Juraat:
2025-08-10@09:15:57 GMT

کوئی فرق نہیں!

اشاعت کی تاریخ: 10th, August 2025 GMT

کوئی فرق نہیں!

آواز
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایم سرور صدیقی

ہمیشہ کہا جاتاہے کہ پاکستان ایک غریب ملک ہے، اکثریتی آبادی کا حال اور حالت ِ زار دیکھ کرہر دیکھنے والی آنکھ اور سننے والے کان کو یقین آجاتاہے کہ واقعی پاکستان غریب ملک ہے لیکن دنیاکو اس بات پرمطلق یقین نہیں۔اب تو کوئی ہم پر اعتبار بھی نہیں کرتا۔ اُلٹا مذاق اڑاتے ہیں۔ لمبے چوڑے پاکستانی وفود جب قیمتی لباس میں ملبوس بیرونی ممالک میں اپنے ہم وطن متاثرین کے لیے امدادکی بات کرتے ہیں تو دنیا ہم پرہنستی ہے یہ ٹھاٹھ اور امداد کی اپیل۔ ۔واہ بھئی واہ۔ یہی حال غیرملکی سرمایہ کاری کا ہے ہماری اشرافیہ نے نہ جانے کون کون سے ممالک میں جزیرے خرید رکھے ہیں ،جب ہمارے بیشتر حکمرانوں نے اربوں کھربوں سے اپنے کاروبار لندن، دُبئی، ملائشیا ،سعودی عرب اور امریکہ میں شروع کررکھے ہیں تو کون پاگل پاکستان میں سرمایہ کاری کرے گا؟ اشرافیہ کی اسی منافقت نے پاکستان کو دنیا میں تنہا کردیا ہے۔
ایک سوئس بینک ڈائریکٹر کا کہناہے کہ اس وقت پاکستان کی اشرافیہ کے98 ارب ڈالر سوئس بینکوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ یہ رقم پاکستان میں انویسٹ کردی جائے تو30سال کیلئے پاکستان ٹیکس فری بجٹ پیش کر سکتاہے۔6کروڑ پاکستانیوں کیلئے روزگارملازمتیں دی جا سکتی ہیں۔500سے زیادہ پاؤر پراجیکٹ کے ذریعے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بجلی فری دی جا سکتی ہے، کراچی ، پشاور سمیت ملک کے کسی بھی کونے سے اسلام آباد تک چاررویہ سڑکوں پر مشتمل نئی ہائی وے بنائی جا سکتی ہے، یا ہر پاکستانی کو چار سال تک20000روپے ماہانہ وظیفہ دیا جا سکتاہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ غیر ملکی قرضوں سے نجات بھی مل سکتی ہے ۔اس انکشاف میں جن خیالات کااظہار سوئس بینک ڈائریکٹر نے کیا ہے یہ تو ایک خواب ہے جو پوری پاکستانی قوم دیکھ دیکھ کر تھک گئی ہے لیکن اس کی تعبیر آج تلک نہیں دیکھی۔
روز خوابوں میں ملاقات رہا کرتی تھی
ا ور خواب شرمندہ ٔ تعبیرہوا کرتے تھے
ایک اور خاص بات چودھری نثار،عمران خان ، چودھری برادران ،شریف فیملی ، الطاف حسین،طاہرالقادری اور آصف علی زرداری پر ہی موقوف نہیں ہمارے ملک کے ارکان ِ اسمبلی، سینٹ ممبران حتیٰ کہ بلدیاتی اداروں کے چیئرمین وائس چیئر مین کی اکثریت تک کسی ایک کا بھی لائف اسٹائل عوام جیسا نہیں ہے اور تو اور ہمارے مذہبی رہنما جو قوم کو دن رات سادگی کا بھاشن دیتے نہیں تھکتے ،ان کے حالات دیکھ لیں مولانا فضل الرحمن،مولانا طارق جمیل، مولانا تقی عثمانی، شیخ الاسلام ڈاکٹرطاہرالقادری جیسے رہنما تو خیر نامی گرامی ہیں ان کا ذکر ہی چھوڑیں جو ان کی بی کیٹاگری کے مذہبی رہنما ہیں ان کا لائف ا سٹائل کا اندازہ لگا لیں حقیقت آشکار ہوجائے گی پھر اس ملک کے گدی نشینوںکا جائزہ لیں، اکثرپیروں کی اربوں پائونڈ کی جائدادیں برطانیہ کے مہنگے ترین علاقوںمیں ہیں ۔یہ پھر بھی اپنے غریب مریدین سے چندہ لینا اپنا مذہبی فریضہ سمجھتے ہیں۔ پاکستان کے زمینی حقائق تو یہ ہیں کہ25میں سے20کروڑ عوام کو دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں، انہیں پینے کا صاف پانی میسر نہیں ۔عام آبادیوںمیں رہنے والے سیوریج کے اُبلتے گٹروں سے پریشان ہیں ۔برسات کے دنوںمیں ان کے لئے نمازکے لئے مساجد جانا مشکل ہوجاتاہے ۔جنازے قبرستان لے جانا کوئی ان غریبوںسے پوچھے۔ زندگی کی ،بنیادی سہولتوں کے لئے عام آدمی پریشان ہے۔ مہنگائی ،بیروزگاری، لوڈ شیڈنگ،بیماری اورغربت نے عوام کی اکثریت کا ناک میں دم کررکھاہے جبکہ ہمارے غریب سے غریب ایم پی اے، سینیٹر، ایم این اے کے وسائل اتنے ہیں کہ عقل دنگ وہ جاتی ہے۔ جب ان کی حالت اور حالات عام آدمی جیسے نہیں ہیں تو پھر انہیں زندگی کی تلخ حقیقتوں سے آشنائی کیسی ؟انہیں عوامی مسائل کی کیا خبر؟ اور عوام کی فلاح کیلئے سوچنا کیسا؟ غریبوں کی دکھ بھری داستان سن کر وہ تو یہی کہیں گے کہ بیوقوفو! روٹی نہیں ملتی تو کیا ہوا ڈبل روٹی کھا لیا کرو۔۔ اس وقت ملک میں جمہوریت کے جتنے دعوے دارہیں یا جو لیڈرعوام کو مختلف سبز باغ دکھا رہے ہیں۔جو غریب کی بات کررہے ہیں غربت کے خلاف جدوجہدکے داعی ہیں سب کے سب۔۔ ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔تمام کے تمام حمام میں ایک جیسے۔ ان کے قول وفعل میں تضادہے ۔عوام کے ساتھ ٹوپی ڈرامہ ہورہاہے ۔کوئی غربیوں سے ہمدردی جتاکر۔۔کوئی اسلام کا نام لے کر۔۔۔کوئی سسٹم کو گالیاں دے کر اپنا الو سیدھا کررہاہے ان کا ”طریقہ ٔ واردات” مختلف ہو سکتاہے مشن اور پروگرام ایک جیساہے،جیسے سب بھیڑوں کے منہ ایک جیسے ہو تے ہیں۔۔۔ا ن کے پاس بڑے بڑے محلات ہیں غریب کو کرائے کا مکان بھی نہیں ملتا اور سیاستدانوںکی تیسری چوتھی نسل اقتدار انجوائے کررہی ہے اور عوام کی حالت اور حالات پہلے سے بھی ابترہوگئے ہیں
خداوندا یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں
کہ درویشی بھی عیاری ہے ، سلطانی بھی عیاری
عوام کی محبت کا دم بھرنے والوں میں ایک عمران خان بھی ہیں جن کے پاس لاہور کے علاوہ میانوالی اور اسلام آبادبنی گالہ میں کئی سو ایکڑوں پر مشتمل محلات ہیں۔ میاں نوازشریف فیملی کے پاس بھی ماڈل ٹاؤن ،مری ، لندن میں بڑے بڑے محلات ہیں ، جاتی عمرہ میں تو مربعوں پرمحیط فارم، اوروسیع و عریض گھر۔ اسی طرح سابقہ صدر آصف علی زرداری کے پاس کراچی ،لاہور،دبئی اور فرانس میں عالیشان محلات ہیں ۔سرے محل بھی ان کی ملکیت ہے ۔صرف لاہور کا بلاول ہائوس100کنال کا بتایا جاتاہے ۔چودھری پرویز الہٰی اور چودھری شجاعت کے پاس گجرات ،لاہور اوربیرون ِ ممالک میں گھرموجود ہیں۔ایم کیو ایم کے قائدالطاف حسین کے برطانیہ میں مہنگے فلیٹس، شیخ الاسلام طاہرالقادری کی کنیڈا اور لاہور میں عالیشان رہائش ہے اور تو اور مولانا فضل الرحمن اور ان کے خاندان کی سینکڑوں کنال اراضی ، گاڑیاں ،قیمتی رہائش گاہیں اور نہ جانے کیا کیا ،اعلانیہ غیر اعلانیہ کی بات بس چھوڑ ہی دیں۔
اب آپ کے سوچنے سمجھنے اور غور کرنے کا مقام ہے کہ ہمارے سب کے سب قومی رہنماؤں کا رہن سہن عام آدمی کی زندگی سے کوئی میل کھاتا ہے یا نہیں لیکن اس کے باوجود سب عوام کی خدمت کا دعویٰ کرتے ہیں، سب میں کوئی فرق نہیں ہے؟ ایک جیسے وعدے ، ایک جیسے دعوے ایک جیسا حکمرانی کا انداز کچھ بھی نہیں مختلف نہیں ۔عوام تو بے چارے اتنا ہی کہہ سکتے ہیں خدارا !پاکستان پررحم کھائیں۔ آزادی کو مبہم نہ بنائیں ۔
