ایلون مسک کو امریکہ سے ملک بدر کیا جا سکتا ہے، ٹرمپ کی دھمکی
اشاعت کی تاریخ: 2nd, July 2025 GMT
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ معروف ٹیکنالوجی سرمایہ کار اور ارب پتی ایلون مسک کو امریکہ سے ملک بدر کرنے پر غور کر سکتے ہیں۔
صدر ٹرمپ کا یہ بیان ایسے وقت میں آیا ہے جب جنوبی افریقہ میں پیدا ہونے والے ایلون مسک نے ٹرمپ کے حمایت یافتہ مالیاتی بل کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ مسک نے اسے "پاگل پن والا بل" قرار دیا اور نئی سیاسی جماعت بنانے کی دھمکی دی تھی۔
ٹرمپ نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا: "پتا نہیں، ہمیں دیکھنا ہوگا.
انہوں نے طنزیہ انداز میں کہا کہ محکمہ حکومتی کارکردگی (DOGE)، جس کی قیادت ماضی میں ایلون مسک کر چکے ہیں، اب مسک کے خلاف تحقیقات کر سکتا ہے، خاص طور پر اسے دی جانے والی سرکاری سبسڈی کی جانچ کے لیے۔
صدر ٹرمپ نے مزید کہا: "وہ (ایلون مسک) بہت ناراض ہے، لیکن وہ بہت کچھ کھو سکتا ہے... شاید واپس جنوبی افریقہ جانا پڑے!"
یہ بیان اس بڑھتی ہوئی سیاسی کشیدگی کی عکاسی کرتا ہے جو حالیہ دنوں میں ٹرمپ اور مسک کے درمیان پیدا ہو چکی ہے، خاص طور پر امریکی بجٹ، قرض کی حد، اور الیکٹرک گاڑیوں کے مینڈیٹ جیسے معاملات پر۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ایلون مسک
پڑھیں:
غزہ جنگ بندی:حماس اتوار تک معاہدہ قبول کرلے ورنہ سب مارے جائیں گے، ٹرمپ کی دھمکی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کو خبردار کیا ہے کہ وہ غزہ جنگ بندی معاہدہ قبول کرے بصورتِ دیگر اسے سخت نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔
عالمی میڈیا رپورٹس کےمطابق ٹرمپ نے کہا کہ حماس کے پاس اتوار کی شام 6 بجے تک معاہدے پر دستخط کرنے کا وقت ہے اور یہ اس کے لیے آخری موقع ہے۔
امریکی صدر نے مزید کہاکہ معاہدے پر کئی ممالک دستخط کرچکے ہیں، اگر حماس اس پر دستخط نہیں کرتی تو نہ صرف تنظیم کے لیے بلکہ اس کے جنگجوؤں کے لیے بھی حالات مزید خراب ہوسکتے ہیں، معاہدے پر دستخط کرنے سے حماس کے جنگجوؤں کی جان بچ سکتی ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے عام فلسطینی عوام کو خبردار کیا کہ وہ غزہ شہر کو خالی کرکے محفوظ مقامات پر منتقل ہوجائیں تاکہ ممکنہ کارروائیوں سے محفوظ رہ سکیں۔
خیال رہے کہ صدر ٹرمپ نے رواں ہفتے اسرائیلی وزیر اعظم کے ساتھ پریس کانفرنس میں 20 نکاتی غزہ امن معاہدے کا اعلان کیا تھا اور کہا تھا کہ اس پر مسلم اور عرب ممالک نے اتفاق کیا ہے۔
قطر کے وزیر اعظم شیخ محمد بن عبدالرحمن نے اس معاہدے پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس میں کئی نکات وضاحت اور مزید مذاکرات کے متقاضی ہیں، غزہ سے اسرائیلی افواج کے انخلا پر ابھی مزید بات چیت ضروری ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان کے نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے بھی قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ صدر ٹرمپ کے پیش کردہ 20 نکات وہ نہیں ہیں جو 8 مسلم ممالک نے مشترکہ طور پر تجویز کیے تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جنگ بندی کے ایک نکاتی ایجنڈے پر بات ہوئی تھی مگر بعد میں جاری ہونے والے ڈرافٹ میں تبدیلیاں کر دی گئیں، ہم ان ہی نکات پر فوکس رکھیں گے جو 8 مسلم ممالک نے تیار کیے تھے۔
اسحاق ڈار نے مزید کہا کہ غزہ میں انسانی المیہ سنگین ہو چکا ہے، لوگ بھوک اور افلاس سے مر رہے ہیں جبکہ اقوام متحدہ، یورپی یونین اور دیگر عالمی ادارے امن قائم کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں۔ دفتر خارجہ نے بھی واضح کیا ہے کہ ٹرمپ کا جاری کردہ ڈرافٹ ہمارے موقف کی عکاسی نہیں کرتا۔