WE News:
2025-05-29@00:12:26 GMT

ٹرمپ کو پاکستان سے کیا کام ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 27th, May 2025 GMT

ٹرمپ دوبارہ صدر بننے کے بعد سے ٹروتھ سوشل پر اکثر پاکستان کے حق میں پوسٹ کرتا دکھائی دیتا ہے۔ 10 مئی کو ایسی ہی ایک پوسٹ میں ٹرمپ نے کہا کہ ‘پاکستان ٹیلنٹڈ لوگوں کا ملک ہے، ہمیں فخر ہے کہ ہم ان کے ساتھ مل کر دہشتگردی کے خلاف لڑ رہے ہیں’۔

17 مئی کو تو لٹ ہی پڑگئی۔ فاکس نیوز کو ایک انٹرویو میں ٹرمپ نے پاکستان کو ‘دنیا کے بہترین اور باصلاحیت لوگوں’ کا ملک بھی قرار دے دیا جو بہترین پراڈکٹ تیار کرتے ہیں۔ ایسا کہتے ہوئے وہ یہ کہنا نہیں بھولا کہ انڈیا نے امریکی پراڈکٹ پر سب سے زیادہ ٹیرف عائد کر رکھے ہیں۔

انڈیا کو لتاڑنے پر تو چلیں آج کل ہمارا خوش ہونا بنتا ہے۔ لیکن سوچنے کی بات تو ہے کہ ایسی کون سی ہماری بہترین پراڈکٹ ہیں جن کا ٹرمپ بھی مداح ہے۔ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ وہ اپنے وعدوں پر عمل کرنے والا شخص ہے، اپنے لوگوں سے میں نے کہہ دیا کہ وہ انڈیا کے ساتھ جنگ بندی کے بعد فوری طور پر پاکستان کے ساتھ ٹریڈ میں اضافہ کریں۔

5 مارچ کو صدر بننے کے بعد اپنے پہلے اسٹیٹ آف دی یونین خطاب میں پاکستان واحد ملک تھا جس کا ڈونلڈ ٹرمپ نے شکریہ ادا کیا۔ پاکستان نے کابل ایئر پورٹ پر 2021 میں خود کش حملے میں مدد کرنے والے دہشتگرد کو پکڑنے میں مدد دی تھی۔ پاک بھارت تناؤ کے دوران بھی اور جنگ بندی کے بعد بھی ٹرمپ کا انداز بیان مودی سرکار کے لیے پریشان کن ہی رہا ہے۔

رئیر ارتھ اور کریٹکل منرل، دفاع اور ٹیکنالوجی میں برتری کے لیے اہم ہیں۔ منرل کی سپلائی چین اور ذخائر پر چین کا کنٹرول ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کی معاشی حکمت عملی میں ‘ری شورنگ’ یعنی منرل کے لیے چین پر انحصار کم کرنا اہم ترجیح ہے۔ پاکستان اپنے معدنی ذخائر کی وجہ سے اہمیت اختیار کرچکا ہے۔

پاکستان اب ڈیجیٹل معیشت کی جانب بڑھ رہا ہے۔ اسٹیٹ بینک اب سنٹرل بینک ڈیجیٹل کرنسی متعارف کرانے پر کام کر رہا ہے۔ بائنانس کے بانی چانگپینگ ژاؤ بھی اس شعبے میں پیش قدمی کے لیے پاکستانی حکومت کو غیر رسمی مشاورت فراہم کر رہے ہیں۔ اس شعبے میں سرمایہ کاری کے لیے پاکستان اپنے آبادی اور معیشت کے سائز کی وجہ سے بھی ایک پرکشش ملک ہے۔

