Express News:
2025-09-27@01:15:21 GMT

پرانے دوست!

اشاعت کی تاریخ: 27th, September 2025 GMT

راجہ آصف کا اصرار تھا کہ لاہور کے قریب ایک شوگر مل میں ہیڈ منتظم کے طور پر کام کرنا شروع کیا ہے لہٰذا تمام دوستوں کو وہاں کھانے پر مدعو کرنا چاہتا ہے۔ آصف‘ اتنی محبت اور احترام کرنے والا انسان ہے کہ اسے انکار کرنا تقریباً تقریباً ناممکن ہے۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ لائل پور سے تعلق رکھنے والے‘ ہم چند قریبی دوست ہیں۔ جو ایک ڈیڑہ ماہ کے بعد‘ لاہور میں کسی نہ کسی جگہ‘ کھانا اکٹھے کھاتے ہیں۔

بے ربط اور بے ساختہ گفتگوکرتے ہیں۔ قہقہے لگاتے ہیں۔ پھر اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہو جاتے ہیں۔ مقصد‘ قطعاً کھانا تناول کرنا نہیں ہوتا بلکہ مل کر پرانی باتوں کو یاد کر کے دل کو شاداب کرنا ہوتا ہے۔ مختصر سی ملاقات ‘ کم از کم تین چار ہفتوں کے لیے طبیعت کوبہار کر دیتی ہے۔ ایسے ہی جیسے کسی صحت یاب ہونے والے مریض کو میٹھی دوائی دے دی جائے۔ یہ تعلق کوئی دس بارہ برس کا نہیں ‘ بلکہ پچاس پچپن برس قدیم ہے۔ پرانے لفظ میں وہ چاشنی نہیں‘ جو قدیم میں پنہاں ہے۔

اب ذرا‘ یاروں کے اس گلدستہ کو بھی بیان کرتا چلوں‘ تاکہ اندازہ ہو جائے کہ اس میں کون کون سے خوشبودارلوگ شامل ہیں۔ پروفیسر زاہد‘ چھ فٹ سے زیادہ قد والا انسان۔ لائل پور میں والد‘ بہت کامیاب بزنس مین تھے۔ ایگل سائیکل کی فیکٹری بھی اسی خاندان کی تھی۔ حد درجہ امیر ہونے کے باوجود زاہد میں بچپن سے ہی کوئی احساس برتری نہیں تھا۔ مرنجان مرنج انسان ‘ آج بھی وہی حال ہے جو اوائل عمری میں تھا۔  پڑھنے کا شوق تھا۔ لائل پور سے ایف ایس سی کرنے کے بعد ایف سی کالج اور پھر پنجاب یونیورسٹی ۔ یاد ہے ‘ والد نے اپنے بیٹے کے لیے چاندی کے رنگ کی ایک خوبصورت سائیکل بنوائی تھی۔

زاہد ایف سی کالج کے ہوسٹل سے تقریباً روز کے ای میڈیکل کالج میں ملنے آ جاتا تھا۔ پھر ہم ‘ لاہور کی سڑکیں ناپنا شروع کرتے تھے۔ بیف برگر‘ سب سے پہلے زاہد ہی نے ہم سب کو کھلایا تھا۔ دراصل‘ وہ کھانے کے معاملے میں کافی دلچسپ حرکتیں کرتا تھا۔ پانچ دہائیاں قبل‘ لاہور کا فاسٹ فوڈ‘ برگر اور سینڈ وچ تک محدود تھی۔ ہم زاہد کے ساتھ‘ ان کا بے دریغ استعمال کرتے تھے۔ بل‘ گھومتا گھماتا زاہد ہی کے سامنے پہنچ جاتا تھا۔

اور وہ بغیر کسی تردد کے ادا کر دیتا تھا۔چھ سات یا دس روپے کا برگر‘ اور تقریباً اتنی ہی قیمت کا سینڈوچ۔ عجیب بات یہ ہے کہ زاہد اتنے بڑے کاروباری خاندان سے تعلق رکھنے کے باوجود‘ کبھی بھی بزنس نہیں کر سکا۔ پنجاب یونیورسٹی میں پروفیسر بن گیا۔ پبلک ایڈمنسٹریشن شعبہ سے ایسا منسلک ہوا کہ ریٹائر منٹ تک وہیں براجمان رہا۔ اب‘ حد درجہ آسودہ اور مطمئن زندگی گزار رہا ہے۔ کم بولتا ہے مگر بروقت اور بہتر بات کرتا ہے۔ یہ زاہد‘ کا مختصر ترین تعارف ہے۔ اب خلیل کا ذکر کرتا ہوں۔ خلیل کے والد‘ ایک انٹرنیشنل بینک میں افسر تھے۔ اور لائل پور تعینات ہوئے تھے۔ پیپلز کالونی میں بینک نے وسیع گھر اور گاڑی دے رکھی تھی ۔

