Express News:
2025-11-05@03:17:47 GMT

د ودھ کا ایک گلاس!

اشاعت کی تاریخ: 26th, May 2025 GMT

ہاروڈ کیلی‘ نیو جرسی کے ایک قصبہ کیمڈن میں پیدا ہوا تھا۔ 1858کا برس تھا۔ کیلی کا بچپن کافی مشکل تھا۔ وہ کچھ بننا چاہتا تھا۔ مگر وسائل کی تنگی سامنے آ جاتی تھی ۔ حد درجہ خوددار بچہ تھا۔ محنتی بھی اور اسے اپنے اوپر مکمل اعتماد تھا۔ اسکول کی فیس ادا کرنے کے لیے مزدوری کرتا تھا۔ قصبہ میں لوگوں کے چھوٹے چھوٹے کام سرانجام دیتا تھا۔ جیسے کسی کی گروسری کا بوجھ اٹھا لیا‘ کسی کی گاڑی صاف کر دی‘ کسی کے گھر کے شیشے صاف کر ڈالے۔بہر حال بچے کی محنت کے عوض‘ اسے لوگ اتنے پیسے ضرور دے دیتے تھے کہ اسکول کی فیس بروقت ادا ہو جائے۔

کیلی‘ اسکول کا ہوم ورک بڑی توجہ سے کرتا تھا۔ عام بچوں کی طرح‘ اسے بھی کھیلنے کودنے کا دل چاہتا تھا مگر حالات کی سختی اسے ‘ اس کی اجازت نہیں دیتی تھی۔ ایک دن اسکول سے گھر آیا۔ تو اس کے پاس کھانے کے پیسے نہیں تھے۔ دوچار گھنٹے‘ بھوک برداشت کی ‘ مگر جب معاملہ حد سے باہر ہو گیا ۔ تو فیصلہ کیا کہ محلہ میں کسی کو کھانے کا سوال کر دیتا ہے۔ اس ارادے سے بڑی مشکل سے ایک بڑے سے گھر کے باہر گیا۔ دستک دی۔ تو ایک نوجوان لڑکی نے دروازہ کھولا۔ کیلی کے پاس ‘ بھیک مانگنے والی زبان نہیں تھی۔

اس کے اعصاب شل ہو گئے۔ اور ہکلانے لگا۔ لڑکی نے پوچھا کہ بیٹا ‘آپ کو کیا چاہیے۔ بچے نے بڑے ضبط سے پانی کا ایک گلاس مانگا۔ حالانکہ وہ تو بھوک سے بلبلا رہا تھا۔ مگر اس کی عزت نفس نے اجازت نہ دی کہ کھانا مانگ سکے۔ اور یہ کہے کہ بھوکا ہوں۔ نوجوان لڑکی نے اسے غور سے دیکھا۔ گھر میں آنے کا کہا۔ صوفہ پر بٹھاکر باورچی خانے میں گئی۔ واپسی پر‘ اس کے ہاتھ میں دودھ کا ایک گلاس تھا۔ بچہ نے بڑی تہذیب سے دودھ پیا۔ کوئی یہ گمان نہیں کر سکتا تھا کہ بھوک سے تڑپ رہا ہے۔ کیلی نے لڑکی کا شکریہ ادا کیا۔ اور واپس اپنے معمولی سے کمرے کی طرف روانہ ہو گیا۔ اس کے ذہن میں لڑکی کے اس بھلے کام نے گھر کر لیا۔ وقت گزرتا چلا گیا۔

کیلی اس قصبے سے نکل کر میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے لگ گیا۔ 1882تک وہ یونیورسٹی آف پنسلونیامیں ڈاکٹر ی کی تعلیم مکمل کر چکا تھا۔ اس پر خار سفر میں حکومت اسے تعلیمی وظیفہ دیتی رہی۔ محنت کی بدولت اس کے رستے آسان تر ہوتے چلے گئے۔ایک دن ہاروڈ اسپتال میں کام کر رہا تھا ۔ کہ اسپیکر پر آواز آئی۔ کہ ایک خاتون مریض کو گائنی کی سرجری کی ضرورت ہے۔ کیلی جہاں بھی ہے۔ فوراً آپریشن تھیٹر پہنچ جائے۔ جب آپریشن تھیٹر پہنچا ۔ اور مریض کو دیکھا۔ تو فوراً پہچان گیا۔ کہ یہ وہی نیک لڑکی ہے‘ جس نے بیس برس پہلے‘ اسے دودھ کا ایک گلاس پلایا تھا۔ اور اس کی عزت نفس بھی مجروح نہیں کی تھی۔ یعنی کوئی احسان بھی نہیں جتایا تھا۔ مگر لڑکی جو اب خاتون بن چکی تھی۔

