WE News:
2025-11-05@02:51:18 GMT

چائے کی چاہ، واہ بھئی واہ

اشاعت کی تاریخ: 14th, May 2025 GMT

چائے کی چاہ، واہ بھئی واہ

 چائے ۔۔۔ پیتے ہی اک سکون آئے ۔۔۔ دل و دماغ پر چھا جائے۔ کئی افراد کی صبح تو اس کے بغیر شروع ہی نہیں ہوتی۔ واہ ۔ واہ ۔ پہلی چسکی لیتے ہی، بے ساختہ یہ ہی الفاظ نکلیں اور بار بار نکلیں مگر شرط یہ ہے کہ اسے دل سے بنایا جائے۔

اکثر افراد کی صبح اخبار اور چائے کے بغیر نہیں ہوتی، تلخ خبروں کی تلخی ختم کرنے کے لیے چائے کی مٹھاس ویسے بھی ضروری ہے۔ یہ دودھ لسی کی طرح گوری نہیں مگر پھر بھی اس میں ایک جادو ہے، جسے اس کا ذائقہ بھا جائے تو پھر اس کے بغیر رہنا ناممکن ہے۔

کئی افراد کے نزدیک تو اس کا ایک ایک گھونٹ، تھکن مٹاتا ہے، اسی لیے تو ایک عالم اس پر فدا ہے۔ یہ بھی تو کہا جاتا ہے کہ ہماری زندگی میں اگر پانی کے بعد پینے والی کوئی چیز بہت اہم ہے تو وہ چائے ہی ہے۔ دنیا بھر میں قریباً اڑھائی ارب افراد روزانہ چائے پیتے ہیں۔

چائے کا پودا سب سے پہلا کہاں لگایا گیا، یہ کہنا تو مشکل ہے مگر اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ چین میں 5 ہزار برس پہلے اس کے ذائقے سے تعارف ہوا۔ چائے کی ابتدا کیسے ہوئی؟ اس سے متعلق 2 کہانیاں زیادہ مشہور ہیں اور دونوں کا تعلق چین کے بادشاہ شننونگ سے ہے۔

مزید پڑھیں: ’چائے کی پیالی میں قسمت‘: چیٹ جی پی ٹی اب طلاقیں بھی کروانے لگی!

کہا جاتا ہے کہ ایک مرتبہ اس نے غلطی سے زہر سے بھری ایک جڑی بوٹی کھالی اور اسے جان کے لالے پڑ گئے، اسی وقت ایک پتا ہوا میں اڑتا ہوا شننونگ کے منہ میں چلا گیا۔ بادشاہ نے اس پتے کو چبا لیا اور مرنے سے بچ گیا۔ ایک روایت ہمیں یہ بتاتی ہے کہ ایک دن جنگل میں پانی ابلنے کے دوران چند پتیاں دیگچی میں جا گریں۔ شینونگ نے جب یہ پانی پیا تو اسے نہ صرف ذائقہ پسند آیا بلکہ اس کی تھکن بھی دور ہو گئی۔

اب حقیقت کیا ہے، ہمیں اس سے کیا، ہمیں تو مطلب ہے، صرف اور صرف مزیدار چائے اور اس کے ذائقے سے۔ چائے کا لفظ بھی چینی زبان سے ہی نکلا ہے۔ چائے کی پیداوار برصغیر میں کیسے ممکن ہوئی، یہ کہانی کسی خطرناک مہم سے کم نہیں، چائے کی پیداوار چین کا قومی راز تھی اور اس کی حفاظت چینیوں کی زندگی سے زیادہ اہم تھی۔ برصغیر میں انگریزوں کے دور حکمرانی میں ایسٹ انڈیا کمپنی کو چین سے چائے کی پتی مہنگے داموں خریدنا پڑتی تھی، چائے کا پودا کیسے اگتا ہے اور اس سے چائے کیسے حاصل ہوتی ہے، انگریز اس راز سے پردہ اٹھانے کے لیے برسوں سے بے تاب تھے۔

