WE News:
2025-09-19@00:39:08 GMT

چائے کی چاہ، واہ بھئی واہ

اشاعت کی تاریخ: 14th, May 2025 GMT

چائے کی چاہ، واہ بھئی واہ

 چائے ۔۔۔ پیتے ہی اک سکون آئے ۔۔۔ دل و دماغ پر چھا جائے۔ کئی افراد کی صبح تو اس کے بغیر شروع ہی نہیں ہوتی۔ واہ ۔ واہ ۔ پہلی چسکی لیتے ہی، بے ساختہ یہ ہی الفاظ نکلیں اور بار بار نکلیں مگر شرط یہ ہے کہ اسے دل سے بنایا جائے۔

اکثر افراد کی صبح اخبار اور چائے کے بغیر نہیں ہوتی، تلخ خبروں کی تلخی ختم کرنے کے لیے چائے کی مٹھاس ویسے بھی ضروری ہے۔ یہ دودھ لسی کی طرح گوری نہیں مگر پھر بھی اس میں ایک جادو ہے، جسے اس کا ذائقہ بھا جائے تو پھر اس کے بغیر رہنا ناممکن ہے۔

کئی افراد کے نزدیک تو اس کا ایک ایک گھونٹ، تھکن مٹاتا ہے، اسی لیے تو ایک عالم اس پر فدا ہے۔ یہ بھی تو کہا جاتا ہے کہ ہماری زندگی میں اگر پانی کے بعد پینے والی کوئی چیز بہت اہم ہے تو وہ چائے ہی ہے۔ دنیا بھر میں قریباً اڑھائی ارب افراد روزانہ چائے پیتے ہیں۔

چائے کا پودا سب سے پہلا کہاں لگایا گیا، یہ کہنا تو مشکل ہے مگر اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ چین میں 5 ہزار برس پہلے اس کے ذائقے سے تعارف ہوا۔ چائے کی ابتدا کیسے ہوئی؟ اس سے متعلق 2 کہانیاں زیادہ مشہور ہیں اور دونوں کا تعلق چین کے بادشاہ شننونگ سے ہے۔

مزید پڑھیں: ’چائے کی پیالی میں قسمت‘: چیٹ جی پی ٹی اب طلاقیں بھی کروانے لگی!

کہا جاتا ہے کہ ایک مرتبہ اس نے غلطی سے زہر سے بھری ایک جڑی بوٹی کھالی اور اسے جان کے لالے پڑ گئے، اسی وقت ایک پتا ہوا میں اڑتا ہوا شننونگ کے منہ میں چلا گیا۔ بادشاہ نے اس پتے کو چبا لیا اور مرنے سے بچ گیا۔ ایک روایت ہمیں یہ بتاتی ہے کہ ایک دن جنگل میں پانی ابلنے کے دوران چند پتیاں دیگچی میں جا گریں۔ شینونگ نے جب یہ پانی پیا تو اسے نہ صرف ذائقہ پسند آیا بلکہ اس کی تھکن بھی دور ہو گئی۔

اب حقیقت کیا ہے، ہمیں اس سے کیا، ہمیں تو مطلب ہے، صرف اور صرف مزیدار چائے اور اس کے ذائقے سے۔ چائے کا لفظ بھی چینی زبان سے ہی نکلا ہے۔ چائے کی پیداوار برصغیر میں کیسے ممکن ہوئی، یہ کہانی کسی خطرناک مہم سے کم نہیں، چائے کی پیداوار چین کا قومی راز تھی اور اس کی حفاظت چینیوں کی زندگی سے زیادہ اہم تھی۔ برصغیر میں انگریزوں کے دور حکمرانی میں ایسٹ انڈیا کمپنی کو چین سے چائے کی پتی مہنگے داموں خریدنا پڑتی تھی، چائے کا پودا کیسے اگتا ہے اور اس سے چائے کیسے حاصل ہوتی ہے، انگریز اس راز سے پردہ اٹھانے کے لیے برسوں سے بے تاب تھے۔

