WE News:
2025-06-16@22:08:09 GMT

چائے کی چاہ، واہ بھئی واہ

اشاعت کی تاریخ: 14th, May 2025 GMT

چائے کی چاہ، واہ بھئی واہ

 چائے ۔۔۔ پیتے ہی اک سکون آئے ۔۔۔ دل و دماغ پر چھا جائے۔ کئی افراد کی صبح تو اس کے بغیر شروع ہی نہیں ہوتی۔ واہ ۔ واہ ۔ پہلی چسکی لیتے ہی، بے ساختہ یہ ہی الفاظ نکلیں اور بار بار نکلیں مگر شرط یہ ہے کہ اسے دل سے بنایا جائے۔

اکثر افراد کی صبح اخبار اور چائے کے بغیر نہیں ہوتی، تلخ خبروں کی تلخی ختم کرنے کے لیے چائے کی مٹھاس ویسے بھی ضروری ہے۔ یہ دودھ لسی کی طرح گوری نہیں مگر پھر بھی اس میں ایک جادو ہے، جسے اس کا ذائقہ بھا جائے تو پھر اس کے بغیر رہنا ناممکن ہے۔

کئی افراد کے نزدیک تو اس کا ایک ایک گھونٹ، تھکن مٹاتا ہے، اسی لیے تو ایک عالم اس پر فدا ہے۔ یہ بھی تو کہا جاتا ہے کہ ہماری زندگی میں اگر پانی کے بعد پینے والی کوئی چیز بہت اہم ہے تو وہ چائے ہی ہے۔ دنیا بھر میں قریباً اڑھائی ارب افراد روزانہ چائے پیتے ہیں۔

چائے کا پودا سب سے پہلا کہاں لگایا گیا، یہ کہنا تو مشکل ہے مگر اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ چین میں 5 ہزار برس پہلے اس کے ذائقے سے تعارف ہوا۔ چائے کی ابتدا کیسے ہوئی؟ اس سے متعلق 2 کہانیاں زیادہ مشہور ہیں اور دونوں کا تعلق چین کے بادشاہ شننونگ سے ہے۔

مزید پڑھیں: ’چائے کی پیالی میں قسمت‘: چیٹ جی پی ٹی اب طلاقیں بھی کروانے لگی!

کہا جاتا ہے کہ ایک مرتبہ اس نے غلطی سے زہر سے بھری ایک جڑی بوٹی کھالی اور اسے جان کے لالے پڑ گئے، اسی وقت ایک پتا ہوا میں اڑتا ہوا شننونگ کے منہ میں چلا گیا۔ بادشاہ نے اس پتے کو چبا لیا اور مرنے سے بچ گیا۔ ایک روایت ہمیں یہ بتاتی ہے کہ ایک دن جنگل میں پانی ابلنے کے دوران چند پتیاں دیگچی میں جا گریں۔ شینونگ نے جب یہ پانی پیا تو اسے نہ صرف ذائقہ پسند آیا بلکہ اس کی تھکن بھی دور ہو گئی۔

اب حقیقت کیا ہے، ہمیں اس سے کیا، ہمیں تو مطلب ہے، صرف اور صرف مزیدار چائے اور اس کے ذائقے سے۔ چائے کا لفظ بھی چینی زبان سے ہی نکلا ہے۔ چائے کی پیداوار برصغیر میں کیسے ممکن ہوئی، یہ کہانی کسی خطرناک مہم سے کم نہیں، چائے کی پیداوار چین کا قومی راز تھی اور اس کی حفاظت چینیوں کی زندگی سے زیادہ اہم تھی۔ برصغیر میں انگریزوں کے دور حکمرانی میں ایسٹ انڈیا کمپنی کو چین سے چائے کی پتی مہنگے داموں خریدنا پڑتی تھی، چائے کا پودا کیسے اگتا ہے اور اس سے چائے کیسے حاصل ہوتی ہے، انگریز اس راز سے پردہ اٹھانے کے لیے برسوں سے بے تاب تھے۔

