ایرانی شہر اصفہان میں 1930 میں پیدا ہونے والے عالمی شہرت یافتہ مصور اور نقش و نگار کے استاد محمود فرشچیان کا انتقال نیو جرسی، امریکا میں ہوا۔ ان کی عمر قریباً 95 برس تھی۔ فرشچیان کو جدید ایرانی مصوری میں انقلاب لانے والا فنکار سمجھا جاتا ہے، جنہوں نے فارسی منی ایچر آرٹ کو ایک نئی روح اور جدید رنگ و روپ دے کر عالمی سطح پر ایران کی ثقافتی شناخت کو مستحکم کیا۔

فرشچیان کا بچپن اصفہان کے شاہی مسجد کے قریب گزرا، جہاں صفوی دور کی شاہکار عمارتوں نے ان کے جمالیاتی ذوق کو پروان چڑھایا۔ ان کے گھر میں درخت، چشمے، تالاب اور ڈربہ تھا، جہاں وہ مرغیاں، کوے، کبوتر اور چڑیاں پال کر ان کی خوبصورتی، رنگوں اور حرکات کو قریب سے سمجھتے تھے، جو ان کے فن پاروں میں باریکی سے جھلکتا ہے۔

ان کے والد غلام رضا قالین فروش تھے، جن کے گھر میں قدیم فرنیچر، قالین اور مذہبی پردوں کا حسن نمایاں تھا۔ والدین کی مذہبی عقیدت، خاص طور پر والدہ زہرہ کا امام زادہ اسماعیل کے مزار کی زیارت کے دوران کربلا اور عاشورہ کے مناظر کے خاکے تیار کرنا، فرشچیان کی روحانی اور فنی تربیت کا اہم جزو تھا۔ 1940 کی دہائی میں کربلا کی زیارت نے ان پر گہرا اثر چھوڑا، جس کا عکس ان کے بعد کے شاہکاروں، خاص طور پر امام حسین کے مزار کے ڈیزائن میں نمایاں ہے۔

لوحة «عصر عاشوراء» للأستاذ محمود فرشتشيان،
الرسّام الإيراني البارز، الذي رحل عن عالمنا صباح اليوم

كلّما تأملتُ لوحة السيد فرشتشيان، التي أهداني إياها قبل أعوام، اغرورقت عيناي بالدموع.

فمع كل ما نعرفه من المراثي، يقدّم فرشتشيان مرثية بفرشاته تجعلنا نبكي.
الإمام الخامنئي
1/9/1993 pic.twitter.com/13mYSabwkA

— موقع الإمام الخامنئي (@site_khamenei) August 9, 2025

فرشچیان نے اصفہان کے اسکول آف فائن آرٹس سے تعلیم حاصل کی اور بعد ازاں یورپ کا سفر کیا جہاں مغربی فنون کی گہرائیوں میں غوطہ زن ہوئے۔ ایران واپسی پر انہوں نے تہران کے فائن آرٹس ڈیپارٹمنٹ میں کام کیا اور بعد ازاں جامعہ تہران کے شعبہ فنون لطیفہ کے ڈائریکٹر اور پروفیسر کے طور پر خدمات انجام دیں۔

فرشچیان کے فن پارے پیچیدہ باریک کاری، روایتی فارسی منی ایچر تکنیک کے ساتھ جدید تخلیقی عناصر کے امتزاج پر مشتمل تھے۔ ان کے کام میں فارسی ادب، مذہبی روایات اور روحانی علامات کی عکاسی ہوتی ہے۔ ان کے شاہکار نہ صرف ایران بلکہ پیرس، نیویارک، شکاگو، ٹوکیو جیسے عالمی شہروں میں نمائش کے لیے پیش کیے گئے اور ایران کی ثقافت کی علامت سمجھے گئے۔

خصوصاً ان کی حسینیت کے موضوعات پر مبنی تخلیقات، جیسے ’دی ایوننگ آف عاشورا‘ اور ’دی اسٹینڈرڈ بیئرر آف ٹروتھ‘، وغیرہ حضرت امام حسین اور ان کے رفقا کی قربانی، درد اور استقامت کی عکاسی کرتی ہیں۔ یہ فن پارے محض تصویری خاکے نہیں بلکہ ایک مقدس جگہ کی مانند ہیں جہاں غم و امید ایک ساتھ بستے ہیں۔

