شفافیت و اعتماد انشورنس صنعت کی ترقی کا ضامن ہے،وفاقی انشورنس محتسب
اشاعت کی تاریخ: 24th, November 2025 GMT
اسلام آباد(نیوزڈیسک)پاکستان کا انشورنس شعبہ ایک اہم موڑ پر کھڑا ہے۔ اگرچہ حالیہ برسوں میں ٹیکنالوجی کے فروغ اور لائف انشورنس کے بڑھتے ہوئے رجحان کے باعث اس شعبے میں توسیع ہوئی ہے، تاہم ملک میں مجموعی انشورنس رسائی اب بھی خطے کے کئی ممالک کے مقابلے میں انتہائی کم ہے۔
لاکھوں گھرانے آج بھی منظم مالی تحفظ کے بجائے غیر رسمی سہاروں پر انحصار کر رہے ہیں۔ اس شعبے کی ترقی صرف نئے پروڈکٹس لانے سے نہیں بلکہ عوامی اعتماد کی بحالی، شفافیت، منصفانہ طرزِ عمل اور صارفین کی آگاہی سے ممکن ہوگی۔ انشورنس بنیادی طور پر اعتماد پر مبنی معاہدہ ہے۔ عام خدمات کے برعکس، انشورنس کا حقیقی فائدہ صرف اُس وقت سامنے آتا ہے جب کوئی کلیم پیدا ہوتا ہے۔
اگر صارفین کو اس بات کا یقین نہ ہو کہ وہ کیا خرید رہے ہیں یا اُن کے کلیمز کس حد تک پورے ہوں گے، تو اعتماد کم ہو جاتا ہے۔ یہ بے یقینی اکثر پیچیدہ پالیسی زبان، ناکافی معلومات یا نمائندگان کی غیر واضح رہنمائی کی وجہ سے جنم لیتی ہے۔ شفافیت کوئی تکنیکی تقاضا نہیں بلکہ انشورنس کاروبار کی بنیاد
ہے۔ جب تک طریقہ کار واضح نہ ہوں، نہ تو مارکیٹنگ مددگار ثابت ہوتی ہے اور نہ ہی مختلف النوع پروڈکٹس۔
وفاقی انشورنس محتسب کا ادارہ صارفین کی شکایات کے ازالے اور انصاف کی فراہمی میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ ہر سال ہزاروں پالیسی ہولڈرز اپنا معاملہ اس ادارے کے سامنے لاتے ہیں، جن میں زیادہ تر شکایات کلیم میں تاخیر، کٹوتیوں یا پالیسی کی غلط تشریح سے متعلق ہوتی ہیں۔ محتسب کا دفتر صارف اور انشورر کے درمیان پُل کا کردار ادا کرتا ہے اور بروقت ریلیف فراہم کرتا ہے۔ اکثر مسائل بدنیتی کی بنیاد پر نہیں بلکہ طریقہ کار کی خامیوں، ناکافی معلومات اور پالیسی شقوں کی غیر یکساں تشریح سے پیدا ہوتے ہیں، جن کی نشاندہی ادارہ باقاعدگی سے کمپنیوں کو کرتا ہے۔
ایک اہم چیلنج یہ ہے کہ بہت سے صارفین پالیسی خریدتے وقت اس کی شرائط، اخراجات، ضروری دستاویزات یا حدودِ کوریج سے مکمل طور پر آگاہ نہیں ہوتے۔ نتیجتاً کلیم میں تاخیر یا انکار کی صورت میں تنازع جنم لیتا ہے۔ کارپوریٹ سیکٹر میں بھی معلومات کی کمی اور ناکافی رابطہ صارفین کو مشکلات میں ڈالتا ہے۔ دستاویزات کو سادہ، جامع اور قابلِ فہم بنانا اور صارفین کے ساتھ بہتر رابطہ قائم کرنا، شکایات میں نمایاں کمی لا سکتا ہے۔
