ہانیہ عامر اور عاصم اظہر کی دوبارہ ملاقاتیں؟ مداحوں کی شدید تنقید
اشاعت کی تاریخ: 10th, August 2025 GMT
پاکستانی شوبز کی مشہور سابق جوڑی ہانیہ عامر اور عاصم اظہر کی ایک دوسرے سے ملاقات کی خبریں سامنے آنے کے بعد مداحوں کی جانب سے شدید تنقید کی جارہی ہے۔
ہانیہ اور عاصم نے ماضی میں کھلے عام ایک دوسرے کے ساتھ وقت گزارا، اور مداحوں نے بھی اس جوڑی کو بے حد پسند کیا۔ تاہم تعلقات میں دراڑ پڑنے پر یہ رشتہ نہایت تلخ انداز میں ختم ہوا، یہاں تک کہ دونوں نے ایک دوسرے پر تنقیدی بیانات دیے اور مداح بھی ایک دوسرے کے مخالف ہوگئے۔
ہانیہ عامر سے تعلقات ختم ہونے کے بعد عاصم اظہر نے میرب علی سے تعلق قائم کیا اور منگنی کی، مگر یہ رشتہ بھی حال ہی میں ختم ہو گیا۔ اب افواہیں ہیں کہ ہانیہ اور عاصم کے درمیان پرانی محبت دوبارہ جاگ اٹھی ہے۔
معاملہ اس وقت زیر بحث آیا جب ایک ایونٹ میں ہانیہ عامر کو عاصم اظہر کی پرفارمنس کے دوران سامنے کی قطار میں دیکھا گیا۔ عاصم نے مبینہ طور پر ہانیہ کے لیے چند گانے گائے اور ان کی فرمائش پر "Regardless" بھی گایا۔ یہ منظر اس وقت سامنے آیا جب عاصم اور میرب علی کی علیحدگی کی خبر تازہ ہی تھی۔ سوشل میڈیا پر اس موقع کی ویڈیوز وائرل ہو گئیں اور یہاں تک کہ کولڈ پلے کنسرٹ میں مشہور "Astronomer CEO" میم کی طرز پر ایک میم بھی دونوں پر بنائی گئی۔
سوشل میڈیا پر کئی صارفین دونوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ ایک صارف نے لکھا، ’’یہ تو تھوک کر چاٹنے والی بات ہے۔‘‘ ایک اور نے کہا، ’’عاصم کو کچھ وقار دکھانا چاہیے تھا، ابھی بریک اپ ہوا ہے۔‘‘ جبکہ ایک نے طنزیہ انداز میں پوچھا، ’’سیلف ریسپیکٹ کہاں ہے بھئی؟‘‘
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ہانیہ عامر ایک دوسرے اور عاصم
پڑھیں:
حکیم مشرق اقبال اور علامہ ہروی کی ابتدائی ملاقاتیں
اسلام ٹائمز: تقدیر کے قاضی کا فتویٰ ملاحظہ ہو کہ ان دو بزرگوں کی ملاقات سے ملت کے نوخیر تعلیم یافتہ طبقہ میں ایک دائمی انقلاب پیدا ہونا تھا، جو مسجد اور منبر سے نہیں ہوسکتا تھا۔ یہ مبارک صحبت تھی، جس نے علامہ صاحب سے تجدید اسلام جیسا مضمون تصنیف کرایا اور علامہ صاحب کی فکر میں تبدیلی کیسے پیدا ہوئی۔ اس پر غور کیجئے تو سوائے حضرت شیخ کی روحانی توجہ کے اور کوئی سبب نظر نہیں آتا۔ یہ بلند مقام جو قیود دستور سے بالاتر ہو۔ بہت بڑے دوربین بزرگوں کو ہی حاصل ہوتا ہے، ورنہ فرقہ پرستی، ملا پرستی، احبار پرستی غرض یہ کہ ہر قسم کی نفس پرستی، خود غرضی پر ہی منتج ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسے بزرگوں سے ہمیشہ ملت اسلامیہ کی دستگیری فرمائے۔ تحریر: سید نثار علی ترمذی