کیلی کو بالکل نہیں پہچان سکی۔ خاتون کی سرجری ہوئی۔ اور اکیس دن اسپتال رہی ۔ کیلی نے اپنے سیکریٹری کو ہدایت کر رکھی تھی کہ جب اس خاتون کا بل آئے تو پہلے اسے دکھایا جائے۔ کیلی‘ روز اس خاتون کے وارڈ میں جاتا اور خیریت معلوم کرتا۔ جب صحت یاب ہو گئی تو اسے اسپتال سے فارغ کر دیا گیا۔ خاتون بل کا انتظار کر رہی تھی۔ اورپریشان تھی ۔ کیونکہ پرائیویٹ سرجری امریکا میں حد درجہ مہنگی تھی اور ہے۔ ذہن میں مختلف خیالات بگولوں کی طرح رقص کر رہے تھے۔

بل کتنا ہوگا؟ کیا اپنی بقیہ عمر اسپتال کے بل کو اتارتے ہوئے گزار دے گی؟ اس کا بڑھاپا کیسا گزرے گا؟ بہر حال حسب ضابطہ بل بنایا گیا۔ اور ڈاکٹر کیلی کو پیش کر دیا گیا۔ بل کافی زیادہ تھا۔ چھ سو ڈالر کے لگ بھگ۔ کیلی نے بل کے آخر میں کچھ لکھا۔ اور اس کے بعد ‘ خاتون کو بھیج دیا۔ جب اسپتال کا بل مریض کو پیش کیا گیا۔ تو پریشانی سے اس کی جان پر بنی ہوئی تھی۔ بل پڑھا تو کافی زیادہ تھا۔ مگر آخر میں ڈاکٹر کیلی نے ایک جملہ لکھا ہوا تھا۔ ’’بل ادا ہو چکا ہے۔

یہ دودھ کے ایک گلاس کی قیمت ہے‘‘۔ خاتون کو کچھ پلے نہ پڑا۔ کیلی اس کے پاس گیا۔ یاد کروایا کہ دو دہائیاں پہلے‘ ایک بچہ‘ آپ کے گھر آیا تھا اور کمال مہربانی سے اسے ایک دودھ کا گلاس پلایا گیا تھا۔ وہ بچہ میں ہی تھا۔ خاتون کو بھولا ہوا واقعہ یاد آیا۔ تو اس کے آنسو نکل پڑے۔ ڈاکٹر کیلی بھی رو رہا تھا۔ بہر حال خاتون کو بڑے احترام سے اسپتال سے روانہ کیا گیا۔ کیلی امریکا بلکہ دنیا کا معروف ترین سرجن بن چکا تھا۔ اس نے اپنے شعبہ میں 550 مضامین اور کتابیں لکھیں۔ مگر اس کا اصل کارنامہ تین آدمیوں کے ساتھ مل کر جان ہوپکن یونیورسٹی کا قیام تھا۔ وہ‘ اس عظیم یونیورسٹی کی بنیاد رکھنے والوں میں سے تھا۔ اس کا نام‘ یونیورسٹی میں آج بھی جلی حروف میں لکھا ہوا ہے۔

گمان ہے کہ ڈاکٹر میورڈ کی یہ سچی کہانی‘ آپ کو سوچنے پر مجبور کر دے۔سوال یہ ہے کہ نیکی دراصل ہے کیا؟ کیا اسے کسی خصوصی سانچے میں ڈھالا جا سکتا ہے؟ کیا نیک کام کرنے کا اعلان ‘ ڈھول بجا بجا کر کرنا چاہیے؟ یہ حد درجہ مشکل معاملہ ہے اور اس کا کوئی ایک جواب نہیں ہے۔ اس پیچیدہ سوال کے متعدد جوابات ہیں جو دیکھنے میں شاید متضاد نظر آئیں۔ مگر شاید سارے درست ہوں۔ یہ مختلف بات اس لیے درج کر رہا ہوں۔کہ برطانیہ میں جب ایک کورس کرنے گیا۔ تو کلاس میں پروفیسر نے بورڈ پر ایک سوال درج کیا۔ سب طالب علموں سے اس کا جواب مانگا ۔

