بھارتی عوام اور حکومت سے دشمنی نہیں بلکہ پالیسیوں پر اختلاف ہے، وزیر مملکت WhatsAppFacebookTwitter 0 9 August, 2025 سب نیوز

کراچی (سب نیوز )زیرِ مملکت برائے مذہبی امور و بین المذاہب ہم آہنگی کھیل داس کوہستانی نے کہا کہ اس سال کا 14اگست اس لیے اہم ہے کہ ہم نے بھارت کو صرف شکست نہیں بلکہ اس کا غرور بھی توڑا۔یہ بات انہوں نے ہفتے کو وفاق ایوان ہائے تجارت و صنعت پاکستان میں معرکہ حق جشن آزادی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔

انہوں نے کہا کہ ہماری بھارتی عوام اور حکومت سے کوئی دشمنی نہیں بلکہ پالیسیوں سے اختلاف ہے، بابائے قوم کے فرمان اور فلسفے پر ہی پاکستان آج قائم ہے۔ ہمارا عزم ہے کہ پاکستان میں اقلیتوں کا تحفظ ومذہبی آزادی کا حق حاصل ہو۔ان کا کہنا تھا کہ وزیرِ اعظم پاکستان بھی مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دیتے آئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بھارت نے پہلگام کا بہانہ بنا کر دہشت گردی کو اسلام سے جوڑنے کی کوشش کی، دنیا نے جان لیا کہ پہلگام میں پاکستان کا ہاتھ نہیں تھا اور اسلام دہشتگردی کی اجازت نہیں دیتا۔

وزیر مملکت نے کہا کہ 1لاکھ سے زائد پاکستانی دہشتگردی کے خلاف جنگ میں شہید ہوگئے۔ پاک بھارت جنگ مذہب کا ٹکرا نہیں، سیاسی مفادات کی جنگ ہے۔ پہلگام فالس فلیگ آپریشن کے بعد بھارت نے پاکستانی مساجد اور مدرسوں کو شہید کیا، عورتیں اور بچے جاں بحق ہوئے۔ پاکستان نے کسی بھی مندر یا مذہبی مقامات پر حملہ نہیں کیا۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے عدالتوں کے نظام کو ٹھیک کرنا ہے تاکہ کوئی 13سالہ بچی کو جبرا مذہب تبدیل نہ کروائے جاسکے۔ کھیل داس کوہستانی نے کہا کہ گورننس کے مسائل کو ہم تسلیم کرتے ہیں جنہیں ٹھیک کرنا ہے۔ کچے میں اور کشمور کے ہندو اور مسلمان دونوں مسائل کا شکار ہیں۔ کچے میں امن و امان کی صورتحال کی بہتری کیلئے وفاقی حکومت صوبائی حکومت کے ساتھ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم ہزاروں سال سے اس خطے کے باسی ہیں، ہمیں یہیں رہنا ہے۔ سال 2013 سے قبل کراچی جل رہا تھا، لوگ بیرون ملک جارہے تھے۔ کراچی کے امن و امان کیلئے وزیراعظم، وزیرِ اعلی اور آرمی چیف نے مل کر فیصلہ کیا اور مسائل حل کیے۔

کھیل داس نے کہا کہ ہم نے ایٹم بم استعمال کیلئے نہیں اپنے امن کو مستحکم کرنے کیلئے بنایا ہے لیکن اگر کوئی ہم پر حملہ کرے گا تو جواب تو آئے گا۔ 11 اگست کو ہم یہ ثابت کریں گے کہ تمام مذاہب کے لوگ پاک فوج کے ساتھ کھڑے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ غیر مسلموں کا معیشت میں بھی اہم حصہ ہے، جنگ اور کشیدگی کے باوجود کرتار پور آج بھی کھلا ہے، لیکن بھارت مذہبی ہم آہنگی چاہتا ہی نہیں ہے۔ اس لیے وہ سکھ برادری کو کرتار پور نہیں آنے دے رہا ہے جبکہ پاکستانی ریاست کی پالیسی ہے کہ اقلیتوں کا تحفظ کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اپریل میں رمضان کا مقدس مہینہ تھا، اسی ماہ ہولی تھی، اسی ماہ نوروز تھا اور اسی ماہ ایسٹر تھا جو ہم سب نے مل کر منائے۔ انہوں نے کہا کہ سلاموفوبیا کے نام پر پاکستان اور اسلام سے نفرت بے بنیاد ہے۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرپنجاب حکومت 31 سال بعد مقامی بینکوں کے قرضوں سے آزاد ہوگئی پنجاب حکومت 31 سال بعد مقامی بینکوں کے قرضوں سے آزاد ہوگئی لاہور: 9 مئی جلا گھیرا ئوکے مزید 2 مقدمات کا فیصلہ محفوظ غزہ پر ملٹری کنٹرول؛ اسرائیلی مشیرِ قومی سلامتی نے نیتن یاہو کے منصوبے کو مسترد کردیا آرمینیا آذربائیجان تنازع حل کرانے میں بہت لوگ ناکام رہے، بالآخر ہم کامیاب ہوئے: ٹرمپ چیئرمین سی ڈی اے کی اسلام آباد میں جاری ترقیاتی کام بروقت مکمل کرنے کی ہدایت مقبول گوندل آڈیٹر جنرل پاکستان تعینات،نوٹیفکیشن سب نیوز پر TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: نہیں بلکہ