آج سے نصف صدی قبل کی بات ہے کہ انار کلی بازار میں ہماری دکان موسومہ بٹ اینڈ کمپنی تھی، جو اب ختم ہوچکی ہے۔ اس کی بالائی منزل پر علامہ اقبال مرحوم کا دفتر تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا، جب علامہ مرحوم پورے شباب پر تھے اور روزانہ صبح کو اس وقت کی عدالت عالیہ یعنی چیف کورٹ میں اپنی گھوڑا گاڑی میں جایا کرتے تھے۔ اس زمانے میں بھی آپ نہایت پروقار انداز رکھتے تھے اور قابل رشک صحت کے مالک تھے۔ انگلستان اور جرمنی میں تعلیم و قیام کے دوران میں آپ اپنے اجتہادی فلسفیانہ مضامین کی بنا پر مشاہیر علماء میں عالمگیر شہرت حاصل کرچکے تھے۔ دوسری وجہ آپ کی تجدیدی شاعری تھی، جس نے دنیائے غور و فکر میں خاص مقام حاصل کر لیا تھا۔ غرض یہ کہ اس وقت کے بلند پایہ علمی رسالہ کے روح رواں سر شیخ عبدالقادر مرحوم آپ کو پرعظمت محبت سے دیکھتے تھے اور آپ نے ہی علامہ صاحب کو ملت اسلامیہ سے روشناس کرانے میں سبقت کی تھی۔
گویا یہ چند وجوہات ہیں، جن کی وجہ سے اکثر دور دراز مقامات سے ملاقاتی آتے رہتے تھے۔ یہ نو وارد مشتاقین انارکلی میں آتے اور آہستہ آہستہ پوچھتے پوچھتے اپنی گاڑی ہماری دکان کے سامنے کھڑی کرکے دریافت کرتے، گویا ہمیں علامہ صاحب کے دربار کا حاجب خیال فرماتے۔ اسی لیے مجھے ہر آنے جانے والے ملاقاتی کی بابت معلوم ہے کہ کون بزرگ آئے اور کب آئے۔ باوجود یہ کہ نواب صاحب کنج پورہ (کرنال) اور مولانا شبلی، سر سید علی امام، صاحب زادہ آفتاب احمد اور اسی مرتبے کے اکثر اکابر آتے رہے، لیکن اس وقت میں صرف حضرت شیخ عبدالعلی ہروی تہرانی کے متعلق گزارش کرتا ہوں کہ غالباً 1910ء کا ذکر ہے، ایک دن نواب فتح علی خان مرحوم کی ذاتی گھوڑا گاڑی ہماری دکان کے آگے رکی اور غنی لالہ، جو اس وقت حضرت شیخ کے ساتھ بطور خدمت گار مقرر تھا، ہم سے علامہ صاحب کے دفتر کا راستہ پوچھا، جو اندر ڈیوڑھی میں سے اوپر کو جاتا تھا۔
اس طرح مجھے حضرت شیخ کے آگے آگے چلنے کا فخر حاصل ہوا اور اوپر پہنچ کر مجھے تو ایسا معلوم ہوا، شاید حضرت شیخ اور علامہ کیمبرج میں اکٹھے ہی رہے ہوں۔ اتنے مانوس کہ دونوں کے چہرے خوشی سے تمتما اٹھے۔ ازاں بعد حضرت کے مواعظ اکثر کربلا گامے شاہ میں ہوتے رہے ہیں، چونکہ واعظ فارسی زبان میں ہوتا تھا، اس لیے ترجمے کے فرائض علامہ اقبال ادا کرتے تھے۔ پھر تو میں نے یہ دیکھا کہ حضرت شیخ روزانہ بعد از ظہر تشریف لاتے اور بعد عصر واپس جاتے۔ ان ملاقاتوں کے بعد حکیم ملت کے نظریات میں عظیم انقلاب واقع ہوا۔ اسرار خودی اور رموز بے خودی (بزبان فارسی) اسی انقلاب کا نتیجہ ہے۔ ویسے بھی علامہ صاحب بوقت پیدائش حضرت شمس علماء علامہ سید میر حسن صاحب (سیالکوٹ )کے لب چشیدہ تھے اور تکمیل علم کے بعد حضرت شیخ جیسے یگانہ ملت کی توجہ میسر ہوئی، جس سے علامہ صاحب کو نہ صرف علمی بلکہ روحانی فیض بھی حاصل ہوا۔