خلیل بھی اپنی دنیا کا خوشگوار مسافر ہے۔ خاموش طبع انسان ، خود بھی بینک میںاپنی خاندانی روایت کے مطابق نوکری کرتا رہا۔ لائل پور سے‘ اس کے والد ‘ لاہور آئے تو پہلے گارڈن ٹاؤن اور پھر سمن آباد میں رہنا شروع کر دیا۔ یاد کرواتا چلوں کہ پچاس برس پہلے کا سمن آباد‘ حددرجہ خوبصورت علاقہ تھا۔ کشادہ سڑکیں‘ وسیع و عریض پارک‘ ترتیب سے بنے ہوئے گھر‘ بڑے بڑے چوک ۔ آج کے سمن آباد اور پرانے سمن آباد میں کسی قسم کا کوئی ربط نہیں ہے۔ وہ ایک اور دنیا تھی‘ اور آج کا یہ علاقہ ‘ کسی اور سیارے کا حصہ معلوم ہوتا ہے۔ بہر حال خلیل پچھلی صدی سے ہمارے ساتھ ہے اور ابھی تک ویسا ہی ہے۔ جیسے پہلے دن تھا۔ بینک کی نوکری نے اسے کسی قسم کا کوئی نقصان نہیں پہنچایا۔

اب اشعر شاہ کی طرف آتا ہوں۔ شاہ جی ‘ ہر دم مسکرانے والے انسان ہیں۔ ذاتی زندگی میں کافی سنجیدہ ۔ مگر دوستوں کے ہمراہ ‘ سراپا شگفتہ۔ اس شخص کو کبھی کسی سے ناراض ہوتے نہیں دیکھا۔ نجی شعبے میں بہترین پوزیشن میں کام کرنے میں جڑے ہوئے ہیں۔ کھانا بہت کم کھاتے ہیں۔ مگر کسی قسم کی دعوت سے گریز نہیں کرتے۔ گزشتہ چند برسوں میں وزن بہت کم کر لیا ہے۔ اب تو سرخ رنگ کی ٹی شرٹ بھی پہن لیتے ہیں۔ جس سے ان کی خوش مزاجی مزید کھل کر سامنے آ جاتی ہے۔ مذہب کی طرف لگاؤ بہت زیادہ ہے۔ خاموشی سے ذکر الٰہی میں ہر دم مصروف رہتے ہیں۔ مگر طبیعت میں کوئی درشتی نہیں آئی۔

اگر دین اور دنیا کا ایک متوازن شخص دیکھنا ہے تو شاہ جی‘ اس توازن کے معیار پر پورا اترتے ہیں۔ راجہ آصف تو خیر ‘ جناح کالونی میں میرے گھر کے نزدیک ہی رہتا تھا۔ والد ‘ علی گڑھ کے فارغ تحصیل تھے۔ حد درجہ شائستہ اور وضع دار انسان تھے۔ خدا‘ انھیں کروٹ کروٹ جنت عطا فرمائے۔ آصف کے گھر کے عین سامنے‘ ایک دہی بھلے کی دکان تھی۔ جس پر سارے دوست اکٹھے ہو کر آصف کے کھاتے سے دہی بھلے کھاتے تھے اور غائب ہو جاتے تھے۔ یہ وقوعہ ایک دو بار نہیں ہوا بلکہ ان گنت مرتبہ برپا ہوا ۔ لازم ہے کہ آصف کے والد ہی یہ سارا بل چکاتے تھے۔ ان کے ماتھے پر غصے کا کبھی کوئی عنصر نہیں دیکھا۔ راجہ‘ شوگر مل چلانے میں حد درجہ مہارت رکھتا ہے۔ ملوں کے مالکان ‘ اس کے پیچھے پیچھے ہوتے ہیں۔ وہ جس بھی مل کا انچارج لگتا ہے وہ منافع میں چلی جاتی ہے۔ وجہ صرف ایک کہ آصف‘ ایک ایماندار پروفیشنل ہے۔ اب ذرا‘ کامران نشاط کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرواؤں ۔

کامران بھی جناح کالونی کا مکین تھا۔ والد‘ بہترین کاروباری انسان تھے۔ پرنٹنگ پریس تھی۔ کامران نے سی اے کیا۔ پھر ان کے والد محترم ‘ خاندان سمیت کراچی منتقل ہو گئے۔ کلفٹن ایریا میں شروع میں ایک کشادہ فلیٹ لیا۔ کراچی‘ کامران کو راس آ گیا۔ مختلف نوکریاں کرتا رہا اور آج پاکستان کی بہت بڑی کمپنی کا سی ای او ہے اور ساتھ ساتھ مالک بھی۔ ادبی ذوق بچپن سے تھا ۔ ساتھ ساتھ‘ طبیعت کی شائستگی بھی ۔ آسودگی نے اس پر کوئی منفی اثر نہیں کیا۔ پوری دنیا گھومتا ہے۔ مگر پرانے دوستوں کے لیے ہمہ وقت حاضر رہتا ہے۔ طارق شریف اور اعظم ٹوانہ بھی دوستوں کے اسی قبیلہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ مگر دونوں کراچی میں تھے۔ اس کھانے پر مصروفت کی وجہ سے تشریف نہ لا سکے۔

