چائے ۔۔۔ پیتے ہی اک سکون آئے ۔۔۔ دل و دماغ پر چھا جائے۔ کئی افراد کی صبح تو اس کے بغیر شروع ہی نہیں ہوتی۔ واہ ۔ واہ ۔ پہلی چسکی لیتے ہی، بے ساختہ یہ ہی الفاظ نکلیں اور بار بار نکلیں مگر شرط یہ ہے کہ اسے دل سے بنایا جائے۔
اکثر افراد کی صبح اخبار اور چائے کے بغیر نہیں ہوتی، تلخ خبروں کی تلخی ختم کرنے کے لیے چائے کی مٹھاس ویسے بھی ضروری ہے۔ یہ دودھ لسی کی طرح گوری نہیں مگر پھر بھی اس میں ایک جادو ہے، جسے اس کا ذائقہ بھا جائے تو پھر اس کے بغیر رہنا ناممکن ہے۔
کئی افراد کے نزدیک تو اس کا ایک ایک گھونٹ، تھکن مٹاتا ہے، اسی لیے تو ایک عالم اس پر فدا ہے۔ یہ بھی تو کہا جاتا ہے کہ ہماری زندگی میں اگر پانی کے بعد پینے والی کوئی چیز بہت اہم ہے تو وہ چائے ہی ہے۔ دنیا بھر میں قریباً اڑھائی ارب افراد روزانہ چائے پیتے ہیں۔
چائے کا پودا سب سے پہلا کہاں لگایا گیا، یہ کہنا تو مشکل ہے مگر اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ چین میں 5 ہزار برس پہلے اس کے ذائقے سے تعارف ہوا۔ چائے کی ابتدا کیسے ہوئی؟ اس سے متعلق 2 کہانیاں زیادہ مشہور ہیں اور دونوں کا تعلق چین کے بادشاہ شننونگ سے ہے۔
مزید پڑھیں: ’چائے کی پیالی میں قسمت‘: چیٹ جی پی ٹی اب طلاقیں بھی کروانے لگی!
کہا جاتا ہے کہ ایک مرتبہ اس نے غلطی سے زہر سے بھری ایک جڑی بوٹی کھالی اور اسے جان کے لالے پڑ گئے، اسی وقت ایک پتا ہوا میں اڑتا ہوا شننونگ کے منہ میں چلا گیا۔ بادشاہ نے اس پتے کو چبا لیا اور مرنے سے بچ گیا۔ ایک روایت ہمیں یہ بتاتی ہے کہ ایک دن جنگل میں پانی ابلنے کے دوران چند پتیاں دیگچی میں جا گریں۔ شینونگ نے جب یہ پانی پیا تو اسے نہ صرف ذائقہ پسند آیا بلکہ اس کی تھکن بھی دور ہو گئی۔
اب حقیقت کیا ہے، ہمیں اس سے کیا، ہمیں تو مطلب ہے، صرف اور صرف مزیدار چائے اور اس کے ذائقے سے۔ چائے کا لفظ بھی چینی زبان سے ہی نکلا ہے۔ چائے کی پیداوار برصغیر میں کیسے ممکن ہوئی، یہ کہانی کسی خطرناک مہم سے کم نہیں، چائے کی پیداوار چین کا قومی راز تھی اور اس کی حفاظت چینیوں کی زندگی سے زیادہ اہم تھی۔ برصغیر میں انگریزوں کے دور حکمرانی میں ایسٹ انڈیا کمپنی کو چین سے چائے کی پتی مہنگے داموں خریدنا پڑتی تھی، چائے کا پودا کیسے اگتا ہے اور اس سے چائے کیسے حاصل ہوتی ہے، انگریز اس راز سے پردہ اٹھانے کے لیے برسوں سے بے تاب تھے۔
ایسٹ انڈیا کمپنی نے ایک خطرناک منصوبہ بنایا، اپنے ایک جاسوس کو چین بھیجا۔ رابرٹ فارچیون نے اس مقصد کے لیے چینی تاجر جیسا روپ دھارا اور فوجیان صوبے کے پہاڑوں کا رخ کیا، جہاں کی چائے کا کوئی مقابلہ نہیں تھا۔ رابرٹ فارچیون آخر کار اپنے مقصد میں کامیاب ہوا اور چائے کے پودے، بیج اور چند مزدور بھارتی شہر دارجلنگ اسمگل کرنے میں کامیاب ہو گیا لیکن وہاں جا کر پتا چلا کہ ان پودوں کی تو وہاں پہلے ہی بہتات ہے۔
