مشرق وسطی کی نئی عالمی صف بندی
اشاعت کی تاریخ: 18th, May 2025 GMT
اگر پاک بھارت جنگ جاری رہتی تو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر کے منفعت بخش کاروباری دورے کبھی نہ کر پاتے۔ صدر ٹرمپ کے اس کامیاب دورے کے بعد امریکہ تیزی سے اپنے ملک میں سرمایہ کاری اور ترقی کرنے کے ایک نئے دور میں داخل ہو جائےگا۔ امریکہ کو یہ موقع کاروبار کے کنگ ڈونلڈ ٹرمپ نے فراہم کیا۔جنگ کے آغاز میں انہوں نے واضح طور پرکہا تھا کہ ان کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں ہے، دونوں ممالک اسے خود سلجھائیں۔ جنگ کے آغاز سےچند ہفتےقبل امریکہ نے بھارت کے ساتھ 4 سالوں میں 420 ارب ڈالر کااسلحہ سپلائی کرنےکامعاہدہ کیا تھا۔ شائد اس معاہدے کے پیچھے بھارت نے سمجھا کہ اس کی پشت پر امریکہ کھڑا ہے یا پھر بھارت کی پیٹھ ٹھونکی گئی تھی اور پہلگام کو بہانہ بناکر 7مئی کو انڈیا نےبہاول پورمیں پاکستان پر حملہ کر دیا، 10مئی کو پاکستان نے بھارت کے مختلف شہروں، اسلحہ کی انسٹالیشنز اور چوکیوں وغیرہ کو ملتا میٹ کر کے نہ صرف بھارت بلکہ دنیا بھر کو سرپرائز دیا تو انڈیا نے پاکستان کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے اور امریکہ کی طرف بھاگاجس پرڈونلڈ ٹرمپ نے ایک طرف جنگ بندی کروا کر بھارت پر احسان کر دیا اور دوسری طرف صدر ٹرمپ اگلے ہی روز 11 مئی کو سعودی عرب پہنچ گئے جہاں ان کا غیر روایتی انداز میں تاریخی استقبال کیا گیا۔
امریکہ اور سعودی عرب نے تاریخ کے سب سے بڑے دفاعی آلات کی فروخت کے معاہدے پر دستخط کئے ہیں، جس کی مالیت تقریباً 142 بلین ڈالر ہےجبکہ سعودی عرب نے 600 بلین ڈالر (168,600 ارب روپے) کی امریکہ میں سرمایہ کاری کرنے کا میگا معاہدہ بھی کیا جو مشرقِ وسطی کی نئی سمت کا تعین کرتا دکھائی دیتا ہے۔ سعودی عرب کی امریکہ میں دیگر انوسٹمنٹ کو بھی اس میں شامل کیا جائے تو یہ تقریباً ایک ٹریلن ڈالر کی سرمایہ کاری بنتی ہے۔ جس پس منظر میں سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان یہ معاہدے ہوئے ٹرمپ کا یہ صرف ایک سفارتی دورہ ہی نہیں بلکہ مشرق وسطی کی طاقت کے توازن کو ایک نئی سمت دینے والا معاہدہ ہے بلکہ یہ تاریخی سرمایہ کاری ایک ایسا معاہدہ ہے جو عالمی معیشت اور دفاعی تعلقات کے نقشے کو ایک نئی جہت دے رہا ہے۔
تفصیلات کےمطابق سعودی عرب اور امریکہ کے ان دفاعی معاہدوں میں جدید ترین اسلحہ، جنگی طیارے، میزائل سسٹمز اور فوجی تربیت وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ 20 بلین ڈالر مصنوعی ذہانت اور ڈیجیٹل ڈیٹا سینٹرز کے قیام کے لئے بھی مختص کیے گئے ہیں، جبکہ 80 بلین ڈالر امریکی ٹیکنالوجی کمپنیوں کے ساتھ مشترکہ منصوبوں کے لئے رکھے گئے ہیں۔یہ معاہدے صرف مالی لین دین ہی نہیں ہیں بلکہ یہ ایک پیغام ہیں کہ سعودی عرب نہ صرف خود کو جدید عالمی معیشت کا مرکز بنانے جا رہا ہے، بلکہ امریکہ جیسے طاقتور ملک کے ساتھ مل کر وہ اپنے دفاعی اور تکنیکی اتحاد کو بھی نئی بلندیوں تک لے جانا چاہتا ہے۔
