Express News:
2025-11-12@07:22:14 GMT

ڈیوجینز، سکندر اورسورج (پہلا حصہ)

اشاعت کی تاریخ: 27th, September 2025 GMT

اصل نام تو اس کا ڈیوجینز تھا لیکن عربوں نے اسے ’’ دیوجانس‘‘ کردیا ہے چونکہ انسانوں سے زیادہ وہ کتوں کی صحبت میں خوش رہتا تھا اس لیے ’’کلبی‘‘ بھی کہلایا وہ جہاں جی چاہتا تھا پڑا رہتا تھا ، لوگ جو اشیائے خورونوش دیتے تھے ان میں سے تھوڑا بہت کھا کر ادھرادھر پھینک دیتا تھا اس لیے ہمیشہ اس کے گرد کتے بھی لیٹے رہتے تھے۔

مردان شہر میں ایک بڑھیا تھی، وہ بھی اپنے وقت کی دیوجانس کلبی تھی ، میں نے خود اسے کتوں کے نرغے میں لیٹے دیکھا تھا ، لوگ اسے ’’سپوماسی‘‘ یعنی کتوں کی ماسی کہتے تھے ۔

ڈیوجینز نے بڑی لمبی عمر پائی تھی، اس نے سقراط ،افلاطون اورارسطو سب کی صحبت پائی تھی ، سکندر اوراس کے باپ فلپ کا زمانہ بھی پایا تھا ، سکندر اور وہ دونوں ایک ہی دن مرے تھے ، سکندر بابل میں تینتیس سال کی عمر پاکر اورڈیوجینز ایتھنزمیں نوے سال کی زندگی گزار کر چل بسا ۔لطیفے تو اس کے بہت سارے مشہور ہیں لیکن یہاں میں دو کاذکر کروں گا کہ ان میں بہت گہرے معانی ہیں ، سکندر کے باپ فلپ نے جب اپنا شاندار محل ’’پیلا‘‘ بنایا تو ڈیوجینز سے استدعا کی کہ کسی دن میرے اس محل کو اپنی قدم بوسی سے مشرف کیجیے۔

 اس لفظ پیلا کے وہی معنی ہیں جو اردو کے لفظ ’’پہلا‘‘ کے ہیں اورمختلف زبانوں میں پیلس پلازے وغیرہ اسی سے مشتق ہیں ۔ڈیوجینز جب پہنچا تو فلپ نے اپنے ایک خاص وزیر کو اس کی پذیرائی کے لیے دروازے پر تعینات کیاہواتھا ، وزیر اسے لے کر محل کے مختلف حصوں سے گزار کردربار لے جانے لگا تو ڈیوجینز کو کھانسی اٹھی، کھانسنے کے بعداس نے ادھر ادھر دیکھا اوراس وزیر کے منہ پر تھوک دیا، وزیر نے اس وقت تو کچھ نہیں کہا صرف منہ پونچھ لیا لیکن بادشاہ سے شکایت کی۔

 بادشاہ نے ڈیوجینز سے پوچھا ، تو اس نے کہا مجھے اورتو کوئی پتہ نہیں لیکن محل میں جو سب سے گندی جگہ نظر آئی وہاں تھوک دیا ۔لیکن اصل لطیفہ جس پر ہم فوکس کرناچاہتے ہیں، لوگوں نے اسے لطیفہ سمجھ لیا ہے لیکن اصل میں یہ بہت گہرا کثیفہ ہے ۔ایک دن سکندر نے راہ چلتے ہوئے ڈیوجینز کو راستے کے ایک کنارے دھوپ میں پڑے دیکھا تو مڑ کر اس کے پاس گیا اورٹانگیں پھیلا کر کہا میں سکندر ہوں بادشاہ ۔ کہو میں تمہارے لیے کیا کرسکتا ہوں تو ڈیوجینز نے کہا ، سورج کے سامنے سے ہٹ جاؤ ۔ اب ظاہر ہے ، کوتاہ بین اورسرسری لوگوں نے تو اسے لطیفہ بنا لیا ہے لیکن ڈیوجینز جس نے سقراط ، افلاطون اورارسطو سے مباحثے کیے تھے۔