مزید پڑھیں: اس بار بھارت کے لیے چائے کے ساتھ پٹاخا سموسوں کا بندوبست بھی ہوگا، گلوکار وارث بیگ
لیکن یہ پھر بھی کہنا غلط نہ ہوگا کہ بھارت میں چائے کی صنعت کا آغاز رابرٹ فورچون کی کوششوں سے ہی ہوا اور ان کی سرگرمیوں نے بھارت کو چائے کا عالمی مرکز بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ انگریزوں نے چینیوں کے مقابلے میں چائے کو مختلف انداز میں بنانا شروع کیا، کھولتے پانی میں صرف پتی ڈالنے کے بجائے انہوں نے پہلے چینی اور پھر دودھ ڈالنا شروع کردیا۔
دنیا میں ایشیا اور افریقا چائے کی پیداوار کے لحاظ سے بڑے خطے ہیں، جنوبی امریکا میں بھی کہیں کہیں چائے کی کاشت ہوتی ہے۔ صدیوں بعد بھی چائے کی پیداوار میں چین پہلے نمبر پر ہے، دنیا بھر میں اس کی پیداوار کا حصہ قریباً 40 فیصد ہے، بھارت میں 25 فیصد، کینیا میں 10 اور سری لنکا میں 7 فیصد چائے پیدا ہوتی ہے۔
دنیا بھر میں پیداوار میں تو چین پہلے نمبر پر ہے مگر تجارت کی بات کی جائے تو بھارت سب سے آگے ہے۔ یہاں پیدا ہونے والی 75 فیصد چائے دنیا کے دیگر ممالک کے شہری استعمال کرتے ہیں، صرف 25 فیصد چائے ملک میں استعمال ہوتی ہے۔
پہلے پہل چائے عموماً دوا کے طور پر استعمال ہوتی تھی، پھر وقت کے ساتھ ساتھ یہ ہماری زندگی کا اہم حصہ بن گئی اور اب تو چائے کی ایسی اقسام بھی ملتی ہیں کہ ان کے نام ہی حیران کردیتے ہیں۔ جیسے تندوری چائے، مٹکا چائے یا پھر چینکی چائے۔ اس کے علاوہ مسالہ چائے، آم، ادرک اور ہلدی کی چائے، پودینے کی چائے یا پھر مسالے دار گلاب والی چائے بھی چائے کے چاہنے والوں کی پسند ہے۔ چائے کے نام سے کئی ہوٹل بھی سب کی توجہ کھینچتے ہیں جیسے چائے خانہ اور چائے محفل وغیرہ۔
مزید پڑھیں: ’آؤ تمہیں چائے پلاتا ہوں شیکھر‘، شاہد آفریدی نے شیکھر دھون کو مزید کیا کہا؟
چائے کا ذکر ہو تو ارشد خان کا بھی ذکر کرلیتے ہیں۔ صرف ایک تصویر نے ان کی زندگی ہی بدل دی، 2018 میں اسلام آباد کے اتوار بازار میں کھینچی گئی تصویر راتوں رات سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی۔ اس تصویر نے اس خوبصورت نوجوان کے لیے نہ صرف شوبز انڈسٹری کے دروازے کھولے بلکہ انہوں نے اسلام آباد کے علاوہ لندن میں بھی اپنا کیفے کھولا۔
چائے کا ذکر ہو اور بھارتی فائٹر پائلٹ ابھینندن کا تذکرہ نہ ہو، ایسے بھلا کیسے ہو سکتا ہے۔ 27 فروری 2019 کو پاکستان نے بھارتی جارحیت کو ناکام بنایا، بھارتی پائلٹ ونگ کمانڈر ابھی نندن کو قیدی بنایا اور مزیدار چائے پلائی۔ ان کا یہ جملہ ۔۔۔ ٹی از فینٹاسٹک ۔۔۔ آج بھی سب کو یاد ہے۔
چائے کی اہمیت کو اقوام متحدہ نے بھی تسلیم کیا ہے، ہر سال 21 مئی کو دنیا بھر میں اس مقبول ترین مشروف کا دن منایا جاتا ہے۔ 2020 میں لندن کے ایک ریسٹورنٹ میں ’بیماری میں مبتلا‘ سابق وزیراعظم نواز شریف کی اپنے خاندان کے دیگر اراکین کے ساتھ چائے پینے کی ایک تصویر سوشل میڈیا پر وائرل بھی ہوئی۔