آج الحمداللہ پاکستان دنیا کی ساتویں بڑی ایٹمی قوت ہے لیکن ہمارے حکمران ایٹم بم کو کشکول میں رکھ کر دنیا سے کبھی امداد، کبھی قرضے اور کبھی بھیک مانگتے پھرتے ہیں ۔اس کے علاوہ نصف صدی سے کرپٹ عناصر نے پاکستان کا چہرہ مسخ کرکے رکھ دیاہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمیشہ کہا جاتاہے کہ پاکستان ایک غریب ملک ہے۔ اکثریت آبادی کا حال اور حالت ِ زار دیکھ کر ہم وطنوں کو اس کا یقین ہو جاتاہے لیکن دنیا ہماری حقیقت جان گئی ہے۔ اسی لئے کوئی سیدھے منہ بات کرنا بھی پسندنہیں کرتا۔ یہ کتنی مضحکہ خیز صورت ہے کہ پاکستان ایک ملک غریب ہے اور اس کے لوگ امیر بلکہ امیر ترین۔ان میں سے کسی کو پاکستان پر ترس نہیں آتا۔ پاکستانی شخصیات کے98 ارب ڈالر سوئس بینکوں میں پڑے ہوئے ہیں جس سے پورے پاکستان کے ہر شخص کیلئے بلا امتیاز دائمی خوشیاں خریدی جا سکتی ہیں۔ لوگوں کو مہنگائی ، بیروزگاری، لوڈ شیڈنگ،بیماری اورغربت سے نجات مل سکتی ہے لیکن اس کے بارے سوچنا بھی گناہ فرض کرلیا گیا ہے جو لچھے دار باتیں کرتا ہے۔ غریبوں کے حقوق کی صدا بلند کرتاہے،روٹی کپڑا مکان دینے کے نعرے لگاتاہے۔ لمبی چوڑی باتیں کرتاہے۔ شیخ چلی کی طرح خیالی پلاؤ پکاتاہے۔ ہمارے معصوم ہم وطن اسے اپنا نجات دہندہ سمجھ اس کے پیچھے لگ جاتے ہیں۔ کچھ عرصہ بعد معلوم ہوتاہے یہ بھی راہبرکے روپ میں راہزن تھا۔ کئی سر پیٹ لیتے ہیں کئی لوگوں میں اس کی بھی سکت نہیں ہوتی ،جس نظام میں یہ سب کچھ ہورہاہے ،آخر اس نے فناہوناہے ۔ایک دن عروج کو زوال آناہے ۔صرف عوام کی سوچ بدلنے کی دیرہے ۔ان کے دن پھر جائیں گے، جن لیڈروں کا لائف اسٹائل عوام جیسا نہیں ان کو عوام کی نمائندگی کا بھی حق حاصل نہیں ہونا چاہیے ۔یہ بھی قانون بننا چاہیے جن کی دولت کسی بھی انداز سے دوسرے ممالک میں موجودہو، ان کو سرکاری و عوامی نمائندگی کیلئے نااہل قراردیدیا جائے۔ یہی پاکستانی مسائل کا حل ہے۔ اگر رعایت دینی ہے تو کوئی حد تجویزکرلیں اس کے بعد بے رحم احتساب۔
جو اس کی زدمیں آئے اسے الٹا لٹکا دیا جائے۔ پاکستان کی بدولت یہ لوگ ارب کھرب پتی بنے ہیں۔ اب پاکستان کو ریٹرن کرنے کا وقت آن پہنچاہے ۔لگتاہے قرباتی کا موسم قریب ہے۔ قربانی بھی دو چار افرادکی پھر قوم حقیقی تبدیلی کی منزل پا لے گی۔ وگرنہ کچھ بھی نہیں ہونے والا۔جس ملک میں ٹھنڈے پانی کی سبیل کے واٹرکولر پر رکھے گلاس کو زنجیرسے باندھنا پڑے اور لوگوں کو مسجد میں اپنی آخرت سے زیادہ اپنے جوتوں کی فکرہو ،وہاں صدر یا وزیراعظم کی تبدیلی سے کیا فرق پڑے گا۔ تبدیلی کیلئے ہر شخص کو اپنا اخلاق اور کردار تبدیل کرناہوگا۔ ازخود یاڈنڈے کے زورپر اس کا فیصلہ بہرحال ہم نے خود کرناہے۔ اب بھی وقت ہے سوچنے کا ، سمجھنے کا،سنبھلنے کا،غورکرنے کا قدرت نے اگر ہماری رسی دراز کی ہے تو اس مہلت سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: ممالک میں محلات ہیں بھی نہیں ایک جیسے جا سکتی عوام کی ہے لیکن سکتی ہے کے پاس ہے اور کی بات