 غوروحوض میں شریک ہوا تھا، فلسفے پر تبادلہ خیال کیا تھا بلکہ ان تینوں کے نظریات کی دھجیاں اڑائی تھیں ، کیا اس کے اس ایک فقرے کا اتنا ہی مطلب ہے جو لوگوں نے نکالاہوا ہے ، کیا اس کامطلب یہ تھا کہ میرے اورسورج کے درمیان سے ہٹ جاؤ ؟ دھوپ آنے دو ، نہیں ایسا ہرگز نہیں تھا وہ فلسفی تھا اوربہت بڑا فلسفی۔اس نے اس وقت صرف خود اورسکندر کو نہیں دیکھا بلکہ حکمران اورعوام کو دیکھا تھا کہ کس طرح یہ حکمران لوگ عوام اورسورج یا روشنی اورعوام اورسورج کے درمیان حائل ہوجاتے ہیں اورہمیشہ حائل رہتے ہیں۔

 ان کے آرام میں حائل ہوجاتے ہیں ، وہ فلسفی تھا، مذہب کو ان معنوں میں نہیں مانتا تھا جیسے عام لوگ مانتے ہیں بلکہ وہ اس پوری کائنات کا جان کار تھا ، اسے معلوم تھا کہ دنیا کاسب کچھ سورج کادیا ہوا ہے ، انسان اورزمین کے پاس جو کچھ بھی ہے سورج کادین ہے ، یہ الگ بات ہے کہ وہ اس قوت ، اس ہستی کے بارے میں نہیں جانتا تھا کہ سورج بھی کسی اورکا تابع و اسیر ہے ،یا سورج کے پیچھے بھی کوئی ہے ۔

میری طرح سے مہ ومہربھی ہیں آوارہ

 کسی حبیب کی یہ بھی ہیں جستجو کرتے

 خیر بات یہیں چھوڑتے ہیں کیوں کہ انسان ’’جزو‘‘ ہے اورجزو کسی کل کا نہ احاطہ کرسکتا ہے نہ ادراک ، لیکن اتنا ہم جانتے ہیں کہ جس طرح چاند زمین کے گردگھومتا ہے، زمین اورنظام شمسی کے سیارے سورج کے گرد گھومتے ہیں، اسی طرح سورج بھی اپنی کہکشاں کے گرد گھومتا ہے اوراپنا چکر بیس ہزار سال میں پورا کرتا ہے ، اسی طرح کہکشاں بھی کسی کی اسیر اورتابع ہے ۔معافی چاہتا ہوں کہ میں اصل موضوع سے ذرا ہٹ گیا، بات ہم سورج کی کررہے ہیں جو زمین اوراس زمین پر رہنے والوں کاپالن ہار ہے اورانھیںسب کچھ دیتا ہے اگر آج سورج نہ رہے تو دنیا میں کچھ بھی نہ رہے ۔یہ شجر ، انسان حیوان سبزہ روئیدگی بارآوری پھل پھول یہاں تک کہ پانی اور ہوا بھی نہ رہے ۔

یہ سورج ہی ہے جو سمندر سے بھاپ اٹھاتا ہے ، وہ بھاپ بادل بن جاتی ہے ، بادل برستے ہیں بارش ہوتی ہے برف باری ہوتی ہے پانی یہاں وہاں پہنچتا ہے،انسان حیوان نباتات جمادات میں جذب ہوتا ہے لیکن کچھ عرصہ بعد نکل کر اپنے سفر پر روانہ ہوتا ہے ، دنیا کو زندہ رکھتا ہے اورپھر سمندر میں اپنے دوسرے سفر کے لیے پہنچ جاتا ہے ۔یہی حال ہواؤں کاہے ، ہوائیں بھی سورج کی تمازت کے مطابق متحرک رہتی ہیں ،سورج جس ہوا کو گرم کرکے رطوبت نکالتا ہے وہ ہلکی ہوکر اوپر چلی جاتی ہیں اس کی خالی جگہ کو بھرنے کے لیے ٹھنڈی ہوائیں آجاتی ہیں اور چلتی رہتی ہیں ۔

