عالمی بینک نے اپنی تجزیاتی رپورٹ میں بتایا ہے کہ پاکستان کا موجودہ اقتصادی ماڈل ملک میں غربت کو سپورٹ نہیں کرتا جس کی وجہ سے گزشتہ تین سالوں کے دوران غربت پر قابو پانے کی حکومتی کوششوں کو بریک لگ گئی ہے اور ملک میں غربت کی شرح بڑھ کر 26.3 فی صد ہو گئی ہے۔
ان حالات میں ملک کی مڈل کلاس جو ملک کی آبادی کا 41.
ورلڈ بینک کی رپورٹ حقیقت ہے مگر 2022 سے بر سر اقتدار لوگ یہ حقیقت کبھی تسلیم نہیں کریں گے اور سرکاری ادارے اس کو حقائق کے خلاف اور بے بنیاد قرار دیں گے اور مرضی کے اعداد و شمار جو حقائق کے برعکس ہوں گے پیش کرکے عالمی بینک کی تجزیاتی رپورٹ کو غلط قرار دے کر مسترد کر دیں گے کیونکہ ملک میں اب تک یہی ہوتا آیا ہے۔
ہر بار بجٹ میں بھی یہی ہوتا آیا ہے اور حقائق اپنے عوام سے چھپائے جاتے ہیں اور اگر کوئی بیرونی ادارہ ان حقائق کو آشکار کر دے تو حکومتی حلقے کبھی اس کی حقیقت کو تسلیم نہیں کریں گے جس کی وجہ سے عوام تذبذب میں مبتلا رہتے ہیں اور حکومتی موقف کے بجائے حکومتی وضاحتوں پر یقین نہیں کرتے۔
ویسے تو ملک میں کوئی ایسا غیر جانبدار ادارہ موجود نہیں جو حقائق سے عوام کو آگاہ رکھے اگر کوئی ایسا کرے تو اس کو حقائق کی پہنچ سے دور رکھا جاتا ہے تاکہ حقیقت چھپی رہے مگر ملک سے باہر ایسے ادارے موجود ہیں جن سے حقائق نہیں چھپتے اور وہ کسی مصلحت کا شکار ہوئے بغیر حقائق آشکار کر ہی دیتے ہیں جن کی حکومت لاکھ تردید کرے عوام بھی اس پر یقین نہیں کرتے کیونکہ ہر حکومت عوام کا اعتماد کھو چکی ہے جس کی وجہ سے لوگ ہر بیرونی اطلاع پر یقین کر لیتے ہیں مگر شکر ہے کہ عوام بھارتی پروپیگنڈے پر یقین نہیں کرتے اور بھارت سے کوئی درست خبر بھی ملے تو اسے مسترد کر دیتے ہیں کیونکہ ملک کی طرح بھارت بھی ہمارے یہاں شروع سے ہی اعتماد کھویا ہوا ہے مگر بدقسمتی کہ جنگ 1971 میں حمودالرحمن کمیشن کی تفصیلات سے ہمیں بھارت نے ہی آگاہ کیا تھا اور سرکاری طور پر سرکار کے بنائے ہوئے اس کمیشن کی رپورٹ منظر عام پر نہیں آنے دی گئی تھی اور وہ تفصیلات بھی ہمیں اپنے دشمن ملک نے دی تھیں۔
عالمی بینک کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2001-2002میں قومی غربت کی شرح64.3فی صد سے کم ہو کر 18.3 فی صد پر آ گئی تھی اور وہ جنرل پرویز مشرف کا دور تھا جسے حقیقت پسند لوگ ترقی و خوشحالی کا ویسا ہی دور مانتے ہیں جیسا جنرل ایوب خان کا دور تھا مگر ترقی و خوشحالی کے دونوں ادوار کی حقیقت اس لیے تسلیم نہیں کی جاتی کہ اس وقت کے حکمرانوں کو آمر کہا جاتا ہے جب کہ ان کے دور سیاسی حکمرانوں سے کہیں بہتر تھے جب غربت کم اور ترقی زیادہ ہوئی۔
2018 میں بالاتروں کی مدد سے بننے والے پی ٹی آئی کے وزیر اعظم اپریل 2022 تک وزیر اعظم تھے جن کی حکومت میں عوام کی فلاح و بہبود اور غربت کے خاتمے پر توجہ دینے کے بجائے صرف سیاسی انتقام پر خصوصی توجہ دے کر بیڈ گورننس کی بدترین مثال قائم ہوئی اور اسی سال وہ حکومت ملک کی تاریخ میں پہلی بار آئینی طور پر برطرف کی گئی تھی اور موجودہ حکمران اقتدار میں آئے تھے جس کے بعد غربت میں اضافہ ہونا شروع ہوا جس کی تصدیق عالمی بینک کر رہا ہے۔ غربت کا واضح ثبوت یہ کہ ملک میں پندرہ سے چوبیس سال کے 37 فی صد نوجوان روزگار سے محروم ہیں۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ اپنی حکومت کی آئینی برطرفی کو سابق وزیر اعظم غیر آئینی قرار دے رہے ہیں جن کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کا قومی اسمبلی کا اجلاس سپریم کورٹ کی ہدایت پر ہوا تھا اور وزیر اعظم کی برطرفی سو فی صد آئینی تھی مگر آئینی برطرفی کو ساڑھے تین سال بعد بھی پی ٹی آئی تسلیم نہیں کر رہی اور پی ٹی آئی کے حامی سینئر وکلا بھی یہ حقیقت برطرف اور سزا یافتہ سابق وزیر اعظم کو نہیں سمجھا رہے اور سابق وزیر اعظم کی من مانی کی وجہ سے ملک سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے اور حکومت میں اتنی جرأت نہیں کہ وہ سابق وزیر اعظم کے آئے دن کے ان سیاسی بیانات کو عدالت میں چیلنج کرے اورعدالتی فیصلہ لے کہ دس اپریل 2022 کا تحریک عدم اعتماد کا اجلاس آئینی تھا یا نہیں؟
ملک میں جو آج نظام ہے اسے حکومتی نمایندے بھی ہائبرڈ نظام تسلیم کرتے ہیں جس میں حکومت کوئی اور چلا رہا ہے اور تین سال سے حکمران غیر ملکی دوروں ہی میں مصروف نظر آئے ہیں اور انھی کے دور میں غربت 26.3 فی صد بڑھنے کا عالمی اعتراف ہوا ہے مگر ان کی حکومت اس حقیقت کو تسلیم نہیں کرے گی اور عوام کی حالت مزید روز بروز بد سے بدتر ہوتی جائے گی لیکن اس کی ذمے دار صرف حکومت ہی قرار نہیں پائے گی بلکہ حکومت کے پشت پناہوں پر بھی الزام آئے گا۔ فرق صرف یہ ہے کہ 2001 میں آمرانہ حکومت میں غربت کم ہوئی تھی اس وقت بھی مارشل لا نہیں تھا اور اب بھی جمہوری حکومت ہے جس میں غربت تشویش ناک ہو چکی ہے۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: تسلیم نہیں کر عالمی بینک کی وجہ سے کی حکومت گئی تھی ملک میں ہیں اور ہے مگر ہے اور ملک کی
پڑھیں:
پاکستان کا معاشی ترقی کا ماڈل ناکام ہو رہا ، غربت میں کمی کرنے میں معاون نہیں
لاہور(اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 24 ستمبر 2025ء ) عالمی بینک کی رپورٹ "ریکلیمِنگ مومینٹم ٹوورڈز پراسپرٹی: پاکستان کی غربت، مساوات اور لچک کا جائزہ" میں مزید انکشاف کیا گیا کہ پاکستان کی ابھرتی ہوئی متوسط طبقہ آبادی، جو کل آبادی کا 42.7 فیصد ہے، ''مکمل معاشی تحفظ حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔‘‘ رپورٹ میں کہا گیا کہ متوسط طبقہ بنیادی سہولتوں سے بھی محروم ہے جیسے کہ محفوظ نکاسیٔ آب، صاف پینے کا پانی، سستی توانائی اور رہائش، جو پاکستان میں "کمزور عوامی خدمات کی فراہمی" کی نشاندہی کرتا ہے۔ ایک تشویشناک حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے 15 سے 24 سال کی عمر کے 37 فیصد نوجوان نہ تو ملازمت کر رہے ہیں اور نہ ہی تعلیم یا تربیت میں شامل ہیں، جس کی وجہ سے آبادی کا دباؤ اور مزدور منڈی کی طلب و رسد میں عدم توازن ہے۔(جاری ہے)
اس رپورٹ کو، جسے پاکستان کے متعدد میڈیا اداروں نے شائع کیا ہے، کے مطابق "پاکستان کا ترقیاتی ماڈل جس نے ابتدا میں غربت کم کرنے میں مدد دی تھی، اب ناکافی ثابت ہوا ہے، اور 2021-22 سے غربت میں اضافہ ہو رہا ہے۔