ایسٹ انڈیا کمپنی نے ایک خطرناک منصوبہ بنایا، اپنے ایک جاسوس کو چین بھیجا۔ رابرٹ فارچیون نے اس مقصد کے لیے چینی تاجر جیسا روپ دھارا اور فوجیان صوبے کے پہاڑوں کا رخ کیا، جہاں کی چائے کا کوئی مقابلہ نہیں تھا۔ رابرٹ فارچیون آخر کار اپنے مقصد میں کامیاب ہوا اور چائے کے پودے، بیج اور چند مزدور بھارتی شہر دارجلنگ اسمگل کرنے میں کامیاب ہو گیا لیکن وہاں جا کر پتا چلا کہ ان پودوں کی تو وہاں پہلے ہی بہتات ہے۔

مزید پڑھیں: اس بار بھارت کے لیے چائے کے ساتھ پٹاخا سموسوں کا بندوبست بھی ہوگا، گلوکار وارث بیگ

لیکن یہ پھر بھی کہنا غلط نہ ہوگا کہ بھارت میں چائے کی صنعت کا آغاز رابرٹ فورچون کی کوششوں سے ہی ہوا اور ان کی سرگرمیوں نے بھارت کو چائے کا عالمی مرکز بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ انگریزوں نے چینیوں کے مقابلے میں چائے کو مختلف انداز میں بنانا شروع کیا، کھولتے پانی میں صرف پتی ڈالنے کے بجائے انہوں نے پہلے چینی اور پھر دودھ ڈالنا شروع کردیا۔

دنیا میں ایشیا اور افریقا چائے کی پیداوار کے لحاظ سے بڑے خطے ہیں، جنوبی امریکا میں بھی کہیں کہیں چائے کی کاشت ہوتی ہے۔ صدیوں بعد بھی چائے کی پیداوار میں چین پہلے نمبر پر ہے، دنیا بھر میں اس کی پیداوار کا حصہ قریباً 40 فیصد ہے، بھارت میں 25 فیصد، کینیا میں 10 اور سری لنکا میں 7 فیصد چائے پیدا ہوتی ہے۔

دنیا بھر میں پیداوار میں تو چین پہلے نمبر پر ہے مگر تجارت کی بات کی جائے تو بھارت سب سے آگے ہے۔ یہاں پیدا ہونے والی 75 فیصد چائے دنیا کے دیگر ممالک کے شہری استعمال کرتے ہیں، صرف 25 فیصد چائے ملک میں استعمال ہوتی ہے۔

پہلے پہل چائے عموماً دوا کے طور پر استعمال ہوتی تھی، پھر وقت کے ساتھ ساتھ یہ ہماری زندگی کا اہم حصہ بن گئی اور اب تو چائے کی ایسی اقسام بھی ملتی ہیں کہ ان کے نام ہی حیران کردیتے ہیں۔ جیسے تندوری چائے، مٹکا چائے یا پھر چینکی چائے۔ اس کے علاوہ مسالہ چائے، آم، ادرک اور ہلدی کی چائے، پودینے کی چائے یا پھر مسالے دار گلاب والی چائے بھی چائے کے چاہنے والوں کی پسند ہے۔ چائے کے نام سے کئی ہوٹل بھی سب کی توجہ کھینچتے ہیں جیسے چائے خانہ اور چائے محفل وغیرہ۔

مزید پڑھیں: ’آؤ تمہیں چائے پلاتا ہوں شیکھر‘، شاہد آفریدی نے شیکھر دھون کو مزید کیا کہا؟

چائے کا ذکر ہو تو ارشد خان کا بھی ذکر کرلیتے ہیں۔ صرف ایک تصویر نے ان کی زندگی ہی بدل دی، 2018 میں اسلام آباد کے اتوار بازار میں کھینچی گئی تصویر راتوں رات سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی۔ اس تصویر نے اس خوبصورت نوجوان کے لیے نہ صرف شوبز انڈسٹری کے دروازے کھولے بلکہ انہوں نے اسلام آباد کے علاوہ لندن میں بھی اپنا کیفے کھولا۔

