چائے ۔۔۔ پیتے ہی اک سکون آئے ۔۔۔ دل و دماغ پر چھا جائے۔ کئی افراد کی صبح تو اس کے بغیر شروع ہی نہیں ہوتی۔ واہ ۔ واہ ۔ پہلی چسکی لیتے ہی، بے ساختہ یہ ہی الفاظ نکلیں اور بار بار نکلیں مگر شرط یہ ہے کہ اسے دل سے بنایا جائے۔
اکثر افراد کی صبح اخبار اور چائے کے بغیر نہیں ہوتی، تلخ خبروں کی تلخی ختم کرنے کے لیے چائے کی مٹھاس ویسے بھی ضروری ہے۔ یہ دودھ لسی کی طرح گوری نہیں مگر پھر بھی اس میں ایک جادو ہے، جسے اس کا ذائقہ بھا جائے تو پھر اس کے بغیر رہنا ناممکن ہے۔
کئی افراد کے نزدیک تو اس کا ایک ایک گھونٹ، تھکن مٹاتا ہے، اسی لیے تو ایک عالم اس پر فدا ہے۔ یہ بھی تو کہا جاتا ہے کہ ہماری زندگی میں اگر پانی کے بعد پینے والی کوئی چیز بہت اہم ہے تو وہ چائے ہی ہے۔ دنیا بھر میں قریباً اڑھائی ارب افراد روزانہ چائے پیتے ہیں۔
چائے کا پودا سب سے پہلا کہاں لگایا گیا، یہ کہنا تو مشکل ہے مگر اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ چین میں 5 ہزار برس پہلے اس کے ذائقے سے تعارف ہوا۔ چائے کی ابتدا کیسے ہوئی؟ اس سے متعلق 2 کہانیاں زیادہ مشہور ہیں اور دونوں کا تعلق چین کے بادشاہ شننونگ سے ہے۔
مزید پڑھیں: ’چائے کی پیالی میں قسمت‘: چیٹ جی پی ٹی اب طلاقیں بھی کروانے لگی!
کہا جاتا ہے کہ ایک مرتبہ اس نے غلطی سے زہر سے بھری ایک جڑی بوٹی کھالی اور اسے جان کے لالے پڑ گئے، اسی وقت ایک پتا ہوا میں اڑتا ہوا شننونگ کے منہ میں چلا گیا۔ بادشاہ نے اس پتے کو چبا لیا اور مرنے سے بچ گیا۔ ایک روایت ہمیں یہ بتاتی ہے کہ ایک دن جنگل میں پانی ابلنے کے دوران چند پتیاں دیگچی میں جا گریں۔ شینونگ نے جب یہ پانی پیا تو اسے نہ صرف ذائقہ پسند آیا بلکہ اس کی تھکن بھی دور ہو گئی۔
اب حقیقت کیا ہے، ہمیں اس سے کیا، ہمیں تو مطلب ہے، صرف اور صرف مزیدار چائے اور اس کے ذائقے سے۔ چائے کا لفظ بھی چینی زبان سے ہی نکلا ہے۔ چائے کی پیداوار برصغیر میں کیسے ممکن ہوئی، یہ کہانی کسی خطرناک مہم سے کم نہیں، چائے کی پیداوار چین کا قومی راز تھی اور اس کی حفاظت چینیوں کی زندگی سے زیادہ اہم تھی۔ برصغیر میں انگریزوں کے دور حکمرانی میں ایسٹ انڈیا کمپنی کو چین سے چائے کی پتی مہنگے داموں خریدنا پڑتی تھی، چائے کا پودا کیسے اگتا ہے اور اس سے چائے کیسے حاصل ہوتی ہے، انگریز اس راز سے پردہ اٹھانے کے لیے برسوں سے بے تاب تھے۔
ایسٹ انڈیا کمپنی نے ایک خطرناک منصوبہ بنایا، اپنے ایک جاسوس کو چین بھیجا۔ رابرٹ فارچیون نے اس مقصد کے لیے چینی تاجر جیسا روپ دھارا اور فوجیان صوبے کے پہاڑوں کا رخ کیا، جہاں کی چائے کا کوئی مقابلہ نہیں تھا۔ رابرٹ فارچیون آخر کار اپنے مقصد میں کامیاب ہوا اور چائے کے پودے، بیج اور چند مزدور بھارتی شہر دارجلنگ اسمگل کرنے میں کامیاب ہو گیا لیکن وہاں جا کر پتا چلا کہ ان پودوں کی تو وہاں پہلے ہی بہتات ہے۔