ایسٹ انڈیا کمپنی نے ایک خطرناک منصوبہ بنایا، اپنے ایک جاسوس کو چین بھیجا۔ رابرٹ فارچیون نے اس مقصد کے لیے چینی تاجر جیسا روپ دھارا اور فوجیان صوبے کے پہاڑوں کا رخ کیا، جہاں کی چائے کا کوئی مقابلہ نہیں تھا۔ رابرٹ فارچیون آخر کار اپنے مقصد میں کامیاب ہوا اور چائے کے پودے، بیج اور چند مزدور بھارتی شہر دارجلنگ اسمگل کرنے میں کامیاب ہو گیا لیکن وہاں جا کر پتا چلا کہ ان پودوں کی تو وہاں پہلے ہی بہتات ہے۔

مزید پڑھیں: اس بار بھارت کے لیے چائے کے ساتھ پٹاخا سموسوں کا بندوبست بھی ہوگا، گلوکار وارث بیگ

لیکن یہ پھر بھی کہنا غلط نہ ہوگا کہ بھارت میں چائے کی صنعت کا آغاز رابرٹ فورچون کی کوششوں سے ہی ہوا اور ان کی سرگرمیوں نے بھارت کو چائے کا عالمی مرکز بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ انگریزوں نے چینیوں کے مقابلے میں چائے کو مختلف انداز میں بنانا شروع کیا، کھولتے پانی میں صرف پتی ڈالنے کے بجائے انہوں نے پہلے چینی اور پھر دودھ ڈالنا شروع کردیا۔

دنیا میں ایشیا اور افریقا چائے کی پیداوار کے لحاظ سے بڑے خطے ہیں، جنوبی امریکا میں بھی کہیں کہیں چائے کی کاشت ہوتی ہے۔ صدیوں بعد بھی چائے کی پیداوار میں چین پہلے نمبر پر ہے، دنیا بھر میں اس کی پیداوار کا حصہ قریباً 40 فیصد ہے، بھارت میں 25 فیصد، کینیا میں 10 اور سری لنکا میں 7 فیصد چائے پیدا ہوتی ہے۔

دنیا بھر میں پیداوار میں تو چین پہلے نمبر پر ہے مگر تجارت کی بات کی جائے تو بھارت سب سے آگے ہے۔ یہاں پیدا ہونے والی 75 فیصد چائے دنیا کے دیگر ممالک کے شہری استعمال کرتے ہیں، صرف 25 فیصد چائے ملک میں استعمال ہوتی ہے۔

پہلے پہل چائے عموماً دوا کے طور پر استعمال ہوتی تھی، پھر وقت کے ساتھ ساتھ یہ ہماری زندگی کا اہم حصہ بن گئی اور اب تو چائے کی ایسی اقسام بھی ملتی ہیں کہ ان کے نام ہی حیران کردیتے ہیں۔ جیسے تندوری چائے، مٹکا چائے یا پھر چینکی چائے۔ اس کے علاوہ مسالہ چائے، آم، ادرک اور ہلدی کی چائے، پودینے کی چائے یا پھر مسالے دار گلاب والی چائے بھی چائے کے چاہنے والوں کی پسند ہے۔ چائے کے نام سے کئی ہوٹل بھی سب کی توجہ کھینچتے ہیں جیسے چائے خانہ اور چائے محفل وغیرہ۔

مزید پڑھیں: ’آؤ تمہیں چائے پلاتا ہوں شیکھر‘، شاہد آفریدی نے شیکھر دھون کو مزید کیا کہا؟

چائے کا ذکر ہو تو ارشد خان کا بھی ذکر کرلیتے ہیں۔ صرف ایک تصویر نے ان کی زندگی ہی بدل دی، 2018 میں اسلام آباد کے اتوار بازار میں کھینچی گئی تصویر راتوں رات سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی۔ اس تصویر نے اس خوبصورت نوجوان کے لیے نہ صرف شوبز انڈسٹری کے دروازے کھولے بلکہ انہوں نے اسلام آباد کے علاوہ لندن میں بھی اپنا کیفے کھولا۔