چلتے رہنا کہ چلنا ہے مسافر کا نصیب

 کس کو معلوم کہاں کے ہیں کدھر کے ہم ہیں

مطلب یہ کہ اس دنیا میں جو کچھ بھی ہے سورج ہی کا دین ہے عنایت ہے عطا ہے۔آپ نے دیکھا ہوگا کہ کسی طرح کے سائے میں بھی نہ کچھ اگتا ہے نہ نشوونما پاتا ہے نہ بارآورہوتا ہے ، ہرطاقت چل کر سورج سے جڑتی ہے ، کسان زمین میں ہل چلاتا ہے زمین الٹ پلٹ ہوتی ہے تو اس میں سورج سے توانائی بھرتی ہے ،یہ مصنوعی کھاد بھی اکثر سورج کی تمازت سے بنتی ہے۔

اس لفظ تمازت سے ایک عراقی اسطورہ یاد آتا ہے ’’تموز‘‘ (سورج) بہار اور سرسبزی کی دیوی عشتار کا محبوب ہے ، سردیوں میں تموز بیمار ہوجاتا ہے تو وہ اس کا علاج ڈھونڈنے پاتال چلی جاتی ہے ، تو چارمہینے اس کے عتاب میں زمین کی ساری سرسبزی فنا ہوجاتی ہے اورجب چار مہینے بعد لوٹتی ہے تو بہار آجاتی ہے ، سیدھا سادہ موسمی قصہ ہے لیکن پرانے لوگ اسی طرح قدرتی عوامل کو دیوی دیوتا بنا کر اساطیری شکل دیتے ہیں۔

خلاصہ اس ساری بحث کایہ ہے کہ ساری نعمتیں ساری راحتیں اورساری دولتیں سورج ہی کی رہین منت ہیں لیکن جب ان نعمتوں راحتوں اوردولتوں پر حکمران قابض ہوجاتے ہیں تو گویا عوام اورسورج کے درمیان کھڑے ہوجاتے ہیں جیسا کہ سکندر ڈیوجینز اورسورج کے درمیان کھڑا ہوگیاتھا اورسورج کی تمازت یادھوپ سے محروم کردیاتھا اوراس نے کہا کہ مہربانی کرکے اپنی مہربانیاں اپنے پاس رکھو صرف میرے اور سورج کے درمیان سے ہٹ جاؤ ،اپنے منحوس وجود کو دورکردو۔

(جاری ہے)

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اورسورج کے درمیان سورج کے درمیان ہوجاتے ہیں سورج کی جاتی ہے ہے لیکن تھا کہ

پڑھیں:

پہلا ون ڈے، پاکستان نے سری لنکا کو 6 رنز سے شکست دے دی

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251112-01-11
راولپنڈی(مانیٹرنگ ڈیسک)پہلے ون ڈے میں پاکستان نے سنسنی خیز مقابلے کے بعد سری لنکا کو 6 رنز سے شکست دے کر 3 میچوں کی سیریز میں 0-1 کی برتری حاصل کرلی۔منگل کو راولپنڈی کرکٹ اسٹیڈیم میں پاکستان اور سری لنکا کی ٹیموں کے درمیان پہلا ون ڈے کھیلاجارہا ہے، جہاں سری لنکا کی دعوت پر پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے پاکستان نے سلمان علی آغا کی شاندار سنچری کی بدولت مقررہ 50 اوورز میں 7 وکٹوں کے نقصان پر 299 رنز بنائے تاہم 300 رنز کے ہدف کے تعاقب میں سری لنکن ٹیم مقررہ 50 اوورز میں 9 وکٹوں کے نقصان پر 293 رنز ہی بناسکی۔قومی ٹیم کی جانب سے اننگز کا آغاز اوپننگ بیٹر فخر زمان اور صائم ایوب نے کیا تاہم چوتھے اوور کی پہلی گیند پر صائم ایوب 6 رنز بناکر پویلین لوٹ گئے۔فخر زمان اور بابر اعظم نے دوسری وکٹ کی شراکت میں 54 رنز بنائے تاہم فخر زمان 18 ویں اوور میں 68 کے مجموعی اسکور پر 55 گیندوں پر 32 رنز بنانے کے بعد ہسارنگا کی گیند پر وکٹ کیپر کے ہاتھوں اسٹمپ ہوگئے۔گرین شرٹس کی تیسری وکٹ 76 رنز پر گری اور محمد رضوان بھی 5 رنز بنانے کے بعد ہسارنگا کی گیند پر ایل بی ڈبلیو ہوگئے جب کہ بابر اعظم بھی زیادہ دیر مزاحمت نہ کرسکے اور 95 کے مجموعی اسکور پر 51 گیندوں پر 29 رنز بناکر ہسارنگا کی گیند پر کلین بولڈ ہوگئے۔ایسے میں حسین طلعت اور سلمان علی آغا نے 138 رنز کی شاندار شراکت داری قائم کی اور ٹیم کا اسکور 233 رنز تک پہنچایا، جس کے بعد حسین طلعت 63 گیندوں پر 62 رنز بناکر آؤٹ ہوگئے۔دوسری جانب سلمان علی آغا ڈٹے رہے اور شاندار سنچری اسکور کی، انہوں نے 87 گیندوں پر 105 رنز کی ناقابل شکست اننگز کھیلی جب کہ ان کی اننگ میں 9 چوکے شامل تھے۔اس کے علاوہ اختتامی اوورز میں محمد نواز بھی شاندار بیٹنگ کرتے ہوئے 23 گیندوں پر 36 رنز بناکر ناٹ آؤٹ رہے۔یوں پاکستان نے مقررہ 50 اوورز میں 5 وکٹوں پر 299 رنز اسکور کیے اور سری لنکا کو جیت کے لیے 300 رنز کا ہدف دیا۔سری لنکا کی جانب وانندو ہاسارنگا نے 3 جبکہ اسیتھا فرنینڈو اور مہیش تھیکشنا نے ایک،ایک کھلاڑی کو آؤٹ کیا۔

سیف اللہ

متعلقہ مضامین

  • کیا عدلیہ کو بھی تاحیات استثنی حاصل ہے؟
  • ایک پلان اللہ کا ہوتا ہے اور وہ سب سے درست ہوتا ہے، حارث رؤف
  • پہلا ون ڈے، پاکستان نے سری لنکا کو 6 رنز سے شکست دے دی
  • پہلا ون ڈے: پاکستان کا سری لنکا کو جیت کیلئے 300 رنز کا ہدف
  • پہلا ون ڈے، پاکستان نے سری لنکا کو 300 رنز کا ہدف
  • راولپنڈی: پہلے ون ڈے میچ میں سری لنکا کا ٹاس جیت کر پاکستان کو بیٹنگ کی دعوت
  • ٹیکنالوجی کی دنیا میں نیا سنگ میل: دنیا کا سب سے چھوٹا سپر کمپیوٹر تخلیق
  • چرغن،گذرگ اور بھوت دانشور
  • گووندا اچھے بیٹے اور بھائی تو ہیں لیکن خاوند نہیں، اگلے جنم میں شوہر کے طور پر نہیں چاہتی؛بیوی سنیتا
  • 22 سال کی عمر میں گھر چھوڑنے کا فیصلہ کیا، ماں سے کہا میں آزاد زندگی گزاروں گی، انزیلہ عباسی