Juraat:
2025-09-25@02:14:04 GMT

بھارت کا سیکولر چہرہ ہندوتوا انتہا پسندی کی نئی شکل

اشاعت کی تاریخ: 25th, September 2025 GMT

بھارت کا سیکولر چہرہ ہندوتوا انتہا پسندی کی نئی شکل

پروفیسر شاداب احمد صدیقی

 

بھارت کے مسلمان پاکستان کے خلاف زہر اُگلنے اور ہرزہ سرائی کر کے جتنی بھی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کر لیں لیکن اپنی وفاداری ثابت نہیں کر سکتے ۔بھارت کے مسلمان اور وہاں کا نام نہاد مسلم رہنما اسد الدین اویسی زہریلا انسان ہے اور مودی کا ایجنٹ ہے بہت فخریہ انداز میں دو قومی نظریہ کی مخالفت کرتا ہے ۔اپنے آپ کو محب وطن بھارتی کہتا ہے لیکن آج تک مسلمانوں کے حقوق اور ہندوتوا سوچ سے آزادی نہیں دلا سکا۔صرف میڈیا پر بھاشن جھاڑتا ہے ۔بھارت کے مولوی بھی دوغلے ہیں ۔یہ پاکستان مخالفت میں اسلام کی غلط تشریح کرتے ہیں، ان کا ایجنڈا بھی پاکستان مخالف بیانیہ ہے ۔اسی وجہ سے بھارتی متعصب ہندو لیڈروں اور تنظیموں کی وجہ سے وہاں شر پھیلاتا ہے ۔گزشتہ دنوں ایسا ہی واقعہ رونما ہوا جس کی وجہ سے پوری دنیا کے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے ۔
بھارت میں( I Love Muhammad) کے جملے نے جس تیزی سے ایک تحریک کی شکل اختیار کی ہے ، وہ محض نبی کریم ۖ سے محبت اور عقیدت کا اظہار تھا مگر اس نے ملک کے سیاسی، سماجی اور مذہبی منظرنامے کو ہلا کر رکھ دیا ہے ۔ ابتداء ایک سادہ سی کارروائی سے ہوئی جب اُتر پردیش کے شہر کنپور کے علاقے راوت پور میں عید میلاد النبی ۖ کے جلوس کے دوران ایک برقی بورڈ پر I Love Muhammad تحریر نمایاں کی گئی۔ مقامی پولیس اور انتظامیہ نے اسے نئی روایت قرار دیتے ہوئے مخالفت کی اور کچھ افراد کے خلاف مقدمات درج کیے ۔ پولیس نے دعویٰ کیا کہ اس طرح کی علامتی اشیاء پہلے کبھی جلوس کے روایتی راستے پر استعمال نہیں کی گئیں اور اس سے فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا ہو سکتی ہے ۔ یہی وہ لمحہ تھا جب ایک محبت بھرا پیغام تنازع کا شکار ہو کر پورے ملک میں پھیل گیا۔کنپور کے بعد یہ معاملہ صرف ایک شہر تک محدود نہ رہا بلکہ جلد ہی اتر پردیش کے دیگر اضلاع جیسے انّاؤ، کاوشامبی، مہرّاج گنج، بَرے لی اور لکھنؤ تک پھیل گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ تلنگانہ کے دارالحکومت حیدرآباد، مہاراشٹر کے شہر ناگ پور اور اتراکھنڈ کے کاشی پور میں بھی یہی نعرہ بلند ہوا۔ جگہ جگہ مسلمان نوجوان اور مذہبی تنظیمیں بینرز لے کر سڑکوں پر نکل آئے ۔ ان کا مؤقف یہی تھا کہ یہ ان کا آئینی اور مذہبی حق ہے کہ وہ اپنے نبی ۖ سے محبت کا اظہار کریں اور اس پر کوئی قدغن نہیں لگائی جا سکتی۔دوسری طرف متعصب ہندو تنظیموں کا ردعمل انتہائی سخت اور جارحانہ تھا۔ انہوں نے اسے ایک نئی روایت قرار دے کر مخالفت شروع کر دی۔ بعض جگہوں پر ہندو انتہا پسند گروپوں نے بینرز کو پھاڑنے اور جلوس روکنے کی کوششیں کیں۔ کنپور میں ایک ہندوتوا تنظیم نے کھلم کھلا ایک بورڈ توڑ ڈالا لیکن اس کے باوجود پولیس نے کارروائی مسلمانوں کے خلاف ہی کی اور ایف آئی آر میں صرف ان کے نام درج کیے گئے ۔ ان گروپوں کا دعویٰ تھا کہ ایسی نئی روایات جلوسوں میں شامل کرنا سماجی امن کو نقصان پہنچا سکتا ہے ۔ یوں یہ معاملہ فرقہ وارانہ کشیدگی کی شکل اختیار کر گیا اور ملک کے مختلف حصوں میں احتجاجی مظاہرے دیکھنے میں آئے ۔