چائے کا ذکر ہو اور بھارتی فائٹر پائلٹ ابھینندن کا تذکرہ نہ ہو، ایسے بھلا کیسے ہو سکتا ہے۔ 27 فروری 2019 کو پاکستان نے بھارتی جارحیت کو ناکام بنایا، بھارتی پائلٹ ونگ کمانڈر ابھی نندن کو قیدی بنایا اور مزیدار چائے پلائی۔ ان کا یہ جملہ ۔۔۔ ٹی از فینٹاسٹک ۔۔۔ آج بھی سب کو یاد ہے۔

چائے کی اہمیت کو اقوام متحدہ نے بھی تسلیم کیا ہے، ہر سال 21 مئی کو دنیا بھر میں اس مقبول ترین مشروف کا دن منایا جاتا ہے۔ 2020 میں لندن کے ایک ریسٹورنٹ میں ’بیماری میں مبتلا‘ سابق وزیراعظم نواز شریف کی اپنے خاندان کے دیگر اراکین کے ساتھ چائے پینے کی ایک تصویر سوشل میڈیا پر وائرل بھی ہوئی۔

چائے کا شوق کبھی کبھی صرف مشکل نہیں بہت زیادہ مشکل میں ڈال دیتا ہے۔ آج سے 20 برس قبل آندھرا پردیش سے تعلق رکھنے والے اپاراؤ ٹرین کے سفر کے دوران چائے پینے کے لیے اترے۔ ان کے واپس آنے سے پہلے ہی ٹرین روانہ ہوچکی تھی، وہ کسی طرح تعلقہ کالیا کوئل پہنچے اور پھر اپنے علاقے نہ جا سکے اور وہ بغیر کسی اجرت 2 دہائیاں بکریاں چراتے رہے۔ انہیں بیس برس بعد آزادی ملی۔

مزید پڑھیں: واٹس ایپ صارفین کے لیے اچھی خبر، نیا مزیدار فیچر متعارف

چائے نے امریکی شہروں کو برطانوی سامراج سے آزادی کے حصول میں بھی مدد دی، کہانی کچھ یوں ہے کہ 1773 میں امریکی شہر بوسٹن کے شہریوں نے برطانوی سامراج کے نو آبادیاتی دور کے خلاف آواز بلند کی، چائے سے بھرے 300 ڈبے بندرگاہ سے پانی میں پھینک دیے۔ بوسٹن ٹی پارٹی بھی وجود میں آئی۔

اب ماضی کی کھڑکیاں کھولتے ہیں اور پاک ٹی ہاؤس کی سیر کرتے ہیں، یہ ادیبوں کا دوسرا گھر سمجھا تھا، یہاں ادبی محفلیں جمتی تھیں، اس کا ذکر کرتے ہی منٹو، فیض، ساحر لدھیانوی، ، احمد ندیم قاسمی، ناصر کاظمی، اشفاق احمد اور انتظار حسین سمیت کئی شخصیات کے چہرے سامنے آ جاتے ہیں ۔

اب بات ہو جائے، مزیدار چائے کے کچھ فوائد اور نقصانات کی۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ چائے میں موجود اینٹی آکسیڈنٹس تناؤ کا مقابلہ کرنے، کینسر، دل کی بیماری اور ذیابیطس جیسی بیماریوں کے خطرے کو کم کرنے میں مدد کرتے ہیں۔ ادرک سے بنی چائے ہاضمے میں مدد دیتی ہے۔ یہ مزیدار مشروب پینے سے وزن بھی کم ہوسکتا ہے۔ قوت مدافعت بہتر ہوتی ہے۔ جلد کی صحت کے لیے بھی مفید ہے۔

ماہرین کے مطابق، 3 سے 4 کپ روزانہ چائے پینا بیشتر افراد کے لیے محفوظ ہوتا ہے مگر زیادہ چائے پینے سے نقصان بھی ہوسکتا ہے، بے چینی بڑھ سکتی ہے، نیند کے مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ متلی یا پیٹ درد بھی ہوسکتا ہے۔ چائے میں موجود کیفین سے سینے میں جلن کی شکایت کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ایسا بہت کم افراد کو ہوتا ہے مگر بہت زیادہ چائے پینے سے سر چکرا سکتا ہے۔