چائے کا شوق کبھی کبھی صرف مشکل نہیں بہت زیادہ مشکل میں ڈال دیتا ہے۔ آج سے 20 برس قبل آندھرا پردیش سے تعلق رکھنے والے اپاراؤ ٹرین کے سفر کے دوران چائے پینے کے لیے اترے۔ ان کے واپس آنے سے پہلے ہی ٹرین روانہ ہوچکی تھی، وہ کسی طرح تعلقہ کالیا کوئل پہنچے اور پھر اپنے علاقے نہ جا سکے اور وہ بغیر کسی اجرت 2 دہائیاں بکریاں چراتے رہے۔ انہیں بیس برس بعد آزادی ملی۔
مزید پڑھیں: واٹس ایپ صارفین کے لیے اچھی خبر، نیا مزیدار فیچر متعارف
چائے نے امریکی شہروں کو برطانوی سامراج سے آزادی کے حصول میں بھی مدد دی، کہانی کچھ یوں ہے کہ 1773 میں امریکی شہر بوسٹن کے شہریوں نے برطانوی سامراج کے نو آبادیاتی دور کے خلاف آواز بلند کی، چائے سے بھرے 300 ڈبے بندرگاہ سے پانی میں پھینک دیے۔ بوسٹن ٹی پارٹی بھی وجود میں آئی۔
اب ماضی کی کھڑکیاں کھولتے ہیں اور پاک ٹی ہاؤس کی سیر کرتے ہیں، یہ ادیبوں کا دوسرا گھر سمجھا تھا، یہاں ادبی محفلیں جمتی تھیں، اس کا ذکر کرتے ہی منٹو، فیض، ساحر لدھیانوی، ، احمد ندیم قاسمی، ناصر کاظمی، اشفاق احمد اور انتظار حسین سمیت کئی شخصیات کے چہرے سامنے آ جاتے ہیں ۔
اب بات ہو جائے، مزیدار چائے کے کچھ فوائد اور نقصانات کی۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ چائے میں موجود اینٹی آکسیڈنٹس تناؤ کا مقابلہ کرنے، کینسر، دل کی بیماری اور ذیابیطس جیسی بیماریوں کے خطرے کو کم کرنے میں مدد کرتے ہیں۔ ادرک سے بنی چائے ہاضمے میں مدد دیتی ہے۔ یہ مزیدار مشروب پینے سے وزن بھی کم ہوسکتا ہے۔ قوت مدافعت بہتر ہوتی ہے۔ جلد کی صحت کے لیے بھی مفید ہے۔
ماہرین کے مطابق، 3 سے 4 کپ روزانہ چائے پینا بیشتر افراد کے لیے محفوظ ہوتا ہے مگر زیادہ چائے پینے سے نقصان بھی ہوسکتا ہے، بے چینی بڑھ سکتی ہے، نیند کے مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ متلی یا پیٹ درد بھی ہوسکتا ہے۔ چائے میں موجود کیفین سے سینے میں جلن کی شکایت کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ایسا بہت کم افراد کو ہوتا ہے مگر بہت زیادہ چائے پینے سے سر چکرا سکتا ہے۔
مزید پڑھیں: چراغ تلے اجالا
کئی شعرا کرام نے بھی اپنے خوبصورت الفاظ میں چائے سے اپنی محبت کا اظہار کیا ہے۔ بشیر بدر کے اچھوتے خیال سے واقفیت حاصل کریں:
چائے کی پیالی میں نیلی ٹیبلٹ گھولی
سہمے سہمے ہاتھوں نے اک کتاب پھر کھولی
آسام کی خصوصیات کیا ہیں، منور رانا نے انہیں الفاظ کا پیراہنِ کچھ یوں پہنایا ہے:
شعر جیسا بھی ہو اس شہر میں پڑھ سکتے ہو
چائے جیسی بھی ہو آسام میں بک جاتی ہے
اور آخر میں یہ شعر سنیے:
اگر تلاش کروں تو شاید مل ہی جائے
نہیں چاہ کسی چیز کی، چاہیے صرف چائے
اور اگر آپ کا انور مسعود صاحب کی نظم ۔۔۔ لَسّی تے چاء ۔۔۔ سے تعارف نہیں تو ہمارے مشورے پر ضرور پڑھیے یا سنیے، یقیناً محظوظ ہوں گے۔ چائے سے محبت کرنے والوں نے اس سے اپنی الفت کا اظہار کچھ یوں کیا ہے۔