پڑھیں:

کوئی نیلسن منڈیلا نہیں

حکمرانوں کی سیاسی مخالفین سے غیر منصفانہ اور متعصبانہ سلوک کی ایک سیاہ تاریخ ہے۔ صرف برصغیر ہندوستان کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو بادشاہ اپنے مخالفین کے ساتھ بدترین سلوک روا رکھتے تھے۔ بادشاہوں کے مخالفین کو ریاست کا ’’غدار‘‘ قرار دیا جاتا تھا ۔ مغل بادشاہ اپنے مخالفین کو سزائے موت دینا معمول کی کارروائی سمجھتے تھے یا کسی منحرف کی آنکھوں میں گرم سلائی پرو دینا اور برسوں زندان خانوں میں بھیج کر بھول جانا عام سی بات تھی۔

ایسٹ انڈیا کمپنی نے برصغیر ہندوستان میں اقتدار پر قبضہ کرنا شروع کیا۔ کمپنی کے افسران مخالفین کے ساتھ بدترین سلوک کرتے تھے، جب بہادر شاہ ظفر کی حکومت کو 1857ء کی جنگ آزادی میں شکست ہوئی تو انگریز فوج دلی میں داخل ہوئی تو انگریز افسروں نے سیکڑوں ہزاروں افراد کو بغاوت کے جرم میں سزائے موت دی۔