طالب علم‘ پوری دنیا سے آئے ہوئے تھے۔ سب نے اپنی اپنی فہم کے مطابق بات کی۔ معاملہ یہ بھی تھا کہ دیے گئے جوابوں میں کافی اختلاف تھا۔ اس پر پروفیسر نے کہا۔ کہ پوری دنیا میں کوئی بھی ایسا سوال وجود نہیں رکھتا جس کا جواب صرف اور صرف ایک ہو۔ بتانے لگا۔ کہ کسی بھی سوال کے متعدد جواب ہو سکتے ہیں۔ جو اختلاف رکھنے کے باوجود سارے کے سارے درست ہوں۔ اسے انگریزی میں Competing Solutaions بھی کہا جا سکتا ہے۔ تو جناب نیکی کی کوئی تعریف کرنا ناممکن ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے۔ جسے نیکی بتایاجا رہا ہے ۔

وہ دراصل نیکی ہو ہی نا۔ میرا خیال ہے کہ نیکی کی کوئی بھی تعریف ڈھونڈنے کے بجائے ‘ شعوری کوشش کرنی چاہیے کہ ایسے چھوٹے چھوٹے کام کیے جائیں‘ جس سے دوسرے انسانوں کی زندگی میں آسانی آئے۔ ضروری نہیں کہ کوئی ایسا بڑا کارنامہ انجام دینے کی کوشش کی جائے‘ جس سے انسان کی واہ واہ ہو ۔ اس کے برعکس ہر شخص کو چاہیے کہ ذاتی سطح پر صلے کی تمنا کیے بغیر ایسے بہتر کام کرے‘ جس سے عام لوگوں کا بھلا ہو۔ اس کے علاوہ دنیا میں کوئی ایسا مذہبی‘ سماجی‘ یا اقتصادی ڈھانچہ نہیں بن سکتا‘ جس میں اچھے کام تصویر کی طرح سج جائیں۔

دراصل بھلے کاموں کا صرف انسانیت سے تعلق ہے۔ وہ کسی بھی جغرافیہ حدود یا فلسفہ کے ضبط سے باہر ہیں۔ بلکہ کوئی بھی ایسا فریم نہیں ہے جو اتنا قوی اور بڑا ہو۔ جو نیکی کو اپنے اندر سمو لے۔ اب اس سکے کی دوسری طرف توجہ دلاناچاہتا ہوں۔ کیا اچھے کاموں کی تشہیر کرنی چاہیے۔ ذاتی طور پر تشہیر کے خلاف ہوں۔ اردگرد‘ ایسے دھوکے باز موجود ہیں۔ جو بھلائی کا پھندہ لگا کر ‘ ایسے کام کرتے ہیں‘ جن سے ان کی جے جے کار ہوجائے۔ لوگ انھیں چندہ پر چندہ دے ۔ اور وہ ’’عظمت کے مینار ‘‘ پر چڑھ کر ‘ اپنا قد دوسرے سے نمایاں کر پائیں۔ مگر تشہیر کا ایک فائدہ ضرور ہے۔

لوگوں میں شعور کی سطح بہتر ہوجاتی ہے۔ اور انھیں دوسروں کے لیے کام کرنے پر آمادہ کیا جاسکتاہے۔ معاشرے میں ایک فیصد سے بھی کم لوگ ہوتے ہیں۔ جو سماجی کاموں کو ایک سیڑھی کے طور پر استعما ل نہیں کرتے۔ اس کی درخشاں ترین مثال ‘ عبدالستار ایدھی مرحوم تھے۔ انھوں نے ان گنت لوگوں کا صرف اور صرف انسانیت کی بنیاد پر مستقبل سنوارا۔ کسی بھی جزا کی خواہش کے بغیر‘ ان تھک محنت کرتے رہے ۔ اس عظیم شخص نے اپنے کپڑے بھی نئے نہیں بنائے ۔ بلکہ کسی مردہ آدمی کے استعمال شدہ کپڑوں پر اکتفا کیا۔ پوری عمر نیا جوتا نہیں پہنا۔ بلکہ پرانی سوفٹی ٹائپ عام سے سلیپر پہنتے رہے۔ اسکوٹر کو خود اور اپنی اہلیہ کے لیے استعمال کرتے رہے۔