مزید پڑھیں: چراغ تلے اجالا

کئی شعرا کرام نے بھی اپنے خوبصورت الفاظ میں چائے سے اپنی محبت کا اظہار کیا ہے۔ بشیر بدر کے اچھوتے خیال سے واقفیت حاصل کریں:
چائے کی پیالی میں نیلی ٹیبلٹ گھولی
سہمے سہمے ہاتھوں نے اک کتاب پھر کھولی

آسام کی خصوصیات کیا ہیں، منور رانا نے انہیں الفاظ کا پیراہنِ کچھ یوں پہنایا ہے:
شعر جیسا بھی ہو اس شہر میں پڑھ سکتے ہو
چائے جیسی بھی ہو آسام میں بک جاتی ہے

اور آخر میں یہ شعر سنیے:
اگر تلاش کروں تو شاید مل ہی جائے
نہیں چاہ کسی چیز کی، چاہیے صرف چائے

اور اگر آپ کا انور مسعود صاحب کی نظم ۔۔۔ لَسّی تے چاء ۔۔۔ سے تعارف نہیں تو ہمارے مشورے پر ضرور پڑھیے یا سنیے، یقیناً محظوظ ہوں گے۔ چائے سے محبت کرنے والوں نے اس سے اپنی الفت کا اظہار کچھ یوں کیا ہے۔

چائے زندگی کا وہ خوشگوار لمحہ ہے، جس میں تھوڑی سی چینی، ایک لمحہ سکون، اور دل کی باتوں کا گزرنا ضروری ہے۔ چائے زندگی کا وہ خوبصورت لمحہ ہے جب ہر گھونٹ میں دن کی تھکن اور پریشانیاں مٹ جاتی ہیں۔جب زندگی کا مزہ کم ہو، بس ایک کپ چائے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ دنیا دوبارہ رنگین لگے۔

مزید پڑھیں: محبت کا آخری عجوبہ

اور چائے کو ماننے والے یہ بھی تو مانتے ہیں کہ چائے زندہ دلی کا نام ہے، یہ زندگی کی نشانی ہے، یہ دلوں کو بھی ملاتی ہے۔ اس مزیدار چیز سے اردو زبان کے چند محاوے بھی بنے ہیں، جیسے
چائے پانی کی خبر لینا۔ مطلب خاطر مدارت کرنا یا آؤ بھگت کرنا

گینز ورلڈ ریکارڈ میں بھی چائے کا ذکر ملتا ہے، کم سے کم وقت میں چائے کا ایک کپ پینے کا ریکارڈ جرمن شہری کے نام ہے۔ انہوں نے یکم جولائی 2023 کو صرف 2 منٹ 13 سیکنڈز میں چائے کا کپ پیا۔

چائے ہے تو مزیدار مگر یہ بہت مرتبہ جھگڑے کی وجہ بھی بنی، یہ ہی نہیں، بلکہ وقت پر نہ ملنے پر غصے میں آ کر قتل تک ہو چکے ہیں۔ کوئی کچھ بھی کہے، یہ تو حقیقت ہے کہ چائے موجودہ دور کی ایک اہم ضرورت بن چکی ہے اور کئی افراد اس کے بغیر رہ نہیں سکتے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

احمد کاشف سعید

احمد کاشف سعید گزشتہ 2 دہائیوں سے شعبہ صحافت سے منسلک ہیں۔ ریڈیو پاکستان اور ایک نیوز ایجنسی سے ہوتے ہوئے الیکٹرانک میڈیا کا رخ کیا اور آجکل بھی ایک نیوز چینل سے وابستہ ہیں۔ معاشرتی مسائل، شوبز اور کھیل کے موضوعات پر باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔

احمد کاشف سعید برطانیہ ٹی از فینٹاسٹک چائے چائے کی کہانی چین.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: احمد کاشف سعید برطانیہ ٹی از فینٹاسٹک چائے چائے کی کہانی چین

پڑھیں:

’’اب تو فرصت ہی نہیں ملتی۔۔۔!‘‘

’’ فرصت ہی نہیں ملتی‘‘ آج کل جیسے دیکھو ، یہی رونا ہے۔ فرصت ہی نہیں، دو گھڑی آرام کی بھی۔ عدیمی الفرصتی کا ایسا بہانہ، کہ نہ ملنے کا شکوہ کیا، تو سننے کو ملا ’’کہ یہاں تو سر کھجانے کی بھی فرصت نہیں اور آپ ملنے کی بات کرتے ہیں۔‘‘ ہمیں تو اب یہ محسوس ہونے لگا ہے گویا یہ سب کا تکیہ کلام ہی بن گیا ہے کہ ہر زبان پر ایک ہی جملہ سننے کو مل رہا ہے کہ ’’ہمیں فرصت ہی نہیں ملتی۔‘‘

ارے بھئی یہ فرصت کس چڑیا کا نام ہے جو آپ کے ہاتھ نہیں آرہی۔کبھی تو یہ ہر گھرمیں بڑے آرام سے اڑتی، چہچہاتی نظر آتی تھی لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیا¡ سادگی نے دامن چھوڑا، تکلفات نے جگہ لی، بناوٹ و تصنع نے گھر کیا۔ اسٹیٹس کی ایسی دوڑ شروع ہوئی کہ خوب سے خوب تر کی تلاش میں دن کا چین گیا، راتوں کی نیندیں حرام ہوئیں۔ ایک ہی دھن سوار ہے کہ فلاں کے پاس وہ سب کچھ، میرے پاس نہیں۔ بس اسی غم میں دن رات کُڑھتے ہوئے ایسے گَھن چکر بنے کہ کولہو کے بیل بنے ہوئے نہ ہی بچوں کے لیے وقت، نہ ہی اپنے سے ملاقات کا سمے۔ وہ ملاقات جو ہماری ذات کا سُکھ چین کا باعث تھی۔

آسائشوں کی لمبی دوڑ اور کچھ پانے نہیں، بلکہ سب کچھ پانے کی ہوِس نے ہم سے زندگی کا حُسن ہی چھین لیا۔ خود اپنی ہی ذات سے بے گانہ کر کے وہ خوشیاں ہی چھین لی ہیں، جو زندگی کا محور و مرکز تھیں۔ لمبی عمروں کا باعث تھیں۔ نہ وہ بے ساختہ قہقہے و محفلیں رہیں۔ نہ بیتی باتوں کی وہ پھلجڑیاں، جو وقت بے وقت گزرے زمانوں کو یاد کر کے، کہ کیسے ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہوتے ہوئے کتنے بیتے زمانے تصور ہی تصور میں ہمیں اپنی آغوش میں لے لیتے ہیں۔ نہ ہی وہ فرصت کے لمحات رہے جب ایک دوسرے کا دکھ سکھ بانٹتے ہوئے خود کو فکروں سے آزاد کرلیتے تھے۔ ذہنی پریشانیوں کے جال میں الجھنے کے بہ جائے۔ انھیں مل کر سلجھاتے ہوئے اون کے ان پریشانیوں کے بکھیڑوں کو آسانی سے لپیٹ لیتے تھے۔ مل بیٹھنا ہی اس کا سب سے بڑا حل تھا۔ اپنوں کی سنگت میں، سادگی سے گزرے لمحے کیا کچھ یاد دلاتے ہیں۔ کہاں تو یہ عالم کوئی آگیا سو بسمہ اﷲ دلوں کی طرح دسترخواں بھی کھلا، جو بھی گھر میں بنا، چاہے دال روٹی یا چٹنی روٹی آنے والا اس میں خوشی خوشی شریک ہوگیا۔ اﷲ اﷲ خیر صلا۔ نہ کوئی شکایت، نہ بناوٹ، نہ آنے والا پریشان کہ معاف کیجیے بنا بتائے، یا بے وقت آگیا اور نہ میزبان کے ماتھے پر کوئی شکن، نہ بھاگم بھاگ پیزا، چکن بروسٹ لانے کا جھنجھٹ۔ کیسی سادگی تھی، نہ آنے والا نہ کھلانے والا تذبذب کا شکار کہ تھوڑے سے وقت میں مہمان کی خاطر داری کیسے کریں۔ مزے سے گپ شپ لگائی، ایک دوسرے کا حال احوال پوچھتے ہوئے۔ ایک دوسرے کو پیار اور خلوص بانٹتے ہوئے ایسے رخصت ہوئے کہ وہی لمحے یاد گار بن کر زندگی کو بڑھا دیتے اور اب حال یہ ہے کوئی بے وقت آگیا تو فوری بچھا ہوا دسترخوان لپیٹ ، میاں کو بازار کی دوڑ لگوائی، چکن رول سے لے کر آئس کریم تک کہ سب کچھ لے کر آئیے۔ انھوں نے ہمارے جانے پر کیسے میز بھری تھی۔ کوئی کمی نہ رہ جائے، ناک ہی نہ کٹ جائے، اور بیگم گپ شپ کے بہ جائے۔ آپ ذرا بیٹھیے، میں ابھی آئی کہتے ہوئے یوں باورچی خانے بھاگیں کہ رہے سہے لوازمات، وہ کباب، سموسے بھی لگے ہاتھوں تل لیں کہ دسترخوان خالی نہ رہ جائے اور یوں جو دو گھڑی ملنے کے میسر بھی آئے وہ بھی ہم نے تکلفات کی بھاگ دوڑ میں اور مہمان داری میں گنوادیے۔ اوپر سے یہ شکایت، اف ڈھنگ سے بات بھی نہ ہو سکی۔ بتاکر آتے تو کم از کم آرام سے سب بندوبست ہو جاتا۔