یہاں یہ سوال بھی جنم لیتا ہے کہ کیا یہ سب کچھ چین، روس اور ایران جیسے ممالک کے ساتھ بڑھتی سعودی قربتوں کا توازن بحال کرنے کی کوشش ہے یا ٹرمپ کی واپسی کی سیاسی زمین ہموار کرنے کی ایک اسٹریٹیجک چال ہے؟ یہ جو بھی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اتنی بڑی اسلحہ خریداری اور سرمایہ کاری کے یہ معاہدے نہ صرف امریکہ کی تاریخ کی سب سے بڑی سعودی انویسٹمنٹ کا پیکج ہے، بلکہ اس نے پوری دنیا کی توجہ ایک بار پھر مشرقِ وسطی کی جانب مبذول کر دی ہے۔
امریکی صدر کے اس تہلکہ خیز کامیاب دورے نے عالمی منظرنامہ کو سرعت رفتاری سے بدل دیا ہے۔ امریکہ جب سے پاپولرازم کی طرف بڑھا ہے نتیجتاً امریکہ اور دنیا کو ڈونلڈ ٹرمپ کا تحفہ ملا ہے۔ ٹرمپ ایک کامیاب ترین کاروباری ہستی ہیں۔ اس دورے میں سعودی کرائون پرنس محمد بن سلمان بن عبدالعزیز آل سعود اور شام کے عبوری صدر احمد الشرع شامی نے بالمشافہ ٹرمپ سے ملاقات کی اور ترکی کے صدر طیب اردگان نے ویڈیو لنک کے ذریعہ شرکت کی۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ ان کی انتظامیہ اب شام کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے امکانات تلاش کر رہی ہے۔ اسی ملاقات میں صدر ٹرمپ نے سعودی کرائون پرنس کی سفارش پرشام سے پابندیاں ہٹانے کا اعلان کردیا۔صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی شام کے صدر احمد الشرع سے یہ 37 منٹ کی ملاقات بہت غیر معمولی ملاقات ثابت ہوئی جس کا چند ماہ پہلے تک تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا، کیونکہ ماضی میں شامی صدر’’القاعدہ‘‘ سے وابستہ رہے تھے۔ امریکہ کی جانب سے شامی رہنما کے سر کے لئے ایک کروڑ ڈالر کا انعام رکھا گیا تھا جو اس سے قبل امریکہ نے دسمبر 2024 ء میں ختم کیا تھا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ان ممالک کے سربراہان کی موجودگی میں اپنے خطاب میں کہا کہ سعودی عرب کا اسرائیل کو تسلیم کرنا میری عزت افزائی ہو گی، میری خواہش ہے اور امید ہے کہ سعودی عرب ابراہیمی معاہدے میں بھی شامل ہو جائے گا۔ابراہیمی معاہدے اسرائیل اور کئی عرب ممالک کے درمیان تعلقات کو معمول پرلانے کےلئےطے پانے والے معاہدوں کا ایک سلسلہ ہے۔ یہ معاہدے 2020 ء میں امریکہ کی ثالثی میں طے پائے گئے تھے۔ ان کا مقصد اسرائیل کو ابراہیمی بھائی قرار دیتے ہوئے اسے بطور ریاست تسلیم کرانا ہے۔ ابراہیمی معاہدے جو سال 2020ء میں طے ہوئے تو اس وقت کے اہم فریق اسرائیل، یو اے ای، بحرین، سوڈان اور مراکش تھے۔ اس میں مرکزی فریق کے طور پر اسرائیل سرفہرست تھا جس کی ضرورت تھی کہ وہ عرب ممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرے۔ متحدہ عرب امارات پہلا عرب ملک تھاجس نے ستمبر 2020 ء میں اس معاہدے پر دستخط کئے۔ متحدہ عرب امارات کے فوراً بعد بحرین اس میں شامل ہوا، جبکہ جمہوریہ سوڈان اکتوبر 2020 ء میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانےکےلئے رضامند ہوا تھا۔ پانچویں فریق کے طور پر مراکش نے دسمبر 2020 میں اس معاہدے پر دستخط کر کے اس میں شراکت اختیار کی تھی۔