دنیا کا سب سے بڑا ایمبولینس نظام قائم کیا۔ چندے کی رقم میں سے ایک دھیلا بھی اپنی ذات پر خرچ نہیں کیا۔ خیر ایدھی صاحب ‘ کسی بھی سماج میں بہت ہی نایاب لوگ ہوتے ہیں۔ ان جیسے لوگ کسی بھی خطے کے لیے ماتھے کا جھومر ہوتے ہیں۔اگر وہ مغرب میں ہوتے تو کم سے کم انھیں نوبل پرائز ملتا۔ اور اس میں ان کی عزت نہیں‘ بلکہ نوبل پرائز کی قدر و منزلت میں اضافہ ہوتا۔ عرض کرونگا کہ آپ جو بھی ہیں۔ جس بھی سطح پر بھی زندہ ہیں۔ جس بھی ملک یا سماج میں سانس لے رہے ہیں۔ عادت بنا لیجیے کہ ضرورت مندوں کی بلا تمیز اور بلا غرض خدمت کرتے رہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ہاروڈ کیلی کی طرح‘ آپ کو ضرورت کے وقت ’’دودھ کا ایک گلاس ‘‘ مل جائے۔ جس سے آپ سہولت میں آ جائیں۔ فیصلہ فرمایے اور قدرت کو موقع دیجیے ‘ کہ آپ کو بھی دودھ بھرا گلاس دے سکے!

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کا ایک گلاس خاتون کو دودھ کا کیلی نے سکتا ہے کسی بھی کے لیے کی طرح کام کر اور اس

پڑھیں:

غزہ و لبنان، جنگ تو جاری ہے

اسلام ٹائمز: اسرائیل کے ساتھ سفارتکاری ناکام ہوچکی ہے۔ اسرائیل سفارتی درخواستوں یا بین الاقوامی اپیلوں کا جواب نہیں دیتا۔ اب اگر مزاحمت کی جانب سے کارروائیوں کا آغاز ہو تو یہ جنگ کو توسیع دینے کے لیے نہیں بلکہ بمباری کو روکنے کے سادہ حق کے لیے ہوگی۔ خلاصہ یہ ہے کہ غزہ اور لبنان میں اسرائیل کی دہشتگردانہ کارروائیوں کو روکنے کے لئے عالمی ادارے اور اتحاد سب کے سب ناکام ہوچکے ہیں اور جنگ رکی نہیں بلکہ جاری ہے اور اس جنگ کو صرف مزاحمت کی زبان سے ہی روکا جا سکتا ہے۔ تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان

نومبر 2024ء میں لبنان میں جنگ بندی کا معاہدہ طے پایا تھا، اکتوبر 2025ء میں غزہ جنگ بندی کا معاہدہ طے پا گیا۔ غزہ جنگ بندی معاہدے میں بڑے بڑے کھلاڑیوں نے جنگ بندی کی ضمانت لی ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھی دنیا اس بات کی شاہد ہے کہ غزہ میں جنگ بندی نہیں ہوئی ہے۔ آئے روز فلسطینیوں پر بمباری کی جا رہی ہے۔ نیتن یاہو مسلسل غزہ جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزیاں انجام دے رہا ہے۔ معاہدے کے وقت بھی دنیا بھر کے تجزیہ نگاروں کا یہی کہنا تھا کہ امریکی صدر ٹرمپ اور نیتن یاہو قابل اعتبار نہیں ہیں، کیونکہ ان کا ماضی ایسی ہی سیاہ تاریخ سے بدنما ہے کہ جہاں امن اور معاہدوں کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ یہی سب کچھ لبنان میں جنگ بندی کے معاہدے کے ساتھ ہوچکا ہے کہ مسلسل لبنان کے مختلف علاقوں کو اسرائیلی بمباری کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ شخصیات کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ سیاسی طور پر انتشار پھیلانے کی امریکی کوششیں بھی تیز ہوچکی ہیں۔