مزید پڑھیں: اس بار بھارت کے لیے چائے کے ساتھ پٹاخا سموسوں کا بندوبست بھی ہوگا، گلوکار وارث بیگ
لیکن یہ پھر بھی کہنا غلط نہ ہوگا کہ بھارت میں چائے کی صنعت کا آغاز رابرٹ فورچون کی کوششوں سے ہی ہوا اور ان کی سرگرمیوں نے بھارت کو چائے کا عالمی مرکز بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ انگریزوں نے چینیوں کے مقابلے میں چائے کو مختلف انداز میں بنانا شروع کیا، کھولتے پانی میں صرف پتی ڈالنے کے بجائے انہوں نے پہلے چینی اور پھر دودھ ڈالنا شروع کردیا۔
دنیا میں ایشیا اور افریقا چائے کی پیداوار کے لحاظ سے بڑے خطے ہیں، جنوبی امریکا میں بھی کہیں کہیں چائے کی کاشت ہوتی ہے۔ صدیوں بعد بھی چائے کی پیداوار میں چین پہلے نمبر پر ہے، دنیا بھر میں اس کی پیداوار کا حصہ قریباً 40 فیصد ہے، بھارت میں 25 فیصد، کینیا میں 10 اور سری لنکا میں 7 فیصد چائے پیدا ہوتی ہے۔
دنیا بھر میں پیداوار میں تو چین پہلے نمبر پر ہے مگر تجارت کی بات کی جائے تو بھارت سب سے آگے ہے۔ یہاں پیدا ہونے والی 75 فیصد چائے دنیا کے دیگر ممالک کے شہری استعمال کرتے ہیں، صرف 25 فیصد چائے ملک میں استعمال ہوتی ہے۔
پہلے پہل چائے عموماً دوا کے طور پر استعمال ہوتی تھی، پھر وقت کے ساتھ ساتھ یہ ہماری زندگی کا اہم حصہ بن گئی اور اب تو چائے کی ایسی اقسام بھی ملتی ہیں کہ ان کے نام ہی حیران کردیتے ہیں۔ جیسے تندوری چائے، مٹکا چائے یا پھر چینکی چائے۔ اس کے علاوہ مسالہ چائے، آم، ادرک اور ہلدی کی چائے، پودینے کی چائے یا پھر مسالے دار گلاب والی چائے بھی چائے کے چاہنے والوں کی پسند ہے۔ چائے کے نام سے کئی ہوٹل بھی سب کی توجہ کھینچتے ہیں جیسے چائے خانہ اور چائے محفل وغیرہ۔
مزید پڑھیں: ’آؤ تمہیں چائے پلاتا ہوں شیکھر‘، شاہد آفریدی نے شیکھر دھون کو مزید کیا کہا؟
چائے کا ذکر ہو تو ارشد خان کا بھی ذکر کرلیتے ہیں۔ صرف ایک تصویر نے ان کی زندگی ہی بدل دی، 2018 میں اسلام آباد کے اتوار بازار میں کھینچی گئی تصویر راتوں رات سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی۔ اس تصویر نے اس خوبصورت نوجوان کے لیے نہ صرف شوبز انڈسٹری کے دروازے کھولے بلکہ انہوں نے اسلام آباد کے علاوہ لندن میں بھی اپنا کیفے کھولا۔
چائے کا ذکر ہو اور بھارتی فائٹر پائلٹ ابھینندن کا تذکرہ نہ ہو، ایسے بھلا کیسے ہو سکتا ہے۔ 27 فروری 2019 کو پاکستان نے بھارتی جارحیت کو ناکام بنایا، بھارتی پائلٹ ونگ کمانڈر ابھی نندن کو قیدی بنایا اور مزیدار چائے پلائی۔ ان کا یہ جملہ ۔۔۔ ٹی از فینٹاسٹک ۔۔۔ آج بھی سب کو یاد ہے۔