پڑھیں:

علامہ اقبال۔۔۔۔۔۔ ایک روشن ستارہ

اسلام ٹائمز: درحقیقت یہ اقبالؒ کی معنوی عظمت اور روحانی تاثیر ہی ہے کہ وقت گزرنے کے باوجود انکی مقبولیت میں کمی نہیں آئی۔ ہر گزرتے دن کیساتھ ان پر تحقیق و تحریر کا دائرہ وسیع تر ہو رہا ہے اور نت نئے پہلو اجاگر کیے جا رہے ہیں۔ یہ سب کچھ اس حقیقت کی گواہی ہے کہ اقبالؒ کا فیضان ایک ہدیۂ الہیٰ ہے، جو ہمیشہ جاری و ساری رہے گا۔ ہمیں چاہیئے کہ ہم علامہ اقبالؒ کے افکار کو انکے آفاقی، الہیٰ اور معنوی پہلوؤں سے سمجھیں اور انکے بتائے ہوئے راستے پر چل کر اپنے وجود کو جلا بخشیں۔ انکی شاعری کا ہر شعر ہمیں بیداری، عزتِ نفس، خود اعتمادی اور خدا سے تعلق کا سبق دیتا ہے۔ یقیناً یہ عشق و مستی کا سلسلہ رکنے والا نہیں، بلکہ یہ فیضانِ اقبال، دراصل فیضانِ الہیٰ ہے، جو تا قیامت جاری و ساری رہے گا۔ تحریر: محمد حسین بھشتی

علامہ محمد اقبالؒ برصغیر کی تاریخ، فکر اور ادب کا وہ تابناک ستارہ ہیں، جس کی روشنی صدیوں تک نسلِ انسانی کو رہنمائی فراہم کرتی رہے گی۔ اقبالؒ صرف ایک شاعر یا مفکر نہیں بلکہ ایک مصلح، ایک مجاہدِ فکر، ایک روحانی رہنماء اور ایک ایسی ہمہ گیر شخصیت ہیں، جنہوں نے امتِ مسلمہ کو خوابِ غفلت سے بیدار کرنے کا فریضہ انجام دیا۔ علامہ اقبال کی شخصیت پر مختلف زاویوں سے ہزاروں اہلِ علم و فکر نے تجزیات و تحلیلات پیش کی ہیں۔ ان کے افکار و نظریات سے مزین مضامین اور مقالات نہ صرف پاکستان کے اندر بلکہ بیرونِ ملک بھی تحریر کیے گئے ہیں، جو بلاشبہ ہمارے فکری ورثے کا قیمتی سرمایہ ہیں۔ میری رائے میں حضرت علامہ اقبال سے متعلق جو علمی و فکری کام انجام پا رہے ہیں، وہ اکثر و بیشتر سرکاری سرپرستی سے ہٹ کر خالص محبت، عقیدت اور اقبال سے روحانی وابستگی کے جذبے کے تحت ہو رہے ہیں۔

یہ عشق و تعلق کا وہ سلسلہ ہے، جو وقت کے ساتھ ساتھ مزید پھیلتا اور گہرا ہوتا جا رہا ہے۔ اس ضمن میں اگر اقبال سے وابستہ اداروں پر ایک جامع آمار (سروے) کیا جائے تو یقیناً یہ نہ صرف ایک تحقیقی ضرورت ہوگی بلکہ وقت کا تقاضا بھی ہے۔ تاہم ایک افسوس ناک پہلو یہ بھی ہے کہ بعض افراد، جو اقبال کی فکری و روحانی گہرائی سے ناواقف ہیں، ان کی شخصیت کو محدود یا مشکوک کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے افراد کے لیے یہی کہنا کافی ہے کہ اگر وہ اقبال کو ظاہری شہرت سے ہٹ کر روحانی و معنوی زاویے سے دیکھیں تو ان کی سوچ بدل سکتی ہے۔ اقبال کی ذات محض ایک شاعر کی نہیں بلکہ ایک فکرِ قرآنی کے ترجمان، ایک مردِ مومن کے مظہر، اور ایک ملتِ اسلامیہ کے ترجیحی فکری رہنماء کی حیثیت رکھتی ہے۔