چائے کا ذکر ہو اور بھارتی فائٹر پائلٹ ابھینندن کا تذکرہ نہ ہو، ایسے بھلا کیسے ہو سکتا ہے۔ 27 فروری 2019 کو پاکستان نے بھارتی جارحیت کو ناکام بنایا، بھارتی پائلٹ ونگ کمانڈر ابھی نندن کو قیدی بنایا اور مزیدار چائے پلائی۔ ان کا یہ جملہ ۔۔۔ ٹی از فینٹاسٹک ۔۔۔ آج بھی سب کو یاد ہے۔

چائے کی اہمیت کو اقوام متحدہ نے بھی تسلیم کیا ہے، ہر سال 21 مئی کو دنیا بھر میں اس مقبول ترین مشروف کا دن منایا جاتا ہے۔ 2020 میں لندن کے ایک ریسٹورنٹ میں ’بیماری میں مبتلا‘ سابق وزیراعظم نواز شریف کی اپنے خاندان کے دیگر اراکین کے ساتھ چائے پینے کی ایک تصویر سوشل میڈیا پر وائرل بھی ہوئی۔

چائے کا شوق کبھی کبھی صرف مشکل نہیں بہت زیادہ مشکل میں ڈال دیتا ہے۔ آج سے 20 برس قبل آندھرا پردیش سے تعلق رکھنے والے اپاراؤ ٹرین کے سفر کے دوران چائے پینے کے لیے اترے۔ ان کے واپس آنے سے پہلے ہی ٹرین روانہ ہوچکی تھی، وہ کسی طرح تعلقہ کالیا کوئل پہنچے اور پھر اپنے علاقے نہ جا سکے اور وہ بغیر کسی اجرت 2 دہائیاں بکریاں چراتے رہے۔ انہیں بیس برس بعد آزادی ملی۔

مزید پڑھیں: واٹس ایپ صارفین کے لیے اچھی خبر، نیا مزیدار فیچر متعارف

چائے نے امریکی شہروں کو برطانوی سامراج سے آزادی کے حصول میں بھی مدد دی، کہانی کچھ یوں ہے کہ 1773 میں امریکی شہر بوسٹن کے شہریوں نے برطانوی سامراج کے نو آبادیاتی دور کے خلاف آواز بلند کی، چائے سے بھرے 300 ڈبے بندرگاہ سے پانی میں پھینک دیے۔ بوسٹن ٹی پارٹی بھی وجود میں آئی۔

اب ماضی کی کھڑکیاں کھولتے ہیں اور پاک ٹی ہاؤس کی سیر کرتے ہیں، یہ ادیبوں کا دوسرا گھر سمجھا تھا، یہاں ادبی محفلیں جمتی تھیں، اس کا ذکر کرتے ہی منٹو، فیض، ساحر لدھیانوی، ، احمد ندیم قاسمی، ناصر کاظمی، اشفاق احمد اور انتظار حسین سمیت کئی شخصیات کے چہرے سامنے آ جاتے ہیں ۔

اب بات ہو جائے، مزیدار چائے کے کچھ فوائد اور نقصانات کی۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ چائے میں موجود اینٹی آکسیڈنٹس تناؤ کا مقابلہ کرنے، کینسر، دل کی بیماری اور ذیابیطس جیسی بیماریوں کے خطرے کو کم کرنے میں مدد کرتے ہیں۔ ادرک سے بنی چائے ہاضمے میں مدد دیتی ہے۔ یہ مزیدار مشروب پینے سے وزن بھی کم ہوسکتا ہے۔ قوت مدافعت بہتر ہوتی ہے۔ جلد کی صحت کے لیے بھی مفید ہے۔

ماہرین کے مطابق، 3 سے 4 کپ روزانہ چائے پینا بیشتر افراد کے لیے محفوظ ہوتا ہے مگر زیادہ چائے پینے سے نقصان بھی ہوسکتا ہے، بے چینی بڑھ سکتی ہے، نیند کے مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ متلی یا پیٹ درد بھی ہوسکتا ہے۔ چائے میں موجود کیفین سے سینے میں جلن کی شکایت کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ایسا بہت کم افراد کو ہوتا ہے مگر بہت زیادہ چائے پینے سے سر چکرا سکتا ہے۔