چند دن پہلے‘ راجہ صاحب‘ کے اصرار پر ۔ تمام دوست‘ اکٹھے ‘ موٹر وے سے للا کی طرف روانہ ہوگئے۔ گاڑی چلانے کا قرعہ میرے نام نکلا۔ کامران‘ ساتھ والی نشست پرتھا۔ شام کاوقت تھا۔ ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی۔ کامران شعر سنائے چلا جا رہا تھا۔ اپنے سیل فون سے کئی رنگوں کے آسمان کی مسلسل تصاویربھی بنا رہا تھا۔ ویسے ایسا خوش رنگ آسمان بڑے عرصے بعد دیکھنے کا موقع ملا۔ گپیں لگ رہی تھی۔ پرانے وقت کے گزرے ہوئے شگوفے سامنے آن کر براجمان تھے۔ گاڑی آہستہ چلاتا ہوں ۔

ڈیڑھ گھنٹے کا سفر کوئی ڈھائی گھنٹے میں طے ہوا۔ شوگر مل پہنچے تو آصف نے بھرپور ضیافت کا بندوبست کیا ہوا تھا۔ خدا کی ہر نعمت دستر خوان پر موجود تھی۔ مگر کھانے سے پہلے ‘ پھلوں کے ساتھ جو انصاف ‘ خلیل اور زاہد نے کیا وہ بھی دیدنی تھا۔ راجہ نے تمام کھانا ‘ دیسی گھی میں بنوایا ہوا تھا۔ شہر میں رہنے والے لوگ‘ دیسی گھی کی سوندھی سوندھی خوشبو سے تقریباً ناواقف ہو چکے ہیں۔ بیماریوں کے مخزن بازاری گھی اور خودرنی تیل نے انسانوں کی صحت تباہ کر رکھی ہے۔ انھیں اندازہ ہی نہیں کہ وہ مہنگے داموں‘ زہر خرید کر موت کو نزدیک بلا رہے ہیں۔ ایک بار آپ دیسی گھی استعمال کرنا شروع کر دیں۔ پوری زندگی ‘ مصنوعی چکنائی کی طرف نہیں جائیں گے۔

آصف نے حد درجہ محبت سے کھانا پیش کیا۔ تمام عمر رسیدہ نوجوانوں نے ‘ تمام پرہیز کو بالائے طاق رکھتے ہوئے‘ کھانے کے ساتھ کوئی ناانصافی نہ کی ۔ اس سارے اثنا میں رات کے دس بج چکے تھے۔ آصف نے ریسٹ ہاؤس میں سب کے رہنے کا اہتمام کر رکھا تھا۔ میں نے لاہور واپسی کی اجازت چاہی۔ سب کہہ رہے تھے کہ کیا کرنا ہے واپس جا کر‘ رات یہیں رہتے ہیں۔ صبح اکٹھے چلے جائیں گے۔ مگر میری عادت سی بن چکی ہے کہ اپنے بستر کے علاوہ کہیں سو نہیں پاتا۔ خیر کافی گاڑیاں تھیں۔ لہٰذا انھیں صبح واپس آنے کا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔

دل تو نہیں چاہتا تھا۔ مگر لاہور واپس آ گیا۔ جو سفر ڈھائی گھنٹے میں طے کیا تھا، ڈرائیور نے صرف ڈیڑھ گھنٹے میں طے کر لیا۔ واپسی پر سوچ رہا تھا کہ زندگی میں پرانے دوست بھی کتنی بڑی نعمت ہیں۔ ان کی موجودگی میں وقت سمٹ سا جاتا ہے۔ جوانی کا کھلنڈرا پن‘ چٹکلے‘ وہی بے اعتدالیاں اور لاابالی پن‘ مختصر وقت کے لیے واپس آ جاتا ہے۔ وقت کی کشتی‘ واپسی کا سفر‘ دوبارہ طے کرتی ہے۔ اس بار بھی ایسا ہی ہو۔ لائل پور کی جناح کالونی‘ 1972کے پرانے دوراہے میں منتقل ہو گئی۔ شاہ جی‘ اور کامران کی موٹر سائیکل ‘ فراٹے بھرنے لگی۔ راجہ کے گھرکے سامنے والے دہی بھلے والا‘ ریڑھی سمیت‘ آن کھڑا ہوا۔ بس کمی تھی‘ تو طارق شریف اور اعظم ٹوانہ کی۔ اگلی نشست میں ویسے وہ بھی ساتھ ہی ہونگے!