گزرے زمانوں و فی زمانہ یہی تو فرق ہے، جو ہمیں مار گیا ہے۔ یہ نام نہاد کے ڈھکوسلے اور خواہ مخواہ کے دکھاوے نے ہماری زندگی ہی اجیرن کر دی ہے۔ قصور سارا اپنا کہ بے جا لوازمات میں خود کو ایسا الجھایا ہے کہ ان سے نکل ہی نہیں پاتے اور الزام دیتے ہیں کہ ہمیں فرصت نہیں ملتی، ایک اسٹیٹس اور اپنی ناک اونچا کرنے کی فکر نے ہماری ذہنی آسودگی کو عرش سے فرش پر لاپٹخا ہے۔ اب تو ملنے پر بھی، ’’بتاؤ ماشاء اﷲ بچے اچھی ملازمت پر لگ گئے۔ تم لوگوں کی محنت نے بچوں کو کیا سے کیا بنا دیا۔‘‘ پہلے اب یہ باتیں کہاں سننے کو ملتی ہیں اور اب بچوں کو کچھ بنانے کے بہ جائے ان کے لیے کچھ بنانے کے خیال نے بات چیت کا انداز ہی بدل دیا ہے۔ ’’ارے تم نے بیٹے کے لیے کون سی گاڑی خرید لی۔ میں نے تو اپنے بیٹے کے لیے نئی ماڈل کی گاڑی خریدی ہے اور موبائل بھی وہ والاجو آج کل مارکیٹ میں نیا آیا ہے۔ اس کے دوست کے پاس وہی تھا۔ سو اس کی فرمائش تو پوری کرنی تھی اور پھر چل سو چل، قصہ گاڑی، موبائل سے ہوتا ہوا ختم ہوتا ہے کہ تم نے ڈیفنس میں کوئی پلاٹ وغیرہ لیا اور سننے والا صدمے میں ایسے جاتا ہے کہ میاں کے کان کھاتا ہے کہ دیکھ لیں ان کے پاس ہر چیز نئی سے نئی  اور ایک ہم ہیں بیوی کا رونا دیکھ کرمیاں قرضوں کا بوجھ اٹھائے راہ عدم سدھار جاتے ہیں۔

