کاپ 30 سے پہلے سیکرٹری جنرل کی موسمیاتی کانفرنس کے بارے میں جانیے
اشاعت کی تاریخ: 24th, September 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 24 ستمبر 2025ء) جنوبی ایشیا میں سیلاب، شمالی امریکہ میں جنگلوں کی آگ اور یورپ میں ریکارڈ توڑ گرمی نے سائنس دانوں کے اس انتباہ کو درست ثابت کر دیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کی رفتار اس پر قابو کرنے کے سیاسی عزم و اقدامات سے کہیں زیادہ تیز ہو چکی ہے۔
اس تشویشناک پس منظر میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش جنرل اسمبلی کے اعلیٰ سطحی ہفتے میں 24 ستمبر کو ایک موسمیاتی سربراہی اجلاس منعقد کر رہے ہیں۔
اس میں رکن ممالک پر زور دیا جائے گا کہ وہ نومبر میں برازیل کے شہر بیلیم میں ہونے والی اقوام متحدہ کی سالانہ موسمیاتی کانفرنس (کاپ 30) سے قبل موسمیاتی تبدیلی کے خلاف مزید اقدامات کے وعدے کریں۔اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر میں ہونے والے اس اجلاس کو 'کاپ 30' کا نقطہ آغاز بھی کہا جا سکتا ہے۔
(جاری ہے)
تاہم، وسیع اور طویل موسمیاتی کانفرنس کے برعکس یہ مخصوص موضوعات پر مرتکز اور اعلیٰ سطحی اجلاس ہو گا جس میں ریاستی سربراہان، حکومتی رہنما، کاروباری شخصیات اور سول سوسائٹی کے نمائندے شرکت کریں گے۔
توقع ہے کہ اس میں ٹھوس وعدے اور نئے قومی موسمیاتی منصوبے سامنے آئیں گے۔اس اجلاس کا ایک واضح مقصد یہ ہے کہ پیرس معاہدے کے رکن ممالک موسمیاتی بحران سے نمٹنے کے لیے اپنے ہاں اٹھائے جانے والے اقدامات سے متعلق طے شدہ نئے وعدے سامنے لائیں جو آئندہ دہائی کے دوران اس سمت میں جرات مندانہ اقدامات کی عکاسی کرتے ہوں۔
اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش واضح کر چکے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے رکن ممالک کی جانب سے کیے گئے موجودہ وعدے انتہائی ناکافی ہیں اور اب تک صرف چند ممالک نے ہی رواں سال کے لیے نئے منصوبوں کا اعلان کیا ہے۔
اقوام متحدہ کے موسمیاتی فریم ورک کنونشن (یو این ایف سی سی سی) کے مطابق، موجودہ قومی منصوبوں کو دیکھا جائے تو ان کے ذریعے 2030 تک گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں 2019 کی سطح کے مقابلے میں صرف 2.