اس تحریک میں کئی مسلم سیاسی رہنما اور جماعتیں بھی سامنے آئیں۔ آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اسد الدین اویسی نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ I Love Muhammad کہنا کسی بھی صورت جرم نہیں ہے ، یہ محض ایک جذباتی اظہار ہے اور اس پر ایف آئی آر کاٹنا غیر آئینی اور امتیازی رویہ ہے ۔ سماج وادی پارٹی کے رہنماؤں نے بھی اس اقدام کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ پولیس اور انتظامیہ مسلمانوں کو بلاوجہ ہراساں کر رہی ہے اور ان کے بنیادی حقوق پامال کیے جا رہے ہیں۔ صوفی تنظیموں اور مذہبی اداروں جیسے ورلڈ صوفی فورم اور جماعت رضا مصطفی نے بھی اپنے بیانات میں واضح کیا کہ مسلمانوں کا یہ اظہار پرامن ہے اور اسے روکنے کی بجائے اس کا احترام کیا جانا چاہیے ۔ ساتھ ہی انہوں نے اپنے ماننے والوں کو صبر اور تحمل کا دامن تھامنے کی تلقین کی تاکہ کسی طرح کا تشدد یا انتشار نہ پھیلے ۔ادھر بی جے پی اور ریاستی حکومتوں کا مؤقف اس کے برعکس رہا۔ ان کا کہنا ہے کہ جلوس اور مذہبی تقریبات میں نئی چیزیں شامل کرنا سماجی ہم آہنگی کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے اور اس پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو کارروائی کا حق ہے ۔ بی جے پی کے کئی رہنماؤں نے اسے امن و امان کا مسئلہ قرار دیا اور کہا کہ ریاستی حکومتیں صرف اپنا آئینی فرض ادا کر رہی ہیں۔مرکزی حکومت یعنی مودی سرکار نے اگرچہ اس معاملے پر کھلا بیان دینے سے گریز کیا لیکن اس کا عمومی مؤقف یہی رہا کہ ریاستی حکومتیں اپنے دائرہ کار میں قانون کے مطابق کارروائیاں کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایف آئی آر میں اصل اعتراض بینر کے الفاظ پر نہیں بلکہ جلوس میں نئی روایت شامل کرنے پر تھا۔ تاہم اس وضاحت نے مسلمانوں کو مطمئن نہیں کیا بلکہ ان کے خدشات کو مزید بڑھا دیا کہ حکومت دراصل تعصب کا شکار ہے اور اقلیتوں کو اپنے عقیدے کے اظہار کا حق نہیں دیا جا رہا۔یہ تمام صورتحال بھارت کے آئین میں درج مذہبی آزادی اور اظہار رائے کے حق کو سوالیہ نشان بنا رہی ہے ۔
ایک طرف مسلمان پرامن طریقے سے اپنے نبی ۖ سے محبت کا اظہار کر رہے ہیں تو دوسری طرف انتظامیہ اسے جرم بنا کر پیش کر رہی ہے۔ اگر ریاست اس قدر امتیازی رویہ اپنائے گی تو یہ تحریک محض ایک نعرے تک محدود نہیں رہے گی بلکہ ایک بڑے سیاسی اور سماجی دباؤ میں بدل جائے گی۔ اس وقت بھارت کو دراصل سب سے زیادہ ضرورت مذہبی رواداری اور یکجہتی کی ہے ۔ اگر ہر طبقہ دوسرے کے جذبات کا احترام کرے تو ایسے تنازعات جنم ہی نہ لیں۔
آخر میں یہ بات واضح ہے کہ I Love Muhammad تحریک صرف ایک بینر یا بورڈ نہیں بلکہ کروڑوں مسلمانوں کے دل کی آواز ہے ۔ اس آواز کو دبانے کی کوشش دراصل ایک ایسی چنگاری کو ہوا دینا ہے جو ملک کے سماجی تانے بانے کو نقصان پہنچا سکتی ہے ۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اس تحریک کو تعصب کی عینک سے دیکھنے کے بجائے اسے ایک پرامن مذہبی اظہار سمجھے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ انتظامیہ ایف آئی آر واپس لے ، مسلمانوں کے بنیادی حقوق کا احترام کرے اور متعصب عناصر کو قابو میں کرے ۔ عوام کو بھی چاہیے کہ صبر اور تحمل کا مظاہرہ کریں اور احتجاج کو پرامن رکھیں تاکہ مخالفین کو الزام تراشی کا کوئی موقع نہ ملے ۔ اگر بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو یہ معاملہ مزید شدت اختیار کر سکتا ہے اور بھارت کی سیکولر شناخت پر ایک بڑا سوال کھڑا ہو سکتا ہے ۔ بھارتی مسلمان ذہنی غلامی سے ابھی تک آزاد نہیں ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں کے متعصب ہندو ان کو مذہبی دباؤ میں رکھتے ہیں۔بھارت کے مسلمان اور وہاں کے مسلم رہنما پاکستان کی فکر چھوڑیں اور اپنے حقوق کے حصول مسائل پر توجہ دیں۔
٭٭٭