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: لائل پور کے والد کے لیے کی طرف

پڑھیں:

عمران خان کیخلاف مقدمات منصوبہ بندی کے تحت بنائے گئے ، علی امین گنڈاپور

ملک میں عدلیہ آزاد نہیں ، عمران خان کے کیس کے ساتھ جو ہورہا ہے یہ سب پلان کے مطابق ہے،وزیراعلیٰ
جب تک ایک کیس میں سزا نہیں ہوتی دوسرا کیس بنا دیتے ہیں ایک کے بعد ایک کیس بنایا جارہا ہے،میڈیا سے گفتگو

وزیراعلیٰ کے پی علی امین گنڈاپور کا کہنا ہے ملک میں عدلیہ آزاد نہیں ہے ، عمران خان کے کیسز کے ساتھ جو ہورہا ہے یہ سب پلان کے مطابق ہے۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے باہر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آپ سب کو علم ہے ایک ڈرامہ چل رہا ہے، عمران خان کے ساتھ کیسز کے ساتھ جو کچھ کیا جارہا ہے یہ سب پری پلان منصوبے کے مطابق کیا جارہا ہے، جب تک ایک کیس میں سزا نہیں ہوتی دوسرا کیس بنا دیتے ہیں ایک کے بعد ایک کیس بنایا جارہا ہے، ملک میں عدلیہ آزاد نہیں ہے عدلیہ آزادی سے اپنے فیصلے نہیں کرپا رہی۔انہوں ںے کہا کہ ہمیں امید ہے سپریم کورٹ کا ایک فورم باقی ہے، ہماری گزارش ہے 25 کروڑ عوام انصاف کے لیے آپ کی طرف دیکھتے ہیں، آپ کو انصاف دینا ہے آپ کے اوپر کیسز کا دباؤ ہے، آپ اپنی پوزیشن پر بیٹھ کر فیصلے کیوں نہیں کر پارہے؟ آپ کو ایک دن مرنا بھی ہے اور اللہ پاک کو بھی جواب دینا ہے، قرآن کی تفسیر پڑھیں اور جواب دیں، آپ کھل کر دلائل کی بنیاد پر فیصلے کریں۔وزیراعلیٰ کے پی نے کہا کہ کیا پاکستان میں مستقبل میں انسانی حقوق ملیں گے؟ حقیقی آزادی اور انصاف ہوگا؟ آپ انصاف دینے میں ناکام ہورہے ہیں، اس طرح نظام نہیں چل سکتا، عمران خان کی ایک برداشت ہے، آپ نے تمام ادارے مفلوج کردیے ہیں۔علی امین گنڈاپور نے مزید کہا کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان قوم اور ہمارے بچوں کی جنگ لڑ رہا ہے، بانی پی ٹی آئی کی خواہش پر جلسہ ہوگا اور بھرپور جلسہ ہوگا۔سب واضح ہے عمران خان صاحب کے خلاف مقدمات ایک منصوبہ بندی کے تحت بنائے گئے ہیں۔ جج صاحبان سے اپیل ہے کہ کھل کر بتائیں کون دباؤ ڈال رہا ہے آہ صرف شواہد و دلائل کی روشنی میں انصاف کریں۔ عمران خان حق پر ہیں اور قوم ان کے ساتھ ہے۔

متعلقہ مضامین

  • وفاقی حکومت کا 40سال پرانے افغان مہاجرین کیمپس بند کرنے کا فیصلہ
  • سعودی عرب کے ساتھ دفاعی معاہدہ قطر پر حملے کا ردعمل نہیں، وزیردفاع خواجہ آصف
  • بلاول بھٹو زرداری کی کسان دوست پالیسی پورے پاکستان کیلئے ریلیف ثابت ہوگی، شرجیل میمن
  • جلسوں سے بانی پی ٹی آئی آزاد نہیں ہوں گے: گورنر خیبرپختونخوا
  • وفاقی حکومت کا 40 سال پرانے افغان مہاجرین کیمپس بند کرنے کا فیصلہ
  • عمران خان کیخلاف مقدمات منصوبہ بندی کے تحت بنائے گئے ، علی امین گنڈاپور
  • شادی نہیں کروں گا لیکن باپ بننا چاہتا ہوں؛ سلمان خان
  • گاڑیوں کے پرانے نمبرز نئی فیوچرڈ نمبر پلیٹس میں تبدیل کروانے کی ہدایت
  • پاکستان کی بڑی آبادی کو چھوٹی سوچ کے ساتھ ترقی نہیں دی جا سکتی