‘‘ جب عالمی بینک اور آئی ایم ایف کی اس ناکام ماڈل کی حمایت پر ذمہ داری کے بارے میں پوچھا گیا تو عالمی بینک کے سینئر ماہر معاشیات ٹوبیاس ہاک نے کہا کہ پاکستان نے کوئی ایک مخصوص معاشی ماڈل اختیار نہیں کیا جو عالمی بینک یا آئی ایم ایف نے مسلط کیا ہو۔ رپورٹ میں کہا گیا، ''پاکستان کا کبھی امید افزا غربت میں کمی کا سفر اب رک گیا ہے اور برسوں کی محنت سے حاصل کردہ کامیابیاں ضائع ہو رہی ہیں۔‘‘ پاکستان میں عالمی بینک کی کنٹری ڈائریکٹر بولورما آنگابازر نے کہا کہ بینک یہ جاننا چاہتا ہے کہ غربت کی شرح ماضی کی طرح تیزی سے کم کیوں نہیں ہو رہی۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ حالیہ برسوں میں معیشت اچھی کارکردگی نہیں دکھا رہی۔ رپورٹ کے مطابق "حالیہ دھچکوں نے غربت کی شرح کو مالی سال 2023-24 میں بڑھا کر 25.3 فیصد تک پہنچا دیا ہے، جو آٹھ سال کی بلند ترین سطح ہے۔ صرف گزشتہ تین برسوں میں غربت کی شرح 7 فیصد بڑھ گئی ہے۔‘‘ رپورٹ نے پاکستان میں غربت کی دو مختلف شرحیں ظاہر کیں: قومی سطح پر غربت 25.3 فیصد ہے، جو آٹھ سال کی بلند ترین سطح ہے، لیکن بین الاقوامی غربت لائن کے مطابق یہ شرح 44.7 فیصد تک جا پہنچی ہے۔ عالمی بینک کی غربت پر تحقیق کی ماہر کرسٹینا ویسر نے کہا کہ 2001 سے 2015 تک غربت میں اوسطاً سالانہ 3 فیصد کمی ہوئی، جو 2015-18 کے دوران کم ہو کر سالانہ صرف 1 فیصد رہ گئی۔ انہوں نے کہا کہ 2018 کے بعد مختلف دھچکوں، جن میں معاشی حالات کی خرابی شامل ہے، نے غربت میں اضافہ کیا۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ 2022 کے سیلاب سے غربت میں 5.1 فیصد اضافہ ہوا اور مزید 1.3 کروڑ افراد غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے۔ 2022-23 میں توانائی کی قیمتوں میں حکومتی اضافے کے باعث مہنگائی میں تیزی سے اضافہ ہوا جس نے گھرانوں کی قوتِ خرید اور حقیقی آمدنی کو شدید متاثر کیا۔ رپورٹ کے مطابق ترسیلاتِ زر اگرچہ گھرانوں کی فلاح میں مددگار ہیں لیکن یہ صرف آبادی کے ایک چھوٹے حصے تک پہنچتی ہیں۔ دیہی اور کم آمدنی والے گھرانے زیادہ تر اندرونِ ملک ترسیلات کے وصول کنندہ ہیں۔ مزدور منڈی میں زیادہ تر غیر رسمی اور کم اجرت والی ملازمتیں ہیں، جہاں 85 فیصد سے زیادہ روزگار غیر رسمی ہے۔ شہری مرد زیادہ تر تعمیرات، ٹرانسپورٹ یا تجارت میں کم اجرت والی ملازمتیں کرتے ہیں، جبکہ دیہی مرد جمود کا شکار زراعت چھوڑ کر کم پیداواری غیر زرعی کاموں کی طرف جاتے ہیں۔ عورتیں اور نوجوان بڑی حد تک مزدور منڈی سے باہر ہیں اور خواتین کی لیبر فورس میں شمولیت صرف 25.4 فیصد ہے۔ عالمی بینک نے کہا کہ زیادہ تر گھرانے نچلی سطح کی فلاح پر محدود ہیں، جس سے وہ دھچکوں کے لیے نہایت کمزور ہو جاتے ہیں۔ تاریخی طور پر پاکستان کا مالیاتی ڈھانچہ غربت اور عدم مساوات میں کمی کے لیے معاون نہیں رہا۔ پاکستان میں عالمی بینک کی کنٹری ڈائریکٹر بولورما آنگابازر نے کہا، ''یہ نہایت اہم ہے کہ پاکستان اپنی مشکل سے حاصل کردہ غربت میں کمی کے ثمرات کو محفوظ رکھے اور اصلاحات کو تیز کرے جو روزگار اور مواقع بڑھائے، بالخصوص خواتین اور نوجوانوں کے لیے۔‘‘