Jasarat News:
2025-11-08@22:43:39 GMT

اللہ تو ضرور پوچھے گا !

اشاعت کی تاریخ: 24th, September 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

پاکستان کے کٹھ پتلی حکمران اور کچھ کریں نہ کریں چوری چھپے معاہدے کرنے میں بہت ماہر ہیں۔ ویسے ماہر تو وہ ہر اس چیز میں ہیں جس سے ان کی جیبیں اور بینک بیلنس ڈالروں سے بھرتے رہیں۔ ویسے بھی تمام معاہدے عوام ہی کے مفاد میں تو کیے جاتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ عوام ان کے ثمرات دیکھنے میں سالوں گزار دیتے ہیں۔ یہ سلسلہ یونہی چلتا آ رہا ہے۔

ہاں کبھی کبھار کچھ دینی اور سیاسی جماعتوں کی رگِ غیرت پھڑکتی ہے تو وہ احتجاج بھی کر لیتے ہیں۔ لیکن آخر کار کچھ شور شرابہ کرکے چپ سادھ لیتے ہیں۔ انہیں بھی پتہ ہوتا ہے کہ حکومتی ایوانوں میں ان کا کوئی اثر دکھائی نہیں دے گا۔ یہ خاموشی اس وقت تک برقرار رہتی ہے جب تک کہ کوئی زلزلہ یا طوفان جیسی بڑی آفت لوگوں کو دوبارہ سے نہیں جھنجوڑ ڈالتی۔ اس دوران جب حکومتی رویہ غیر ذمہ دارانہ رہتا ہے اور عوام کو کسی قسم کی امداد نہیں ملتی تو یہی عوام غصے میں بھرے جتنا برا بھلا حکومت وقت کو کہہ سکتے ہیں کہہ ڈالتے ہیں۔ لیکن جب ملک کی مختلف فلاحی تنظیموں اور مخیر حضرات کی طرف سے بھرپور امداد کے بعد جب دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑے ہو جاتے ہیں، اور سیلاب کا پانی بھی خود ہی خشک ہو جاتا ہے تو تب تک لوگوں کا غصہ بھی رفو چکر ہو چکا ہوتا ہے اور دوسری طرف عوام کے خیر خواہ سیاستدان بیرونی امداد سمیٹے اور ہضم کرنے میں مصروف عمل رہتے ہیں۔ اور یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہتا ہے، جب تک کہ کوئی دوسری آفت عوام کو اپنے شکنجے میں نہیں لے لیتی۔ اب ایک اور معاہدہ جو منظر عام پر آیا ہے وہ سعودی حکومت اور پاکستان کے درمیان طے پایا ہے اور حکومتی درباری اس کی خوشیاں منا رہے ہیں۔عوام حج عمرہ کر کے ثواب پر ثواب کما رہے ہیں اور ہمارے حکمران حرمین شریفین کی حفاظت کا ذمہ ملنے پر دنیا اور آخرت کی فلاح سمیٹنے کی تیاریوں میں لگ گئے ہیں۔

 کاش ان جاہلوں کو معلوم ہو کہ حرمین شریفین کی حفاظت کا ذمہ تو اللہ رب العزت نے خود اٹھا رکھا ہے۔ ان مسلم حکمرانوں پر جتنی ذمہ داریاں اللہ نے ڈالی تھیں یہ اس کو ہی پورا کر دیتے تو بڑی بات تھی۔ فلسطین کے معاملے کو لے کر پاکستان اور امت مسلمہ کا کردار تو سب پر ہی عیاں ہے۔ سعودی حکمرانوں کے بارے میں تو بچہ بچہ جانتا ہے کہ وہ یہود و نصاری کے حمایت یافتہ ہیں اور اس کا تو صاف مطلب ہے کہ اگر وہ امریکہ کے دوست ہیں تو پاکستان کو بھی امریکہ کی ہی ہر بات ماننی پڑے گی۔ ویسے تو پاکستان کی حکومت پہلے ہی اُسے اپنا آقا بنائے بیٹھی ہے۔ بہرحال یہ تمام صورتحال ظاہر کرتی ہے کہ معاہدہِ ابراہیم کے لیے راہیں ہموار کی جا رہی ہیں۔ امریکہ اور اس کے حمایتیوں نے اہلِ فلسطین کو ان حالوں تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اب ڈھکے چھپے نہیں بلکہ کھلم کھلا انداز میں حکومتِ پاکستان کا کردار سامنے آئے گا۔