آج کل کے زمانے کی سو فی صد ہو بہو تصویر ہے۔ خواہشوں کے اِزدحام نے انسان کو ایسے نگلا ہے کہ یہ بھی حاصل کرنا، وہ بھی حاصل کرنا، کوٹھی، بنگلا آگیا، تو مہنگے سے مہنگا فرنیچر و پردے بھی درکار، رکھ رکھاؤ کے لیے لباس بھی قیمتی، ہاتھوں میں نئی گھڑی اور موبائل اور اس بھیڑ چال میں کچھ وقت اپنے لیے نکالنے کا سوچتے بھی ہیں، تو پھر خیال آتا ہے۔ بہتر ہے وہ کام بھی کر ہی لوں، اچھا موقع ہے، منافع ہی منافع ہے اور اس منافع کو حاصل کرنے کے لیے ہم جو اپنی لاکھوں سی قیمتی جان کا منافع داؤ پر لگارہے ہیں، جو صرف اور صرف فراغت و فرصت کے لمحات میں پوشیدہ و انھی کی مرہون منت ہے۔ یعنی اپنی صحت، قیمتی ان مول دولت کو یوں ضائع کرتے ہوئے، ہمیں تھوڑا سا بھی دکھ و ملال نہیں ہوتا۔ وہ دولت جو کسی قیمت پر ہمیں دوبارہ نہیں مل سکتی۔ ذرا غور سے اپنے آپ کو کبھی آئینے میں دیکھتے ہوئے اپنا جائزہ لیجیے۔

لاکھوں سی جان کو ہم نے مصروفیت کے تانوں بانوں میں الجھاکر ایسا توڑا مروڑا ہے کہ ہماری اصلی صورت ہی بگڑ کر رہ گئی ہے۔ یہ وقت سے پہلے آتا ہوا بڑھاپا، یہ بالوں میں سفیدی، ماتھے پر شکنیں، نظر میں دھندلاہٹ، ٹانگوں میں درد، سب شکستہ عمارت کی وہ نشانیاں، جو حاصل کو چھوڑ کر لاحاصل کے پیچھے ہم نے پائی ہیں۔ سب کچھ حاصل کرنے کی تمنا میں آج عمر کی اس منزل پر آئینہ کیسے آپ کے حالت زار کی چغلی کھا رہا ہے۔ جن چیزوں کو حاصل کرنے کے لیے تم نے زندگی بتادی۔  خوار ہوتے رہے ، ریشم و اطلس کے خواب دیکھتے رہے۔آج تمہاری دسترس سے دور تمہارے لیے بے معنی ہوگئی ہیں کیونکہ تم میں اب نہ وہ جان ہے نہ وہ ہمت ہے کہ ان سے لطف اندوز ہو سکو ۔

آنکھوں میں وہ دم نہیں، ٹانگوں میں بھاگنے کی جان نہیں، دوائیوں اور گولیوں سے فرار ناممکن، وہ ہی اب آپ کی ہم دَم و ساتھی۔ اگر نہ ملیں تو کیسے کیسے مرض حملہ آور ہو جاتے ہیں۔ دواؤں کا ایسا عادی بنایا، جس کے بغیر جینا محال ہوگیا۔ سوچو تو بہت کچھ، نہ سمجھو تو کچھ بھی نہیں۔ اب بھی وقت ہے ، زندگی کی گاڑی کی رفتار کچھ کم کر کے اپنی عمر کو صحت مند بنائیں۔ فرصت نہ ملنے کا رونا روکر اسے داؤ پر مت لگائیں، سُکھ، چین، شانتی، سکون سے بیٹھ کر ہر مسئلے کا حل نکالیں۔ ہر چیز کو ذہن پر سوار مت کریں کہ یہ نہ ہوا تو وہ ہو جائے گا، ایسے نہ ہوا تو یہ ہو جائے گا۔ کچھ نہیں ہوگا۔ آپ صحت مند ہوں گے تو سب کچھ ہوجائے گا۔ ہر کام پایۂ تکمیل تک پہنچ ہی جاتا ہے۔