لہٰذا یہ اجلاس رکن ممالک پر اس مقصد کے لیے دباؤ بڑھانے کا ذریعہ اور ایک موقع بھی ثابت ہو گا۔ عالمی رہنماؤں سے توقع کی جا رہی ہے کہ اس اجلاس میں وہ محض پرانے وعدے نہیں دہرائیں گے بلکہ نئے موسمیاتی اقدامات کا اعلان بھی کریں گے اور بتائیں گے کہ انہیں کیسے نافذ کیا جائے گا اور یہ منصوبے ماحول دوست توانائی کی جانب تیزی سے منتقلی کے عمل سے کیسے ہم آہنگ ہیں۔
اس اجلاس کی ہنگامی نوعیت کو موجودہ سائنسی اور سیاسی حقائق نے دوچند دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے عالمی موسمیاتی ادارے (ڈبلیو ایم او) نے بتایا ہے کہ 2024 اب تک کا گرم ترین سال تھا جس میں اوسط عالمی درجہ حرارت قبل از صنعتی دور کی سطح سے 1.6 ڈگری سیلسیئس زیادہ رہا۔
دوسری جانب، بین الاقوامی سیاسی منظرنامہ مزید تقسیم کا شکار ہو چکا ہے۔
تاریخی طور پر، امریکہ سب سے زیادہ آلودگی پھیلانے والے ممالک میں سے ایک ہے جو رواں سال کے اوائل میں پیرس معاہدے سے دستبردار ہو گیا تھا۔ اس کی جانب سے موسمیاتی مقاصد کے لیے مہیا کیے جانے والے مالی وسائل کی فراہمی روکے جانے اور ماحول دوست توانائی کی جانب منتقلی کے وعدوں سے پیچھے ہٹنے کے اقدامات نے ترقی پذیر ممالک میں ان شکوک کو بڑھا دیا ہے کہ آیا انہیں موسمیاتی امداد دینے کا وعدہ کبھی پورا بھی ہو گا یا نہیں۔تاہم، اس کے باوجود ماحول دوست توانائی کی جانب منتقلی کے حوالے سے تیز رفتار پیش رفت دیکھنے کو مل رہی ہے۔ 2024 میں ماحول دوست توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری کا حجم 2 ٹریلین ڈالر سے تجاوز کر گیا تھا جو پہلی مرتبہ معدنی ایندھن پر اخراجات سے زیادہ رہی۔ علاوہ ازیں، معدنی ایندھن کے عدم پھیلاؤ سے متعلق معاہدے جیسے اقدامات کو بھی قبولیت مل رہی ہے۔
اجلاس میں یہ بھی دیکھا جائے گا کہ آیا ان مثبت رجحانات سے موثر فائدہ اٹھانا اور انہیں وسعت دینا ممکن ہے یا نہیں۔
یہ اجلاس کوئی باقاعدہ مذاکراتی نشست نہیں ہے لیکن اس کے نتائج 'کاپ 30' میں ہونے والی بات چیت کا رخ متعین کریں گے۔ برازیل نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اس کانفرنس کو موسمیاتی انصاف، جنگلات کے تحفظ اور قابلِ تجدید توانائی پر مرکوز رکھے گا۔ تاہم، بیلیم میں کامیابی کا انحصار بڑی حد تک نیویارک میں ہونے والے اجلاس پر بھی ہے۔
تجزیہ کار تین اہم چیزوں پر گہری نظر رکھیں گے۔ پہلی یہ کہ، آیا سب سے سے زیادہ آلودگی پھیلانے والے ممالک ایسے منصوبے لاتے ہیں جن کی بدولت گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں بڑے پیمانے پر کمی آ سکے۔ دوسری یہ کہ، آیا موسمیاتی مقاصد کے لیے مالی وسائل کی فراہمی پر کوئی عملی پیش رفت ہوتی ہے یا نہیں۔ اس میں نقصان اور تباہی کا فنڈ خاص طور پر اہم ہے جس کے لیے اب تک صرف 789 ملین ڈالر کی فراہمی کے وعدے ہوئے ہیں جو درکار رقم سے بہت کم ہیں۔
تیسری اور آخری بات یہ کہ کیا کوئلے، تیل اور گیس کے استخراج و استعمال میں توسیع پیرس معاہدے کے اہداف سے مطابقت رکھتی ہے یا نہیں؟