فرشچیان کو متعدد اعزازات سے نوازا گیا، جن میں برطانیہ کی 21ویں صدی کے 2000 ممتاز دانشوروں کی فہرست میں ان کا نام شامل ہے۔ ان کی تخلیقات ایران کی قومی لائبریری اور آرکائیوز میں بھی محفوظ ہیں۔ ان کا میوزیم، محمود فرشچیان میوزیم، صدارباد محل میں قائم ہے جہاں 50 سے زائد شاہکار موجود ہیں۔

فرشچیان نے 1955 میں نیادخت قویمی سے شادی کی اور 3 بچے علی مراد، لیلیٰ اور فاطمہ ہیں۔

ان کے انتقال کی خبر نے ایران اور دنیا بھر کے ثقافتی حلقوں میں غم کی لہر دوڑا دی ہے۔ وزارت ثقافت و اسلامی رہنمائی سمیت متعدد اداروں نے ان کی خدمات کو سراہا اور کہا کہ فرشچیان نے ایرانی ثقافت، روحانیت اور فن کو عالمی شناخت دی۔

محمود فرشچیان کا فن اور ورثہ ایران کی تہذیب و ثقافت کا روشن چراغ ہے، جو آنے والی نسلوں کو بھی روشنی دیتا رہے گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

Mahmoud Farshchian استاد محمود فرشچیان اصفہان جدید ایرانی مصوری حسینیت کربلا نیو جرسی، امریکا

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: استاد محمود فرشچیان اصفہان جدید ایرانی مصوری حسینیت کربلا نیو جرسی امریکا محمود فرشچیان ایران کی

پڑھیں:

