سائنسدانوں نے لیبارٹری میں ننھا مگر مکمل ’انسانی دماغ‘ تیار کر لیا
اشاعت کی تاریخ: 12th, August 2025 GMT
دماغی تحقیق کی دنیا میں ایک بڑی پیش رفت سامنے آئی ہے۔ امریکا کی جانز ہاپکنز یونیورسٹی کے ماہرین نے ایک ایسا چھوٹا سا ’انسانی دماغ‘ لیبارٹری میں بنایا ہے جو نہ صرف دماغ کے کئی اہم حصوں سے جڑا ہوا ہے بلکہ اس میں ابتدائی خون کی نالیاں اور فعال اعصابی نیٹ ورک بھی موجود ہیں—بالکل ویسے جیسے انسانی جنین کے دماغ میں آغاز میں بنتے ہیں۔
یہ ماڈل سائنسدانوں کو آٹزم، شیزوفرینیا، الزائمر اور دیگر دماغی بیماریوں کو پہلے سے کہیں بہتر انداز میں سمجھنے اور ان کے علاج کی تلاش میں مدد دے سکتا ہے۔
کامیابی کے پیچھے کون ہے؟
اس منصوبے کی قیادت ڈاکٹر اینی کتھوریا نے کی، جو جانز ہاپکنز کے ڈپارٹمنٹ آف بایومیڈیکل انجینئرنگ میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ وہ دماغ کی نشوونما اور ذہنی امراض پر تحقیق کرتی ہیں۔
عام طور پر لیبارٹری میں بنائے جانے والے برین آرگنوئیڈز صرف دماغ کے ایک حصے پر مشتمل ہوتے ہیں، لیکن ڈاکٹر کتھوریا اور ان کی ٹیم نے ایک نیا ماڈل تیار کیا ہے—ملٹی ریجن برین آرگنوئیڈ (MRBO)—جس میں دماغ کے تمام بڑے حصے موجود ہیں اور آپس میں جُڑے بھی ہیں۔
یہ کیسے بنایا گیا؟
سب سے پہلے دماغ کے مختلف حصوں کے اعصابی خلیے اور باریک خون کی نالیاں الگ الگ پلیٹوں میں اُگائی گئیں۔ پھر ایک خاص بایولوجیکل گلو سے انہیں جوڑ دیا گیا۔ وقت کے ساتھ یہ حصے آپس میں مل گئے اور برقی سگنلز پیدا کرنے لگے، جیسے اصل دماغ میں ہوتا ہے۔
اصلی دماغ سے کتنی مشابہت ہے؟
اس ماڈل میں وہ تمام خلیے موجود ہیں جو ایک 40 دن کے انسانی جنین کے دماغ میں پائے جاتے ہیں، البتہ تعداد میں فرق ہے۔ حقیقی دماغ میں کھربوں نیورونز ہوتے ہیں جبکہ اس آرگنوئیڈ میں تقریباً 60 سے 70 لاکھ ہیں۔ اس میں ابتدائی ’بلڈ-برین بیریئر‘ بھی موجود ہے جو دماغ کو نقصان دہ مادوں سے بچاتا ہے۔
یہ تحقیق کیوں اہم ہے؟
ڈاکٹر کتھوریا کے مطابق انسانی دماغ کی اندرونی ترقی کو براہِ راست دیکھنا ممکن نہیں، لیکن یہ ماڈل ہمیں بیماریوں کے آغاز اور ان کے پھیلاؤ کو حقیقی وقت میں سمجھنے کا موقع دیتا ہے۔
دماغی امراض کی دواؤں میں ناکامی کی شرح بہت زیادہ ہے—تقریباً 96 فیصد—کیونکہ زیادہ تر تحقیق جانوروں پر کی جاتی ہے، اور ان کا دماغ انسانی دماغ سے کافی مختلف ہوتا ہے۔ یہ نیا ماڈل اس فرق کو کم کر سکتا ہے۔
مستقبل میں کیا ہو سکتا ہے؟
اس ملٹی ریجن برین آرگنوئیڈ کی مدد سے:
دماغی بیماریوں کے ابتدائی مراحل کو سمجھنا ممکن ہوگا۔
نئی دواؤں کو ٹیسٹ کیا جا سکے گا۔
علاج کو مریض کی ضرورت کے مطابق ڈھالنا آسان ہو جائے گا۔
ڈاکٹر کتھوریا کا کہنا ہے کہ شیزوفرینیا، آٹزم اور الزائمر جیسے امراض دماغ کے ایک حصے کو نہیں بلکہ پورے دماغ کو متاثر کرتے ہیں۔ اگر ہم یہ جان لیں کہ مسئلہ کہاں سے شروع ہوتا ہے، تو بہتر علاج ممکن ہے۔
یہ ایجاد صرف ایک سائنسی کامیابی نہیں، بلکہ دماغی امراض کی تحقیق اور علاج میں ایک نیا باب کھول سکتی ہے۔ آنے والے برسوں میں یہ دواؤں کے ٹرائلز کو تیز، سستا اور کامیاب بنانے میں مدد دے سکتی ہے۔
