امریکی خاتون اول کا مجسمہ غائب، پولیس نے تحقیقات شروع کردیں
اشاعت کی تاریخ: 18th, May 2025 GMT
امریکی خاتون اول میلانیا ٹرمپ کا کانسی کا مجسمہ ان کے آبائی ملک سلوانیا سے پراسرار طور پرغائب ہوگیا ہے۔
یورپی ملک سلووینیا میں پولیس نے امریکا کی خاتون اول میلانیا ٹرمپ کے کانسی کے مجسمے کے غائب ہونے کی تحقیقات شروع کردی ہیں، اس مجسمے کو میلانیا کے آبائی قصبے میں نصب کیے جانے کے بعد چوری کر لیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پچھلی بار لوگوں نے مجھے قبول نہیں کیا، اس بار میرے پاس منصوبہ ہے، میلانیا ٹرمپ
یہ مجسمہ 2020 میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے دور حکومت میں وسطی سلووینیا کے قصبے سیونیکا کے قریب نصب کیا گیا تھا جہاں 1970 میں ’میلانیا کناؤس‘ پیدا ہوئی تھیں۔ یہ مجسمہ اس لکڑی کے مجسمے کی جگہ نصب کیا گیا تھا جسے 2020 میں ہی نذر آتش کر دیا گیا تھا۔ پولیس ترجمان النکا ڈرینیک رانجوس نے بتایا کہ منگل کے روز مجسمے کی چوری کی اطلاع ملی تھی، انہوں نے مزید کہا کہ پولیس مسجمہ چوری کرنے والوں کی تلاش میں ہے۔
دوسری جانب مقامی افراد کا کہنا ہے امریکی خاتون اول کومجسمےکے غائب ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا،ہم میں سے کسی کو بھی اس مجسمے پر فخر نہیں تھا تو ہمارے خیال میں یہ بہتر ہے کہ اسے ہٹا دیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کتی شادیاں کیں اور کتنی خواتین سے تعلقات رہے؟
کانسی کے اس مجسمے کو اکثر تنقید کا نشانہ بھی بنایا جاتا تھا کیونکہ لوگوں کے خیال میں یہ کسی بھی طرح میلانیا ٹرمپ کی شخصیت سے ملتا جلتا نہیں تھا۔
مجسمہ ساز بریڈ ڈاؤنی کا کہنا ہے کہ وہ ہمیشہ سے لکڑی کے مجسمے کا کانسی میں ورژن بنانا چاہتےتھے، تاکہ مختلف اداروں اور آرٹ گیلریز میں اس کی نمائش کی جائے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news امریکا خاتون اول مجسمہ غائب میلانیا ٹرمپ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکا خاتون اول میلانیا ٹرمپ میلانیا ٹرمپ کی خاتون اول
پڑھیں:
ایٹمی دھماکے نہیں کر رہے ہیں، امریکی وزیر نے صدر ٹرمپ کے بیان کو غلط ثابت کردیا
واشنگٹن:امریکا کے وزیر توانائی کرس رائٹ نے کہا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے جو ایٹمی تجربات کا حکم دیا گیا ہے، ان میں فی الحال ایٹمی دھماکے شامل نہیں ہوں گے۔
رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق فوکس نیوز کو دیے گئے انٹرویو میں امریکی وزیر توانائی اور ایٹمی دھماکوں کا اختیار رکھنے والے ادارے کے سربراہ کرس رائٹ نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ اس وقت جن تجربوں کی ہم بات کر رہے ہیں وہ سسٹم ٹیسٹ ہیں اور یہ ایٹمی دھماکے نہیں ہیں بلکہ یہ انہیں ہم نان-کریٹیکل دھماکے کہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان تجربات میں ایٹمی ہتھیار کے تمام دیگر حصوں کی جانچ شامل ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ وہ صحیح طریقے سے کام کر رہے ہیں اور ایٹمی دھماکا کرنے کی صلاحیت کو فعال کر سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ تجربے نئے سسٹم کے تحت کیے جائیں گے تاکہ یقینی بنایا جا سکے کہ نئے تیار ہونے والے متبادل ایٹمی ہتھیار پرانے ہتھیاروں سے بہتر ہوں۔
کرس رائٹ نے کہا کہ ہماری سائنس اور کمپیوٹنگ کی طاقت کے ساتھ، ہم انتہائی درستی کے ساتھ بالکل معلوم کر سکتے ہیں کہ ایٹمی دھماکے میں کیا ہوگا اور اب ہم یہ جانچ سکتے ہیں کہ وہ نتائج کس صورت میں حاصل ہوئے اور جب بم کے ڈیزائن تبدیل کیے جاتے ہیں تو اس کے کیا نتائج ہوں گے۔
قبل ازیں جنوبی کوریا میں چین کے صدر شی جن پنگ سے ملاقات سے کچھ ہی دیر قبل ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ انہوں نے امریکی فوج کو 33 سال بعد دوبارہ ایٹمی ہتھیاروں کے دھماکے شروع کرنے کا فوری حکم دیا ہے۔
مزید پڑھیں: ٹرمپ کی ایٹمی تجربے کی آغاز کی دھمکی پر روس نے بھی خبردار کردیا؛ اہم بیان
ڈونلڈ ٹرمپ سے جب اس حوالے سے سوال کیا گیا کہ کیا ان تجربات میں وہ زیر زمین ایٹمی دھماکے بھی شامل ہوں گے جو سرد جنگ کے دوران عام تھے تو انہوں نے اس کا واضح جواب نہیں میں دیا تھا۔
یاد رہے کہ امریکا نے 1960، 1970 اور 1980 کی دہائیوں میں ایٹمی دھماکے کیے تھے۔