اگر ان اہم نکات پر پیش رفت نہ ہوئی تو خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ 'کاپ' ایک اور ایسا فورم بن کر رہ جائے گا جس سے بہت سی امیدیں وابستہ ہیں لیکن یہ مطلوبہ نتائج نہیں دیتا۔
سیکرٹری جنرل کے لیے یہ سربراہی اجلاس صرف ایک رسمی عمل نہیں بلکہ اس کا مقصد موجودہ منقسم دنیا میں کثیرالفریقیت پر اعتماد کی بحالی اور یہ ثابت کرنا ہے کہ موسمیاتی اقدامات نہ صرف ضروری ہیں بلکہ ان سے معاشی اور سماجی فوائد بھی حاصل ہو سکتے ہیں۔ اقوام متحدہ نے ماحول دوست توانائی میں توسیع کے نتیجے میں نوکریوں کی تخلیق، صحت کے حوالے سے بہتری اور توانائی کے تحفظ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ موسمیاتی اقدامات کے نتیجے میں ترقی کے مواقع کبھی اس قدر واضح نہیں تھے۔
پاکستان اور انڈیا میں تباہ کن سیلاب سے بے گھر ہونے والے لوگوں یا شاخ افریقہ میں قحط کا سامنا کرنے والے کسانوں کے لیے یہ اجلاس مواقع سے زیادہ اپنی بقا کے لیے اہمیت رکھتا ہے۔ ماحولیاتی اثرات اور سیاسی اقدامات کے درمیان فرق کبھی اتنا گہرا محسوس نہیں ہوا جتنا اب ہو رہا ہے۔
اگرچہ یہ اجلاس 'کاپ30' کا متبادل نہیں لیکن یہ اتنا ہی فیصلہ کن ضرور ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ ایک ایسا فورم ہے جہاں عالمی رہنما اپنی عزم کو ازسرنو ترتیب دے سکتے ہیں، اعتماد بحال کر سکتے ہیں اور یہ برازیل میں ہونے والی موسمیاتی کانفرنس میں ٹھوس اقدامات کی طرف پیش رفت کو تیز کرنے میں معاون ہو سکتا ہے۔
اگر اس میں موسمیاتی اقدامات کے حوالے سے جراتمندانہ نئے وعدے سامنے آئیں، قابل بھروسہ مالی وسائل مہیا کرنے کی راہ ہموار ہو اور معدنی ایندھن پر واضح موقف دیکھنے کو ملے تو یہ پیرس معاہدے کے وعدے کو بچانے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔
موسمیاتی مکالمے کے 5 ادواراقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اعلیٰ سطحی ہفتے میں صرف عالمی رہنماؤں کی تقاریر ہی شامل نہیں بلکہ اس میں مسائل کے حل سے متعلق بات چیت کے ادوار بھی ہوں گے۔ یہ ایسی موضوعاتی نشستیں ہوں گی جن میں ملکی رہنماؤں کے علاوہ مقامی حکومتیں، کاروباری ادارے اور سول سوسائٹی کے نمائندے بھی شرکت کر رہے ہیں۔
اس بات چیت کا مقصد پانچ بنیادی شعبوں پر توجہ مرکوز کرنا ہے:گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی: اس موضوع پر ہونے والی بات چیت میں معدنی ایندھن کے استعمال میں بتدریج کمی لانے کے اقدامات اور قابل تجدید توانائی کے فروغ کی حکمت عملی زیربحث آئیں گے۔موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے موافقت: اس بات چیت میں سیلاب، قحط سالی اور شدید گرمی کی لہروں سے نمٹنے صلاحیت کو مضبوط بنانے پر بحث ہو گی جبکہ یہ قدرتی آفات دنیا بھر کو متاثر کر رہی ہیں۔موسمیاتی مالی امداد: اس مکالمے میں ترقی پذیر ممالک کے لیے موسمیاتی امداد کو بڑھانے اور صرف قرضوں کے بجائے مالی مدد کو بھی یقینی بنانے کی ضرورت پر زور دیا جائے گا۔معلوماتی دیانت: اس موضوع پر ہونے والی گفت و شنید میں موسمیاتی معلومات اور اطلاعات کی درستگی یقینی بنانے اور غلط و گمراہ کن اطلاعات کو روکنے پر بات چیت ہو گی۔دیگر باہم متقاطع امور: اس میں نظام ہائے خوراک سے لے کر ماحول دوست توانائی کی جانب منصفانہ منتقلی تک متعدد امور و مسائل زیرغور آئیں گے۔ان تمام مکالموں سے حاصل ہونے والی اہم آرا اور اعلانات کا خلاصہ مرتب کر کے 24 ستمبر کو اجلاس کی نشست میں پیش کیا جائے گا۔
