تونسہ شریف، پُراسرار بیماری میں مبتلا تین کمسن بھائیوں میں سے دو دم توڑ گئے، تیسرا زیر علاج
اشاعت کی تاریخ: 10th, August 2025 GMT
لاہور:
تونسہ شریف میں دل دہلا دینے والا واقعہ پیش آیا، جہاں تین کمسن بھائی اچانک پرسرار طور پر بیمار ہو گئے۔
دو سالہ گل محمد اور ایک سالہ معین الدین دم توڑ گئے، جبکہ ایک اور بھائی تشویشناک حالت میں اسپتال میں زیرِ علاج ہے۔
والد کا الزام ہے کہ میرے بچوں کو زہر دیا گیا، جبکہ اسپتال انتظامیہ کے مطابق تینوں بچوں کو بظاہر پیٹ کے مرض میں مبتلا بتایا گیا تھا۔
واقعے کی اطلاع ملتے ہی پولیس نے تحقیقات کا آغاز کر دیا اور ڈی پی او ڈیرہ فوری طور پر ٹی ایچ کیو تونسہ پہنچے، جہاں انہوں نے متاثرہ والد سے ملاقات کی اور جاں بحق بچوں کے پوسٹ مارٹم کا حکم دیا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ اصل حقائق میڈیکل رپورٹ آنے کے بعد سامنے آئیں گے۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
ملتان، جلالپور پیروالا جہاں اب بھی زندگیاں سیلاب میں ڈوبی ہیں
سینکڑوں گھر ملبے کا ڈھیر بن چکے ہیں اور ہزاروں ایکڑ پر کھڑی فصلیں مکمل طور پر تباہ ہوگئیں، کھیتوں میں اگنے والی گندم اور چاول سڑ گئے، کچے مکانوں کی دیواریں گر چکی اور لوگ چھت سے محروم ہوکر خیموں میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ ملتان کے علاقے جلالپور پیروالا کے دیہات آج بھی پانی میں گِھرے ہوئے ہیں جب کہ سینکڑوں گھر ملبے کا ڈھیر بن چکے ہیں اور ہزاروں ایکڑ پر کھڑی فصلیں مکمل طور پر تباہ ہوگئیں، کھیتوں میں اگنے والی گندم اور چاول سڑ گئے، کچے مکانوں کی دیواریں گر چکی اور لوگ چھت سے محروم ہوکر خیموں میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔ رپورٹ کے مطابق مقامی بزرگ محمد جمیل نے کہا کہ ہمارے گھر اور کھلیان سب پانی میں ڈوب گئے، برسوں کی محنت سے جمع کیا گیا اناج بھی خراب ہوگیا۔ اسی طرح ایک اور بزرگ تاج دین نے نمناک آنکھوں کے ساتھ بتایا، ہم اپنے گھر دوبارہ بنالیں گے لیکن خدا کے لئے کوئی پانی تو نکالے، ہماری زندگی بھر کی کمائی، خواب اور سب کچھ اس پانی نے بہا دیا ہے، یہ صرف جلالپور پیروالا کے چند خاندانوں کی کہانی نہیں بلکہ ان ہزاروں افراد کی تصویر ہے جو آج بھی کھلے آسمان تلے کٹھن زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
سیلاب کے اندھیروں میں امید کی کرن بھی روشن ہے، جلالپور پیروالا کی ایک خیمہ بستی میں مقیم محمد اصغر کی اہلیہ نے بچی کو جنم دیا، اس ننھی جان کا نام عائشہ رکھا گیا، اصغر کے مطابق وہ محنت مزدوری کرتے ہیں اور ان کی دو بیویاں ہیں۔ ایک بیوی علی پور میں مقیم ہے جس کے ہاں جہاں چند ہفتوں بعد ایک اور بچے کی پیدائش متوقع ہے، یوں ان کے بچوں کی تعداد تیرہ ہو جائے گی۔ ان کے چار بیٹے اور آٹھ بیٹیاں ہیں۔ عائشہ کی پیدائش پر محمد اصٖغر نے بتایا ایک طرف سیلاب کی وجہ سے ہم مصیب کا شکار ہیں دوسری طرف اللہ نے اپنی رحمت سے نوازا ہے۔ خیمہ بستیوں میں خدمات انجام دینے والے ڈاکٹر ظفر چیمہ نے بتایا کہ اب تک 9 بچوں کی پیدائش ہوچکی ہے، ایک خاتون نے تو خیمے میں ہی بچی کو جنم دیا اور زچہ و بچہ دونوں صحت مند ہیں۔
ڈاکٹر کے مطابق اس وقت تین خیمہ بستیوں میں 18 حاملہ خواتین ہیں جن کے ہاں آئندہ ہفتوں میں بچوں کی ولادت متوقع ہے۔ خواتین کے طبی معائنے کے لئے لیڈی ڈاکٹر بھی موجود ہے جبکہ الٹرا ساؤنڈ کی سہولت کا بھی انتظام کیا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ڈلیوری کے لئے خواتین کو مقامی پرائیویٹ اور سرکاری ہسپتال منتقل کیا جائیگا، تاہم خواتین کو سب سے زیادہ مشکل واش رومز اور صفائی کے ناقص انتظامات سے ہے۔ ایک خاتون رضیہ بی بی نے بتایا خیموں میں بنیادی ضروریات کا سامان مہیا کیا گیا ہے لیکن واش رومز کی کمی ہے اور صفائی کے لئے صابن بھی موجود نہیں ہوتا، منتظمین کی طرف سے خیمہ مکینوں کو صابن فراہم کیا گیا ہے لیکن واش رومز میں صابن نہیں رکھا جاتا۔ سیلاب کی تباہ کاریوں نے کئی حیران کن مناظر بھی دکھائے۔ ایک مقامی شہری حاجی رسول بخش دو ہفتوں تک اپنے گھر کے صحن میں لگے درخت پر لکڑی کے تختے رکھے ان پر بیٹھا رہا۔