اقبالؒ کی زندگی خلوص، عرفانِ ذات اور عشقِ رسولﷺ سے معمور تھی۔ یہی خلوص اور سوز و گداز ان کی شاعری میں جھلکتا ہے اور اسی کے باعث ان کا پیغام دلوں میں اتر جاتا ہے۔ ان کی شاعری میں ایک طرف عشق و مستی کی سرمستی ہے تو دوسری طرف عمل، حوصلے اور خودی کا پیغام۔ اقبالؒ کے نزدیک مسلمان کا اصل سرمایہ ایمان، خودی، اور عشقِ الہیٰ ہے۔ آج جب ہم اقبالؒ کو یاد کرتے ہیں تو ہمیں ان کی تعلیمات کو صرف ادبی یا فکری سطح پر نہیں بلکہ عملی زندگی میں نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کا پیغام صرف ماضی کا حصہ نہیں بلکہ مستقبل کا منشور ہے۔ اگر ہم ان کے افکار کو اپنی اجتماعی زندگی کا حصہ بنائیں تو امتِ مسلمہ دوبارہ اپنا کھویا ہوا وقار حاصل کرسکتی ہے۔

درحقیقت یہ اقبالؒ کی معنوی عظمت اور روحانی تاثیر ہی ہے کہ وقت گزرنے کے باوجود ان کی مقبولیت میں کمی نہیں آئی۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ ان پر تحقیق و تحریر کا دائرہ وسیع تر ہو رہا ہے اور نت نئے پہلو اجاگر کیے جا رہے ہیں۔ یہ سب کچھ اس حقیقت کی گواہی ہے کہ اقبالؒ کا فیضان ایک ہدیۂ الہیٰ ہے، جو ہمیشہ جاری و ساری رہے گا۔ ہمیں چاہیئے کہ ہم علامہ اقبالؒ کے افکار کو ان کے آفاقی، الہیٰ اور معنوی پہلوؤں سے سمجھیں اور ان کے بتائے ہوئے راستے پر چل کر اپنے وجود کو جلا بخشیں۔ ان کی شاعری کا ہر شعر ہمیں بیداری، عزتِ نفس، خود اعتمادی اور خدا سے تعلق کا سبق دیتا ہے۔ یقیناً یہ عشق و مستی کا سلسلہ رکنے والا نہیں، بلکہ یہ فیضانِ اقبال، دراصل فیضانِ الہیٰ ہے، جو تا قیامت جاری و ساری رہے گا۔ بقولِ خود علامہ اقبالؒ: یہ سب تمہارا کرم ہے آقا کہ بات اب تک بنی ہوئی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • علامہ اقبال۔۔۔۔۔۔ ایک روشن ستارہ
  • خیبر پختونخوا حکومت کا 3 ایم پی او، 16 ایم پی او اور دفعہ 144 میں تبدیلی کا فیصلہ
  • وزیراعظم نے ایم کیو ایم کے مجوزہ بل کو نہ صرف منظور کیا بلکہ بھرپور سپورٹ بھی فراہم کی: مصطفیٰ کمال
  • افغان عبوری حکومت نے علاقائی وعدے پورے نہیں کیے، پاکستان اپنے مؤوف پر قائم ہے، عطاتارڑ
  • حکومت کو 27ویں ترمیم سے باز آ جانا چاہیے، فضل الرحمان
  • کیا 27ویں ترمیم میں نائب وزیراعظم کو کور مل رہا ہے؟ وزیر مملکت عقیل ملک سے سوال
  • 27 ویں ترمیم میں کوئی جلد بازی نہیں اور آئین آسمانی صحیفہ نہیں جسے تبدیل نہیں کیا جاسکتا: وزیر مملکت قانون
  • عالمی برادری کشمیریوں پر بھارتی مظالم سے چشم پوشی نہ کرے: صدرِ مملکت  
  • یومِ شہدائے جموں کے موقع پر صدرِ مملکت آصف علی زرداری اوروزیراعظم شہبازشریف کا پیغام
  • عالمی برادری کشمیریوں پر بھارتی مظالم سے چشم پوشی نہ کرے: صدرِ مملکت