عمر کی وہ نقدی، یوں بے دریغ انتھک لٹاتے خرچ کرتے ہوئے ہم اس احساس سے ہی عاری ہوگئے کہ جانے زندگی کے کتنے پل باقی ہیں، جو باقی رہ گئے ہیں۔ کاش ہم کبھی فرصت کے چند لمحوں میں کبھی اپنے لیے بھی تو جیتے۔‘‘ اپنی زندگی تو جیتے، اپنے آپ کو آئینے کے سامنے سنوارتے ہوئے کبھی اپنے اندر تو جھانکتے کہ ہمیں کیا چاہیے۔ وہ قیمتی لمحات زندگی کے جو بیت گئے واپس نہیں آئیں گے۔ آسائش آپ خرید سکتے ہیں، لیکن زندگی نہیں خرید سکتے۔ زندگی کے آخری اوور کو پورا کرنے کے لیے زندگی کی خالی کشکول میں کوئی چند سکے بھی زندگی کے، آپ کو ادھار نہیں دے سکتا۔

اس لیے فرصت کا رونا روکر اپنی زندگی کو گہن مت لگائیے، جو آپ کے پاس ہے اسے غنمت جانیے کہ اﷲ کا دیا سب کچھ ہے۔ اسی میں آپ کے آج کا سکھ و چین ہے اور کل کی طویل العمری کی نوید ہے۔ اپنے آج کو کل کے لیے قربان مت کریں جیب میں جتنی بھی فرصت کے پل ملیں، انھیں استعمال کیجیے کیوں کہ کل یہ بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ کھوٹے سکے بن کر آپ کے کسی کام نہ آئیں گے۔ کسی سے ملنا ہے، کسی کا حال پوچھنا ہے، کسی کی تیمار داری کرنی ہے تو اپنی مصروفیت کا دامن جھٹک کر ’’وقت‘‘ نکالیے۔ زندگی اتنی ارزاں شے نہیں کہ اسے یوں توڑ مروڑ دیا جائے۔ قدرت کے اس ان مول عطیے سے فیض اٹھاتے ہوئے، پل پل زندگی اپنے لیے جیتے ہوئے، یہ مت کہیے کہ فرصت نہیں ملتی بلکہ یوں کہیے کہ وقت نکالنا پڑتا ہے تو پھرآج ہی سے اپنے لیے وقت نکالیے۔ یہ نہ ہو کہ بہت دیر ہو جائے اور آپ کے بنگلے، کوٹھیاں، گاڑیں گویا کہ آہیں بھرتے ہی رہ جائیں کہ ہمیں حاصل کرنے کے لیے ہمارے کارن تم نے اپنی زندگی کے بے بہا فرصت کے لمحات گنوادیے۔ آج ہم تو وہیں کھڑے ہیں، لیکن تم نے اس اپنی تمام عمر کی تگ و دو میں کیا حاصل کیا ’’صرف دو گز زمین کا ٹکڑا‘‘ اب تو سمجھ جائیں، زندگی آپ سے کیا مانگتی ہے۔ چلتی کا نام گاڑی ہے۔ رک جائے، کھڑی ہو جائے تو بے کار، دوسروں کے لیے بوجھ ،جینا مشکل و دوبھر ، اس لیے اسے چلتا رکھنے کے لیے فراغت و فرصت کا تیل ضرور دیجیے ورنہ زنگ آلود گاڑی تو دھکا دینے سے بھی نہیں چلتی اور دنیا کیا اپنے بچوں پر بھی بوجھ بنی نظر آتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • سوڈان کاالمیہ
  • دکھ روتے ہیں!
  • کبھی کبھار…
  • خود کو بدلنا ہوگا
  • طالبان سے کہا تھا 1 کپ چائے کیلئے آئے ہیں، وہ کپ بہت مہنگا پڑ گیا: اسحاق ڈار
  • افغانستان میں چائے کا کپ ہمیں 2012 پر لے آیا، دہشتگردی کے خاتمے کے لیے متحد ہونا پڑےگا، اسحاق ڈار
  • سڑک کنارے ہوٹلوں کیخلاف بلارعایت کارروائی کا فیصلہ
  • غزہ میں مستقل امن اور تعمیر نو
  • ’’اب تو فرصت ہی نہیں ملتی۔۔۔!‘‘
  • کراچی،1 ہفتے میں 167 روڈ سائیڈ ہوٹلز ، چائے خانے بند