Express News:
2025-09-27@01:17:07 GMT

سب کا امتحان

اشاعت کی تاریخ: 27th, September 2025 GMT

ٹرانس جینڈر ایکٹ :Under Section 3 of the Transgender Persons Protection of Rights Act, 2018, every transgender citizen of Pakistan has the right to be recognized as per their self-perceived gender identity. They can register or update CNIC, CRC, driving license, and passport, ensuring dignity, equality, and full legal recognition.

کراچی کے مضافاتی علاقہ ملیر کے قریب ٹرانس جینڈر برادری کے تین افراد کا قتل معاشرے کی بے حسی کا اظہار ہے۔ ان ٹرانس جینڈر کو قریب سے گولیاں مار کر ہلاک کیا گیا۔ پولیس مسلسل اس قتل کی تحقیقات کررہی ہے مگر پولیس کے ایک اعلیٰ افسر کا کہنا ہے کہ اس واقعے کو دہشت گردی قرار نہیں دیا جاسکتا ،البتہ اس سینئر افسر کے پاس ان تین افراد کے قتل کی وجوہات کے بارے میں کوئی مواد نہیں ہے۔ یہ واقعہ ذاتی دشمنی بھی ہوسکتا ہے اور ٹرانس جینڈر سے پائی جانے والی نفرت کی وجہ بھی ہوسکتی ہے۔

پاکستان میں ٹرانس جینڈر مسلسل تشدد اور ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہیں۔ عمومی طور پر مختلف شہروں سے ٹرانس جینڈر کے قتل اور ان کی لاشیں ملنے کی خبریں آتی رہتی ہیں ۔ صوبہ پختون خوا اگرچہ مسلسل دہشت گردی کا شکار ہے اور ہر روز دھماکوں، ٹارگٹ کلنگ، شہریوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کے اغواء اور قتل کی خبریں ذرایع ابلاغ پر نشر اور اخبارات میں شایع ہوتی رہتی ہیں۔

اس کے ساتھ ہی ملک دشمن عناصر کے خلاف آپریشن اور اس آپریشن کے دوران انسانی جانوں کے ضایع ہونے کی خبریں بھی روز سنائی دیتی ہیں۔ پھر پختون خوا کا بیشتر حصہ کلائمنٹ چینج کا شکار ہے۔ اس سال مون سون کے مہینوں میں مسلسل بارشوں اور دریاؤں میں آنے والی طغیانی سے تباہی کا مسلسل ذکر ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ٹرانس جینڈر برادری کے افراد کی ہلاکت اور ٹرانس جینڈر برادری کے خلاف مختلف نوعیت کے اقدامات کا بھی پتہ چلتا ہے۔

ٹرانس جینڈر کی اکثریت ناخواندہ افراد پر مشتمل ہے۔ یہ لوگ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارتے ہیں۔ ٹرانس جینڈر عموماً بچوں کے عقیقہ اور شادی بیان کے موقع پر ناچ گانے کا کام کرتے ہیں ۔ پشاور سے 80 میل دور صوابی کے علاقہ میں کچھ لوگوں نے گانے بجانے کی محفل کا انعقاد کیا۔ اس محفل میں بہت دور سے لوگ سفر کر کے شرکت کرنے کے لیے صوابی آئے تھے، یوں پروگرام والی رات اس علاقے میں بڑی رونق تھی، مگر پھر پولیس کی بھاری نفری نے اس محفل پر دھاوا بول دیا۔ 80 ٹرانس جینڈر سمیت بہت سے تماش بینوں کو گرفتار کیا گیا۔

پولیس نے اس محفل کو آرگنائز کرنے والے بااثر افراد کے خلاف تو کوئی کارروائی نہیں کی بلکہ غریب ٹرانس جینڈر اور کچھ تماش بینوں کو گرفتار کرلیا ۔ ضلع صوابی میں ہونے والے جرگہ کے فیصلہ کے تحت تمام ٹرانس جینڈر افراد کو ضلع صوابی سے نکالنے کا فیصلہ کیا گیا۔ ان افراد کو رات گئے یہ پیغام پڑھ کر سنایا گیا کہ تمام ٹرانس جینڈر 24 گھنٹے سے کم عرصہ میں یہ ضلع چھوڑ کرچلے جائیں۔ پولیس اور ضلع اعلیٰ حکام نے جرگہ کے فیصلہ پر عملدرآمد کے لیے کچھ اقدامات جاری کیے۔ ٹرانس جینڈر کے لیے صورتحال انتہائی خراب ہوگئی۔ ٹرانس جینڈر پر فحاشی اور عریانی پھیلانے کے الزامات لگائے گئے۔