بادشاہ بہادر شاہ ظفرکو ایک تھال پیش کیا گیا، جس میں اس کے شہزادوں کے سر قلم کردیے گئے تھے ۔ کمپنی کی حکومت ختم ہوئی اور برطانوی ہند حکومت قائم ہوئی۔ لندن کی حکومت کے مقررکردہ گورنر جنرل نے ہندوستان کا نظام سنبھال لیا۔ گورنر جنرل کی حکومت نے تعزیراتِ ہند نافذ کیا۔گورنر جنرل کی حکومت نے آزادی ہند کا مطالبہ کرنے والے بہت سے افراد کو کالے پانی کی سزا دینا شروع کی۔

اس سزا کے تحت آزادی کا مطالبہ کرنے والے حریت پسندوں اور ہندوستان سے جلاوطن کرکے جزائر انڈومان اور بینکو بار بھیج دیا جاتا تھا جہاں ان حریت پسندوں کو 15 سے 20 سال تک قید کی سزا دی جاتی تھی۔ جمعیت علمائے ہند اورکانگریس کے بہت سے رہنماؤں کو یہ سزا دی گئی۔ ان میں سے بہت سے افراد ان جزائر میں ہی شہید ہوجاتے تھے۔

انگریز حکومت نے گزشتہ صدی کے آغاز کے ساتھ منحرفین کے ساتھ کچھ نرم رویہ برتنا شروع کیا۔ اب کانگریس میں جمعیت علمائے ہند اور کمیونسٹ پارٹی کے رہنماؤں کو خصوصی قوانین کے تحت کئی کئی سال کی سزائیں دی جانے لگیں۔ ان لوگوں پر حکومت کا تختہ الٹنے کے الزامات لگائے جاتے۔ اسپیشل کورٹس انھیں 10 سے 20 سال تک سزائیں دیتی تھیں۔

جب 40ء کے عشرے میں کانگریس نے ’’ ہندوستان چھوڑ دو‘‘ تحریک شروع کی تو انگریز حکومت نے کانگریس کی ساری قیادت کو گرفتار کیا۔ ان تمام رہنماؤں کو کئی کئی سال قید میں رکھا گیا۔ مولانا ابو الکلام آزاد، پنڈت نہرو اور مہاتما گاندھی اور دیگر رہنماؤں کو احمد نگر قلعہ میں 4 برس تک نظربند رکھا گیا۔ اس دوران ابو الکلام آزاد جب جیل سے رہا ہوئے تو خطوط کا ایک پلندہ ان کے حوالے کیا گیا۔ اس پلندے میں کئی خطوط ان کی اہلیہ کی شدید بیماری اور ایک خط ان کے انتقال کے بارے میں تھا۔

ہندوستان کا بٹوارہ ہوا اور نیا ملک پاکستان اس اعلان کے ساتھ وجود میں آیا کہ جو سیاہ قوانین برطانوی ہند حکومت میں نافذ تھے، وہی قوانین آزادی کے بعد بھی نافذ ہونگے۔ مسلم لیگ کی پہلی حکومت میں حکومت کی مخالفت کرنے والے رہنماؤں کو ریاست مخالف اور غدار قرار دیا جانے لگا۔ کمیونسٹ پارٹی کے سیکریٹری جنرل سجاد ظہیر اور معروف دانشور سید سبط حسن وغیرہ اور دیگر لوگوں کے پاکستان آنے سے پہلے وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے۔