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں ماحول دوست توانائی کی جانب موسمیاتی کانفرنس موسمیاتی اقدامات موسمیاتی تبدیلی اقوام متحدہ کے معدنی ایندھن کہ موسمیاتی پیرس معاہدے اقدامات کے توانائی کے ہونے والی رکن ممالک سے زیادہ میں ہونے اس اجلاس کے دوران یہ اجلاس بات چیت سکتا ہے جائے گا رہے ہیں پیش رفت کے لیے
پڑھیں:
ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا افراتفری کی دنیا یا امن کا راستہ؟ سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس سے اپنے پُراثر خطاب میں دنیا بھر میں جاری جنگوں، انسانی حقوق کی پامالیوں اور بڑھتے ہوئے عالمی بحرانوں پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔
جنرل اسمبلی سے خطاب میں انہوں نے عالمی برادری کو خبردار کیا کہ اگر مؤثر عالمی ادارے نہ رہے تو دنیا انتشار اور تباہی کی طرف بڑھ سکتی ہے۔
“غزہ میں ظلم، یوکرین میں جرائم – اب خاموشی خطرناک ہے”
انتونیو گوتریس نے دنیا کے دو سب سے سنگین تنازعات پر براہِ راست گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ غزہ کے عوام پر ظلم ہو رہا ہے، فوری جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی ناگزیر ہے۔
انہوں نے عالمی برادری سے غزہ میں انسانی امداد کی فوری اور بلارکاوٹ فراہمی کو یقینی بنانے کی اپیل کی۔
یوکرین پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یوکرین میں انسانیت کے خلاف جرائم کا سلسلہ جاری ہے، اور وہاں پائیدار جنگ بندی کی اشد ضرورت ہے۔”
اقوام متحدہ کا کردار — امید کی ایک کرن
اپنے خطاب کے آغاز میں سیکریٹری جنرل نے جنرل اسمبلی میں شریک عالمی رہنماؤں اور نمائندوں کو خوش آمدید کہا اور اقوام متحدہ کے امن قائم رکھنے میں کردار کو اجاگر کرتے ہوئے کہا:
یہ ایوان بات چیت، مفاہمت اور امن کی تلاش کا ایک منفرد فورم ہے۔
ایک سنگین انتباہ:
گوتریس نے خبردار کیا کہ دنیا میں استثنیٰ کی پالیسی سے امن کے ستون گر رہے ہیں۔ اگر ہم نے مل کر مضبوط اور مؤثر عالمی ادارے قائم نہ کیے تو آنے والی دنیا افراتفری اور انارکی کی شکار ہو گی۔
سیکریٹری جنرل نے پرزور انداز میں کہاکہ دنیا میں قیامِ امن ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ امن صرف ایک نظریہ نہیں، بلکہ ایک اجتماعی وعدہ ہے — ایک ایسا وعدہ جو ہم ہر جنگ کے دہانے پر بھول جاتے ہیں۔”
انہوں نے عالمی رہنماؤں سے مطالبہ کیا کہ وہ بین الاقوامی قوانین کی پاسداری، انسانی حقوق کے تحفظ، اور انصاف کے حصول کے لیے ٹھوس عملی اقدامات کریں۔
گوتریس نے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑتے ہوئے کہاکہ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم خود سے سوال کریں — کیا ہم ایک بکھری ہوئی، خونی اور غیر محفوظ دنیا چاہتے ہیں؟ یا ایک ایسی دنیا جہاں قانون کی حکمرانی، انسانی ہمدردی اور امن غالب ہو؟