ٹرمپ خاندان سے منسلک ‘ورلڈ لبرٹی فنانشل’ نے پاکستان کرپٹو کونسل کے ساتھ ایک ایم او یو پر بھی سائن کیے ہیں۔ اس کا مقصد پاکستان کو ایک اسٹیبل کوائن کے ذریعے عالمی مالیاتی نظام میں ایک متبادل رسائی فراہم کرنا ہے۔ ٹرمپ کے داماد جئرڈ کشنر بھی اس منصوبے میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ کشنر پہلے ہی مڈل ایسٹ میں ایسے ہی ہائی ٹیک سے متعلق سرمایہ کاری منصوبے کامیابی سے چلا رہے ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے دوبارہ انتخاب کے بعد پاکستان نے واشنگٹن کی بڑی لابنگ فرم بی جی آر گروپ کی خدمات حاصل کرلی تھیں۔ اس کے نتیجے میں امریکی محکمہ تجارت اور سرمایہ کاری سے وابستہ کئی اعلیٰ شخصیات، جیسے کہ ڈیوڈ ملر ( یو ایس ایکسپورٹ امپورٹ بنک کے سابق ڈائریکٹر) اور الینا بارٹلیٹ (ٹرمپ کی مہم کی فنانس ڈائریکٹر)، اسلام آباد پہنچیں۔

پاکستانی وزارت تجارت اور منصوبہ بندی کمیشن کے ساتھ ان کی ملاقاتوں میں توانائی، انفراسٹرکچر اور بلاک چین ( کریپٹو، بینک ٹرانزیکشن کی ڈیجیٹل اور محفوظ ٹیکنالوجی ) کے منصوبوں پر بات چیت ہوئی۔ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے حال ہی میں ایک بیان میں کہا ہے کہ 2000 میگاواٹ بجلی اے آئی ڈیٹا سنٹر اور کریپٹو کے لیے مختص کی جا رہی ہے۔ ڈیٹا سنٹر کے لیے توانائی بنیادی اوربڑی ضرورت ہوتی ہے۔

ٹیکنالوجی میں برتری کے لیے کریٹکل منرل اہم ترین ہیں۔ اب تک یوکرین، روس، کسی حد تک افغانستان اور پاکستان کی منرل سائٹ ہی بڑی حد تک چین سے بچی ہوئی ہیں۔ پاکستان میں گلگت بلتستان، فاٹا، بلوچستان ان سب جگہ یہ ذخائر موجود ہیں۔ امریکا کو اپنی ٹیکنالوجی میں برتری برقرار رکھنی ہے تو پاکستان افغانستان سے صرف منرل ہی نہیں حاصل کرنے بلکہ جاری دہشت گردی اور بدامنی کا خاتمہ بھی کرنا ہے۔

اس حوالے سے ٹرمپ کے ان بیانات کو اہمیت دینے کی ضرورت ہے۔ جن میں وہ پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف قابل فخر پارٹنر بتا رہا ہے۔ پاکستان کی یہ نئی اہمیت ہی بتاتی ہے کہ کیوں ٹرمپ انڈیا پر پاکستان کو ترجیح دے رہا ہے اور اسے پاکستان سے کیا کام ہے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

وسی بابا

وسی بابا نام رکھا وہ سب کہنے کے لیے جن کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔ سیاست، شدت پسندی اور حالات حاضرہ بارے پڑھتے رہنا اور اس پر کبھی کبھی لکھنا ہی کام ہے۔ ملٹی کلچر ہونے کی وجہ سے سوچ کا سرکٹ مختلف ہے۔ کبھی بات ادھوری رہ جاتی ہے اور کبھی لگتا کہ چپ رہنا بہتر تھا۔

بائنانس پاکستان ڈونلڈ ٹرمپ کرپٹو مائننگ منرلز.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: پاکستان ڈونلڈ ٹرمپ کرپٹو پاکستان کو کے ساتھ رہے ہیں کے بعد کے لیے رہا ہے

پڑھیں:

وزیراعظم پاکستان کا ایران کے حق میں جرات مندانہ مؤقف

اسلام ٹائمز: وزیراعظم پاکستان جناب شہباز شریف کا حالیہ دورۂ ایران نہ صرف دو برادر اسلامی ممالک کے مابین اخوت و اعتماد کے رشتے کو مزید مضبوط کرنے کا سبب بنا، بلکہ انہوں نے اس موقع پر جس جرات مندی اور حکمت سے بین الاقوامی اور امتِ مسلمہ کے اہم ترین مسائل پر پاکستان کا مؤقف پیش کیا، وہ قابلِ تحسین اور لائقِ فخر ہے۔ جناب وزیراعظم نے ایران کے پرامن ایٹمی پروگرام کی مکمل حمایت کرتے ہوئے اسے ایران کا جائز اور بنیادی حق قرار دیا۔ ان کا یہ مؤقف نہ صرف انصاف پر مبنی ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر طاقت کے یکطرفہ استعمال اور دباؤ کے خلاف ایک واضح پیغام بھی ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ پرامن ایٹمی توانائی کے حق کو تسلیم کیا ہے اور اس مرتبہ جناب شہباز شریف نے اسے دوٹوک انداز میں دہرا کر ایران کے ساتھ یکجہتی کا عملی ثبوت فراہم کیا۔ تحریر: آغا زمانی

وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان میاں محمد شہباز شریف اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل سید عاصم منیر نے جمہوری اسلامی ایران کا دو روزہ سرکاری دورہ کیا۔ یہ دورہ ایسے وقت میں عمل میں آیا، جب خطے کی جغرافیائی اور سیاسی صورتحال غیر معمولی کشیدگی کا شکار ہے، خصوصاً اسرائیل کی طرف سے جاری جارحیت، فلسطینیوں کی نسل کشی اور مسلم امہ کی تقسیم کے تناظر میں۔ ایسے میں وزیراعظم پاکستان کا ایران کا دورہ اور وہاں دیئے گئے بیانات ایک غیر معمولی سیاسی و سفارتی اہمیت کے حامل ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای سے ملاقات کے دوران جس عاجزی، عقیدت اور روحانی احترام کا مظاہرہ کیا، خصوصاً جوتے اتار کر ملاقات کرنا، وہ عالمی سفارت کاری میں ایک غیر روایتی مگر بامعنی قدم ہے۔ یہ عمل نہ صرف تہذیبی شائستگی کی علامت ہے بلکہ اسلامی شعائر سے جڑے سیاسی رویوں کا مظہر بھی ہے۔ ناقدین نے بھی اس عمل کو خراج تحسین پیش کیا، جو قومی سیاست میں ایک غیر معمولی اتفاقِ رائے کو ظاہر کرتا ہے۔

ایران اور پاکستان تاریخی، ثقافتی، مذہبی اور جغرافیائی طور پر باہم جُڑے ہوئے ہیں۔ ایران نے 1947ء میں سب سے پہلے پاکستان کو تسلیم کیا اور وقت کے ساتھ ساتھ دونوں ممالک نے ایک دوسرے کا ساتھ دیا۔ اس دورے نے ان تعلقات کو نہ صرف رسمی طور پر بلکہ قلبی طور پر بھی مضبوط کیا۔ وزیراعظم نے ایران کو دوسرا گھر قرار دے کر جذباتی وابستگی کا اظہار کیا، جو دونوں اقوام کو مزید قریب لانے میں مؤثر ثابت ہوسکتا ہے۔ وزیراعظم نے ایران کے ساتھ کھڑے ہو کر نہ صرف غاصب اسرائیلی مظالم کی کھل کر مذمت کی بلکہ فلسطینیوں کے حقِ خود ارادیت کی بھرپور حمایت کی۔ ان کا یہ بیانیہ پاکستان کی روایتی پالیسی کا تسلسل تو ہے، لیکن جس جرات مندی، وضاحت اور عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کے انداز میں اسے پیش کیا گیا، وہ لائقِ تحسین ہے۔ اس بیانیے نے پاکستان کو ایک بار پھر امتِ مسلمہ کے ضمیر کی ترجمانی کرنے والی ریاست کے طور پر متعارف کرایا ہے۔