غزہ کا معاملہ ہو یا پھر لبنان کا، دونوں میں ہمیں نظر آتا ہے کہ جنگ بند نہیں ہوئی، بلکہ جنگ تو جاری ہے۔ قتل عام جاری ہے۔ دہشت گردی جاری ہے۔ انسانیت و ظلم کی چکی میں پیسا جا رہا ہے۔ ایسے حالات میں اب دنیا کے انسانوں کی ذمہ داری کیا ہونی چاہیئے۔؟ مجھے یہاں اس نقطہ پر رک کر یہ کہنے دیجئے کہ ہمیں بھی اس ظلم اور دہشتگردی کے مقابلہ میں پہلے ہی کی طرح ظالم کے خلاف ہر قسم کا احتجاج، بائیکاٹ اور پروگرام جاری رکھنا چاہیئے، اس عنوان سے زیادہ سے زیادہ شعوری مہم کو بڑھانی چاہیئے، تاکہ غاصب اسرائیلی دشمن کو اس کے ناپاک عزائم اور معصوم انسانوں کے قتل عام سے روکا جائے۔

غزہ اور لبنان میں جنگ کی ایک نئی شکل سامنے آچکی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ بڑے پیمانے پر بمباری کی شدت میں کمی آئی ہو، لیکن جنگ رکی نہیں، اس نے صرف شکل بدلی ہے۔ یہ صرف اس لئے کیا جا رہا ہے کہ لوگوں کو نارملائز کیا جائے اور دنیا بھر کے لوگوں کی توجہ کو فلسطین اور لبنان کے مسائل سے ہٹائی کی جائے۔ فلسطین کے علاقے ہوں یا لبنان ہو، دونوں مقامات پر ہی اسرائیلی فضائی حملے، ڈرون حملے اور سرحد پار سے گولہ باری مختلف بہانوں سے جاری ہے، جبکہ جنوبی لبنان تو بدستور خطرے میں ہے۔ حقیقت میں یہ ایک منظم تشدد ہے، جہاں اسرائیل اپنی مرضی سے حملہ کرتا ہے، معاہدے کی خلاف ورزی کرتا ہے اور فلسطین و لبنان اس کے نتائج کو برداشت کرتے ہیں۔

امریکہ اور اسرائیل سمیت ان کے اتحادی یہ بات اچھی طرح جان چکے ہیں کہ اگر اسرائیل اب ایک بڑی اور کھلم کھلا جنگ کی طرف جاتا ہے تو اس کا ہدف ناقابل رسائی ہے، کیونکہ وہ پہلے ہی ایک طویل جنگ میں ناکامی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ اگر اسرائیل لبنان کے خلاف مکمل جنگ شروع کرتا ہے تو اس کا ایک ہی حقیقی مقصد ہوگا کہ لبنان کی مزاحمت یعنی حزب اللہ کو ہمیشہ کے لیے کچلنا اور ختم کرنا۔ 1982ء کے بعد سے ہر اسرائیلی مہم اسی عزائم کے گرد گھومتی رہی ہے، بیروت پر حملے سے لے کر 2006ء کی جنگ تک امریکہ اور اسرائیل انہی مقاصد کے حصول میں ناکام رہے ہیں۔ کئی دہائیوں کی جنگ کے باوجود اسرائیل کبھی بھی حزب اللہ کو عسکری یا سیاسی طور پر ختم نہیں کرسکا۔ دراصل یہ حزب اللہ کی بڑی کامیابی ہے۔

تمام جنگوں نے ظاہر کیا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کا یہ مقصد ناقابل رسائی ہے۔اسرائیل کی عسکری اور سیاسی قیادت اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ فیصلہ کن فتح ناممکن ہے۔ کوئی بھی مکمل جنگ جو حزب اللہ کو تباہ کرنے میں ناکام رہتی ہے، اس کے بجائے اسے مضبوط کرے گی تو اسرائیل جنگ میں کیوں جائے گا۔؟ اس کا جواب محدود مقاصد میں ہے۔ اسرائیل کے چھوٹے پیمانے پر حملے اور قتل و غارت گری حکمت عملی کے مقاصد کی تکمیل کرتی ہے، یعنی مخصوص اہداف کو تباہ کرنا، حزب اللہ کی جدید کاری میں تاخیر، یا ڈیٹرنس کا اشارہ دینا۔ یہی حکمت عملی اسرائیل نے غزہ میں حماس کے خلاف اپنائی ہے کہ وہاں بھی حماس کو غیر مسلح کرنا اور ختم کرنا لیکن تمام تر طاقت اور کوششوں کے باوجود اسرائیل کو ابھی تک کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے۔