امریکی انتخابی ہیٹ ٹرک ۔۔جہاں رہے گا وہیں روشنی لٹائے گا

ڈاکٹر سلیم خان

اسرائیل کو بجا طور پر امریکہ کی 51ویں ناجائز ریاست سمجھا جاتا ہے لیکن ایک خیال یہ بھی ہے ساری دنیا بشمول امریکہ یہودیوں کے سرمایہ دارانہ چنگل میں ہے ۔ امریکہ کی حد تک تو یہودی سرمایہ داروں کی بابت یہ عام خیال ہے کہ ان کی مرضی کے بغیر پتاّ بھی نہیں ہلتا اور عصرِ حاضر میں انتخابات پیسے کا کھیل ہے اس لیے حکمراں نہ صرف ان کی مرضی سے منتخب ہوتے ہیں بلکہ انہیں کی تابعداری کرتے ہیں مگر ظہران ممدانی، آفتاب پوریوال اور غزالہ ہاشمی کی جیت نے وہ طلسم توڑ دیا۔ تل ابیب کے بعد نیویارک شہر میں رہنے والی سب سے بڑی یہودی آبادی کے پاس دولت کی افراط ہے ۔ میڈیا مٹھی میں ہیں۔ امریکی سیاستدانوں کے ساتھ خفیہ سازش کرنے میں وہ ماہر ہیں ۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی ظہران ممدانی کو یہودی مخالف قرار دیتے ہیں ۔ آر ایس ایس نے سنا ہے امریکہ اپنی جڑیں بہت مضبوط کرلی ہیں مگر یکے بعد دیگرے ہنود اور یہود کی حالیہ شکست نے ساری خوش فہمیاں دور کردیں ۔ امریکہ میں یہودی و ہندو سیاستدانوں کا اپنا کوئی تشخص نہیں ہے وہ تقریباً عیسائی بن گئے ہیں لیکن ظہران ، آفتاب اور غزالہ کا معاملہ منفرد و مختلف ہے ۔
کھیل کی دنیا میں مسلسل تین کامیابیوں کو ہیٹ ٹرک کہتے ہیں ۔ امریکہ کی سرزمین پر انتخابی کھیل میں یہ چمتکار ہوگیا ۔ نیویارک کے ظہران ممدانی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو دھوبی پچھاڑ دیا تو ان کے نائب جی ڈی وینس کو سوتیلے بھائی کو آفتاب پوریوال نے سنسناٹی میں چِت کیا ۔ ان دونوں کے علاوہ غزالہ ہاشمی نے ورجینیا کے اندر لیفٹننٹ گورنر کا انتخاب جیت کر پہلی مرتبہ کسی مسلم خاتون نے اس اہم عہدے پر فتح کا پرچم لہرا دیا۔ ٹرمپ کی مخالفت نے نیویارک کے انتخاب کو غیر معمولی مقبولیت عطا کردی مگر 909 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع سنسناٹی میں بھی اسی طرح کی کہانی دوہرائی گئی جہاں نائب صدر کے سوتیلے بھائی کو ڈیموکریٹ امیدوار اور ہندوستانی نژاد سکھ آفتاب پوریوال نے دھول چٹا دی ۔ موصوف نے سنسناٹی کے میئر کی حیثیت سے دوسری مرتبہ کامیابی درج کرائی لیکن اس بار ان کے مقابلے میں جے ڈی وانس کے سوتیلے بھائی کوری بوومن تھے ۔ ان کو کامیاب کرنے کی خاطر نائب صدر نے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا مگر کامیابی سے محروم رہے ۔ ایک بارسوخ امیدوارکوہرا کر پھر سے کامیاب ہوجانا اس بات کا ثبوت ہے کہ شہر کے لوگ ان کارکردگی سے مطمئن اور خوش ہیں کیونکہ امریکہ ووٹ چرائے نہیں جاتے ۔
آفتاب پوریوال کی پیدائش اوہائیو میں تارک وطن والدین کے ہاں ہوئی۔ ان کے والد دیویندر سنگھ پوریوال ہندوستان کے پنجاب صوبے سے امریکہ منتقل ہوئے تھے جبکہ ان کی والدہ ڈرینکو تبت سے تعلق رکھنے والی مہاجر تھیں۔ انہوں نے اوہائیو اسٹیٹ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی اور ایک اداکار کے طور پر آزاد فلم،”بلو کار” میں چھوٹا سا کردار بھی ادا کیا۔ اس کے بعد وائٹ اینڈ کیس کے وکیل کے طور پر یونیورسٹی آف سنسناٹی کالج آف لا سے جیورس ڈاکٹر کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد اینٹی ٹرسٹ مقدمات پر کئی سال کام کیا۔آگے چل کر وہ امریکہ کے محکمہ انصاف میں بطور اسپیشل اسسٹنٹ یو ایس اٹارنی شامل ہوئے ۔انہوں نے مساوی معاشی ترقی، نیز عوامی حفاظت، سستی رہائش، اور ماحولیات میں جامع اصلاحات اور بہتری کو بھی اپنی اولین ترجیحات میں شامل کیا اور2022ء میں سنسناٹی کے میئر کا انتخاب جیت کر پہلے ایشیائی نژاد امریکی کو میئر کا اعزاز حاصل کیا۔ اس کے 6 ماہ بعد آل پارٹی میونسپل پرائمری میں انہوں نے 80 فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کرکے ایک تاریخ رقم کی ۔موصوف ایک وکیل اور سیاست دان ہیں جو جنوری 2022ء سے اس عہدے پر اپنی گراں قدرخدمات انجام دے رہے ہیں۔