چائے کی اہمیت کو اقوام متحدہ نے بھی تسلیم کیا ہے، ہر سال 21 مئی کو دنیا بھر میں اس مقبول ترین مشروف کا دن منایا جاتا ہے۔ 2020 میں لندن کے ایک ریسٹورنٹ میں ’بیماری میں مبتلا‘ سابق وزیراعظم نواز شریف کی اپنے خاندان کے دیگر اراکین کے ساتھ چائے پینے کی ایک تصویر سوشل میڈیا پر وائرل بھی ہوئی۔
چائے کا شوق کبھی کبھی صرف مشکل نہیں بہت زیادہ مشکل میں ڈال دیتا ہے۔ آج سے 20 برس قبل آندھرا پردیش سے تعلق رکھنے والے اپاراؤ ٹرین کے سفر کے دوران چائے پینے کے لیے اترے۔ ان کے واپس آنے سے پہلے ہی ٹرین روانہ ہوچکی تھی، وہ کسی طرح تعلقہ کالیا کوئل پہنچے اور پھر اپنے علاقے نہ جا سکے اور وہ بغیر کسی اجرت 2 دہائیاں بکریاں چراتے رہے۔ انہیں بیس برس بعد آزادی ملی۔
مزید پڑھیں: واٹس ایپ صارفین کے لیے اچھی خبر، نیا مزیدار فیچر متعارف
چائے نے امریکی شہروں کو برطانوی سامراج سے آزادی کے حصول میں بھی مدد دی، کہانی کچھ یوں ہے کہ 1773 میں امریکی شہر بوسٹن کے شہریوں نے برطانوی سامراج کے نو آبادیاتی دور کے خلاف آواز بلند کی، چائے سے بھرے 300 ڈبے بندرگاہ سے پانی میں پھینک دیے۔ بوسٹن ٹی پارٹی بھی وجود میں آئی۔
اب ماضی کی کھڑکیاں کھولتے ہیں اور پاک ٹی ہاؤس کی سیر کرتے ہیں، یہ ادیبوں کا دوسرا گھر سمجھا تھا، یہاں ادبی محفلیں جمتی تھیں، اس کا ذکر کرتے ہی منٹو، فیض، ساحر لدھیانوی، ، احمد ندیم قاسمی، ناصر کاظمی، اشفاق احمد اور انتظار حسین سمیت کئی شخصیات کے چہرے سامنے آ جاتے ہیں ۔
اب بات ہو جائے، مزیدار چائے کے کچھ فوائد اور نقصانات کی۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ چائے میں موجود اینٹی آکسیڈنٹس تناؤ کا مقابلہ کرنے، کینسر، دل کی بیماری اور ذیابیطس جیسی بیماریوں کے خطرے کو کم کرنے میں مدد کرتے ہیں۔ ادرک سے بنی چائے ہاضمے میں مدد دیتی ہے۔ یہ مزیدار مشروب پینے سے وزن بھی کم ہوسکتا ہے۔ قوت مدافعت بہتر ہوتی ہے۔ جلد کی صحت کے لیے بھی مفید ہے۔
ماہرین کے مطابق، 3 سے 4 کپ روزانہ چائے پینا بیشتر افراد کے لیے محفوظ ہوتا ہے مگر زیادہ چائے پینے سے نقصان بھی ہوسکتا ہے، بے چینی بڑھ سکتی ہے، نیند کے مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ متلی یا پیٹ درد بھی ہوسکتا ہے۔ چائے میں موجود کیفین سے سینے میں جلن کی شکایت کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ایسا بہت کم افراد کو ہوتا ہے مگر بہت زیادہ چائے پینے سے سر چکرا سکتا ہے۔
مزید پڑھیں: چراغ تلے اجالا
کئی شعرا کرام نے بھی اپنے خوبصورت الفاظ میں چائے سے اپنی محبت کا اظہار کیا ہے۔ بشیر بدر کے اچھوتے خیال سے واقفیت حاصل کریں:
چائے کی پیالی میں نیلی ٹیبلٹ گھولی
سہمے سہمے ہاتھوں نے اک کتاب پھر کھولی
آسام کی خصوصیات کیا ہیں، منور رانا نے انہیں الفاظ کا پیراہنِ کچھ یوں پہنایا ہے:
شعر جیسا بھی ہو اس شہر میں پڑھ سکتے ہو
چائے جیسی بھی ہو آسام میں بک جاتی ہے