مزید پڑھیں: چراغ تلے اجالا

کئی شعرا کرام نے بھی اپنے خوبصورت الفاظ میں چائے سے اپنی محبت کا اظہار کیا ہے۔ بشیر بدر کے اچھوتے خیال سے واقفیت حاصل کریں:
چائے کی پیالی میں نیلی ٹیبلٹ گھولی
سہمے سہمے ہاتھوں نے اک کتاب پھر کھولی

آسام کی خصوصیات کیا ہیں، منور رانا نے انہیں الفاظ کا پیراہنِ کچھ یوں پہنایا ہے:
شعر جیسا بھی ہو اس شہر میں پڑھ سکتے ہو
چائے جیسی بھی ہو آسام میں بک جاتی ہے

اور آخر میں یہ شعر سنیے:
اگر تلاش کروں تو شاید مل ہی جائے
نہیں چاہ کسی چیز کی، چاہیے صرف چائے

اور اگر آپ کا انور مسعود صاحب کی نظم ۔۔۔ لَسّی تے چاء ۔۔۔ سے تعارف نہیں تو ہمارے مشورے پر ضرور پڑھیے یا سنیے، یقیناً محظوظ ہوں گے۔ چائے سے محبت کرنے والوں نے اس سے اپنی الفت کا اظہار کچھ یوں کیا ہے۔

چائے زندگی کا وہ خوشگوار لمحہ ہے، جس میں تھوڑی سی چینی، ایک لمحہ سکون، اور دل کی باتوں کا گزرنا ضروری ہے۔ چائے زندگی کا وہ خوبصورت لمحہ ہے جب ہر گھونٹ میں دن کی تھکن اور پریشانیاں مٹ جاتی ہیں۔جب زندگی کا مزہ کم ہو، بس ایک کپ چائے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ دنیا دوبارہ رنگین لگے۔

مزید پڑھیں: محبت کا آخری عجوبہ

اور چائے کو ماننے والے یہ بھی تو مانتے ہیں کہ چائے زندہ دلی کا نام ہے، یہ زندگی کی نشانی ہے، یہ دلوں کو بھی ملاتی ہے۔ اس مزیدار چیز سے اردو زبان کے چند محاوے بھی بنے ہیں، جیسے
چائے پانی کی خبر لینا۔ مطلب خاطر مدارت کرنا یا آؤ بھگت کرنا

گینز ورلڈ ریکارڈ میں بھی چائے کا ذکر ملتا ہے، کم سے کم وقت میں چائے کا ایک کپ پینے کا ریکارڈ جرمن شہری کے نام ہے۔ انہوں نے یکم جولائی 2023 کو صرف 2 منٹ 13 سیکنڈز میں چائے کا کپ پیا۔

چائے ہے تو مزیدار مگر یہ بہت مرتبہ جھگڑے کی وجہ بھی بنی، یہ ہی نہیں، بلکہ وقت پر نہ ملنے پر غصے میں آ کر قتل تک ہو چکے ہیں۔ کوئی کچھ بھی کہے، یہ تو حقیقت ہے کہ چائے موجودہ دور کی ایک اہم ضرورت بن چکی ہے اور کئی افراد اس کے بغیر رہ نہیں سکتے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

احمد کاشف سعید

احمد کاشف سعید گزشتہ 2 دہائیوں سے شعبہ صحافت سے منسلک ہیں۔ ریڈیو پاکستان اور ایک نیوز ایجنسی سے ہوتے ہوئے الیکٹرانک میڈیا کا رخ کیا اور آجکل بھی ایک نیوز چینل سے وابستہ ہیں۔ معاشرتی مسائل، شوبز اور کھیل کے موضوعات پر باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔

احمد کاشف سعید برطانیہ ٹی از فینٹاسٹک چائے چائے کی کہانی چین.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: احمد کاشف سعید برطانیہ ٹی از فینٹاسٹک چائے چائے کی کہانی چین