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: مسلمانوں کے ایف آئی آر کے مسلمان اور مذہبی بھارت کے سکتا ہے کر رہی ہے اور اور اس

پڑھیں:

ہم ہر قیمت پر ملک کے ساتھ کھڑے ہیں‘ بیرسٹر گوہر خان

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

250923-01-19

راولپنڈی (آن لائن) چیئرمین تحریکِ انصاف بیرسٹر گوہر خان نے کہا ہے کہ پاکستان ہمارا ہے، فوج ہماری ہے، اور ہم ہر قیمت پر ملک کے ساتھ کھڑے ہیں، ہمیں بانی سے ملنے نہیں دیاجاتا جسکی وجہ سے دوریاں بڑھ رہی ہیں ۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے اڈیالہ جیل کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے عمران خان سے ملاقات کی اجازت نہ ملنے
پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بانی سے ملنا سیاسی ضرورت نہیں بلکہ قانونی تقاضا بھی ہے، عدالتی احکامات کے باوجود ملاقات نہ ہونا تشویشناک ہے جبکہ ملاقاتیں نہ ہونے سے دوریاں بڑھ رہی ہیں۔

خبر ایجنسی

متعلقہ مضامین

  • ملت بیضا کی شیرازہ بندی
  • الخدمت فائونڈیشن کی جانب سے مظلوم فلسطینی مسلمانوں کے لیے 100 ٹن امدادی سامان مصر روانہ 
  • اترپردیش میں ہندوتوا شدت پسندوں کا امام مسجد پر بہیمانہ تشدد، حالت نازک
  • بھارت؛ جے شری رام کا نعرہ نہ لگانے پر ہندوتوا کے جنونیوں کا پیش امام پر بہیمانہ تشدد
  • فتنہ الخوارج کا مکروہ چہرہ بے نقاب، آبادی کو ڈھال بنا کر تباہی کا کھیل جاری
  • مجھے اپنے ملک سے محبت ہے، مگر یہ اب پہچانا نہیں جاتا: انجلینا جولی
  • بھارت نواز فتنۃ الخوارج کا مکروہ چہرہ بے نقاب، شہری آبادی کو ڈھال بنا کر تباہی کا کھیل جاری
  • ہم ہر قیمت پر ملک کے ساتھ کھڑے ہیں‘ بیرسٹر گوہر خان
  • مودی سرکار کا متعصبانہ چہرہ بے نقاب، سکھ یاتریوں کو کرتارپور جانے سے روک دیا