ایک بات قابل غور ہے کہ حضرت شیخ کی روحانی توجہ کے بعد علامہ صاحب نے اپنا مافی الضمیر ہمیشہ فارسی زبان میں ہی ادا فرمایا۔ اس کے جواز میں ایک واقعہ عرض کرتا ہوں۔ ایک دن جسارت کرکے میں بھی بزرگوں کی زیارت کے لیے اوپر چلا گیا۔ تو ان کی روحانی عظمت نے مجھے مزید آگے بڑھنے نہ دیا۔ لیکن میں نے وہاں پر کھڑے کھڑے یہ الفاظ سنے جو حضرت شیخ کے منہ سے محبت کے ساتھ نکلے "اقبال من از دہن شما می گویم" (اقبال میں تو تیرے دہن (زبان) سے کہتا ہوں) اللہ اللہ کس قدر مشفقانہ توجہ تھی، جو حضرت شیخ نے علامہ صاحب پر صادر فرمائی۔ مجھے یہ بات کہتے ہوئے خوشی ہوتی ہے کہ حضرت شیخ اپنے وقت کے مجدد ملت تھے اور وہ پیغام حق جو بطور امانت آپ کے پاس تھا، اس کے لیے آپ نے اپنی بالغ نظری سے علامہ اقبال کو ہی منتخب فرمایا۔
ملت اسلامیہ کے عالمگیر مسائل کچھ اور ہی ہوتے ہیں اور یہ سطحی نہیں ہوتے بلکہ نہایت عمیق ہوتے ہیں۔ برعکس اس کے کہ ہر شہر اور ہر ملک کے مقامی مسائل مختلف ہوتے ہیں۔ اس لیے ہمیں ان بزرگوں کی مقامی اہمیت کی بجائے ان کی ملی عظمت کو دیکھنا ہے۔ کیونکہ تمام پر تصریحات دور رس ہوتی ہیں۔ اس لیے چند لوگ ہی ان قدسی نفوس کے تبرکات سے متمتع ہوتے ہیں۔ جذبات سے بالاتر ہونا اور مستقبل کو مدنظر رکھنا یہ مرتبہ ہر صدی میں ایک یا دو ہستیوں کو حاصل ہوتا ہے۔ ظاہر کی آنکھ میں علامہ صاحب ایک غیر مذہبی آدمی نظر آتے ہیں اور حضرت شیخ اپنے وطن سے جلاوطن شدہ سیاسی پناہ گزین دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن تقدیر کے قاضی کا فتویٰ ملاحظہ ہو کہ ان دو بزرگوں کی ملاقات سے ملت کے نوخیر تعلیم یافتہ طبقہ میں ایک دائمی انقلاب پیدا ہونا تھا، جو مسجد اور منبر سے نہیں ہوسکتا تھا۔
یہ مبارک صحبت تھی، جس نے علامہ صاحب سے تجدید اسلام جیسا مضمون تصنیف کرایا اور علامہ صاحب کی فکر میں تبدیلی کیسے پیدا ہوئی۔ اس پر غور کیجئے تو سوائے حضرت شیخ کی روحانی توجہ کے اور کوئی سبب نظر نہیں آتا۔ یہ بلند مقام جو قیود دستور سے بالاتر ہو۔ بہت بڑے دوربین بزرگوں کو ہی حاصل ہوتا ہے، ورنہ فرقہ پرستی، ملا پرستی، احبار پرستی غرض یہ کہ ہر قسم کی نفس پرستی، خود غرضی پر ہی منتج ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسے بزرگوں سے ہمیشہ ملت اسلامیہ کی دستگیری فرمائے آمین۔ (محمد بشیر علی، 21 رمضان المبارک 1389ھ ) مہ نامہ معارف اسلام، لاہور اپریل 1961ء۔