پڑھیں:

انسان بیج ہوتے ہیں

بڑے لڑکے کا نام ستمش تھا اور چھوٹا جیتو کہلاتا تھا‘ یہ دونوں بھارت کی بڑی آٹو موبائل کمپنی مہندرا اینڈ مہندرا میں ملازم تھے‘ یہ کمپنی 1945 میں ممبئی کے تاجر جگدیش مہندرا اور مشہور سول سرونٹ غلام محمد نے بنائی تھی اور اس کا نام شروع میں مہندرا اینڈ محمد تھا‘ ملک غلام محمد علی گڑھ یونیورسٹی کے گریجوایٹ تھے۔ 

آئی سی ایس کیا اور ریلوے اکاؤنٹس سروس میں شامل ہو گئے‘ ریلوے اس زمانے میں بھارت کی سب سے بڑی آرگنائزیشن تھی‘ اس کا ریونیو انڈیا کے ٹوٹل ریونیو کا اکاون فیصد ہوتا تھا‘ غلام محمد اور جگدیش مہندرا دوست تھے چناں چہ دونوں نے مل کر انڈیا کی پہلی آٹو موبائل کمپنی مہندرا اینڈ محمد بنا لی۔

یہ عرف عام میں ایم اینڈ ایم کہلاتی تھی‘ اس کا مقصد بھارت میں گاڑیاں بنانا تھا‘ 1947میں ہندوستان تقسیم ہو گیا‘ ملک غلام محمد پاکستان آ گئے اور وزیراعظم لیاقت علی خان کی کابینہ میں ملک کے پہلے وزیر خزانہ بن گئے۔ 

پاکستان میں ترقی کا پہلا پانچ سالہ منصوبہ بھی ملک غلام محمد نے بنایا تھا‘ بہرحال یہ 1951 میں لیاقت علی خان کے قتل کے بعد گورنر جنرل بن گئے اور باقی سب تاریخ ہے‘ ملک غلام محمد کے پاکستان آنے کے بعد جگدیش مہندرا نے اپنے بھائی کیلاش مہندرا کوساتھ شامل کر لیا اور یوں مہندرا اینڈ محمدتبدیل ہو کر مہندرا اینڈ مہندرا ہو گئی۔ 

یہ کمپنی اب گروپ آف کمپنیز ہے اور انڈیا کی ٹاپ کمپنیوں میں شامل ہے‘ ان کی ایم اینڈ ایم جیپ (ایس یو وی) بھارت میں بہت مشہور ہے‘ مہندرا ٹریکٹر دنیا میں سب سے زیادہ ٹریکٹر بنانے والی کمپنی ہے‘ 2024 میں اس نے 19 بلین ڈالر کا کاروبار کیا۔ 

اس کا ہیڈکوارٹر ممبئی میں ہے‘ آنند مہندرا اس وقت اس کے چیئرمین اور انش شاہ سی ای او ہیں‘ یہ آج بھی ملک میں لگژری ایس یو وی‘ کمرشل گاڑیاں‘ ٹریکٹر اور موٹر سائیکل بنانے والا سب سے بڑا برینڈ ہے۔

میں ستمش اور جیتو کی طرف واپس آتا ہوں‘ یہ دونوں چیئرمین آنند مہندرا کے آفس میں ٹی بوائے تھے‘ یہ چیئرمین اور اس کے مہمانوں کو چائے پیش کرتے تھے‘ دونوں صاف ستھرے اور ڈسپلنڈ تھے‘ چھٹی نہیں کرتے تھے‘ ذاتی‘ برتنوں اور ٹرے کی صفائی کا خاص خیال رکھتے تھے۔ 