مذکورہ بالا ہائی پروفائل امیدواروں کے علاوہ ایک نسبتاً گمنام ریاستی قانون ساز غزالہ ہاشمی نے بھی ورجینیا میں لیفٹننٹ گورنر کا انتخاب جیت کر ایک بڑا کارنامہ انجام دے دیا ۔ حیدرآباد میں جنم لے کر امریکہ جانے والی غزالہ ہاشمی کا یہ سیاسی عروج نہایت تیز رفتار ہے ۔موصوفہ ورجینیا صوبے میں لیفٹیننٹ گورنر کے عہدے پر فائز ہونے والی ریاست کی پہلی جنوبی ایشیائی اور امریکی مسلم خاتون ہیں ۔ انہوں نے ریپبلکن مصنف اور معروف قدامت پسند ریڈیو میزبان جان ریڈ کو شکستِ فاش سے دوچار کیا۔ پوری مہم کے دوران انہیں سبقت حاصل رہی اگرچہ آخری مرحلے میں فرق کچھ کم ہو گیا تھا۔ غزالہ ہاشمی کا 7 لاکھ47 ہزار773 یعنی 53.8 فیصد ووٹ حاصل کرنا ان کے مقبولیت کا ثبوت ہے ۔ ڈیموکریٹک پارٹی کی نامزدگی حاصل کرنے کے لیے انہوں نے ایک سخت مقابلے میں سابق رچمنڈ میئر لیور اسٹونی اور ریاستی سینیٹر ایرن راؤس کو ہرایا تھا۔ امریکہ کے ایموری یونیورسٹی سے انگریزی میں پی ایچ ڈی کرنے کے بعد غزالہ نے ورجینیا کی کمیونٹی کالجز میں 2 دہائیوں سے زیادہ عرصہ درس و تدریس کی خدمات انجام دیتی رہیں۔ سیاست میں قدم رکھنے کے بعد 2019ء میں ریاستی سینیٹ کا انتخاب جیت کر وہ ورجینیا کی پہلی مسلم خاتون قانون ساز بن گئیں اور اب ریاستی سطح پر پہلی مسلم خاتون کے منتخب ہونے کا اعزاز حاصل کرلیا ۔ ان تینوں کی کامیابی پر وسیم بریلوی کا یہ شعر صادق آتا ہے
جہاں رہے گا وہیں روشنی لٹائے گا
کسی چراغ کا اپنا مکاں نہیں ہوتا
ظہران ممدانی کی جیت اس لیے اہم ہے کہ اکریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ خود ایک میئر کو ہرانے کی خاطر لنگوٹ کس کر میدان میں اتر پڑے ۔ اس کے بعد جب عوام کی مدد سے ظہران نے انہیں ناک آوٹ کردیا تب بھی انہوں نے کھلے دل سے اپنی شکست کو تسلیم کرکے انہیں مبارکباد نہیں دی بلکہ اکڑ کر بولے نیویارک اب آزاد نہیں رہا۔ سچ تو یہ ہے ظہران نے نیویارک کو ٹرمپ جیسے مغرور سرمایہ دار کے چنگل سے آزاد کروادیا۔ وہاں کے لوگوں نے ثابت کردیا کہ یہودی سرمایہ اور سازش انتخاب جیتنے کے لیے کافی نہیں ہے ۔ ٹرمپ کا اقتدار اور میڈیا کا اشتہار بھی عوام کی سونامی کو روک نہیں سکتا ۔ یہ پیغام ٹرمپ اور ان جیسے یاہو یا مودی کے لیے بھی ایک تازیانۂ عبرت ہے کہ اب ان کی چوری چکاری کے دن پورے ہوگئے ہیں اور بہت جلد پاپ کا گھڑا بیچ چوراہے پر پھوٹنے والا ہے ۔ظہران ممدانی کی فتح کے بعدٹرمپ نے یہ بھی کہا تھا کہ ہم سوشلسٹ کے بجائے ایک کمیونسٹ کو میئر بنادیا ۔ سوال یہ ہے کہ سرمایہ داری ہار گئی تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ سوشلسٹ جیتین یا کمیونسٹ کامیاب ہوں ؟
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ممدانی کی فتح کو’کمیونزم کی جیت’ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ امریکہ کے سامنے اب دو راستے ہیں۔ کمیونزم یا کامن سنس۔ ٹرمپ کو چاہیے تھا کہ وہ کمیونزم کے مقابلے متبادل کے طور پر سرمایہ داری کا نام لیتے لیکن ایسا کرنے میں خود ان کو شرم آتی ہے اس لیے کامن سینس کی آڑ میں چھپنے کی سعی کرڈالی ۔ سچ تو یہ ہے کہ امریکی صدر کا کامن سینس سے دور دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں ہے ۔ اس حقیقت پر عالمی اتفاق رائے ہے اگر آج خبط الحواس لوگوں کا کوئی عالمی مسابقہ منعقد ہوتو دنیا کا کوئی بڑا بڑا سے رہنما ان کے قریب نہیں پھٹک سکتا ۔ مودی اور یاہو بھی ان کے آگے پانی بھرتے ہیں اس لیے وہ انہیں بڑی آسانی سے ہرا دیں گے ۔ ظہران ممدانی نے کامیابی کے بعد اپنے فاتحانہ خطاب میں کہا کہ :”جب میں آپ کے سامنے کھڑا ہوں تو مجھے جواہر لال نہرو کے وہ الفاظ یاد آتے ہیں، تاریخ میں کبھی کبھار ایسا لمحہ آتا ہے جب ہم قدیم سے نکل کر جدید کی طرف قدم بڑھاتے ہیں، جب ایک دور ختم ہوتا ہے اور جب ایک طویل عرصے تک دبائی گئی قوم کی روح اپنی آواز پاتی ہے ”۔
پنڈت نہرو نے ہندوستان کی آزادی کی شام قوم سے خطاب کرتے ہوئے 1947ئکے تاریخی خطاب میں جو کہا تھا اس کا انطباق کرتے ہوئے وہ بولے :”آج رات ہم قدیم (زمانے ) سے نکل کر جدید(دور) میں داخل ہو گئے ہیں۔ لہٰذا اب ہمیں واضح اور پُرعزم انداز میں بولنا ہوگا کہ یہ نیا زمانہ کس کیلئے کیا لائے گا؟ اس دور میں نیویارک کے لوگ اپنے رہنماوں سے حیلہ بہانہ و اندیشے چھوڑ کر بہادری کے ساتھ مستقبل کاخواب دیکھنے کی توقع کریں گے ”۔ اپنے خوابوں کی تفصیل بتاتے ہوئے وہ بولے :”اس خواب کے مرکز میں مہنگائی اور روزمرہ زندگی کے اخراجات کے بحران سے نمٹنے کا ایک انتہائی جامع اور بلند عزم ایجنڈا ہوگا”۔ ممدانی نے اپنی تقریر میں دیسی تڑکا لگاتے ہوئے اس کا اختتام2004ء کی ہندی فلم ”دھوم ”کے مشہور گانے ”دھوم مچالے ” پرکیا ۔ ظہران ممدانی کے خوابوں نے ٹرمپ اور مودی جیسے لوگوں کی تو نیند اڑادی ہے مگر یہ مایوسی کے اندھیروں میں بھٹکنے والوں کے لیے امیدوں کے روشن چراغ ہیں۔ ساحر نے یہی کہا تھا
آو کے کوئی خواب بنیں کل کے واسطے ،
ورنہ یہ رات آج کے سنگین دور کی
ڈس لے گی جان و دل کو کچھ ایسے کہ جان و دل ،
تاعمر پھر نہ کوئی حسیں خواب بن سکیں