ابراہیمی معاہدے کے فریق ممالک میں سے کسی بھی ملک نے فلسطین کے ساتھ مشترکہ پلیٹ فارم پر بات چیت نہیں کی تھی۔ کیوں کہ یہ معاہدے بنیادی طور پر فلسطین سے الگ ہو کرطے پائے تھے۔ اہل غزہ اس معاہدے کے فریق نہیں ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ایران بھی اس معاہدے کا فریق نہیں ہےلیکن ٹرمپ نےاپنےخطاب میں کہاہےکہ ایران حزب اللہ جیسی پراکسیز بند کرے تو ہم اس کے ساتھ معاہدہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔
ایران کی وزارت خارجہ کئی مواقع پرکہہ چکی ہےکہ وہ امریکہ کےساتھ برابری کی سطح پر مذاکرات چاہتے ہیں، لہذا محسوس ہوتا ہےکہ ایران اس معاہدے کی جانب پیش رفت کرےگا اور شاید اس طرح دو ریاستی فارمولہ طےپاجائے۔ اگرفلسطین کوایک الگ ریاست تسلیم کرلیاجاتا ہےتو ابراہیمی معاہدے کامیاب ہوسکتے ہیں اور مشرق وسطی میں پائیدار امن قائم ہو سکتاہے۔ سعودی عرب کی بھی یہی خواہش ہے۔ ایران سعودیہ سفارتی تعلقات بہتر ہوئے ہیں۔ یہ دونوں ممالک دو ریاستی حل کےلئے ٹرمپ سے ایک پائیدار معاہدہ کر سکتے ہیں۔
(جاری ہے)
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: ابراہیمی معاہدے صدر ڈونلڈ ٹرمپ ڈونلڈ ٹرمپ نے کہ سعودی عرب سرمایہ کاری امریکی صدر بلین ڈالر امریکہ کی یہ معاہدے اس معاہدے ممالک کے کے ساتھ وسطی کی
پڑھیں:
ایلون مسک کو امریکہ سے ملک بدر کیا جا سکتا ہے، ٹرمپ کی دھمکی
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ معروف ٹیکنالوجی سرمایہ کار اور ارب پتی ایلون مسک کو امریکہ سے ملک بدر کرنے پر غور کر سکتے ہیں۔
صدر ٹرمپ کا یہ بیان ایسے وقت میں آیا ہے جب جنوبی افریقہ میں پیدا ہونے والے ایلون مسک نے ٹرمپ کے حمایت یافتہ مالیاتی بل کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ مسک نے اسے "پاگل پن والا بل" قرار دیا اور نئی سیاسی جماعت بنانے کی دھمکی دی تھی۔
ٹرمپ نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا: "پتا نہیں، ہمیں دیکھنا ہوگا... کیا ہم ایلون مسک کو ملک بدر کر سکتے ہیں؟"
انہوں نے طنزیہ انداز میں کہا کہ محکمہ حکومتی کارکردگی (DOGE)، جس کی قیادت ماضی میں ایلون مسک کر چکے ہیں، اب مسک کے خلاف تحقیقات کر سکتا ہے، خاص طور پر اسے دی جانے والی سرکاری سبسڈی کی جانچ کے لیے۔
صدر ٹرمپ نے مزید کہا: "وہ (ایلون مسک) بہت ناراض ہے، لیکن وہ بہت کچھ کھو سکتا ہے... شاید واپس جنوبی افریقہ جانا پڑے!"
یہ بیان اس بڑھتی ہوئی سیاسی کشیدگی کی عکاسی کرتا ہے جو حالیہ دنوں میں ٹرمپ اور مسک کے درمیان پیدا ہو چکی ہے، خاص طور پر امریکی بجٹ، قرض کی حد، اور الیکٹرک گاڑیوں کے مینڈیٹ جیسے معاملات پر۔