چیئرمین اور ان کے مہمانوں کے مزاج بھی سمجھتے تھے‘ ان لوگوں کو کس وقت کیا چاہیے یہ جانتے تھے‘ آنند ان سے بہت خوش تھا‘ ایک دن اس نے چلتے چلتے ان سے پوچھ لیا ’’تمہاری تعلیم کتنی ہے؟‘‘ دونوں ایف اے پاس تھے‘ آنند مہندرا نے ان سے تعلیم جاری نہ رکھنے کی وجہ پوچھی تو دونوں کا جواب تھا ’’غربت‘‘ یہ سن کر آنند کے ذہن میں ایک عجیب آئیڈیا آیا۔ 

اس نے ممبئی کے بڑے بزنس اسکول کے پرنسپل کو بلایا اور اسے کہا‘ تم اور میں دونوں مل کر ایک تجربہ کرتے ہیں‘ میرے پاس دو ٹی بوائے ہیں‘ دونوں کی تعلیم واجبی ہے اور یہ پانچ ہزار روپے ماہانہ کے ملازم ہیں‘ تم ان دونوں لڑکوں کو کالج میں داخلہ دے دو‘ یہ میرٹ پر نہیں ہیں‘ یہ عام حالات میں کالج میں داخل نہیں ہو سکتے لیکن اگر تم ان کے داخلے کو پروجیکٹ ڈکلیئر کر دو تو یہ ممکن ہے‘ ہم یہ دیکھتے ہیں کیا اس تجربے سے عام سے لڑکے زندگی میں آگے بڑھ سکتے ہیں۔

پرنسپل کے پاس انکار کی گنجائش نہیں تھی کیوں کہ مہندرا گروپ کالج کا ڈونر تھا اور آنند بورڈ آف گورنرز کا حصہ چناں چہ اس نے ہاں کر دی‘ آنند نے اگلے دن ستمش اور جیتو کو کالج بھجوا دیا‘ کمپنی نے دونوں کی تنخواہ کو لون ڈکلیئر کر دیا اور کالج نے پروجیکٹ کی وجہ سے ان کی فیس معاف کر دی۔ 

پرنسپل نے ان دونوں کو ایم بی اے کے 14 طالب علموں کے حوالے کر دیا‘ یہ دونوں ان 14 طالب علموں کا پروجیکٹ تھے‘ ایم بی اے میں 14مضامین اور سکلز تھیں‘ 14 اسٹوڈنٹس نے انھیں 14 مضامین اور سکلز سکھانی تھیں اور ان کے پاس دو سال کا وقت تھا۔ 

بہرحال قصہ مختصر یہ دونوں دو سال کالج جاتے رہے اور 14 طالب علم انھیں پڑھاتے اور سکھاتے رہے‘ میں یہاں آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں یہ دونوں سرکاری اسکول سے پڑھے تھے‘ ان کی تعلیم واجبی تھی اور یہ کمپیوٹر اور انگریزی نہیں جانتے تھے لیکن 14 طالب علموں نے ان پر محنت کی‘ ان دونوں نے بھی دن رات ایک کر دیا اور یوں دو سال بعد جب نتیجہ نکلا تو ٹی بوائز میں سے ایک کلاس میں نویں نمبر پر تھا اور دوسرا گیارہویں نمبر پر گویا دونوں نے اپنے پڑھانے والوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا تھا۔

یہ دونوں ایم بی اے کے بعد کمپنی میں واپس آئے تو آنند مہندرا نے انھیں ایچ آر میں بھجوا دیا‘ ایچ آر نے ان کا سی وی دیکھا‘ ان کی سکل چیک کی اور انھیں چھ لاکھ روپے ماہانہ پر ملازم رکھ لیا‘ اس وقت تک کمپنی کے ایک لاکھ بیس ہزار روپے ان کے ذمے تھے۔

ان دونوں نے پہلی تنخواہ پر یہ رقم کٹوائی اور یہ ٹی بوائے سے کمپنی میں بوائے بن گئے‘ یہ دو سال پہلے تک آنند مہندرا کو چائے پلاتے تھے اور یہ اب ان کے ساتھ چائے پیتے تھے‘ دو سال کے اس چھوٹے سے تجربے نے صرف دو لڑکوں کی زندگی نہیں بدلی اس نے دو خاندانوں کا مقدر بھی بدل دیا۔