ان ٹرانس جینڈر برادری کے لیے علاقہ کو چھوڑنے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں تھا ۔ ایک ٹرانس جینڈر نے اپنی پالتو بلی سے کہا ’’مانو، تو تو یہاں رہ سکتی ہے، ہم کہاں جائیں گے معلوم نہیں۔‘‘ مگر بقول ایک ٹرانس جینڈر کے ہم 80 ٹرانس جینڈر کہاں جائیں گے؟ جب صوابی کے جرگہ کے انعقاد اور اس جرگہ کے فیصلہ کے بارے میں ذرایع ابلاغ پر خبریں نشر اور شایع ہوئیں تو پولیس حکام کو صورتحال کی سنگینی کا احساس ہوا۔

اس دوران ٹرانس جینڈر الائنس کی صدر فرزانہ صفدر نے پشاور ہائی کورٹ میں عرضداشت دائر کی جس پر معزز عدالت نے فوری طور پر صورتحال کا نوٹس لیا۔ صوابی کی پولیس کا کہنا ہے کہ کسی فرد یا گروہ کو کسی ضلع سے کوئی نہیں نکال سکتا۔ پولیس آئین اور قانون کی پاسداری کرتے ہوئے کسی جرگہ کے غیر قانونی فیصلہ پر عملدرآمد کی اجازت نہیں دے گی، یوں کچھ عرصہ کے لیے اس مظلوم برادری کو کچھ تحفظ حاصل ہوا مگر ایک انسانی مسئلہ اپنی جگہ موجود ہے۔ ٹرانس جینڈر الائنس کے ایک رہنما کا کہنا ہے کہ اس سال صرف پختون خوا میں 150 کے قریب ٹرانس جینڈر قتل کیے جاچکے ہیں۔ پولیس ان افراد کے قاتلوں کو گرفتار کرنے میں ناکام رہی۔

 تاریخ شاہد ہے کہ انسانی معاشرہ کے ارتقاء کے ساتھ ٹرانس جینڈر کے وجود کا پتہ چلتا ہے مگر ہر دور میں یہ برادری گھریلو کام کرنے، گانے بجائے اور پیغام رسائی کے کام پر مامور رہے۔ کسی دور میں ان لوگوں کو بادشاہوں کے حفاظتی دستوں میں شامل کیا جاتا تھا۔ مسلمان حکام اور بادشاہوں کی تاریخ کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ بعض اوقات ٹرانس جینڈر کو ریاست کے سب سے اہم مقام حاصل ہوا۔

یہ لوگ مختلف ادوار میں بادشاہوں کے قریبی مشیروں میں شامل رہے مگر تاریخ کے حقیقی مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ برادری گانے بجائے اور بھیک مانگنے کے کاموں سے منسلک رہی۔ یوں یہ افراد ہمیشہ معاشرے سے کٹے رہے۔ جدید دور میں یورپ اور دیگر ایشیائی ممالک میں اس برادری کے حالاتِ کار کا جائزہ لیا جاتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ افراد اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور زندگی کے مختلف شعبوں میں دیگر افراد کی طرح اپنے فرائض انجام دیتے رہے ہیں۔

 اس صدی کے آغاز کے ساتھ ہی اعلیٰ ترین سطح پر ٹرانس جینڈر برادری کے حالاتِ کار کو بہتر بنانے کے بارے میں سوچ بچار شروع ہوئی۔ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے ٹرانس جینڈر کو شناختی کارڈ جاری کرنے کا فیصلہ دیا اور اب ٹرانس جینڈر کا باقاعدہ اندراج شروع ہوا۔ صوبوں میں ٹرانس جینڈر کے لیے ملازمتوں کے کوٹے کا بھی فیصلہ ہوا۔ 2018 میں منظور کیے جانے والے ٹرانس جینڈر ایکٹ کے تحت ہر ٹرانس جینڈر کو اپنی شناخت کے تحفظ کا حق حاصل ہوا، یوں ٹرانس جینڈر میں تعلیم حاصل کرنے کا شعور پیدا ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ اب ٹرانس جینڈر مختلف شعبوں میں زیادہ متحرک نظر آنے لگے۔