آئندہ اصلاحات کے سلسلے میں ڈیجیٹلائزیشن شفافیت بڑھانے کے لیے ناگزیر ہے۔ ڈیجیٹل پالیسی اجرا، آن لائن کلیم ٹریکنگ اور خودکار نظام نہ صرف انسانی غلطیوں کو کم کرتے ہیں بلکہ ریکارڈ کی مضبوطی میں بھی اضافہ کرتے ہیں۔ ٹیکنالوجی کی بدولت وہ آبادی بھی انشورنس سہولتوں تک پہنچ سکتی ہے جو دور دراز علاقوں میں روایتی نیٹ ورک سے محروم ہیں۔
آبادی کا بڑا حصہ اب بھی نہیں جانتا کہ انشورنس کیسے کام کرتی ہے اور یہ کس طرح گھریلو مالی بوجھ سے بچا سکتی ہے۔ عوامی آگاہی مہمات، تعلیمی پروگرام اور مالی اداروں کے اشتراک سے اس سوچ میں تبدیلی لائی جا سکتی ہے کہ انشورنس کوئی اضافی خرچ نہیں بلکہ ایک لازمی تحفظ ہے۔ بدلتے عالمی رجحانات کے پیشِ نظر پاکستان کو سائبر انشورنس، مائیکرو انشورنس اور شریعت کے مطابق پروڈکٹس جیسے جدید حل بھی اپنانے ہوں گے۔
ماحولیاتی تبدیلی نے انشورنس کے کردار کو مزید اہم بنا دیا ہے۔ پاکستان میں حالیہ سیلابوں، غیر معمولی بارشوں اور درجہ حرارت میں اضافے نے زراعت، مویشیوں، رہائش اور چھوٹے کاروباروں کو شدید متاثر کیا ہے۔ موسمیاتی خطرات سے نمٹنے کے لیے موسم سے منسلک انڈیکس انشورنس، فصلوں اور مویشیوں کی انشورنس جیسے ماڈلز ناگزیر ہو چکے ہیں۔عوامی اور نجی شعبے کے اشتراک سے ہی یہ اسکیمیں بڑے پیمانے پر قابلِ عمل اور سستی بنائی جا سکتی ہیں۔
اعتماد کی بحالی اس شعبے کا سب سے بنیادی ہدف ہے۔ منصفانہ کلیم سیٹلمنٹ، شفاف رابطہ، اعتماد کی فضاء اور صارفین کے لیے آسان سہولیات وہ ستون ہیں جن پر اس صنعت کا مستقبل قائم ہوگا۔ وفاقی انشورنس محتسب کا ادارہ صارفین کےلیے ایک قابلِ اعتماد فورم کے طور پر موجود ہے، جبکہ بیمہ کمپنیوں کے لیے بھی محتسب کا ادارہ رکاوٹ کے بجائے اصلاح اور بہتری کا موثر ذریعہ ہے۔ پاکستان کو درپیش معاشی اور موسمیاتی چیلنجز کے تناظر میں انشورنس ایک مضبوط حفاظتی ڈھال ثابت ہو سکتی ہے، مگر یہ تبھی ممکن ہے جب شفافیت، انصاف اور عوامی اعتماد ہر پالیسی اور ہر فیصلے کا مرکز بنے رہیں۔ عوام کسی بھی شکایت کی صورت میں وفاقی انشورنس محتسب سے ان کی ویب سائٹ www.