یہ دونوں آج بھی مہندرا اینڈ مہندرا میں کام کرتے ہیں‘ ان کی تنخواہیں دس دس لاکھ سے زیادہ ہیں اور مراعات اس کے علاوہ ہیں‘ یہ اب خود بھی اپنے جیسے لڑکوں کو تعلیم کے لیے فنانس کرتے ہیں۔ 

مہندرا اینڈ مہندرا کی دیکھا دیکھی بھارت کی دوسری کمپنیوں نے بھی یہ پروجیکٹ شروع کر دیا‘ یہ بھی اپنے اداروں میں ٹیلنٹڈ لڑکوں کو لیتے ہیں‘ انھیں اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخل کراتے ہیں اور پھر انھیں بہتر پوزیشن پر دوبارہ ملازم رکھ لیتے ہیں‘ اس سے کمپنیوں کی گروتھ میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اور سیکڑوں خاندانوں کا مقدر بھی بدل رہا ہے۔ 

اب سوال یہ ہے یہ کام ہم کیوں نہیں کرتے؟ ہمارے دائیں بائیں سیکڑوں ہزاروں ایسے نوجوان ہیں جو غربت کی وجہ سے تعلیم چھوڑ کر محنت مزدوری کر رہے ہیں‘ ہم اگر ان پر ذرا سی توجہ دے دیں تو یہ بچے کمال کر سکتے ہیں مگر شاید ہمارے پاس وقت نہیں ہے یا پھر ہم یہ کرنا نہیں چاہتے۔

مجھے چند برس قبل انگریزی زبان کے ایک صحافی نے اپنی داستان سنائی ‘ یہ میٹرک کے بعد قصائی کی دکان پر ملازم ہو گئے تھے‘ یہ روزانہ گوشت کاٹتے تھے‘ ان کی دکان پر اکثر ایک عیسائی لڑکا گوشت خریدنے آتا تھا‘ وہ کسی ایمبیسی میں ملازم تھا‘ اس کی ان کے ساتھ گپ شپ شروع ہو گئی۔ 

اس لڑکے نے محسوس کیا ان میں ٹیلنٹ ہے اور یہ قصائی سے بہتر کام کر سکتے ہیں‘ لڑکے کی منگیتر بھی ایمبیسی میں کام کرتی تھی‘ لڑکے نے منگیتر کو ان کے ساتھ متعارف کرا دیااور لڑکی نے انھیں انگریزی پڑھانا شروع کر دی۔ 

وہ ایمبیسی کے میڈیا ڈیپارٹمنٹ میں کام کرتی تھی‘ وہ اپنے ساتھ انگریزی کے اخبارات اور رسائل لے آتی تھی‘ ان کے مختلف فقرے اور الفاظ انڈر لائین کر دیتی تھی اور یہ سارا دن گوشت کاٹتے ہوئے یہ الفاظ اور فقرے دہراتے رہتے تھے‘ یہ چھٹی کے بعد انھیں لکھتے بھی رہتے تھے۔ 

اس زمانے میں ٹائپ رائیٹر ہوتا تھا‘ لڑکی کے زور دینے پر انھوں نے شام کے وقت ٹائپنگ کلاس میں داخلہ لے لیا اور سیکھنا شروع کر دی‘ اس نے بھی ان کی گروتھ میں اہم کردار ادا کیا‘ ان دنوں اسلام آباد میں مسلم اخبار نکلا۔ 

اسے انگریزی میں ٹائپ کرنے والے چاہیے تھے‘ لڑکی نے سفارش کی اور مسلم اخبار نے انھیں بطور ٹائپسٹ بھرتی کر لیا‘ یہ اب قصائی سے اپنے وقت کے مشہور اخبار میں ٹائپسٹ بن گئے‘ انھیں محنت کرنے کی عادت ہو چکی تھی اور اخبار میں اس زمانے میں مشاہد حسین سید جیسے لوگ موجود تھے‘ یہ ان سے سیکھنے لگے۔ 

