مکالمہ، عالمی امن کی اساس
اشاعت کی تاریخ: 27th, September 2025 GMT
دنیا ایک نازک موڑ پر کھڑی ہے۔ مشرقِ وسطیٰ کی دھواں دھار فضائیں، غزہ کے ملبے تلے دبی معصوم لاشیں، یوکرین میں گونجتے بم، اور عالمی طاقتوں کی بدلتی ترجیحات ایک ایسے وقت میں بین الاقوامی قیادت اور تدبر کی متقاضی ہیں جب انسانیت عالمی سطح پر ایک متوازن، ہمدردانہ اور فیصلہ کن قیادت کو ترس رہی ہے۔
ایسے میں امریکا کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی عالمی سفارت کاری میں واپسی، ان کے مسلم رہنماؤں کے ساتھ متواتر رابطے اور پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل عاصم منیر سے ہونے والی حالیہ ملاقاتوں کو صرف رسمی سفارتی سرگرمی نہیں کہا جا سکتا بلکہ یہ ایک نئی عالمی سمت کا پیش خیمہ بھی ہو سکتا ہے۔
دو روز کے اندر تین ملاقاتیں، اور ان ملاقاتوں کا دائرہ کار نہ صرف پاک امریکا دو طرفہ تعلقات بلکہ مشرقِ وسطیٰ کی جنگ بندی، قیدیوں کی رہائی اور اسرائیل کے ممکنہ توسیع پسندانہ عزائم کی روک تھام جیسے عالمی معاملات تک پھیلا ہوا ہے۔ اوول آفس میں ہونے والی ان ملاقاتوں میں صدر ٹرمپ کا لہجہ خاصا مدبرانہ، متوازن اور پرخلوص تھا، جو ماضی کی نسبت ایک زیادہ سفارتی اور عالمی قائدانہ طرز عمل کی جھلک دیتا ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے صدر ٹرمپ کی ان کوششوں کو خراجِ تحسین پیش کیا، جن کے تحت نہ صرف مسلم دنیا کے رہنماؤں کو ایک میز پر بٹھایا گیا بلکہ ان کے توسط سے پاک بھارت تعلقات میں ایک بار پھر سیز فائر کا ماحول پیدا ہوا۔ انھوں نے صدر ٹرمپ کو ’’ امن کا علمبردار‘‘ قرار دیتے ہوئے ان کی جرات مندانہ قیادت کو سراہا اور کہا کہ جنوبی ایشیا میں ایک بڑا انسانی المیہ صرف اس لیے ٹل سکا کیونکہ امریکا نے فیصلہ کن کردار ادا کیا۔
یہ ایک انتہائی اہم اور تاریخی اعتراف ہے، کیونکہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات ہمیشہ سے کشیدہ رہے ہیں، اور جب کوئی تیسری طاقت تعمیری کردار ادا کرے تو اس سے پورے خطے میں امن کی فضا قائم ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے جو سفارتی کاوش کی، اس کی گونج صرف جنوبی ایشیا تک محدود نہیں رہی بلکہ اس کا اثر مشرقِ وسطیٰ، خاص طور پر غزہ کی صورتحال، پر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
غزہ کے معاملے پر صدر ٹرمپ کی پالیسی نہ صرف واضح تھی بلکہ جرأت مندانہ بھی۔ انھوں نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ اسرائیل کو مغربی کنارے کا انضمام کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ ان کا یہ بیان عالمی سفارتی حلقوں میں ایک غیر متوقع مگر خوش آیند پیش رفت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ ٹرمپ کا یہ کہنا کہ ’’ نہیں، میں اسرائیل کو ایسا نہیں کرنے دوں گا‘‘ دراصل ان کی اس نئی پالیسی کا اشارہ ہے جس میں وہ طاقتور اتحادیوں کی اندھی حمایت کے بجائے عالمی امن اور توازن کو ترجیح دیتے نظر آتے ہیں۔وزیراعظم شہباز شریف نے نہایت برمحل انداز میں صدر ٹرمپ کی ان کوششوں کی تحسین کی جو انھوں نے نیویارک میں مسلم دنیا کے رہنماؤں کو مدعو کر کے کیں۔