ایسٹ انڈیا کمپنی نے ایک خطرناک منصوبہ بنایا، اپنے ایک جاسوس کو چین بھیجا۔ رابرٹ فارچیون نے اس مقصد کے لیے چینی تاجر جیسا روپ دھارا اور فوجیان صوبے کے پہاڑوں کا رخ کیا، جہاں کی چائے کا کوئی مقابلہ نہیں تھا۔ رابرٹ فارچیون آخر کار اپنے مقصد میں کامیاب ہوا اور چائے کے پودے، بیج اور چند مزدور بھارتی شہر دارجلنگ اسمگل کرنے میں کامیاب ہو گیا لیکن وہاں جا کر پتا چلا کہ ان پودوں کی تو وہاں پہلے ہی بہتات ہے۔

مزید پڑھیں: اس بار بھارت کے لیے چائے کے ساتھ پٹاخا سموسوں کا بندوبست بھی ہوگا، گلوکار وارث بیگ

لیکن یہ پھر بھی کہنا غلط نہ ہوگا کہ بھارت میں چائے کی صنعت کا آغاز رابرٹ فورچون کی کوششوں سے ہی ہوا اور ان کی سرگرمیوں نے بھارت کو چائے کا عالمی مرکز بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ انگریزوں نے چینیوں کے مقابلے میں چائے کو مختلف انداز میں بنانا شروع کیا، کھولتے پانی میں صرف پتی ڈالنے کے بجائے انہوں نے پہلے چینی اور پھر دودھ ڈالنا شروع کردیا۔

دنیا میں ایشیا اور افریقا چائے کی پیداوار کے لحاظ سے بڑے خطے ہیں، جنوبی امریکا میں بھی کہیں کہیں چائے کی کاشت ہوتی ہے۔ صدیوں بعد بھی چائے کی پیداوار میں چین پہلے نمبر پر ہے، دنیا بھر میں اس کی پیداوار کا حصہ قریباً 40 فیصد ہے، بھارت میں 25 فیصد، کینیا میں 10 اور سری لنکا میں 7 فیصد چائے پیدا ہوتی ہے۔

دنیا بھر میں پیداوار میں تو چین پہلے نمبر پر ہے مگر تجارت کی بات کی جائے تو بھارت سب سے آگے ہے۔ یہاں پیدا ہونے والی 75 فیصد چائے دنیا کے دیگر ممالک کے شہری استعمال کرتے ہیں، صرف 25 فیصد چائے ملک میں استعمال ہوتی ہے۔

پہلے پہل چائے عموماً دوا کے طور پر استعمال ہوتی تھی، پھر وقت کے ساتھ ساتھ یہ ہماری زندگی کا اہم حصہ بن گئی اور اب تو چائے کی ایسی اقسام بھی ملتی ہیں کہ ان کے نام ہی حیران کردیتے ہیں۔ جیسے تندوری چائے، مٹکا چائے یا پھر چینکی چائے۔ اس کے علاوہ مسالہ چائے، آم، ادرک اور ہلدی کی چائے، پودینے کی چائے یا پھر مسالے دار گلاب والی چائے بھی چائے کے چاہنے والوں کی پسند ہے۔ چائے کے نام سے کئی ہوٹل بھی سب کی توجہ کھینچتے ہیں جیسے چائے خانہ اور چائے محفل وغیرہ۔

مزید پڑھیں: ’آؤ تمہیں چائے پلاتا ہوں شیکھر‘، شاہد آفریدی نے شیکھر دھون کو مزید کیا کہا؟

چائے کا ذکر ہو تو ارشد خان کا بھی ذکر کرلیتے ہیں۔ صرف ایک تصویر نے ان کی زندگی ہی بدل دی، 2018 میں اسلام آباد کے اتوار بازار میں کھینچی گئی تصویر راتوں رات سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی۔ اس تصویر نے اس خوبصورت نوجوان کے لیے نہ صرف شوبز انڈسٹری کے دروازے کھولے بلکہ انہوں نے اسلام آباد کے علاوہ لندن میں بھی اپنا کیفے کھولا۔

چائے کا ذکر ہو اور بھارتی فائٹر پائلٹ ابھینندن کا تذکرہ نہ ہو، ایسے بھلا کیسے ہو سکتا ہے۔ 27 فروری 2019 کو پاکستان نے بھارتی جارحیت کو ناکام بنایا، بھارتی پائلٹ ونگ کمانڈر ابھی نندن کو قیدی بنایا اور مزیدار چائے پلائی۔ ان کا یہ جملہ ۔۔۔ ٹی از فینٹاسٹک ۔۔۔ آج بھی سب کو یاد ہے۔