اس کے ساتھ ہی مشرقی پاکستان، بلوچستان اور پختونخوا(اس وقت کے صوبہ سرحد) کے قوم پرست جنھوں نے ساری زندگی انگریز حکومت کے خاتمے کی جدوجہد کی تھی، انھیں سیکیورٹی اور سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتارکیا گیا۔ نام نہاد راولپنڈی سازش کیس میں کمیونسٹ پارٹی کے سیکریٹری جنرل سجاد ظہیر، معروف شاعر فیض احمد فیض اور دیگر رہنماؤں کو گرفتار کرنے کا مقدمہ چلایا گیا۔ مگر معاملہ صرف کمیونسٹ پارٹی تک محدود نہ رہا۔ جماعت اسلامی کے رہنماء مولانا مودودی اور ان کے تمام رفقاء کو بھی گرفتار کیا گیا، پھر جنرل ایوب خان ملک کی قسمت کے مالک بن گئے۔

ایوب خان کی حکومت نے اپنے مخالفین کے ساتھ وہی رویہ اختیار کیا جو انگریز حکومت نے کیا تھا۔ ایوب خان کے 10 سالہ دور میں نیشنل عوامی پارٹی، عوامی لیگ، نیشنلسٹ پارٹی، کمیونسٹ پارٹی، جماعت ا سلامی اور دیگر جماعتوں کے رہنماؤں کو طویل عرصے نظربند رکھا گیا۔

کمیونسٹ پارٹی کے رہنماء حسن ناصر پہلے سیاسی کارکن ہیں جنھیں پاکستان بننے کے بعد لاہور کے شاہی قلعے میں شہید کیا گیا۔ نیشنل پارٹی بلوچستان کے رہنماؤں غوث بخش بزنجو اور عطاء اﷲ مینگل وغیرہ کو خصوصی عدالتوں سے طویل مدت کی سزائیں دی گئیں اور جیلوں میں سیاسی قیدیوں کو کوڑے بھی مارے گئے۔ جنرل یحییٰ خان کے دور میں پیپلز پارٹی کے بعض رہنماؤں اور کارکنوں کو غیر سول عدالتوں نے سزائیں دیں۔ اس دور میں بائیں بازو کی طلبہ تنظیموں کے رہنما اور کارکن اور مزدور رہنما بھی پابند سلاسل ہوئے۔

جب 1970 کے عام انتخابات کے بعد جنرل یحییٰ خان نے اکثریتی جماعت عوامی لیگ کو اقتدار منتقل نہیں کیا اور عوامی لیگ کے خلاف فوجی آپریشن ہوا تو فوجی عدالتوں میں روزانہ سیکڑوں سیاسی کارکنوں کو سزائیں سنائی گئیں۔ عوامی لیگ کے شیخ مجیب میانوالی جیل میں نظربند رہے۔

 پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت میں سیاسی مخالفین کے ساتھ ناروا سلوک ہوتا رہا۔ حکومت نے نیشنل عوامی پارٹی کو غدار قرار دے کر پابندی عائد کردی۔ کالعدم نیشنل عوامی پارٹی اور پیپلز پارٹی کے بعض منحرفین کے خلاف حیدرآباد سازش کیس کے الزام میں مقدمہ چلایا گیا۔ ابھی یہ مقدمہ نامکمل تھا کہ سربراہ مملکت جنرل ضیاء الحق نے یہ مقدمہ واپس لے لیا۔

جنرل ضیاء الحق کا دور سیاسی منحرفین کے لیے عبرت ناک دور تھا۔ حکومت کے خلاف مزاحمت کرنے پر پیپلز پارٹی اور بائیں بازوکی جماعتوں کے ہزاروں کارکنوں کو غیر سول عدالتوں نے سزائیں دیں۔ ان سزاؤں میں کوڑے مارنا بھی شامل تھے اورکچھ کو پھانسیاں بھی دی گئیں۔