ایسے وقت میں جب مسلم ممالک اکثر عالمی سیاست میں نظرانداز ہو جاتے ہیں، ٹرمپ کی میزبانی اور مشاورت ایک نئی عالمی حکمت عملی کی بنیاد رکھتی ہے جہاں صرف عسکری طاقت نہیں بلکہ سفارتی ہنر اور بین الثقافتی مکالمہ کلیدی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔پاکستان اور امریکا کے درمیان حالیہ ٹیرف معاہدے کا ذکر بھی اس موقع پر خاصا اہم ہے۔ وزیراعظم نے اس معاہدے کو دو طرفہ تعلقات کی مضبوطی کی علامت قرار دیا اور واضح کیا کہ صدر ٹرمپ کی قیادت میں پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں نئی جہت پیدا ہو رہی ہے۔
پاکستان کی معاشی بحالی، بیرونی سرمایہ کاری، اور تجارتی سرگرمیوں میں امریکا کا کردار ہمیشہ کلیدی رہا ہے، اور اگر دونوں ممالک اپنے تعلقات کو باہمی اعتماد، احترام اور مفادات کی بنیاد پر آگے بڑھاتے ہیں تو اس کے نہ صرف اقتصادی بلکہ سیاسی و دفاعی فوائد بھی حاصل ہو سکتے ہیں۔فیلڈ مارشل عاصم منیر کی اوول آفس میں موجودگی، اور صدر ٹرمپ کی جانب سے انھیں ’’ بہترین شخصیت‘‘ قرار دینا اعتماد کی علامت ہیں۔ اس ملاقات کا ایک اور اہم پہلو یہ تھا کہ اس میں صرف رسمی سفارتی الفاظ یا مبہم دعوے نہیں تھے بلکہ ہر بیان، ہر جملہ اور ہر اشارہ ایک واضح پالیسی کی نمایندگی کرتا تھا۔ چاہے وہ غزہ میں جنگ بندی کی بات ہو یا قیدیوں کی رہائی کے معاہدے کی امید، یا اسرائیل کے توسیعی منصوبوں پر پابندی، ہر معاملہ سنجیدگی اور حقیقت پسندی پر مبنی تھا۔
یہ حقیقت ہے کہ دنیا کے کئی خطے اس وقت آگ و خون کی لپیٹ میں ہیں۔ عالمی قیادتیں اگر واقعی مخلص ہوں، تو یہ ممکن ہے کہ جنگوں کا خاتمہ ہو، انسانی جانوں کا تحفظ کیا جائے، اور ایک پائیدار عالمی امن قائم ہو۔ صدر ٹرمپ اگر اس سمت میں سنجیدہ ہیں، جیسا کہ حالیہ ملاقاتوں سے ظاہر ہوتا ہے، تو انھیں عالمی برادری سے عملی حمایت بھی ملنی چاہیے۔پاکستان کی جانب سے وزیر اعظم شہباز شریف نے جو موقف اپنایا، وہ سفارتی اعتبار سے نہایت متوازن، مدبرانہ اور قومی مفادات کے عین مطابق تھا۔ انھوں نے نہ صرف پاکستان کی ترجیحات واضح کیں بلکہ عالمی امن کے لیے اپنی ذمے داری کو بھی تسلیم کیا۔
انھوں نے واضح کر دیا کہ پاکستان صرف ایک علاقائی طاقت نہیں بلکہ ایک ذمے دار بین الاقوامی شراکت دار کے طور پر کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔یہ ایک مثبت پیش رفت ہے کہ دونوں رہنماؤں نے صرف ماضی کے زخموں کو کریدنے کے بجائے مستقبل کی راہیں تلاش کرنے پر توجہ دی۔ یہ طرزِ عمل اسی وقت ممکن ہوتا ہے جب قیادت دور اندیش، معاملہ فہم اور جرات مند ہو۔ شہباز شریف اور ٹرمپ کی یہ ملاقاتیں اس نئی سیاسی سوچ کی عکاسی کرتی ہیں جس میں طاقت کی نہیں بلکہ بات کی جیت ہے۔