حکومتی اہلکار کس قسم کی تحسین کے حقدار بن رہے ہیں اور کس بات کی خوشیاں منا رہے ہیں؟ بے بس، مظلوم اور نہتے فلسطینیوں تک خوراک تو پہنچا نہیں سکے چلے ہیں اللہ کے گھر کی حفاظت کرنے۔ اس معاہدے کے پسِ منظر میں کیا کھیل کھیلا جا رہا ہے کوئی ہے جو اس پر سوال اٹھائے؟ بھانت بھانت کی مذہبی و سیاسی جماعتیں، اور فلاحی تنظیمیں مل کر بھی حکومت پر ذرہ برابر بھی دباؤ نہ ڈال سکیں۔ جیتے جاگتے انسانوں کو مرتا دیکھ رہے ہیں، واقعی دل پتھر کے تو ہو گئے ہیں۔ ایٹم بم کا راگ الاپنے والے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ کوئی ہے جو مسلم حکمرانوں سے پوچھے کہ کیا خانہ کعبہ کا خدا کوئی اور ہے اور نبیوں کی سرزمین اور مسجدِ اقصیٰ کا خدا کوئی اور ہے؟ یہ حکمران عوام کو تو جواب نہیں دیں گے لیکن اللہ کو تو جواب دینا ہی پڑے گا۔

فوزیہ تنویر.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: رہے ہیں ہے اور

پڑھیں:

ہمارے قومی رویے خواہشات، تمناؤں کے خواب اور تعبیر

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251106-03-6
محسن باقری
دنیا میں گزر بسر کرتے ہوئے آج کا انسان نہ جانے کتنے اندیشوں اور تمناؤں کا شکار ہو جاتا ہے۔ عام آدمی تو ویسے ہی پریشانیوں اور دہشت زدہ زندگی سے نبرد آزما ہے اوپر سے روز مرہ کی سیاسی چپقلش جو کسی لسانی یا مذہبی تفرقہ بازی کی نفرت انگیزی سے کم نہیں اس نے ہماری عمومی زندگی میں تلاطم اور ایک کہرام بپا کر کے رکھا ہوا ہے۔ یہ اقتدار کی ایک ایسی جنگ ہے جس میں زندہ باد اور مردہ باد کے نعرے لگانے والے سیاسی کارکنان واقعتا اپنے مخالف کی زندگیوں کے در پہ ہو جاتے ہیں جبکہ اقتدار کے مزے لوٹنے کے منتظر سیاستدان روزانہ کی بنیاد پر مختلف چینلوں پر جلوہ افروز اور رونق افزا ہو کر مہنگائی، گیس، بجلی، پٹرول کی بڑھتی قیمتیں، صاف پانی کی فراہمی، تعلیم کا فقدان، اور ان جیسے اہم اشوز کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے گھسے پٹے موضوعات پر مختلف رویے اپناتے ہوئے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچتے نظر آتے ہیں۔ عام آدمی کا رویہ اس بات کی غمازی کر رہا ہے کہ وہ اس سیاسی چپقلش سے اُکتا گیا ہے۔ اس حقیقت کو کون نظر انداز کر سکتا ہے کہ ہماری خواہشات اور تمنائیں بنیادی حقوق، تعلیم، ضروریات زندگی اور معیار زندگی کے حوالے سے گھری ہوئی ہیں جن کا موجودہ نظام میں رہتے ہوئے پورا ہونا ناممکنات میں سے ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر نظام کیسے تبدیل ہو، نظام کی تبدیلی تو بہت دور کی بات ہے عمومی طور سے لوگ ان موضوعات پر بات کرنا پسند نہیں کرتے تو دوسری جانب اپنے نہاں خانوں میں کچھ بت بھی تراش کر رکھے ہوئے ہیں اور افسوس کہ بنی اسرائیل کی طرز پر سیاسی سحر، بچھڑے اور ساحروں کی عقیدت میں بری طرح گرفتار ہیں۔ ایک سیاست لٹیروں، چوروں اور غاصبوں کو عروج عطا کرتی ہے یہ سیاست ساحروں اور شعبدہ بازوں کی سیاست ہے، ایک سیاست پیغمبرانہ انداز سیاست ہے جو ساحروں اور شعبدہ بازوں سے عوام کو برسر عام متنبہ کرتی ہے، بڑے پیمانے پر خدمت خلق اور معاشرے میں دین اور دنیا کے حوالے سے تعلیم تربیت اور علم کے فروغ کے لیے کوشاں رہنا اس طرز سیاست کا شعار ہے۔