یہ اب صرف ٹائپنگ نہیں کرتے تھے بلکہ ڈائریاں بھی لکھتے تھے اور رپورٹرز کے کہنے پر ان کے نوٹس دیکھ کر خبر بھی بنا دیتے تھے‘ سال بعد رپورٹنگ سیکشن میں جونیئر رپورٹر کی پوسٹ خالی ہوئی‘ اخبار کے پاس زیادہ بجٹ نہیں تھا۔ 

انھیں پتا چلا تو یہ ایڈیٹر کے پاس چلے گئے‘ ایڈیٹر نے ایک شرط رکھ دی‘ ہم تمہیں تنخواہ ٹائپسٹ ہی کی دیں گے‘ انھوں نے یہ آفر قبول کر لی اور یوں آگے سے آگے بڑھتے چلے گئے‘ ان کی اس گروتھ سے قبل وہ دونوں میاں بیوی ملک سے باہر چلے گئے تھے لیکن وہ اپنے پیچھے ایک خوب صورت اور پھل دار درخت لگا گئے تھے۔

آپ اب دوسری کہانی بھی سنیے‘ ڈاکٹر غلام جیلانی برق ملک کے مشہور دانشور اور پروفیسر تھے‘ مجھے ان کی کہانی ان کے ایک پرانے ساتھی سے سننے کا اتفاق ہوا‘ یہ کہانی کسی کتاب میں نہیں لکھی تھی‘ ان کے بقول پروفیسر صاحب نے انھیں یہ خود سنائی تھی۔ 

ان کے بقول غلام جیلانی صاحب بچپن میں صرف محمد غلام تھے اور یہ پہاڑی علاقے میں بھیڑ بکریاں چرایا کرتے تھے‘ تعلیم کا ان کی زندگی میں دور دور تک کوئی عمل دخل نہیں تھا لیکن پھر ایک دن کوئی بزرگ آئے‘ یہ اس وقت ویرانے میں بکریاں چرا رہے تھے۔ 

بزرگ نے انھیں درخت کے نیچے بٹھایا‘ درخت کی ٹہنی لی‘ زمین پر الف لکھا اور منہ سے الف کی آواز نکال کر کہا‘ بیٹا اسے الف کہتے ہیں‘ پھر ب لکھا اور بتایا اسے ب کہتے ہیں‘ پروفیسر صاحب کے بقول وہ بزرگ کئی دنوں تک آتے رہے اور مجھے حروف تہجی سکھاتے رہے‘ میں جب زمین پر حرف بنانا سیکھ گیا تو وہ واپس نہیں آئے لیکن میرے کچے دودھ کو جاگ لگ چکی تھی اور یوں میں زمین پر خشک ٹہنیوں سے حرف بناتے بناتے یہاں تک پہنچ گیا۔

آپ یقین کریں ہمارے دائیں بائیں ایسے ہزاروں پروفیسر غلام جیلانی برق‘ جیتو اور ستمش جیسے لوگ موجود ہیں‘ انھیں صرف ہماری ایک نظر چاہیے جس دن یہ نظر پڑ جائے گی اس دن یہ بھی بدل جائیں گے اور ہم بھی‘ آپ یہ بھی یاد رکھیں انسان بیج ہوتے ہیں‘ انھیں اگر اچھی زمین اور پانی مل جائے تو یہ کمال کر دیتے ہیں‘ یقین نہ آئے تو تجربہ کر کے دیکھ لیں۔

متعلقہ مضامین

  • توجہ کا اندھا پن
  • ہاتھ نہ ملاؤ فیلڈ میں ہراؤ
  • فرانسس بیکن،آف ٹروتھ
  • اداریے کے بغیر اخبار؟
  • ایچ پی وی ویکسین: پاکستانی معاشرے میں ضرورت
  • انسان بیج ہوتے ہیں
  • لازوال عشق
  • جب ’شاہی شہر‘ ڈوب رہا تھا !
  • انقلاب – مشن نور
  • فیس لیس اسیسمنٹ کی وجہ سے ریونیو میں اضافہ ہوا: ایف بی آر