اور آخر میں یہ شعر سنیے:
اگر تلاش کروں تو شاید مل ہی جائے
نہیں چاہ کسی چیز کی، چاہیے صرف چائے
اور اگر آپ کا انور مسعود صاحب کی نظم ۔۔۔ لَسّی تے چاء ۔۔۔ سے تعارف نہیں تو ہمارے مشورے پر ضرور پڑھیے یا سنیے، یقیناً محظوظ ہوں گے۔ چائے سے محبت کرنے والوں نے اس سے اپنی الفت کا اظہار کچھ یوں کیا ہے۔
چائے زندگی کا وہ خوشگوار لمحہ ہے، جس میں تھوڑی سی چینی، ایک لمحہ سکون، اور دل کی باتوں کا گزرنا ضروری ہے۔ چائے زندگی کا وہ خوبصورت لمحہ ہے جب ہر گھونٹ میں دن کی تھکن اور پریشانیاں مٹ جاتی ہیں۔جب زندگی کا مزہ کم ہو، بس ایک کپ چائے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ دنیا دوبارہ رنگین لگے۔
مزید پڑھیں: محبت کا آخری عجوبہ
اور چائے کو ماننے والے یہ بھی تو مانتے ہیں کہ چائے زندہ دلی کا نام ہے، یہ زندگی کی نشانی ہے، یہ دلوں کو بھی ملاتی ہے۔ اس مزیدار چیز سے اردو زبان کے چند محاوے بھی بنے ہیں، جیسے
چائے پانی کی خبر لینا۔ مطلب خاطر مدارت کرنا یا آؤ بھگت کرنا
گینز ورلڈ ریکارڈ میں بھی چائے کا ذکر ملتا ہے، کم سے کم وقت میں چائے کا ایک کپ پینے کا ریکارڈ جرمن شہری کے نام ہے۔ انہوں نے یکم جولائی 2023 کو صرف 2 منٹ 13 سیکنڈز میں چائے کا کپ پیا۔
چائے ہے تو مزیدار مگر یہ بہت مرتبہ جھگڑے کی وجہ بھی بنی، یہ ہی نہیں، بلکہ وقت پر نہ ملنے پر غصے میں آ کر قتل تک ہو چکے ہیں۔ کوئی کچھ بھی کہے، یہ تو حقیقت ہے کہ چائے موجودہ دور کی ایک اہم ضرورت بن چکی ہے اور کئی افراد اس کے بغیر رہ نہیں سکتے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
احمد کاشف سعید گزشتہ 2 دہائیوں سے شعبہ صحافت سے منسلک ہیں۔ ریڈیو پاکستان اور ایک نیوز ایجنسی سے ہوتے ہوئے الیکٹرانک میڈیا کا رخ کیا اور آجکل بھی ایک نیوز چینل سے وابستہ ہیں۔ معاشرتی مسائل، شوبز اور کھیل کے موضوعات پر باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔
احمد کاشف سعید برطانیہ ٹی از فینٹاسٹک چائے چائے کی کہانی چین.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: احمد کاشف سعید برطانیہ ٹی از فینٹاسٹک چائے چائے کی کہانی چین
پڑھیں:
کیا آپ بھی چیٹ جی پی ٹی سے دل کی باتیں کرتے ہیں؟
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 30 جولائی 2025ء) اگر ہاں تو آپ ایسا کرنے والے اکیلے نہیں ہیں۔ آپ کی طرح دنیا بھر میں بہت سے لوگ جنریٹو اے آئی کو اپنی جذباتی حالت بہتر کرنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ یہ ٹولز ان کے ایسے ساتھی بن چکے ہیں جو ہر وقت ان کے لیے دستیاب رہتے ہیں، ان کا اچھا چاہتے ہیں اور ہر دفعہ بہت تحمل سے ان کی بات سنتے ہیں۔