دوسری جانب امریکی نمایندہ خصوصی اسٹیو وٹکوف کے حالیہ بیان نے مشرقِ وسطیٰ میں قیامِ امن کے حوالے سے ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پیش کیا گیا 21 نکاتی منصوبہ، جسے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر چند رہنماؤں کے ساتھ شیئر کیا گیا، بظاہر ایک سفارتی پیش رفت ہے، لیکن اس کے خدوخال اور ممکنہ اثرات پر سوالات اپنی جگہ موجود ہیں۔
یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ امریکا ایک بار پھر مشرقِ وسطیٰ میں اپنی سفارتی کوششوں کو تیز کر رہا ہے، خاص طور پر غزہ کی پُر تشدد اور انسانی بحران سے دوچار صورتحال کے تناظر میں۔ اسٹیو وٹکوف کا کہنا کہ ’’ کسی نہ کسی بریک تھرو‘‘ کا اعلان ممکن ہے، ایک امید افزا اشارہ ضرور ہے، لیکن ماضی کے تجربات نے یہ سکھایا ہے کہ محض اعلانات یا منصوبے، جب تک وہ تمام فریقوں کے اعتماد پر مبنی نہ ہوں، دیرپا امن نہیں لا سکتے۔
امریکا کی ایران سے مذاکرات کی خواہش بھی ایک اہم پیش رفت ہے، تاہم ایران کی جانب سے ’’سخت مؤقف‘‘ اپنانے کا ذکر ظاہر کرتا ہے کہ یہ مذاکرات آسان نہیں ہوں گے۔ ایران کی خارجہ پالیسی، خاص طور پر اسرائیل اور فلسطین سے متعلق اس کا بیانیہ، مشرقِ وسطیٰ کے تنازعات میں ایک کلیدی عنصر ہے، اور جب تک تمام فریق اپنی پوزیشن میں لچک نہ دکھائیں، اس خطے میں کوئی پائیدار حل ممکن نہیں۔ صدر ٹرمپ کا 21 نکاتی منصوبہ کیا واقعی فلسطینی عوام کی خواہشات اور خود مختاری کا احترام کرتا ہے؟ کیا اس میں اسرائیل کے غزہ پر حملوں، بستیاں بنانے کی پالیسی، اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا کوئی مؤثر حل پیش کیا گیا ہے؟
یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب دیے بغیر کسی بھی امن منصوبے کو حقیقت کا روپ دینا مشکل ہوگا۔ضرورت اس امر کی ہے کہ امریکا اور دیگر عالمی طاقتیں صرف سیاسی یا سفارتی مفادات کے بجائے، مشرقِ وسطیٰ میں انسانی جانوں کے ضیاع، نقل مکانی، اور بنیادی انسانی حقوق کی پامالی کو اصل مسئلہ سمجھیں۔ فلسطینی عوام دہائیوں سے انصاف، آزادی اور امن کے متلاشی ہیں، اگر عالمی برادری ان کی آواز کو سنے بغیر کسی منصوبے پر عملدرآمد کی کوشش کرے گی، تو یہ صرف وقتی سیزفائر کی شکل اختیار کرے گا، نہ کہ دیرپا امن کی۔عالمی سطح پر قیامِ امن کی خواہش خوش آیند ہے، لیکن حقیقی امن صرف اسی صورت ممکن ہے جب تمام فریقوں کو برابری کی بنیاد پر سنا جائے، ان کی خودمختاری کا احترام کیا جائے اور انصاف پر مبنی فیصلے کیے جائیں۔
بصورتِ دیگر، ہر منصوبہ صرف ایک اور کاغذی کارروائی بن کر رہ جائے گا۔اس تناظر میں، میڈیا، پالیسی ساز ادارے اور عوامی نمایندگان کو بھی چاہیے کہ وہ ان کوششوں کی اہمیت کو سمجھیں اور ان کا بھرپور ساتھ دیں۔ امن کی جانب ایک قدم، ہزاروں جانوں کو بچا سکتا ہے۔ ایک مسکراہٹ، ایک ہاتھ ملانا، ایک ملاقات… ان سب کی اہمیت میدانِ جنگ میں گونجنے والی توپوں سے کہیں زیادہ ہے۔