پیپلز پارٹی بائیں بازوؤں کے کارکنوں کے علاوہ صحافیوں، ادیبوں، خواتین کو لاہور کے شاہی قلعے میں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ پیپلز پارٹی کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو کو متنازع مقدمے میں سزائے موت دی گئی۔ محمد خان جونیجو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے پہلے دور میں سیاسی مخالفین کو نشانہ نہیں بنایا گیا۔ میاں نواز شریف کی حکومت کے دونوں ادوار میں صدر آصف زرداری سمیت پیپلز پارٹی کے کئی رہنما پابند سلاسل رہے۔ بے نظیر بھٹو کی حکومت کے دوسرے دور میں میاں نواز شریف کے والد میاں محمد شریف کو گرفتار کیا گیا۔ مسلم لیگ کے کئی رہنما حراست میں رکھے گئے۔

جنرل پرویز مشرف کے دور میں میاں نواز شریف اور دیگر مسلم لیگی رہنما مسلسل جیلوں میں بند رہے۔ بلوچستان کے سابق گورنر اکبر بگٹی کے قتل اور لاپتہ افراد کا مسئلہ شروع ہوا۔ بلوچ کارکنوں اور پختون کارکنوں کے علاوہ سندھی قوم پرست، ایم کیو ایم اور مذہبی گروپوں کے مختلف افراد لاپتہ ہوئے۔ پیپلز پارٹی کی چوتھی حکومت میں بھی بلوچ اور پختون کارکنوں کے علاوہ ایم کیو ایم کے کارکنوں کے لاپتہ ہونے کا سلسلہ جاری رہا۔ تحریک انصاف کی حکومت کے دور میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے کئی رہنماؤں کو مسلسل جیلوں میں بند رکھا گیا۔

میاں نواز شریف اور ان کی بیٹی کو اڈیالہ جیل میں قید کیا گیا، میاں صاحب کی اہلیہ کلثوم نواز زندگی اور موت کی کشمکش میں لندن میں مبتلا تھیں۔ میاں صاحب ان کی خیریت معلوم کرنا چاہتے تھے مگر جیل سپرنٹنڈنٹ نے اجازت نہیں دی تاہم چند گھنٹوں بعد ان کی اہلیہ کی موت کی خبر ضرور سنائی۔ حکومتی بیانیے سے انحراف کرنے والے صحافیوں کے لیے مسائل پیدا کیے جا رہے ہیں، موجودہ منتخب اراکین کو دس، دس سال سزائیں دی جا رہی ہیں، سزا پانے والوں میں کینسر میں مبتلا ایک خاتون ڈاکٹر بھی شامل ہیں۔

میاں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کے درمیان میثاق جمہوری ’’Truth and Reconciliation Commission‘‘ کے قیام کا وعدہ کیا گیا تھا۔ گزشتہ دنوں حزب اختلاف کی جماعتوں کی کانفرنس میں پھر اس کمیشن کا ذکر ہوا، مگر ملک میں کوئی نیلسن منڈیلا پیدا نہیں ہوا، جو ایسا کمیشن بنا سکے، یوں نظر آتا ہے کہ ہر حکومت کے دور میں منحرفین کے خلاف جبر و تشدد کی روایت برقرار رہے گی۔

متعلقہ مضامین

  • غریب ہک زندہ لاش اے
  • چند سومسلح افراد کا جتھا 25 کروڑ عوام پر اپنا نظریہ مسلط نہیں کرسکتا، وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی
  • اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے، پورا پاکستان جانتا ہے میں 60 ہزار ووٹوں سے جیتی اور خواجہ آصف کو ذلت آمیز شکست ہوئی
  • خواجہ آصف نے جو الزام عائد کیا اس پر انکوائری نہیں کارروائی کرنا پڑے گی
  • بھارتی عوام اور حکومت سے دشمنی نہیں بلکہ پالیسیوں پر اختلاف ہے، وزیر مملکت
  • ملک میں کوئی آواز ایسی نہیں جو عوامی مسائل پر بات کرسکے، حافظ نعیم
  • کوئی نیلسن منڈیلا نہیں
  • یہ دہشت گردی نہیں ہے
  • جماعت اسلامی پاکستان کا لاہور میں اجتماع عام منعقد کرنے کا اعلان