چائے زندگی کا وہ خوشگوار لمحہ ہے، جس میں تھوڑی سی چینی، ایک لمحہ سکون، اور دل کی باتوں کا گزرنا ضروری ہے۔ چائے زندگی کا وہ خوبصورت لمحہ ہے جب ہر گھونٹ میں دن کی تھکن اور پریشانیاں مٹ جاتی ہیں۔جب زندگی کا مزہ کم ہو، بس ایک کپ چائے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ دنیا دوبارہ رنگین لگے۔
مزید پڑھیں: محبت کا آخری عجوبہ
اور چائے کو ماننے والے یہ بھی تو مانتے ہیں کہ چائے زندہ دلی کا نام ہے، یہ زندگی کی نشانی ہے، یہ دلوں کو بھی ملاتی ہے۔ اس مزیدار چیز سے اردو زبان کے چند محاوے بھی بنے ہیں، جیسے
چائے پانی کی خبر لینا۔ مطلب خاطر مدارت کرنا یا آؤ بھگت کرنا
گینز ورلڈ ریکارڈ میں بھی چائے کا ذکر ملتا ہے، کم سے کم وقت میں چائے کا ایک کپ پینے کا ریکارڈ جرمن شہری کے نام ہے۔ انہوں نے یکم جولائی 2023 کو صرف 2 منٹ 13 سیکنڈز میں چائے کا کپ پیا۔
چائے ہے تو مزیدار مگر یہ بہت مرتبہ جھگڑے کی وجہ بھی بنی، یہ ہی نہیں، بلکہ وقت پر نہ ملنے پر غصے میں آ کر قتل تک ہو چکے ہیں۔ کوئی کچھ بھی کہے، یہ تو حقیقت ہے کہ چائے موجودہ دور کی ایک اہم ضرورت بن چکی ہے اور کئی افراد اس کے بغیر رہ نہیں سکتے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
احمد کاشف سعید گزشتہ 2 دہائیوں سے شعبہ صحافت سے منسلک ہیں۔ ریڈیو پاکستان اور ایک نیوز ایجنسی سے ہوتے ہوئے الیکٹرانک میڈیا کا رخ کیا اور آجکل بھی ایک نیوز چینل سے وابستہ ہیں۔ معاشرتی مسائل، شوبز اور کھیل کے موضوعات پر باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔
احمد کاشف سعید برطانیہ ٹی از فینٹاسٹک چائے چائے کی کہانی چین.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: احمد کاشف سعید برطانیہ ٹی از فینٹاسٹک چائے چائے کی کہانی چین
پڑھیں:
تاریخ کی نئی سمت
ایک امیدکی کرن تھی، غزہ کا امن معاہدہ کہ اس کے بعد جنگ کے بادل چھٹ جائیں گے، مگر ایسا لگ نہیں رہا ہے۔ غزہ امن معاہدے کے فوراً بعد امریکا نے روسی تیل کمپنیوں پر پابندی عائد کردی، یوں ٹرمپ اور پیوتن کے مابین ہنگری میں ہونے والی ملاقات ملتوی ہوگئی۔
پیوتن صاحب اس خوش فہمی کا شکار تھے کہ پچھلے دورکا صدر ٹرمپ واپس آئے گا لیکن ایسا نہ ہوسکا کیونکہ صدر ٹرمپ جو پہلے روس کے ساتھ اچھے تعلقات کا خواہاں تھا، تھک گیا اور اب وہ یوکرین کے ساتھ اسی طرح کھڑے ہیں جیسے جوبائیڈن کھڑا تھا۔
نیٹو آج بھی یوکرین کے ساتھ ہے۔ روس کی تیل کمپنیوں پر امریکی پابندی کے بعد، ہندوستان نے اندرونی طور پر امریکا کو یہ یقین دلایا ہے کہ وہ روس سے تیل نہیں خریدیں گے اور ایسا ہی وعدہ چین نے بھی کیا ہے، توکیا ایسا کہنا درست ہوگا کہ جو اتحاد چین نے امریکا کے خلاف بنایا تھا۔
