ماہر قانون اور سپریم کورٹ کے سینئر وکیل حسان صابر ایڈووکیٹ نے کہا ہے کہ ملک میں تفتیش اور پراسیکویشن کا نظام کمزور ہے، خامیوں کی وجہ سے سزائیں نہیں ہوتی ہیں، ڈیفینس واقعے کے بعد چھوٹے بچے اور بچیوں میں خوف ہے، ان مقدمات میں دہشتگردی کی دفعات کا اضافہ ہونا چاہئے۔

ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے حسان صابر ایڈووکیٹ نے کہا کہ بچوں اور خواتین کو ہراساں اور جنسی استحصال کرنے کے حوالے سے ملک میں سخت قوانین موجود ہیں، ان قوانین کے تحت سزائیں بھی مقرر ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس قانون میں مختلف اوقات میں ترامیم کرکے ان کو مذید سخت بنایا جارہا ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ ملک میں تفتیش اور پراسیکویشن کا نظام انتہائی ناقص و کمزور ہے۔ اس نظام میں خامیوں کے باعث سزائیں نہیں ہوتی۔ اس نظام میں سقم کے سبب ملزمان بری ہوجاتے ہیں۔

حسان صابر نے کہا کہ ڈیفینس میں چھوٹے بچوں اور بچیوں کی نازیبا ویڈیو بنانے کا معاملہ حساس نوعیت کا ہے اور یہ ڈیجٹل نوعیت کا کرائم ہے، ان بچوں کی نازیبا ویڈیو بناکر ڈراک ویب پر اپ لوڈ کرنا سنگین جرم ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کو ثابت کرنے کے لیئے جدید ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے، افسوس اس بات کا ہے کہ پولیس روایتی اور دیسی طریقے سے تفتیش کرتی ہے جس کی وجہ سے ملزمان کو فائدہ پہنچتا ہے، تفتیشی نظام مِیں اصلاحات کی اشد ضرورت ہے اور ساتھ ہی ساتھ جدید فرانزک لیب کا قیام وقت کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت ملک میں 4 سے 5 ڈیجیٹل کرائم اور فرانزک کرائم کے ماہرین ہیں، ان کی تعداد بڑھائی جائے، ہر ضلع میں  ڈیجیٹل کرائم اور فزانزک لیب قائم کی جائیں جہاں تربیت یافتہ اسٹاف تعینات ہو۔

انہوں نے کہا کہ ڈیفینس واقعے کے بعد چھوٹے بچے اور بچیوں میں خوف طاری ہے۔ پولیس حکام کو چاہیے کہ ان مقدمات میں دہشتگردی کی دفعات کا اضافہ کیا جائے۔ ایسے بہت سے واقعات ہوئے ہوں گے جو رپورٹ نہیں ہوئے۔ ایسے واقعات میں ملوث لوگ جانور نما اور درندے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے معاشرے میں ایسے لوگوں پر نگاہ رکھنے کی ضرورت ہے، ڈیفینس ریپ کیسز میں ملوث ملزم کا تیزی سے ٹرائل کیا ہونا چاہئے  اور قانون کے مطابق سخت سزا دی جانی چاہئے تاکہ نشان عبرت بنے۔ یہ کیس معاشرے میں ایسے لوگوں کے لیے عبرت کا نشان بن جائے جو بچوں کے ساتھ جنسی تشدد میں ملوث ہیں۔

حسان صابر ایڈووکیٹ نے کہا کہ صوبائی حکومت کو پراسیکویشن اور  تفتیش میں جدید ٹیکنالوجی اور اصلاحات متعارف کرانی چاہیے، ہم مسلمان ہیں اور ہمیں اسلام انصاف کی فراہمی کا حکم دیتا ہے۔

حسان صابر نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ یہ بھی بہت افسوس کی بات ہے کہ عدالت صرف کاغذوں کے اوپر سوچ بچار کرتی ہے اور جوڈیشل مائنڈ استعمال نہیں کرتی۔

ان کا کہنا تھا کہ بہت دفعہ دیکھا گیا ہے کہ سطحی بنیاد پر کوئی بات کی جاتی ہے یا قانونی نقطہ اٹھایا جاتا ہے تو اس کو مشروط کردیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ جب تک تفتیش مکمل نہیں ہوتی ہم کچھ نہیں کرسکتے۔

انہوں نے کہا کہ کیوں نہیں کرسکتے کرمنل پروسیجر کورٹ کے اندر یہ واضح طور پر موجود ہے کہ اگر عدالت سمجھتی ہے کہ تفتیش ناقص ہورہی ہے تو وہ کیس ٹرانسفر بھی کرسکتی ہے، اگر عدالت کو لگتا ہے کہ اس میں سیکشنز کی کمی ہے تو بروقت سیکشنز کا اضافہ کرسکتی ہے۔

حسان صابر نے کہا کہ جج صاحب کے بیٹے کے قاتل جب سپریم کورٹ سے رہا ہوسکتے ہیں اور جوڈیشل افسر کو انصاف نہیں ملتا تو اس سے زیادہ کیا ہم اپنے قانون کو روئیں گے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: حسان صابر ایڈووکیٹ ان کا کہنا تھا کہ نہیں ہوتی نے کہا کہ ضرورت ہے ملک میں ہے اور

پڑھیں:

حج کیلئے اپلائی کرنیوالے 3 لاکھ افراد کا ڈیٹا ڈارک ویب پر برائے فروخت

اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 20 ستمبر2025ء ) پاکستان سے حج کے لیے اپلائی کرنے والے 3 لاکھ افراد کا ڈیٹا ڈارک ویب پر برائے فروخت ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق چیئرپرسن سنیٹر پلوشہ خان کی زیرصدارت سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے آئی ٹی کا اجلاس ہوا جہاں پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے چیئرمین میجر جنرل ریٹائرڈ حفیظ الرحمان نے انکشاف کیا ہے کہ حج کے لیے اپلائی کرنے والے تقریباً 3 لاکھ افراد کا ڈیٹا ڈارک ویب پر آچکا ہے، میرا اپنا سم کا ڈیٹا 2022ء سے ڈارک ویب پر ہے، یہ سنجیدہ مسئلہ ہے کہ پاکستان کو اپنا ڈیٹا محفوظ کرنا چاہیے، حکومت ایک ایسا ڈیٹا سینیٹر بنائے جس کی سیکیورٹی ہائی لیول کی ہو جب کہ انٹرنیٹ کے مسائل کا حل سپیکٹرم آکشن ہے۔

(جاری ہے)

چیئرمین پی ٹی اے نے ڈیٹا چوری سمیت بعض دیگر معاملات پر بریفنگ دیتے ہوئے پر بتایا کہ ’2022ء میں ڈیٹا ڈارک ویب پر رپورٹ ہوا تھا، سمز کا ڈیٹا کمپنی کے پاس ہوتا ہے، 2022ء میں ہم نے اس بات کی انکوائری کی تھی‘، جس پر سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اجلاس میں پاکستان پر ڈیٹا محفوظ بنانے کی قانون سازی روکنے کیلئے بیرونی دباؤ کا انکشاف ہوا جہاں سینیٹر افنان اللہ نے کہا کہ ’ہمیں باہر سے دباؤ آرہا ہے کہ پاکستان میں ڈیٹا کو محفوظ بنانے کیلئے قانون نہ بنایا جائے، اگر ڈیٹا کو محفوظ بنانے سے متعلق قانون نہ بنایا تو بہت نقصان اٹھانا پڑے گا‘۔

سینیٹر افنان اللہ کا کہنا ہے کہ ’ڈیٹا کو الگ الگ اداروں سے چوری کیا جاتا ہے اور پھر اکٹھا کرکے بیچا جاتا ہے ڈیٹا کی مالیت اربوں روپے کی ہے اور ہماری یہ ناکامی کہ ہم ڈیٹا محفوظ نہیں بنا سکے اگر ڈیٹا کو محفوظ بنانے کے لیے قانون نہیں بنایا گیا تو پھر ڈیٹا چوری ہوتا رہے گا، اگر ڈیٹا کو محفوظ بنانے سے متعلق قانون نہ بنایا تو بہت نقصان اٹھانا پڑے گا، مثال کے طور پر جب اسرائیل نے ایران پر حملہ کیا تو اسرائیل نے سارا ڈیٹا سوشل میڈیا سے ہی لیا تھا، سارا ڈیٹا ایران کے اہم لوگوں کو سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ سے لیا گیا تھا اور اب ہم پر باہر سے دباؤ آرہا ہے کہ پاکستان میں ڈیٹا کو محفوظ بنانے کے لیے قانون نہ بنایا جائے وزارت آئی ٹی کی نااہلی ہے ابھی تک ڈیٹا پروٹیکشن پر بل نہیں لاسکے‘۔

اجلاس میں چیئرپرسن کمیٹی نے سیکرٹری آئی ٹی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ’ گزشتہ کمیٹی اجلاس میں پی ٹی سی ایل یوفون کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے نام فراہم نہیں کیے گئے تھ،ے یہ ساری معلومات پبلک ہے اور کمیٹی کو اس کی تفصیلات فراہم کرنی چاہیے‘، سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ’ بورڈ آف ڈائریکٹرز کے ممبر شاید 5 ہزار ڈالرز بورڈ کی ایک میٹنگ کے لیتے ہیں ہماری طرف انگلیاں اٹھ رہی ہیں، وزارت آئی ٹی ہمیں بھی کسی ایسے بورڈ میں ڈال دے جہاں پانچ ہزار ڈالر بھی ملیں اور دبئی کے دورے بھی ہوں، پی ٹی سی ایل کے آڈٹ سے متعلق بھی وزارت آئی ٹی نے تسلی بخش جواب نہیں دیا‘۔

متعلقہ مضامین

  • جاگیردارنہ نظام کو ایم کیو ایم ہضم نہیں ہوتی، خالد مقبول صدیقی
  • جس کو جہاد کا شوق ہے وہ فوج کو جوائن کرے، طاہر اشرفی
  • پشاور ہائیکورٹ، فوجداری نظام عدل میں خامیوں کیخلاف درخواستوں پر لارجر بینچ تشکیل
  • پشاور ہائیکورٹ، فوجداری نظام عدل میں خامیوں کے خلاف درخواستوں پر لارجر نینچ تشکیل
  • حج کیلئے اپلائی کرنیوالے 3 لاکھ افراد کا ڈیٹا ڈارک ویب پر برائے فروخت
  • ڈیٹا محفوظ بنانے کی قانون سازی روکنے کیلیے بیونی دباو¿ں کا انکشاف
  • مری کے 3 رہنماؤں کو فورتھ شیڈول میں کس قانون کے تحت ڈالا گیا؟ شاہد خاقان عباسی
  • کیمرے کے سامنے ذاتی رائے نہیں ہوتی، حصول انصاف سے متعلق سوال پر جسٹس محسن کا جواب
  • مفتی منیب کو قانون کی الف ب کا بھی نہیں پتہ