ذرایع ابلاغ پر ایک ٹرانس جینڈر ایم بی بی ایس ڈاکٹر اور کئی سند یافتہ وکلاء کا ذکر ہونے لگا ہے مگر ٹرانس جینڈر کی اکثریت اب بھی ناخواندہ ہے۔ ان کا گزارا بھیک مانگنے اور گانے بجانے کی محفلوں میں ہونے والی آمدنی پر ہوتا ہے۔ اس برادری کو غربت سے نکالنے اور مہذب شہری بنانے کے لیے ایک جامع منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔

اس ملک میں ایک ڈبل اسٹینڈرڈ کا نظام رائج ہے۔ سندھ کے بلدیاتی نظام میں ٹرانس جینڈر کے لیے نشست مختص کی گئی ہے۔ ایک ٹرانس جینڈر نے ایک پیغام میں بتایا کہ دائیں بازو کی ایک مذہبی جماعت نے سپریم کورٹ میں ٹرانس جینڈر ایکٹ کو چیلنج کیا ہوا ہے مگر کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں انھوں نے ایک ٹرانس جینڈر کو نامزد کیا۔ کراچی میں تین ٹرانس جینڈر کا قتل ایک امتحان ہے۔

یہ امتحان صرف حکومت یا پولیس کا نہیں بلکہ ہم سب کا ہے، اگر ہم اس پر خاموش رہ گئے تو یہ سلسلہ مزید بڑھے گا۔ کل کو شاید مزید لاشیں گریں گی اور پھر ہم صرف ’’افسوس‘‘ اور ’’مذمت‘‘ کے بیانات دیتے رہ جائیں گے۔ لیکن اگر آج ہم متحد ہو کر آواز بلند کریں، انصاف کا مطالبہ کریں اور سماجی رویے بدلنے کی جدوجہد کریں تو یہ سانحہ ایک تبدیلی کی بنیاد بھی بن سکتا ہے۔

 ٹرانس جینڈر کے ساتھ اظہارِ یکجہتی محض اخلاقی فریضہ نہیں بلکہ انسانی ذمے داری ہے۔ ان کی آنکھوں میں وہی خواب ہیں جو ہماری آنکھوں میں ہیں، ان کے دل بھی ویسے ہی دھڑکتے ہیں جیسے ہمارے۔ ان کی مسکراہٹ بھی اتنی ہی قیمتی ہے جتنی ہمارے بچوں کی مسکراہٹ۔ تو پھر ان کی جانوں کو ارزاں کیوں سمجھا جائے؟ ہم کب تک اپنے سماج کے کمزور ترین طبقات کو بے یار و مددگار چھوڑتے رہیں گے؟ کب تک ہم قاتلوں کو یہ یقین دلاتے رہیں گے کہ ان کے جرائم بے سزا رہیں گے؟ اور کب تک ہم انسانیت کے اس بنیادی سبق کو بھلا کر اپنی آنکھیں بند کرتے رہیں گے؟ وقت آگیا ہے کہ ہم سب مل کر یہ عہد کریں کہ ٹرانس جینڈر بھی اسی سرزمین کے برابر کے شہری ہیں۔

ان کا خون بھی اتنا ہی قیمتی ہے جتنا ہمارا، ان کا وجود بھی اتنا ہی معتبر ہے جتنا ہمارا۔ ان کی حفاظت کرنا، ان کوعزت دینا اور ان کے خوابوں کو سچ کرنا ہم سب کی مشترکہ ذمے داری ہے۔ یہی انصاف ہے، یہی انسانیت ہے اور یہی ہماری اصل پہچان ہونی چاہیے۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ٹرانس جینڈر برادری کے ایک ٹرانس جینڈر ٹرانس جینڈر کو ٹرانس جینڈر کے رہیں گے جرگہ کے ہوتا ہے کے ساتھ کے لیے قتل کی ہے مگر

پڑھیں:

گورنر بلوچستان کی رہائش گاہ میں پولیس اہلکار کی فائرنگ، 5 افراد زخمی

گورنر بلوچستان نے واقعہ پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے زخمی طلبہ سے ہسپتال میں ملاقات کی اور ان کے مکمل علاج کا خرچہ اٹھانے کا اعلان کیا اور کہا کہ یہ انتہائی افسوسناک واقعہ ہے، ہم زخمی طلبہ کو ہر ممکن تعلیمی اور مالی امداد فراہم کریں گے۔ اسلام ٹائمز۔ ژوب میں گورنر بلوچستان جعفر مندوخیل کی رہائش گاہ میں تعینات پولیس اہلکار کی فائرنگ سے 5 افراد زخمی ہو گئے۔ پولیس نے بتایا کہ گورنر کی رہائش گاہ کے باہر تعینات پولیس اہلکار سے غلطی سے فائرنگ ہوئی، گورنر سے ملاقات کے لیے آنے والے 3 طلبا اور 2 پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔ پولیس کے مطابق زخمی طلبا کا تعلق گورنمنٹ بوائز ڈگری کالج سے ہے، زخمی افراد کو فوری طور پر ژوب سول ہسپتال منتقل کر دیا گیا، زخمیوں کی حالت تسلی بخش بتائی جا رہی ہے۔ حکام نے بتایا کہ اہلکار کو حراست میں لے کر واقعہ کی تحقیقات شروع کر دی گئی۔

ژوب پولیس کے ضلعی سربراہ ایس پی شوکت مہمند نے بتایا کہ گورنر بلوچستان کی نجی رہائش گاہ "جانان ہاؤس" میں تعینات پولیس اہلکار کی جانب سے اتفاقی فائرنگ کی وجہ سے واقعہ پیش آیا۔ ایس ایچ او محمد ایوب مندوخیل نے بتایا کہ واقعہ غلطی سے پیش آیا، پولیس اہلکار رائفل کے چیمبر میں پھنسی گولی نکالنے کی کوشش کررہا تھا کہ اس دوران اس کی انگلی سے ٹرگر دب گیا، رائفل برسٹ موڈ پر تھا اس لیے گولیاں چل گئیں، میں اور ڈی ایس پی بھی گولیوں سے بال بال بچے، رائفل کا رخ زمین کی طرف تھا اس لیے نقصان کم ہوا۔ فائرنگ کے وقت گورنمنٹ ڈگری کالج ژوب کے 100 سے زائد طلبہ گورنر بلوچستان سے ملاقات کی غرض سے ان کی نجی رہائش گاہ جانان ہاؤس پر موجود تھے۔

ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر عبدالرحمن نے بتایا کہ تینوں طلبہ کی سرجری مکمل ہو چکی ہے اور ان کی حالت تسلی بخش ہے، 2 پولیس اہلکاروں کے زخم ہلکے ہیں اور انہیں ابتدائی طبی امداد کے بعد ڈسچارج کر دیا گیا ہے۔ دوسری جانب گورنر بلوچستان شیخ جعفر خان مندوخیل نے واقعہ پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے زخمی طلبہ سے ہسپتال میں ملاقات کی اور ان کے مکمل علاج کا خرچہ اٹھانے کا اعلان کیا اور کہا کہ یہ انتہائی افسوسناک واقعہ ہے، ہم زخمی طلبہ کو ہر ممکن تعلیمی اور مالی امداد فراہم کریں گے۔
علاوہ ازیں گورنر نے سکیورٹی اہلکاروں کی تربیت اور ہتھیاروں کی باقاعدہ چیکنگ کے احکامات بھی جاری کیے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • گورنر بلوچستان کی رہائش گاہ میں پولیس اہلکار کی فائرنگ، 5 افراد زخمی
  • ڈی آئی خان، منی ٹرک بریک فیل ہونے سے کھائی میں جاگرا، 11 افراد جاں بحق
  • ڈی آئی خان: منی ٹرک بریک فیل ہونے سے کھائی میں جاگرا، 11 افراد جاں بحق
  • انڈونیشیا: پرتشدد مظاہروں میں 936 افراد گرفتار ، 295 نابالغ بھی شامل
  • کراچی: واٹر ٹینکر کی کار، رکشہ اور موٹرسائیکل کو ٹکر، 2 خواتین سمیت 4 افراد زخمی
  • بھارت کے زیر قبضہ لداخ میں پُرتشدد مظاہرے، کرفیو نافذ
  • بی آر ٹی سے متعلق شکایات درج کرانے پر کونسلر کیخلاف انکوائری
  • بی آر ٹی میں تاخیراوربدانتظامی کی  شکایات درج کرانے پر کونسلر کےخلاف انکوائری
  • کراچی میں نوجوان لڑکی سمیت 2 افراد کی لاشیں برآمد