حاجی رسول بخش نے بتایا کہ وہ گھرچھوڑ کر نہیں جانا چاہتا تھا، خاندان کے بچوں، خواتین اور دیگر افراد کو محفوط مقام پر بھیج دیا تھا۔ وہ خود گھر کی حفاظت کے لئے بیٹھا رہا کیونکہ یہاں دریائی علاقے میں لوگ گھروں سے سامان چوری کرکے لے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سیلاب متاثرہ علاقوں میں گھروں اور سامان کی حفاظت کے لئے ہر خاندان کا ایک یا دو فرد موجود ہیں۔ جہاں سیلاب نے گھروں اور فصلوں کو برباد کیا، وہیں انسانی ہمدردی کا جذبہ بھی جاگ اٹھا، پاکستان مرکزی مسلم لیگ نے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں آٹھ خیمہ بستیاں قائم کی ہیں جہاں دس ہزار سے زائد افراد رہائش پذیر ہیں۔ ان بستیوں میں تین وقت کا کھانا دیا جاتا ہے، ہر خیمے کو پنکھا اور سولر پلیٹ فراہم کی گئی ہے اور مچھردانیوں کا بندوبست بھی کیا گیا ہے۔ مرکزی مسلم لیگ کے ترجمان محمد تابش قیوم نے بتایا ہمارا سفر ریسکیو سے ریلیف اور ریلیف سے بحالی تک جاری رہے گا۔ لاہور، فیصل آباد اور کراچی سے پانچ سو رضاکار یہاں موجود ہیں جو متاثرین کے گھروں کی صفائی اور بحالی میں مدد کریں گے۔ خیمہ بستیوں میں بچوں کے لیے عارضی اسکول بھی قائم کیے گئے ہیں اور میڈیکل کیمپس میں ڈاکٹر دن رات خدمات انجام دے رہے ہیں۔
پنجاب ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) کے مطابق دریاؤں میں پانی کی سطح بتدریج کم ہورہی ہے اور صورتحال بہتری کی طرف جا رہی ہے۔ تاہم سرکاری رپورٹیں بتاتی ہیں کہ تباہی کی وسعت بہت زیادہ ہے۔ رپورٹ کے مطابق پنجاب کے 27 اضلاع براہِ راست متاثر ہوئے جبکہ 4700 سے زائد دیہات پانی میں ڈوبے۔ تقریبا 47 لاکھ افراد متاثر ہوئے ہیں۔ 26 لاکھ سے زائد افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا۔ 271 ریلیف کیمپس اور 300 میڈیکل کیمپس قائم کیے گئے۔ 283 ویٹرنری کیمپس کے ذریعے 21 لاکھ سے زائد مویشی محفوظ مقامات پر منتقل کیے گئے۔ اسی طرح مختلف حادثات میں 134 شہری جاں بحق ہوئے جبکہ متعدد زخمی ہوئے۔ ریلیف کمشنر نبیل جاوید نے کہا کہ نقصانات کے تخمینے کے لیے سروے 24 ستمبر سے شروع ہو چکا ہے اور متاثرہ شہریوں کو شفاف اور آسان طریقہ کار کے تحت معاوضہ دیا جائے گا۔ اگرچہ حکومت کی طرف سے ریلیف کیمپس قائم ہیں مگر مقامی لوگ ان کی حالت سے خوش نہیں۔ متاثرین کے مطابق سرکاری کیمپوں میں صبح و شام بریانی کے ڈبے تو بانٹ دیئے جاتے ہیں، مگر مچھر دانیوں، پنکھوں اور دیگر سہولتوں کا فقدان ہے۔
حبس اور گرمی نے بیماریاں پھیلا دی ہیں۔ امداد کی تقسیم میں بھی بے نظمی دیکھنے کو ملی۔ ایک ہی خاندان کے افراد سرکاری اور فلاحی دونوں کیمپوں میں رجسٹرڈ ہوکر بار بار راشن وصول کر رہے ہیں، جبکہ کئی ضرورت مند اب تک خالی ہاتھ ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت اور فلاحی اداروں کو ایک مشترکہ نظام بنانا ہوگا تاکہ امداد شفاف اور مؤثر انداز میں متاثرین تک پہنچ سکے۔ سیلاب نے خواب اور زندگیاں توڑ ڈالیں، لیکن متاثرین کی ہمت اور فلاحی اداروں کا جذبہ ایک نئی کہانی لکھ رہا ہے۔ خیمہ بستیوں میں ننھی عائشہ کی پیدائش، رضاکاروں کا دن رات خدمت میں مصروف رہنا اور مقامی لوگوں کا حوصلہ یہ بتاتا ہے کہ امید کی روشنی اب بھی باقی ہے۔ یہ وقت صرف پانی نکالنے کا نہیں بلکہ ٹوٹے خوابوں کو جوڑنے کا ہے۔ سیلاب کے متاثرین کی زندگیوں کو دوبارہ آباد کرنا ہی اصل امتحان ہے اور یہ تبھی ممکن ہوگا جب حکومت، فلاحی تنظیمیں اور معاشرہ ایک ساتھ کھڑے ہوں۔