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: وفاقی انشورنس محتسب نہیں بلکہ محتسب کا ہیں بلکہ سکتی ہے عوامی ا کے لیے
پڑھیں:
پاکستانی سولر صارفین کا رجحان آف گرڈ سولر سسٹم کی طرف کیوں بڑھ رہا ہے؟
پاکستان میں بجلی کے ناقابلِ برداشت بلوں اور لوڈشیڈنگ سے تنگ آ کر لاکھوں گھر، دکانیں اور فیکٹریاں نیشنل گرڈ سے مکمل طور پر لاتعلق ہو چکے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:سستے سولر پینل کی تیاری آغاز، بجلی کے بلوں سے پریشان صارفین کے لیے بڑا ریلیف
پاور ڈویژن کے مطابق ملک بھر میں 12 سے 13 ہزار میگاواٹ سے زائد آف گرڈ سولر سسٹم نصب ہو چکے ہیں، اور سولر ماہرین کے مطابق آف گرڈ سسٹم کا رجحان اب سولر صارفین میں بڑھ رہا ہے۔
نیٹ میٹرنگ اور حکومتی پالیسیوں سے بے اعتمادیسولر انڈسٹری سے جڑے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ وہ صارفین ہیں جو نہ تو نیٹ میٹرنگ کے جھنجھٹ میں پڑنا چاہتے ہیں اور نہ حکومتی پالیسیوں کے رحم و کرم پر رہنا چاہتے ہیں، بلکہ اپنی چھت پر سولر پینل اور بیٹری لگا کر 24 گھنٹے اپنی بجلی خود پیدا کرنا چاہتے ہیں۔
آف گرڈ تنصیبات میں تیزی، انجینیئر نور بادشاہانجینیئر نور بادشاہ کا کہنا ہے کہ آف گرڈ سولر اب پاکستان کا سب سے تیزی سے بڑھتا ہوا توانائی کا شعبہ ہے۔ میرا اندازہ ہے کہ اصل میں 15 ہزار میگاواٹ سے بھی زیادہ آف گرڈ تنصیب ہو چکی ہے کیونکہ 70 فیصد سے زائد صارفین رجسٹر ہی نہیں کرواتے۔ لوگ کہتے ہیں کہ ’جب گرڈ پر بھروسہ ہی نہیں تو نیٹ میٹرنگ کروانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ گزشتہ عرصے میں ہمارے آف گرڈ سسٹمز کی تنصیب میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ پہلے لوگ 5–10 کلو واٹ لگاتے تھے، اب اوسط سسٹم 20 سے 50 کلو واٹ کا ہے۔ گاہک کا پہلا جملہ یہی ہوتا ہے ’مجھے گرڈ سے مکمل آزاد کر دو، بل صفر چاہیے‘۔
نیٹ میٹرنگ پالیسیوں کے اثرات، شرجیل احمد سلہریسولر توانائی کے ماہر شرجیل احمد سلہری کا کہنا تھا کہ حکومت نے نیٹ میٹرنگ پر ٹیکس لگا کر اور نئی پالیسیاں بنا کر جو سبق پڑھایا، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ لوگ آف گرڈ کو زیادہ ترجیح دینے لگے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:اب سولر کو آپ بھول جائیں، امریکی ’انورٹر بیٹری‘ نے پاکستان میں تہلکہ مچا دیا
لتھیم بیٹریوں کی درآمد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک عام 3 بیڈ روم گھر اب 15 کلو واٹ پینل + 20 کلو واٹ بیٹری لگا کر سال بھر میں 3 سے 4 لاکھ روپے کا بل بآسانی بچا سکتا ہے۔
صارفین کے تجربات، راولپنڈی کے عدنان جنجوعہراولپنڈی کے رہائشی عدنان جنجوعہ آف گرڈ سولر سسٹم سے بجلی پیدا کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ میں نے 5 کلو واٹ پینل اور 15 کلو واٹ لتھیم بیٹری لگائی۔ میرا ماہانہ بل صفر روپے ہو گیا۔ اب مجھے لوڈشیڈنگ، فیول ایڈجسٹمنٹ، ٹیکس یا حکومتی پالیسی سے کوئی غرض نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ گرڈ کا میٹر تو شوپیس بنا دیا ہے، کیونکہ حکومت کی ہر تھوڑی دیر بعد کوئی نہ کوئی نئی پالیسی سننے کو ملتی ہے۔ کبھی ایک مسئلہ، کبھی دوسرا۔ بہتر ہے کہ بیٹری لے لی جائے۔
کیا آف گرڈ رجحان رکے گا؟ماہرین کا اتفاق ہے کہ یہ آف گرڈ انقلاب اب رکنے والا نہیں۔ جب تک بجلی کے نرخوں میں نمایاں کمی نہیں آتی اور گرڈ کی ساکھ بحال نہیں ہوتی، لاکھوں پاکستانی ہر ماہ گرڈ کو چھوڑتے رہیں گے اور اپنی چھتوں کو اپنا ذاتی پاور ہاؤس بناتے رہیں گے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پاکستان سولر پینل گرڈ اسٹیشن گرڈ میٹر