متعلقہ مضامین

  • امریکی اور اسرائیلی انٹیلیجنس نیٹ ورکز کا اپنے ملک سے صفایا کردیا ہے، ایرانی انقلابی گارڈز
  • مغرب کے پاس کوئی چارہ نہیں کہ وہ اب ایران کی سائنسی ترقی کو تسلیم کرلیں: ایرانی وزیر خارجہ
  • امریکی انتخابی ہیٹ ٹرک ۔۔جہاں رہے گا وہیں روشنی لٹائے گا
  • ایران اور امریکا کے درمیان مصالحت کیوں ممکن نہیں؟
  • کیڈٹ کالج وانا پر بھارتی حمایت یافتہ دہشتگردوں کا حملہ ناکام، 2 خوارج ہلاک، 3 عمارت کے اندر محصور
  • پہلی بار اسرائیل کو نشانہ بنانے والا ایرانی میزائل
  • خیبرپختونخوا: سیکیورٹی فورسز کی 2 الگ الگ کارروائیاں، بھارتی حمایت یافتہ 20 دہشتگرد ہلاک
  • دنیا ایک نئے عالمی موڑ پر، خود مختاری کا اُبھرتا ہوا بیانیہ
  • اقبالؒ اسلام کی روح اور فارسی ادب کی خوشبو سے پہچانے جاتے ہیں‘ ایرانی سفیر
  • اسحاق ڈار سے ایرانی وزیر خارجہ کا رابطہ‘ پاک افغان کشیدگی میں کمی کیلیے تعاون کی پیشکش