بموں کے ذریعے یہ جمود اسرائیل کو اپنے دفاعی نظام کو جانچنے اور ڈیٹرنس اور طاقت کے اپنے گھریلو بیانیہ کو منظم کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ تل ابیب کے نقطہ نظر سے، یہ سب سے بہتر ممکنہ نتیجہ ہے کہ فوجی مداخلت کی ایک مسلسل مہم جو بھاری اسرائیلی ہلاکتوں سے بچتی ہے اور حزب اللہ کوبڑی کارروائیوں سے دور رکھتی ہے۔ لہذا اس وقت اسرائیل مسلسل لبنان میں محدود قسم کی کارروائیوں کو انجام دے کر اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن دوسری طرف حقیقت یہ ہے کہ حزب اللہ بھی اپنی طاقت کو از سر نو جمع کر رہی ہے۔ کیونکہ عمارتوں کی تباہی اور شخصیات کے قتل سے حزب اللہ کبھی بھی نہ تو کمزور ہوئی ہے اور نہ ہی ختم کی جا سکتی ہے، کیونکہ حزب اللہ ایک تنظیم یا جماعت نہیں بلکہ ایک عقیدہ اور نظریہ ہے، جو نسل در نسل پروان چڑھتا ہے۔

دوسری طرف غزہ اور لبنان کی مزاحمت اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھتی ہے کہ اسرائیل مکمل جنگ نہیں چاہتا اور یہ کہ ایسی کوئی بھی جنگ اسرائیل کے اندرونی محاذ کو لبنان کے مقابلے میں کہیں زیادہ سخت امتحان دے گی۔ مزاحمت جتنی دیر تک برقرار رہتی ہے، اتنا ہی یہ مستقبل کے کسی بھی تصادم کی شرائط کو اپنے حساب کتاب سے تشکیل دے سکتی ہے۔ اگر اسرائیل کبھی مکمل جنگ شروع کرتا ہے اور اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہتا ہے، تو یہ مزاحمت کی وجہ سے ناکامی ہوگی۔ کچھ اشارے اس بات کے بھی موجود ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل ہوا سے حملہ کرنے اور سرخ لکیروں کی جانچ کرنے پر راضی ہے، جبکہ مزاحمت برداشت کرتی ہے اور جوابی حملہ کرنے کے لیے صحیح وقت کا انتظار کررہی ہے۔ کوئی بھی پیشین گوئی نہیں کرسکتا کہ توازن کب تبدیل ہو جائے گا۔

تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ اس خطے میں جنگیں اکثر غلط حساب کتاب سے شروع ہوتی ہیں۔ بعض اوقات ایک ہی جوابی حملہ یا چھاپہ مار کارروائی سے ہی جنگ کا حساب تبدیل ہو جاتا ہے۔ جو بات یقینی ہے، وہ یہ ہے کہ تمام تر حالات میں بھی مزاحمت زندہ رہتی ہے اور آج بھی ایسا ہی ہے۔ مزاحمت اس پیمانے پر جوابی کارروائی کرے گی، جسے اسرائیل نظر انداز نہیں کرسکتا اور وہ لمحہ ایک اور جنگ کا آغاز کرے گا، جو انتخاب سے باہر نہیں، بلکہ ناگزیر ہے۔ اسرائیل کے ساتھ سفارت کاری ناکام ہوچکی ہے۔ اسرائیل سفارتی درخواستوں یا بین الاقوامی اپیلوں کا جواب نہیں دیتا۔ اب اگر مزاحمت کی جانب سے کارروائیوں کا آغاز ہو تو یہ جنگ کو توسیع دینے کے لیے نہیں بلکہ بمباری کو روکنے کے سادہ حق کے لیے ہوگی۔ خلاصہ یہ ہے کہ غزہ اور لبنان میں اسرائیل کی دہشتگردانہ کارروائیوں کو روکنے کے لئے عالمی ادارے اور اتحاد سب کے سب ناکام ہوچکے ہیں اور جنگ رکی نہیں بلکہ جاری ہے اور اس جنگ کو صرف مزاحمت کی زبان سے ہی روکا جا سکتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • سوڈان کاالمیہ
  • دکھ روتے ہیں!
  • کبھی کبھار…
  • خود کو بدلنا ہوگا
  • غزہ میں مستقل امن اور تعمیر نو
  • ’’اب تو فرصت ہی نہیں ملتی۔۔۔!‘‘
  • ’تنہا ماں‘۔۔۔ آزمائشوں سے آسانیوں تک
  • آج کا دن کیسا رہے گا؟
  • جو کام حکومت نہ کر سکی
  • غزہ و لبنان، جنگ تو جاری ہے