چائے کی اہمیت کو اقوام متحدہ نے بھی تسلیم کیا ہے، ہر سال 21 مئی کو دنیا بھر میں اس مقبول ترین مشروف کا دن منایا جاتا ہے۔ 2020 میں لندن کے ایک ریسٹورنٹ میں ’بیماری میں مبتلا‘ سابق وزیراعظم نواز شریف کی اپنے خاندان کے دیگر اراکین کے ساتھ چائے پینے کی ایک تصویر سوشل میڈیا پر وائرل بھی ہوئی۔

چائے کا شوق کبھی کبھی صرف مشکل نہیں بہت زیادہ مشکل میں ڈال دیتا ہے۔ آج سے 20 برس قبل آندھرا پردیش سے تعلق رکھنے والے اپاراؤ ٹرین کے سفر کے دوران چائے پینے کے لیے اترے۔ ان کے واپس آنے سے پہلے ہی ٹرین روانہ ہوچکی تھی، وہ کسی طرح تعلقہ کالیا کوئل پہنچے اور پھر اپنے علاقے نہ جا سکے اور وہ بغیر کسی اجرت 2 دہائیاں بکریاں چراتے رہے۔ انہیں بیس برس بعد آزادی ملی۔

مزید پڑھیں: واٹس ایپ صارفین کے لیے اچھی خبر، نیا مزیدار فیچر متعارف

چائے نے امریکی شہروں کو برطانوی سامراج سے آزادی کے حصول میں بھی مدد دی، کہانی کچھ یوں ہے کہ 1773 میں امریکی شہر بوسٹن کے شہریوں نے برطانوی سامراج کے نو آبادیاتی دور کے خلاف آواز بلند کی، چائے سے بھرے 300 ڈبے بندرگاہ سے پانی میں پھینک دیے۔ بوسٹن ٹی پارٹی بھی وجود میں آئی۔

اب ماضی کی کھڑکیاں کھولتے ہیں اور پاک ٹی ہاؤس کی سیر کرتے ہیں، یہ ادیبوں کا دوسرا گھر سمجھا تھا، یہاں ادبی محفلیں جمتی تھیں، اس کا ذکر کرتے ہی منٹو، فیض، ساحر لدھیانوی، ، احمد ندیم قاسمی، ناصر کاظمی، اشفاق احمد اور انتظار حسین سمیت کئی شخصیات کے چہرے سامنے آ جاتے ہیں ۔

اب بات ہو جائے، مزیدار چائے کے کچھ فوائد اور نقصانات کی۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ چائے میں موجود اینٹی آکسیڈنٹس تناؤ کا مقابلہ کرنے، کینسر، دل کی بیماری اور ذیابیطس جیسی بیماریوں کے خطرے کو کم کرنے میں مدد کرتے ہیں۔ ادرک سے بنی چائے ہاضمے میں مدد دیتی ہے۔ یہ مزیدار مشروب پینے سے وزن بھی کم ہوسکتا ہے۔ قوت مدافعت بہتر ہوتی ہے۔ جلد کی صحت کے لیے بھی مفید ہے۔

ماہرین کے مطابق، 3 سے 4 کپ روزانہ چائے پینا بیشتر افراد کے لیے محفوظ ہوتا ہے مگر زیادہ چائے پینے سے نقصان بھی ہوسکتا ہے، بے چینی بڑھ سکتی ہے، نیند کے مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ متلی یا پیٹ درد بھی ہوسکتا ہے۔ چائے میں موجود کیفین سے سینے میں جلن کی شکایت کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ایسا بہت کم افراد کو ہوتا ہے مگر بہت زیادہ چائے پینے سے سر چکرا سکتا ہے۔

مزید پڑھیں: چراغ تلے اجالا

کئی شعرا کرام نے بھی اپنے خوبصورت الفاظ میں چائے سے اپنی محبت کا اظہار کیا ہے۔ بشیر بدر کے اچھوتے خیال سے واقفیت حاصل کریں:
چائے کی پیالی میں نیلی ٹیبلٹ گھولی
سہمے سہمے ہاتھوں نے اک کتاب پھر کھولی