لگ بھگ دو مہینے قبل تقریباً تیس ممالک کے سربراہان کی بیجنگ میں میزبانی کی وہ اس امیج کو برقرار نہ رکھ سکا۔ البتہ چین کی تیز رفتار ٹیکنالوجی نے امریکا کو پریشان ضرورکردیا ہے۔ مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی میں امریکا کے بعد چین ہی سب سے بڑا نام ہے۔ اس سال کی سب سے بڑی خبر یہ ہے کہ صدر ٹرمپ اور چین کے صدرکی ملاقات ہے۔
اس منظر نامے میں روس اب نیوکلیئر جنگ کی دھمکیاں دے رہا ہے۔ روس کا یہ اسٹیٹمنٹ دنیا کو ایک خطرناک موڑ پر لاسکتا ہے اور ایسا ہو بھی رہا ہے۔ روس کبھی یہ بیان جاری کرتا ہے کہ انھوں نے اپنے ایٹمی میزائلوں کا رخ برطانیہ کے مخصوص شہروں کی طرف کردیا ہے، پھر وہ جرمنی کو اپنا سب سے بڑا دشمن قرار دیتے ہیں۔
نیٹو اور یورپین یونین کی تیاری مکمل ہے اگر روس نے کوئی پہل کی۔ کچھ ہی دن قبل روس کے ڈرون نے پولینڈ کی سرحدیں پارکیں اور ایک دو دن پہلے ہی نیٹو نے یورپین یونین کی حدود میں داخل ہوتا روس کا ڈرون مارگرا یا۔
ہندوستان اور پاکستان کشیدگی میں اب افغانستان بھی حصہ دار بن گیا ہے ۔ ہم نے جو ماضی میں غلطیاں کی تھیں، ان سے ہم سبق تو ضرور سیکھ رہے ہیں لیکن وقت بہت گزر چکا ہے۔ پاکستان کے بارے میں یہ خیال آرائی کی جاتی ہے کہ اندرونی مسائل کے باعث جنگ جھیل نہیں سکے گا اور (خاکم بدہن) پاکستان ٹکڑوں میں بٹ جائے گا۔
یہ تمام خیالات افغان پالیسی سے جڑے تھے۔ جس طرح سے انگریز یہاں اپنے وفاداروں کو جاگیریں بطور انعام بانٹتے تھے، اسی طرح سے ہم نے بھی افغانوں اور ان کے پاکستانی ہم نشینوں اور حامی شرفاء کی ایک نسل تیارکی جنھیں پڑھایا اور یقین دلایا گیا کہ افغانستان کبھی غلام نہیں رہا اور افغان جنگجو قوم ہے۔
ہم نے یہاں مدرسوں میں افغانوں اور پاکستانیوں کی ایک ایسی نسل تیارکی جوکل تک سائیکل چلاتے تھے اور آج درجنوں مسلح محافظوں کے ہجوم میں لگژری گاڑیوں اورڈالوں پر سواری کرتے ہیں ۔
افغان پالیسی کا دیمک ہمیں اندرونی طور پر لگا،اب ہمارے ہر شہر، قصبوں اور گاؤں میں ان کے مفادات کا تحفظ کرنے والے لوگ موجود ہیں، افغان تو حکومت افغانستان میں کرتے تھے، ان کے کاروبار پاکستان میں تھے اور وہ رہتے بھی پاکستان میں تھے۔
پاکستان کے خلاف قوتیں جہاں بھی موجود تھیں، وہاں ہندوستان نے اپنے مراسم بڑھائے۔ ہندوستان نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات بڑھائے ، جب ٹرمپ صاحب نے اپنے کارڈزکھیلے تو پتا چلا کہ دوست کو ن اور دشمن کون! جو دوست بن کرکام کررہے تھے، وہ ڈبل گیم کھیل رہے تھے ۔
فرض کریں کہ اگر امریکا کی پالیسی ہندوستان کے حوالے سے اب بھی ویسی ہی ہوتی جیسی کہ جوبائیڈن کے دورِ میں تھی تو یقیناً پاکستان آج بہت مشکل میں ہوتا ، آج پاکستان کے ساتھ امریکا بھی ہے اور چین بھی۔ سعودی عرب کے ساتھ پاکستان کے تعلقات ہمیشہ ہی اچھے رہے لیکن اب ان میں مزید مضبوطی پیدا ہوئی ہے۔
