کانگریس ذرائع کے مطابق الیکشن لڑنے کے علاوہ بیانیے یا تصورات کی جنگ جیتنا بھی زعفرانی پارٹی کا مقابلہ کرنے کیلئے اہمیت رکھتا ہے جو گزشتہ 11 سالوں سے کانگریس کے خلاف بڑے پیمانے پر پروپیگنڈہ کررہی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ انڈین نیشنل کانگریس کے سربراہ ملکارجن کھرگے بی جے پی کے خلاف تصور کی جنگ جیتنے کے لئے 11 اگست کو تمام ریاستوں کے انچارجوں کے ساتھ پارلیمنٹ میں حزب اختلاف کے لیڈر راہل گاندھی کے "ووٹ چوری" پیغام کو ملک بھر میں لے جانے کے لئے ایک روڈ میپ پر تبادلہ خیال کریں گے۔ یوتھ کانگریس، نیشنل اسٹوڈنٹس یونین آف انڈیا، مہیلا کانگریس اور سیوا دل جیسی فرنٹل تنظیموں کے سربراہ بھی حکمت عملی سیشن میں شرکت کریں گے۔ کانگریس پارٹی کے اندرونی ذرائع کے مطابق الیکشن لڑنے کے علاوہ بیانیے یا تصورات کی جنگ جیتنا بھی زعفرانی پارٹی کا مقابلہ کرنے کے لئے اہمیت رکھتا ہے جو گزشتہ 11 سالوں سے کانگریس کے خلاف بڑے پیمانے پر پروپیگنڈہ کر رہی ہے۔

اس پروپیگنڈے کا ایک اہم عنصر راہل گاندھی کو نشانہ بنانا اور ان کو بدنام کرنا تھا اور انہیں ایک ایسے ہچکچاہٹ کا شکار سیاست دان کا رنگ دینا تھا جو ملک کی سیاست کی سمجھ سے محروم ہونے کے باوجود صرف اپنے خاندانی کنیت کی وجہ سے کانگریس میں قیادت کے عہدے تک پہنچ سکتے ہیں۔ راہل گاندھی کے خلاف پروپیگنڈے کا اس وقت پردہ فاش ہوا جب انہوں نے 2022ء میں بڑے پیمانہ پر "بھارت جوڑو یاترا" کی قیادت کی اور جنوب میں کنیا کماری سے شمال میں کشمیر تک تقریباً 4,000 کیلومیٹر تک پیدل چل کر ملک کو تقسیم کی سیاست کے خلاف متحد ہونے کا پیغام دیا۔

کانگریس کمیٹی کے لیڈر چندن یادو نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حالیہ سیاست میں تصورات کی جنگ بہت اہم ہو گئی ہے۔ ووٹ چوری کے خلاف ملک گیر مہم، بنیادی طور پر اس بات کی جانب عوام کی توجہ مبذول کروانا ہے کہ پی ایم مودی کی قیادت والی بی جے پی ملک میں انتخابات میں دھاندلی کر رہی ہے اور وہ ووٹر لسٹوں میں ہیرا پھیری کر کے پارلیمانی جمہوریت پر براہ راست حملہ کر رہی ہے۔ عام ووٹر کے لئے اس کا حق رائے دہی بہت اہم ہے۔

چندن یادو نے کہا کہ ہم نے عوام کے سامنے ٹھوس اعداد و شمار پیش کئے ہیں تاکہ لوگوں کو یہ معلوم ہوسکے کہ الیکشن کمیشن کس طرح کام کررہا ہے۔ انہوں نے کہا "ہماری مہم کا مقصد نظام پر دباؤ ڈالنا بھی ہے تاکہ مستقبل میں انتخابات کو محفوظ بنانے کے لئے ضروری اصلاحات کی جائیں۔ کانگریس پارٹی کے اندرونی ذرائع کے مطابق ملک گیر "ووٹ چوری" مہم سے کانگریس کو فائدہ ہوگا اور پارٹی کو پورے ملک میں اپنی تنظیم کو بوتھ کی سطح تک متحرک کرنے میں مدد ملے گی۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: سے کانگریس کے خلاف کی جنگ کے لئے

پڑھیں:

ڈیپ سیک کا سیاست سے دور رہ کر کام کرنے والا ورژن متعارف

بیجنگ: (ویب ڈیسک) چینی ٹیک کمپنی ہواوے نے ایک نیا مصنوعی ذہانت یعنی اے آئی ماڈل ڈیپ سیک آر ون سیف (DeepSeek-R1-Safe) تیار کیا ہے، جو حساس یا سیاسی موضوعات پر گفتگو کو روکنے میں تقریباً 100فیصد کامیاب ہے۔چین میں اے آئی ماڈلز کو عوام کے لیے جاری کرنے سے پہلے سماجی اقدار کی پابندی کرنی ہوتی ہے، تاکہ حکومت کی پالیسیوں کے خلاف مواد نہ آئے، اس ماڈل کو ہواوے اور زیجیانگ یونیورسٹی کے محققین نے مل کر تیار کیا ہے۔ان کا مقصد اس اے آئی میں ایسی حفاظتی پرتیں شامل کرنا تھا جو اسے چینی حکومت کے طے شدہ قوانین اور پابندیوں کے مطابق بنا سکیں، اس نئے ورژن کو ہواوے کے Ascend AI chips کا استعمال کرتے ہوئے دوبارہ تربیت کیا گیا ہے، تاکہ یہ سیاسی طور پر حساس موضوعات اور دیگر ممنوعہ مواد سے دور رہ سکے۔ہواوے کا دعویٰ ہے کہ یہ ماڈل عام بات چیت کے دوران تقریباً 100 فیصد کامیابی کے ساتھ سیاسی طور پر حساس سوالات سے بچتا ہے، اور اس نے اپنی اصل کارکردگی اور رفتار میں صرف ایک فیصد کی معمولی کمی دکھائی ہے۔اس ماڈل کی کچھ حدود ہیں، جب صارفین چالاکی سے اشاروں کے ذریعے سوال پوچھتے ہیں تو اس کی کامیابی کی شرح تیزی سے کم ہو کر صرف 40 فیصد رہ جاتی ہے، اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مصنوعی ذہانت کے لیے اس طرح کی حدود کو مکمل طور پر نافذ کرنا ابھی ایک چیلنج ہے، یہ اپ ڈیٹ بیجنگ کی جانب سے اے آئی کو سختی سے کنٹرول کرنے کی جاری کوششوں کا حصہ ہے۔چین میں تمام عوامی اے آئی نظاموں کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ قومی اقدار اور اظہار رائے کی مقررہ حدود کی پابندی کریں، یہ نئی کوشش اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ ٹیکنالوجی حکومتی رہنما اصولوں کے مطابق رہے۔یہ ایک عالمی رجحان ہے کہ مختلف ممالک اپنے اے آئی سسٹمز کو اپنی مقامی اقدار اور سیاسی ترجیحات کے مطابق ڈھال رہے ہیں، سعودی عرب کی ایک کمپنی نے ایک ایسا عربی چیٹ بوٹ لانچ کیا جو نہ صرف زبان میں روانی رکھتا ہے بلکہ اسلامی ثقافت اور اقدار کو بھی ظاہر کرتا ہے، یہاں تک کہ امریکی کمپنیاں بھی تسلیم کرتی ہیں کہ ان کے ماڈلز پر ثقافتی اثرات ہوتے ہیں۔اس کے علاوہ، امریکہ میں ٹرمپ انتظامیہ کے تحت ایک ایکشن پلان متعارف کرایا گیا تھا، جس میں حکومتی اداروں کے ساتھ بات چیت کرنے والے اے آئی کو غیر جانبدار اور غیر متعصب ہونے کی شرط رکھی گئی تھی، یہ تمام مثالیں اس حقیقت کو واضح کرتی ہیں کہ اے آئی نظاموں کو اب صرف ان کی تکنیکی صلاحیت کی بنیاد پر نہیں جانچا جاتا، بلکہ ان سے یہ بھی توقع کی جاتی ہے کہ وہ ان علاقوں کے ثقافتی، سیاسی اور نظریاتی ترجیحات کی عکاسی کریں جہاں وہ کام کرتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • سفارتی ناکامیوں کیلئے مودی حکومت ذمہ دار ہے، کانگریس
  • بھارت میں بے روزگاری کا براہ راست تعلق ووٹ چوری سے ہے، راہل گاندھی
  • ایف بی آر نے ٹیکس چوری پر کارروائیاں تیز کردیں، جیولرز کو نوٹسز جاری
  • امریکا، برطانیہ: عالمی سیاست کا رخ متعین کرتی ملاقات
  • کانگریس کی مودی پر تنقید، بھارت کی فلسطین پالیسی کو شرمناک اور اخلاقی بزدلی قرار دیدیا
  • یہ شرمناک اور اخلاقی بزدلی ہے ، بھارت کی فلسطین پالیسی پر کانگریس کی شدید تنقید
  • فلسطین کے تئیں بھارت کی خارجہ پالیسی شرمناک اور اخلاقی جرأت سے خالی ہے، پرینکا گاندھی
  • ڈیپ فیک سے ڈیٹا چوری تک، اے آئی امیج جنریٹوز پر تصاویر اپ لوڈ کرنے کے خطرات
  • پاکستان کے خلاف کوئی ایجنڈا نہیں، صرف آئین کی بالادستی کی بات کرتے ہیں: چئیرمین پی ٹی ائی
  • ڈیپ سیک کا سیاست سے دور رہ کر کام کرنے والا ورژن متعارف