آسام کی خصوصیات کیا ہیں، منور رانا نے انہیں الفاظ کا پیراہنِ کچھ یوں پہنایا ہے:
شعر جیسا بھی ہو اس شہر میں پڑھ سکتے ہو
چائے جیسی بھی ہو آسام میں بک جاتی ہے

اور آخر میں یہ شعر سنیے:
اگر تلاش کروں تو شاید مل ہی جائے
نہیں چاہ کسی چیز کی، چاہیے صرف چائے

اور اگر آپ کا انور مسعود صاحب کی نظم ۔۔۔ لَسّی تے چاء ۔۔۔ سے تعارف نہیں تو ہمارے مشورے پر ضرور پڑھیے یا سنیے، یقیناً محظوظ ہوں گے۔ چائے سے محبت کرنے والوں نے اس سے اپنی الفت کا اظہار کچھ یوں کیا ہے۔

چائے زندگی کا وہ خوشگوار لمحہ ہے، جس میں تھوڑی سی چینی، ایک لمحہ سکون، اور دل کی باتوں کا گزرنا ضروری ہے۔ چائے زندگی کا وہ خوبصورت لمحہ ہے جب ہر گھونٹ میں دن کی تھکن اور پریشانیاں مٹ جاتی ہیں۔جب زندگی کا مزہ کم ہو، بس ایک کپ چائے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ دنیا دوبارہ رنگین لگے۔

مزید پڑھیں: محبت کا آخری عجوبہ

اور چائے کو ماننے والے یہ بھی تو مانتے ہیں کہ چائے زندہ دلی کا نام ہے، یہ زندگی کی نشانی ہے، یہ دلوں کو بھی ملاتی ہے۔ اس مزیدار چیز سے اردو زبان کے چند محاوے بھی بنے ہیں، جیسے
چائے پانی کی خبر لینا۔ مطلب خاطر مدارت کرنا یا آؤ بھگت کرنا

گینز ورلڈ ریکارڈ میں بھی چائے کا ذکر ملتا ہے، کم سے کم وقت میں چائے کا ایک کپ پینے کا ریکارڈ جرمن شہری کے نام ہے۔ انہوں نے یکم جولائی 2023 کو صرف 2 منٹ 13 سیکنڈز میں چائے کا کپ پیا۔

چائے ہے تو مزیدار مگر یہ بہت مرتبہ جھگڑے کی وجہ بھی بنی، یہ ہی نہیں، بلکہ وقت پر نہ ملنے پر غصے میں آ کر قتل تک ہو چکے ہیں۔ کوئی کچھ بھی کہے، یہ تو حقیقت ہے کہ چائے موجودہ دور کی ایک اہم ضرورت بن چکی ہے اور کئی افراد اس کے بغیر رہ نہیں سکتے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

احمد کاشف سعید

احمد کاشف سعید گزشتہ 2 دہائیوں سے شعبہ صحافت سے منسلک ہیں۔ ریڈیو پاکستان اور ایک نیوز ایجنسی سے ہوتے ہوئے الیکٹرانک میڈیا کا رخ کیا اور آجکل بھی ایک نیوز چینل سے وابستہ ہیں۔ معاشرتی مسائل، شوبز اور کھیل کے موضوعات پر باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔

احمد کاشف سعید برطانیہ ٹی از فینٹاسٹک چائے چائے کی کہانی چین.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: احمد کاشف سعید برطانیہ ٹی از فینٹاسٹک چائے چائے کی کہانی چین

پڑھیں:

سچا جھوٹ اور جھوٹا سچ

یہ اصطلاح شاید آپ کو کچھ عجیب لگے۔لیکن ملاوٹ کا زمانہ ہے ایسی کوئی چیز کہیں بھی نہیں بچی ہے جو خالص ہو اور ملاوٹ سے بچی ہوئی ہو۔بلکہ زمانے کے ساتھ ساتھ ملاوٹ نے بھی بہت ترقی کرلی، اگلے زمانوں میں اکثر ملاوٹ ’’ٹو ان ون‘‘ ہوتی تھی یعنی کسی ایک چیز میں دوسری چیز ملائی جاتی تھی۔جیسے دودھ میں پانی یا پانی میں دودھ لیکن اب ایک چیز کے ساتھ بہت ساری چیزیں ملی ہوئی ہوتی ہیں مثلاً آپ کسی کو دیکھ کر آدمی سمجھیں گے جب کہ اس کے اندر بے شمار درندے، چرندے اور پرندے بھی چھپے ہوتے ہیں جسے وہ ’’مواقع‘‘ دیکھ کر خلق خدا پر چھوڑتا رہتا ہے۔