اکثر مایوسیوں کے رویے بھی ہمارے

سامنے آتے ہیں کہ موجودہ ظلم کا نظام تبدیل نہیں ہو سکتا یا یہ کہ اس قوم کو اور اس نظام کو بدلنے کے لیے نہ جانے کتنی دہائیاں درکار ہوں گی لیکن دوسری جانب ہم خلفائے راشدین کو دیکھتے ہیں کہ ان کو تو بس ایک ہی اور وہ بھی مختصر دورانیہ حکومت کے لیے ملا تھا لیکن اس میں بھی وہ تاریخ ساز کام کر گئے، عمر بن عبدالعزیزؒ خلیفہ راشد خلیفہ خامس نے کرپشن کے خاتمے کے حوالے سے جو اقدامات کیے چاہے وہ ان کی اہلیہ کے ہار کی بیت المال میں واپسی ہو یا ظلم سے جاگیر ہتھیانے والے شاہی خاندان سے متعلق رشتہ داروں کی دستاویزات کو جلا دینا اور انہیں قومی ملکیت میں واپس کرنا ہو وہ آج تاریخ کے ماتھے پر سنہری حروف سے کندہ ہیں۔ ان عظیم المرتبت شخصیات کی گھریلو زندگی جہاں زُہد و تقویٰ کی لا زوال مثال تھی وہیں ان کی حکمرانی مثالی تھی، ان اصحاب کے مقرر کردہ گورنر، وزراء اور سفراء کی زندگیاں عوام کی خدمت کے لیے وقف تھیں، ان کے مقرر کردہ فوجی جرنیل وقت کی ’’سپر پاور‘‘ اور بڑے بڑے سورماؤں کو بھی خاطر میں نہیں لاتے تھے، ناممکن کو ممکن بنانے، دین کے غلبہ کے لیے جرأت اظہار میں، گویا آپ اپنی جگہ علم و حکمت سے ان کی زندگیاں معمور تھیں، یہ اصحاب متانت شرافت اور کردار کے لحاظ سے بہت شفاف اور اْجلے تھے۔ ماضی اور حال کی مرکز اور صوبوں میں براجمان حکمران جماعتیں اگر اِسی انداز سیاست اور حکمرانی کو اپناتیں تو آج پاکستان کے عوام خوشحال اور دنیا میں نام ہوتا، ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نہ چاہنے کے باوجود اس گلے سڑے اور ظلم کے نظام میں رہنے کے خوگر ہو گئے ہیں۔ حکمرانوں نے تو عزت نفس کہیں رہن یا گروی رکھائی ہوئی ہے، کْل عالم میں کاسہ ِ گدائی ہمارا قومی نشان اور حکمرانوں کی پہچان بنا ہوا ہے۔ یہ کیسے حکمران ہیں جو عوام کے خون پسینہ کی کمائی سے ادا ہونے والے ٹیکسوں کے پیسوں سے نمائشی کاموں کے نام پر پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا پر کروڑوں سے اپنی ذاتی تشہیری مہم چلائے ہوئے ہیں، یہ قومی خزانے میں خیانت نہیں تو اور کیا ہے؟ بجائے اس کے کہ عوام حکمرانوں کا احتساب کریں چند نمائشی کاموں سے عوام کو اپنا احسان مند بنایا جا رہا ہے۔

کوئی جذباتی قدم اٹھا کر موجودہ حکمرانوں کو چلتا تو کیا جا سکتا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس مشق لا حاصل یعنی صرف چہروں کی تبدیلی سے اگر 78 برسوں میں کچھ نہ حاصل ہو سکا تو اب کیا حاصل ہوگا؟ اگر شخصی مقبولیت، پیسے اور پروپیگنڈے کے سحر سے باہر نکلا جائے تو ذوالفقار علی بھٹو سے زیادہ مقبول ذہین اور فطین شخصیت تو پاکستان کی سیاست میں ابھی تک نہیں آسکی ہے، بھٹو کی مقبولیت کسی کام نہ آسکی، پیپلز پارٹی حکمرانی کرتے ہوئے چند سطحی تبدیلیوں کے علاوہ تو کچھ بھی نہیں کرسکی۔ جب منافقت اور تَناقُض میں مبتلا عوام اور خواص ہوں تو بھلا یہ فرسودہ نظام کیسے تبدیل ہو سکتا ہے۔

آج پاکستانی قوم کو ایک ایسے رہنما کی ضرورت ہے جو سیاسی چپقلش کے راستے کو چھوڑ کر آگے بڑھ کر اس گلے سڑے نظام کو بدلنے کی جد وجہد شروع کرے، اس کے لیے عوامی رجحانات رویوں کو تبدیل کرنے کی اور عوام کو شعور دینے کی ضرورت ہے لیکن یہ سب علم اور تعلیم کے بغیر ناممکن ہے۔ اپنے اطراف میں نظر دوڑائیں اور مختلف سیاسی قائدین اور جماعتوں کا تجزیاتی مطالعہ کریں تو مستقبل میں جھانکنے اور ملک کے نوجوانوں کو ہنر مند بنانے اور انہیں علم سے آراستہ کرنے کے لیے اگر حافظ نعیم الرحمن کی کاوشوں کو دیکھا جائے تو ہمیں نہ صرف امید کی کرن دکھائی دیتی ہے بلکہ مایوسیوں کے بادل بھی چھٹتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ الخدمت کے ’’بنو قابل‘‘ پروگرام کے ذریعے سے اب تک ساٹھ ہزار نوجوان مختلف آئی ٹی کورسز کر چکے ہیں اور ان کی بڑی تعداد ان کورسز کی بدولت اپنے پیروں پر کھڑی ہو چکی ہے۔ اب حافظ نعیم الرحمن کا وژن دو