یہ ٹولز ہماری پریشانی کو سمجھتے ہیں اور ہمیں اسے سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔ کچھ عرصے سے مجھے اپنے ایک کولیگ کا رویہ پریشان کر رہا تھا۔ میں تذبذب کا شکار تھی کہ آیا وہ واقعی ٹاکسک ہو رہے تھے یا میں ہی انہیں غلط سمجھ رہی تھی۔
ایک رات میں نے چیٹ جی پی ٹی کے وائس فنکشن کے ذریعے اسے پوری صورتحال تفصیل سے بتائی اور اسے اس صورتحال کا تجزیہ کرنے کا کہا۔
(جاری ہے)
چیٹ جی پی ٹی نے مجھے بتایا کہ میرے کولیگ گیٹ کیپنگ کر رہے تھے اور طاقت کا مرکز بننے کی کوشش کر رہے تھے۔ اس نے مزید بتایا کہ یہ سب وہ دوسروں کے احساسات اور خیالات کو یکسر نظر انداز کر کے کر رہے تھے۔ پھر اس نے مجھے کچھ ایسے عملی طریقے تجویز کیے جن کے ذریعے میں ان کے رویے سے متاثر ہونے سے بچ سکتی تھی اور اپنی ذہنی حالت کا تحفظ کر سکتی تھی۔مجھے اس وقت چیٹ جی پی ٹی سے بات کر کے بہت اچھا لگا تھا۔ اس نے کئی ہفتوں سے میرے ذہن میں موجود پریشانی چند منٹوں میں حل کر دی تھی۔ میں نے اس پر انٹرنیٹ سرچ کی تو مجھے پتہ لگا کہ میری طرح بہت سے لوگ چیٹ جی پی ٹی کو اپنی الجھنیں سلجھانے کے لیے استعمال کر رہے تھے۔ کچھ لوگ تو اسے مختلف کرداروں جیسے کہ جم ٹرینر، نیوٹریشنسٹ، استاد، تھیراپسٹ، دوست کی طرح اس سے بات کر رہے تھے۔
میں نے حال ہی ہیں سنگاپور میں ابلاغ کی ایک کانفرنس میں شرکت کی۔ اس کانفرنس کے ایک سیشن میں ایک چینی پروفیسر نے ایک بہت دلچسپ تحقیق پیش کی۔ اس تحقیق میں انہوں نے یہ سمجھنے کی کوشش کی کہ چین کے شہری علاقوں میں نوجوان لڑکیاں اے آئی چیٹ بوٹس کو بطور بوائے فرینڈ کیوں اور کیسے استعمال کر رہی ہیں۔ ان کے مطابق چینی شہری لڑکیاں شدید تنہائی کا شکار ہیں اور اپنے آس پاس موجود حقیقی مردوں میں دلچسپی نہیں رکھتیں۔
چیٹ بوٹ انہیں آزادی دیتا ہے کہ وہ اسے اپنی مرضی کا ساتھی بنا سکیں۔ وہ اسے بتاتی ہیں کہ انہیں اپنے مثالی بوائے فرینڈ میں کون سی خصوصیات درکار ہیں۔ چیٹ بوٹ ان ہدایات کے مطابق ان سے بات کرتا ہے۔ انہیں ان لڑکیوں نے بتایا کہ وہ اپنے اے آئی بوائے فرینڈ سے بات کر کے جذباتی طور پر بہتر محسوس کرتی ہیں۔میں خود بھی ایک ایسی ہی تحقیق پر کام کر رہی ہوں۔
میں اپنی اس تحقیق میں یہ جاننے کی کوشش کر رہی ہوں کہ پاکستان میں لوگ جنریٹو اے آئی کو اپنی ذاتی زندگیوں میں کس طرح استعمال کر رہے ہیں۔ اس تحقیق کے سلسلے میں کراچی کی ایک خاتون نے مجھے بتایا کہ ان کی دس سالہ بیٹی ہوم ورک سے لے کر اسکول اور گھر کے مسائل کے حل کے لیے میٹا اے آئی کا استعمال کرتی ہے۔وہ اور ان کے شوہر دونوں کل وقتی ملازمت کرتے ہیں۔