اپنی صف میں ہم نے دراصل ایک دشمن کی پہچان کی ہے۔ وہ دشمن جو بھائی بنا رہا لیکن اب ہندوستان کی گود میں بیٹھا ہے ۔ اور طالبان کو یہ سمجھ آگیا ہے کہ اگر وہ حدیں پارکرتا ہے تو پاکستان ان کی حکومت کو ختم کرسکتا ہے۔ اب ہندوستان میں آنے والے انتخابات میں مودی کی شکست واضح نظر آرہی ہے ۔
ہندوستان کے اندر متبادل قیادت ابھرنے والی ہے۔ ہندوستان اور پاکستان دونوں برِصغیر ہیں، دونوں کی تاریخ ایک ہے، دونوں نے حملہ آوروں کا مقابلہ کیا ہے، لہٰذا دونوں ممالک کے درمیان امن ہونا چاہیے۔ دونوں ممالک کے درمیان جنگ میں دنیا خوش ہوگی لیکن دونوں ممالک کی عوام نہیں۔ افغانستان بھی امن کے ساتھ رہنا چا ہتا ہے، ’ہاں‘ اگر طالبان اور انتہاپسند افغانستان کا ماضی بن جائیں۔
مودی صاحب جو ہندوستان کو دنیا کی چوتھی طاقت بنانا چاہتا تھا وہ اب ہندوستان کی معیشت کے لیے خود مسئلہ بن چکے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ نریندر مودی کے دور میں ہندوستان کی معیشت مضبوط ہوئی مگر اب ہندوستان کی تجارت کو مشکلات کا سامنا ہے اور وجہ ہے امریکا کی ناراضگی۔
گزشتہ تین چار برسوں میں پاکستان نے اپنی خارجہ پالیسی میں بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ بہتری کے حوالے سے ہماری معیشت نے وہ ٹارگٹ تو حاصل نہیں کیا لیکن مستحکم ضرور ہوئی ہے اور ترقی کی رفتار بھی بہتر ہے۔
افغانستان والے گوریلا وار کے ماہر ہیں۔ وہ پاکستان کے ساتھ روایتی جنگ نہیں لڑ سکتے۔ ہندوستان کا افغانستان کے ساتھ مل کر جنگ لڑنا آسان نہیں۔ جنگ کے لیے جذبہ ہونا لازمی ہے اور اس حوالے سے ہندوستان کی فوج بہت کمزور ہے۔
اسی جذبے کی تحت پاکستان کے افواج آج دنیا میں سرخرو ہیں۔ مودی صاحب کی ہٹ دھرمی کو ٹرمپ صاحب ایک ہی وار میں توڑ دیا۔ یہ چرچا پوری دنیا میں عام ہے۔ہندوستان نے اپنے اتحادیوں کو بری طرح سے نالاں کیا ہے، جن پتوں پر ان کو ناز تھا آج وہ ہی پتے ہوا دینے لگے۔
نادرن افغانستان، محمد شاہ مسعود اب ہماری طرف دیکھ رہے ہیں۔ ایک لبرل اور اعتدال پسند افغانستان کی نگاہیں ہم پر مرکوز ہیں۔ ہمیں ان ماڈرن افغانستان کی بات کرنے والی قوتوں کی حوصلہ افزائی کرنی ہوگی۔
پاکستان کی سیاست میں ایک نئی فالٹ لائن پیدا ہوئی ہے۔ موجودہ حکومت یقینا ایک ہائبرڈ گورنمنٹ ہے اور بری حکمرانی ہے سکہ رائج الوقت لیکن اس وقت کوئی نعم البدل نہیں اور اگر ہے بھی تو تباہی ہے،کیونکہ ان کے تانے بانے بھی طالبان سے ملتے ہیں۔
نو مئی کا واقعہ یا اسلام آباد پر حملے ان تمام کاروائیوں میں افغان بھی ملوث تھا۔نئے بین الاقوامی اتحاد بن بھی رہے ہیں اور ٹوٹ بھی رہے ہیں۔ یوکرین کی جنگ کے تناظر میں یہاں بہت کچھ بدل گیا ہے۔
ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت کے اس دور میں ہمیں اپنی بقاء کے لیے اتنی ہی تیزی سے تبدیلیاں لانی ہونگی۔ یقینا پاکستان آگے بڑھے گا، بہ شرط کہ ہم اپنی تاریخ کی سمت درست کریں۔