سال میں ۲۰ لاکھ نوجوانوں کو آئی ٹی کے شعبے میں ہنر مند بنانا اور ایک کاروبار سے وابستہ کرکے معاشی طور سے انہیں آسودہ کرنا ہے۔ پیٹ بھرے گا تو پھر مقاصد تخلیق پاکستان اور نظریہ پاکستان کے حوالے سے انہی نوجوانوں میں کچھ سوچنے کا اور کچھ کرنے کا جذبہ بیدار ہوگا اور یہی جذبے اس فرسودہ نظام کو اس کی جڑوں سے اکھاڑ پھینکیں گے، سفر طویل ضرور ہے لیکن پر امن جدوجہد پر یقین رکھنے والے جواں جذبوں اور ہمت کے امین حافظ نعیم الرحمن موجودہ سیاسی چپقلش میں سب پر بازی لے گئے ہیں، یہ دیوانے کی بڑ نہیں ہے، جنہوں نے بنو قابل پروگرام سے دلچسپی لی ہے وہ لاکھوں کی تعداد میں پاکستان کے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ہیں۔ آپ پاکستان کے چھوٹے بڑے شہروں کی تعداد کا اندازہ کر لیجیے اور اسے ہزاروں کی دہائیوں سے ضرب دے لیں تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ پاکستان کے کتنے نوجوان علم و ہنر سے وابستہ ’’بنو قابل آئی ٹی گر یجویٹ‘‘ ہو کر اپنے پیروں پر کھڑے ہو جائیں گے۔ حافظ نعیم کے وژن کے مطابق آئندہ مراحل گھریلو خواتین کی تعلیم اور بہبود اور دیگر شعبوں کے حوالے سے متوقع ہیں۔

نظام کی تبدیلی تو اب نوشتہ دیوار ہے، خونیں انقلاب کی باتیں اور باز گشت گونج رہی ہے، یہ راستہ اپنے انجام کے لحاظ سے درست نہیں، ایک دوسرا راستہ عوام کو شعوری لحاظ سے یہ باور کرانے کا ہے کہ نظام بدلے گا تو پاکستانی عوام کی تمنائیں اور آرزؤں اور خوشحالی کا خواب بھی شرمندہ تعبیر ہوگا، یہ نظام کی تبدیلی کا پر امن اور جدوجہد کا راستہ ہے، یہ مایوسیوں کے اندھیرے میں چراغ جلانے اور مایوسی پھیلانے والے عناصر اور اب تک مرکز و صوبوں میں حکمران سیاستدانوں اور جماعتوں سے گلو خلاصی کا راستہ ہے۔ ظلم کا یہ نظام بدلے گا تو پاکستانی عوام کی خوشحالی کی تمناؤں اور آرزؤں کا خواب بھی شرمندہ تعبیر ہوگا۔ حافظ نعیم نے پاکستان کے نوجوانوں اور کسانوں کی بہبود کے لیے جو عملی قدم اٹھایا ہے کیا پاکستان کی کوئی اور سیاسی، مذہبی یا دینی جماعت ان امور کے بارے میں سوچ بھی سکی ہے؟

کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زورِ بازو کا
نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں

سیف اللہ

متعلقہ مضامین

  • ایسا کوئی قانون نہیں ہوگا جس سے صوبوں کا اختیار کم ہوگا: ایمل ولی خان
  • افغان عبوری حکومت نے علاقائی وعدے پورے نہیں کیے، پاکستان اپنے مؤوف پر قائم ہے، عطاتارڑ
  • 27ویں ترمیم کا کوئی مسودہ سامنے نہیں آیا،فی الحال کوئی بات نہیں کرسکتے،فضل الرحمن
  • کشمیریوں کیخلاف پروپیگنڈے کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں: حکومت
  • 27ویں آئینی ترمیم: ایک سادہ کاغذ پر لکھ دیں کہ یہ قانون ہے، ترجمان خیبر پختونخوا حکومت
  • امریکا بھارت دفاعی معاہدے سے پاکستان کو کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا
  • فیکٹ چیک، وزیر دفاع خواجہ آصف نے افغانستان میں دراندازی کا کوئی بیان نہیں دیا
  • آئینی ترامیم میں جلد بازی سے عوام کا اعتماد متاثر ہوگا، مولانا فضل الرحمٰن
  • ہمارے قومی رویے خواہشات، تمناؤں کے خواب اور تعبیر
  • قال اللہ تعالیٰ وقال رسول اللہﷺ