آپ کسی کو لیڈر یا رہنما سمجھیں گے اور اس کے اندر ڈاکو، لٹیرے،  جیب کترے اور نہ جانے کیا کیا کچھ گھات لگائے بیٹھے ہوں گے۔آپ کسی کو افسر سمجھیں گے اور اس کے اندر لیڈر، تاجر اور دانا دانشور کھلبلارہے ہوں گے۔آپ کسی کو بہت ہی نیک پارسا اور دیندار سمجھتے ہوں اور اس کے اندر باقاعدہ دینی سوداگر،صنعت کار اور بلیک میلر دبکے ہوں گے۔

ہمارے اپنے کالم نگاروں میں پورا یونان سمایا ہوا ہوتا ہے جن کے پاس ہر مسئلے کا حل ہوتا ہے اور قیمتی مشوروں کا ایک بہت بڑا زنبیل لیکن افسوس کہ آج کل لوگ بڑے’’نہ مانوں‘‘ہوگئے ہیں ورنہ اگر صرف اردو کالم نگاروں کے مشورے مانتے تو یہ دنیا پیراڈائز ہوچکی ہوتی، مطلب یہ کہ ملاوٹ کے اس زمانے میں جھوٹ یا سچ خالص کیسے ہوسکتا ہے۔بلکہ عرصہ ہوا ہم نے ان دونوں چچازادوں جھوٹ اور سچ کی لباس بدلی کی کہانی سنائی بھی تھی کہ دونوں روزگار کی تلاش میں اپنے گاؤں سے شہر کی طرف چل پڑے۔شہر کا نام ہم نہیں بتائیں گے۔کیوں کہ وہاں اب مذہب بھی آباد ہوگیا ہے، راستے میں ایک تالاب کو دیکھ کر جھوٹ نے سچ سے کہا، چلو اس تالاب میں نہاتے ہیں، دونوں نے اپنے کپڑے کنارے پر اتارے اور تالاب میں کود گئے، نہاتے تیرتے رہے، ڈبکیاں لگاتے رہے۔

تھوڑی دیر بعد سچ نے دیکھا کہ جھوٹ نظر نہیں آرہا ہے۔سوچا ڈبکی لگائی ہوگی لیکن کافی دیر تک نظر نہیں آیا تو سچ کو تشویش ہوئی کہ کہیں ڈوب نہ گیا ہو۔بیچارا سچ تھا اس لیے اسے معلوم نہیں تھا کہ جھوٹ ڈوبنے والوں میں سے نہیں ڈبونے والوں میں سے ہے۔کنارے پر نظر گئی تو یہ دیکھ کر دھک سا ہوگیا کہ جھوٹ کے کپڑے پڑے ہیں، اس کے اپنے کپڑے غائب ہیں، سمجھ گیا کہ جھوٹ ہاتھ کرگیا، مجبوری میں جھوٹ کے کپڑے پہن لیے اور چل پڑا تو ہر طرف پھٹکار ہونے لگی پتھر مارے جانے لگے۔

گالیاں اور کوسنے سنائی دینے لگے۔جب کہ جھوٹ نے سچ کے لباس میں شہر پہنچ کر انٹری دی تو زبردست پزیرائی ہوئی، لوگوں نے گلے لگایا ہار پہنائے پھول برسائے۔اور سب نے اپنایا،کئی باعزت روزگار پیش کیے گئے، آخر کار ترقی کرتے پورے ملک کا حکمران بن گیا، جب کہ بیچارا سچ جنگلوں، بیانوں میں چھپ کر رہتا تھا ذرا بھی باہر نکلتا تو پتھر برسنے لگتے ہیں۔بات اگر یہاں تک ہوتی تو پھر بھی ٹھیک تھا کہ کبھی نہ کبھی، ، کوئی نہ کوئی بدلے ہوئے لباس کے باوجود دونوں کو پہچان لیتا کیونکہ سارے لوگ ایک جیسے نہیں ہوتے، کسی کسی کی بصارت اور بصیرت تیز بھی تو ہوتی ہے کہ