Post Views: 5.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
دماغی سکون اور توانائی بڑھانے والے مشروبات، حقیقت یا محض تشہیر؟
برطانیہ میں ایسے مشروبات کی فروخت میں حیران کن اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، جنہیں ’فنکشنل مشروبات‘کہا جاتا ہے، یعنی ایسے مشروبات جو عمومی غذائی مشروبات سے بڑھ کر اضافی فائدے کا وعدہ کرتے ہیں۔ ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق گزشتہ 12 مہینوں میں ان مشروبات کی فروخت میں تقریباً 25 فیصد اضافہ ہوا ہے اور تقریباً 30 فیصد گھرانے اب انہیں روزمرہ خرید رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: نوجوانوں میں کیفین پاؤچ کا بڑھتا جنون: کتنی مقدار خطرناک ثابت ہوسکتی ہے؟
ایسے مشروبات میں عام طور پر درج ذیل اجزا شامل ہوتے ہیں دماغی صحت اور موڈ کے لیے مشہور ’لائنز مین مشروم‘ کا عرق، چائے میں پایا جانے والا ایک قدرتی جز’ایل تھیانین‘ جو سکون دینے میں مددگار سمجھا جاتا ہے، ایک قدیم جڑی بوٹی’اشواگندھا‘، جسے تناؤ کم کرنے اور توانائی بڑھانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، ضروری معدنیات ’مگنیشیم‘ جو جسمانی اور ذہنی تناؤ میں کمی میں معاون سمجھے جاتے ہیں۔
دوسری جانب ماہرین کا کہنا ہے کہ اکثر مشروبات میں ان اجزا کی مقدار بہت کم ہوتی ہے اور ان کے اثرات کو سائنسی طور پر مکمل طور پر ثابت نہیں کیا گیا۔ مثال کے طور پر ’لائنز مین مشروم‘ پر تحقیق ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے، اور کچھ تجربات میں جو مقدار استعمال ہوئی وہ بعض کمپنیوں کے مشروبات میں موجود مقدار سے کئی گنا زیادہ تھی۔
مزید یہ کہ ماہرین نفسیات کے مطابق بعض اوقات لوگ اس لیے سکون محسوس کرتے ہیں کہ وہ مشروب خریدتے اور پیتے وقت ذہنی طور پر خود کو آرام دینے کی حالت میں لے آتے ہیں، یعنی اس کے اثر کا ایک بڑا حصہ صرف ذہنی تاثر کا نتیجہ ہوتا ہے، نہ کہ اجزا کا۔
یہ بھی پڑھیں: ورلڈ ہائپر ٹینشن ڈے: ہائپر ٹینشن کو مشروبات سے کنٹرول کریں
کچھ کمپنیوں نے اس تاثر کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔ مثال کے طور پر ایک مشہور برانڈ ’اوٹلی‘ کا اشتہار اس لیے ہٹا دیا گیا کیونکہ اس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ یہ مشروب ’بے چینی اور تناؤ کم‘ کرتا ہے، جو اشتہاری قوانین کی خلاف ورزی تھا کیونکہ یہ بیماری کے علاج یا روک تھام کا دعویٰ تھا۔
ماہرین کا مشورہ ہے کہ اگر مشروب پسند ہے تو پینے میں کوئی حرج نہیں، لیکن اگر مقصد ذہنی تناؤ کم کرنا ہے تو بہتر ہے کہ یہ رقم کسی معالج، مشاورت یا جسمانی آرام کے طریقوں پر خرچ کی جائے، یہ مشروبات ان لوگوں کے لیے فائدہ مند ہوسکتے ہیں جو سخت ورزش کرتے ہیں یا غذائی کمی کا شکار ہیں، لیکن عام صارفین کے لیے یہ اتنے مؤثر ثابت نہیں ہوئے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news برطانیہ تشہیر ذہنی سکون سائنسدان طبی ماہرین مشروبات مشروم