دنیا ایک بار پھر ایک ایسے دوراہے پر کھڑی ہے جہاں یا تو ہم باہمی اعتماد، مکالمے اور مشترکہ حکمت عملی کے ذریعے آگے بڑھ سکتے ہیں، یا ہم ماضی کی طرح خود غرضی، مفاد پرستی اور طاقت کے زعم میں تباہی کا راستہ چن سکتے ہیں۔ صدر ٹرمپ اور وزیراعظم شہباز شریف کی یہ ملاقاتیں ہمیں پہلا راستہ چننے کی ترغیب دیتی ہیں۔ سوال صرف اتنا ہے۔ کیا ہم اس موقع سے فائدہ اٹھانے کو تیار ہیں؟
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: وزیراعظم شہباز شریف صدر ٹرمپ کی کی جانب سے عالمی امن انھوں نے پیش رفت میں ایک اور ان امن کی
پڑھیں:
عالمی برادری ثابت کرے کہ بین الاقوامی قانون محض افسانہ نہیں، یمنی صدر
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
نیویارک: یمن کے نگراں صدر رشاد العلیمی نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب میں عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ ثابت کرے کہ بین الاقوامی قانون صرف ایک افسانہ نہیں بلکہ ایک زندہ حقیقت ہے۔
عالمی میڈیا رپورٹس کے مطابق یمنی صدر نے کہا کہ آج یمن اور غزہ کی صورتحال عالمی ضمیر کے لیے ایک اخلاقی کسوٹی بن چکی ہے، فلسطینی مسئلہ عرب عوام کا مرکزی مسئلہ ہے اور ایک ایسا زخم ہے جو کئی دہائیوں سے رس رہا ہے۔
یمنی صدر نے اپنے خطاب میں حوثی باغیوں کو انتہا پسند دہشت گرد گروہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یمن کا بحران محض داخلی مسئلہ نہیں رہا بلکہ یہ اقوام متحدہ کی ساکھ اور عالمی امن کے لیے ایک کڑا امتحان ہے۔
انہوں نے مزید کہاکہ یمنی عوام اس وقت دنیا کے سب سے بڑے انسانی بحرانوں میں سے ایک کا سامنا کر رہے ہیں جبکہ سلامتی کے مسائل اب ہماری سرحدوں سے نکل کر پورے خطے اور دنیا تک پھیل گئے ہیں۔
رشاد العلیمی نے الزام عائد کیا کہ حوثیوں کو ایران کی جانب سے ممنوعہ ہتھیار فراہم کیے جا رہے ہیں، جس کے نتیجے میں یمن کا امن مزید خطرات سے دوچار ہے، ایک موثر بین الاقوامی اتحاد تشکیل دیا جائے جو یمن میں امن قائم کرے، ریاستی اداروں کی دوبارہ تعمیر کرے اور ملک کو ملیشیاؤں و دہشت گرد گروہوں کے چنگل سے نجات دلائے۔
یاد رہے کہ یمن میں 2014 سے حوثی باغیوں اور بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حکومت کے درمیان خانہ جنگی جاری ہے، حوثی باغی اس وقت ملک کے شمالی حصوں، بشمول دارالحکومت صنعاء پر قابض ہیں، جس کے باعث لاکھوں افراد بے گھر اور بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں، اقوام متحدہ یمن کو دنیا کے بدترین انسانی بحرانوں میں شمار کرتا ہے جہاں کروڑوں افراد کو خوراک، پانی اور طبی امداد کی شدید قلت کا سامنا ہے۔