بہر رنگے کہ خواہی جامہ می پوش

من انداز قدت رامی شناسم

لیکن اب تو بات جعل اور نقل تک آگئی ہے، دودھ میں نہ پانی ملایا جاتا نہ پانی میں دودھ۔بلکہ باقاعدہ اور براہ راست دودھ بنایا جاتا ہے اور بھی بہت ساری چیزیں بنائی جاتی ہیں یہاں تک کہ پروفیسر، علامے، ڈاکٹر، بیرسٹر اور معاون خصوصی تک بنائے جاتے ہیں جو اطلاعات اور بیانات بناتے ہیں بلکہ ’’پیدا‘‘ کرتے ہیں۔

عربی میں ’’جعل‘‘ کا لفظ ’’بنانے‘‘ کے لیے استعمال ہوتا ہے اور’’پیدا‘‘ کرنے کے لیے ’’خلق‘‘ بولا جاتا ہے جیسے لکڑی، لوہا، پتھر، پانی، اوزار، مکان اور مشروبات بنائے جاتے ہیں یا جیسے گندم اور گنا پیدا ہوتے ہیں لیکن ان سے آٹا سوجی میدہ اور آگے بہت سی چیزیں بنائی جاتی ہیں، گندم سے چینی اور چینی سے آگے بے شمار مصنوعات بنائی جاتی ہیں۔آدمی بھی’’پیدا‘‘ ہوتے ہیں لیکن آگے امیر غریب، عالم جاہل، لیڈر، وزیر اور مشیر وغیرہ بنائے جاتے ہیں۔ دودھ بنانے کا تو میں نے کہہ دیا ہے سنا ہے چین والوں نے انڈے بھی’’بنا‘‘ لیے ہیں ممکن ہے کہ کچھ عرصے کے بعد ان سے چوزے بھی نکالیں بلکہ چوزے اور مرغا مرغی بھی بنالیں

محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی

اور یہ جو ربوٹوں کا سلسلہ ہے نہ جانے کہاں جاکر رکے گا اور ہاں مصنوعی ذہانت؟۔ویسے پاکستان بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں وزیر، مشیر اور معاون تو بنانے لگا ہے۔آگے آْگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔اور یہ لوگ جو بیانات سے لوگوں کو بناتے ہیں وہ بھی تو بنانا ہے جو تقریباً پیدا کرنے کے برابر ہے، اسے اگلے زمانوں میں ’’مایاوی‘‘ کہا جاتا تھا۔جو چیز سامنے ہوتی وہ ہوتی ہی نہیں تھی۔

اس موقع پر مجھے اپنے گاؤں کا ایک دیوانہ یاد آجاتا ہے جو ہوا میں بہت کچھ دیکھ کر لوگوں کو بھی دکھانے کی کوشش کرتا تھا۔ایک دن میرے پاس آکر بولا، اپنے بھائی کو سمجھا دو کہ مجھ سے باز آجائے ورنہ ایک دن بم سے اڑاکر رکھ دوں یہ دیکھو یہ بم۔ماروں گا تو چیتھڑے اڑاکر رکھ دوں گا۔کیا کیا ہے اس نے؟میں نے پوچھا۔بولا رات میری دونوں ٹانگیں کاٹ کر لے گیا ہے، کہدو واپس کرے ورنہ۔اس نے بم دکھایا۔میں نے کہا ٹانگیں تو تمہاری یہ موجود ہیں بولا یہ تو میرے بھائی کی ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • دیسی گھی کھا کے جی
  • سچا جھوٹ اور جھوٹا سچ
  • ساحر
  • بجٹ:مگر یہ ممکن ہی کس طرح ہے
  • ہم سب قصور وار ہیں
  • شیان میں آخری دن
  • آج کے نوجوان
  • بجٹ اور ہم
  • جنگی ماحول اور نیا بجٹ
  • سنت ابراہیمی