وہ پورا دن اپنی اپنی ملازمتوں میں مصروف رہتے ہیں۔ شام میں ان کے پاس چند گھنٹے ہی ہوتے ہیں جن میں انہوں نے گھر کے کاموں کے ساتھ ساتھ اگلے دن کی تیاری بھی کرنی ہوتی ہے۔ انہی گھنٹوں میں انہوں نے اپنی بیٹی کا بھی دھیان رکھنا ہوتا ہے۔ وہ رات تک اس قدر تھک جاتے ہیں کہ ان کے لیے اپنی بیٹی کی باتیں پوری توجہ سے سننا ممکن نہیں رہتا۔ انہیں افسوس بھی ہوتا ہے لیکن اپنے حالات میں وہ چاہ کر بھی اپنی بیٹی کے لیے الگ سے وقت نہیں نکال پاتے۔ ایسے میں میٹا اے آئی ان کی بیٹی کی ہر بات پوری توجہ سے سنتا ہے اور اسے بڑی نرمی سے جواب دیتا ہے۔ شروع میں جب انہوں نے اپنے فون میں میٹا اے آئی کے ساتھ اپنی بیٹی کی چیٹ دیکھی تو انہیں دھچکا لگا۔ لیکن پھر انہوں نے ٹھنڈے دل سے سوچا تو انہیں یہ اپنے حالات میں ایک طرح کی مدد محسوس ہوئی۔لیکن ماہرین اور محققین کا کہنا ہے کہ جنریٹو اے آئی کا جذباتی سہارا نقصان دہ بھی ثابت ہو سکتا ہے۔
جنریٹو اے آئی ایک ایسی ٹیکنالوجی ہے جو خود سے نیا مواد تخلیق کر سکتی ہے۔ یہ مواد وہ صارف کی ہدایات کے مطابق اپنی یادداشت میں موجود بڑے ڈیٹا کی بنیاد پر تیار کرتی ہے۔ اس کی کئی حدود ہیں۔ اس کی تربیت مخصوص اور محدود ڈیٹا پر ہوئی ہے، اسی وجہ سے یہ دنیا کے بہت سے افراد کے مسائل کو ان کے مخصوص حالات اور سیاق و سباق کی روشنی میں نہیں سمجھ پاتی۔ یہ ٹولز صارفین کے پیغامات کے جذباتی انداز کی عکس بندی کرتے ہیں۔ اگر آپ خوشی کی حالت میں اسے کوئی پیغام بھیجیں گے تو یہ اسی انداز میں جواب دے گا۔ اگر آپ ناراضگی یا پریشانی کی حالت میں اسے پیغام بھیجیں گے تو یہ آپ کی انہی کیفیات کے مطابق آپ کو حل تجویز کرے گا۔ اس نکتے پر صارفین نقصان اٹھاتے ہیں۔ وہ اپنی جذباتی کیفیت میں ان ٹولز کے جوابات کو پرکھ نہیں پاتے۔ بعد میں جب ان کے جذبات سنبھلتے ہیں تو انہیں ان ٹولز کے مشورے پر عمل کرنے پر پچھتاوا ہوتا ہے۔نفسیات دانوں کے مطابق چیٹ جی پی ٹی اور دیگر جنریٹو اے آئی ٹولز کا جذباتی سہارے کے طور پر استعمال محدود ہونا چاہیے۔ یہ وقتی طور پر ہمیں بہتر محسوس کروا سکتے ہیں، لیکن جب بات گہری ذہنی کیفیتوں جیسے ڈپریشن، اینگزائٹی یا ٹراما تک پہنچتی ہے تو وہاں صرف پروفیشنل مدد ہی مؤثر ثابت ہو سکتی ہے۔
تربیت یافتہ تھیراپسٹ ہی وہ فرد ہوتا ہے جو نہ صرف جذبات کو درست طور پر سمجھتا ہے بلکہ تشخیص اور علاج کی مکمل مہارت بھی رکھتا ہے۔ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ جو لوگ جنریٹو اے آئی کا زیادہ استعمال کرتے ہیں، وہ اصل زندگی میں رفتہ رفتہ مزید تنہا ہوتے جاتے ہیں۔ اس لیے جب بھی ان ٹولز سے بات کریں، یہ یاد رکھیں کہ یہ محض ایک سہولت ہیں، انسان نہیں۔
یہ انسانی تعلقات کا متبادل نہیں ہو سکتے۔ کوشش کریں کہ روز کسی نہ کسی سے بات کریں، ملیں، وقت گزاریں اور ان ٹولز کے استعمال میں توازن رکھیں تاکہ آپ انجانے میں کسی نفسیاتی دباؤ یا تنہائی کا شکار نہ ہو جائیں۔نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