کلہاڑی سے قتل کر دیا