وزیراعظم شہباز شریف نے ایران کے پرامن ایٹمی پروگرام کی مکمل حمایت کا اعلان کرتے ہوئے اسے ایران کا بنیادی حق قرار دیا۔ یہ بیان نہ صرف ایران کے لیے ایک اخلاقی اور سفارتی پشت پناہی ہے بلکہ مغربی طاقتوں کو طاقت کے یکطرفہ استعمال کے خلاف ایک اصولی پیغام بھی ہے۔ اس مؤقف نے پاکستان کو انصاف پسند اور خوددار مسلم ریاست کے طور پر پیش کیا ہے۔ دورے کے دوران وزیراعظم پاکستان نے ایرانی صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان اور سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای سے اہم ملاقاتیں کیں۔ ان ملاقاتوں میں باہمی تجارتی، دفاعی، سرحدی اور ثقافتی امور پر گفتگو ہوئی۔ ایرانی قیادت نے وزیراعظم کے مؤقف کو سراہا اور پاکستان کی ترقی و استحکام کے لیے خصوصی دعاؤں کا اہتمام کیا۔

وزیراعظم شہباز شریف کا یہ دورہ ایک رسمی سفارتی دورے سے کہیں بڑھ کر تھا۔ ان کا انداز، بیانات اور ایران کے ساتھ اظہارِ یکجہتی نہ صرف دونوں ممالک کے تعلقات کو نئی جہت دے رہے ہیں بلکہ امت مسلمہ کے اتحاد، عالمی عدل و انصاف اور مظلوموں کے حق میں ایک مضبوط آواز بن کر ابھر رہے ہیں۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ یہ دورہ ایک تاریخی موڑ ہے، جو نہ صرف پاکستان اور ایران کے تعلقات کو مستحکم کرے گا بلکہ عالمِ اسلام میں پاکستان کے مؤقف کو نئی وقعت دے گا۔ وزیراعظم کا یہ جرات مندانہ، اصولی اور بصیرت افروز مؤقف آنے والے وقت میں مسلم دنیا کے لیے ایک نئی سمت متعین کرسکتا ہے۔

وزیراعظم پاکستان جناب شہباز شریف کا حالیہ دورۂ ایران نہ صرف دو برادر اسلامی ممالک کے مابین اخوت و اعتماد کے رشتے کو مزید مضبوط کرنے کا سبب بنا، بلکہ انہوں نے اس موقع پر جس جرات مندی اور حکمت سے بین الاقوامی اور امتِ مسلمہ کے اہم ترین مسائل پر پاکستان کا مؤقف پیش کیا، وہ قابلِ تحسین اور لائقِ فخر ہے۔ جناب وزیراعظم نے ایران کے پرامن ایٹمی پروگرام کی مکمل حمایت کرتے ہوئے اسے ایران کا جائز اور بنیادی حق قرار دیا۔ ان کا یہ مؤقف نہ صرف انصاف پر مبنی ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر طاقت کے یکطرفہ استعمال اور دباؤ کے خلاف ایک واضح پیغام بھی ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ پرامن ایٹمی توانائی کے حق کو تسلیم کیا ہے اور اس مرتبہ جناب شہباز شریف نے اسے دوٹوک انداز میں دہرا کر ایران کے ساتھ یکجہتی کا عملی ثبوت فراہم کیا۔

اسی طرح غاصب اسرائیل کی جاری جارحیت، فلسطینی عوام کی نسل کشی اور انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کے خلاف وزیراعظم کا ایران کے ساتھ کھڑا ہونا ایک تاریخی قدم ہے۔ انہوں نے واضح الفاظ میں فلسطینیوں کے حقِ خود ارادیت، آزادی اور انصاف کی حمایت کی اور اسرائیلی مظالم کی کھل کر مذمت کی۔ ان کے یہ بیانات صرف پاکستان کی روایتی فلسطین پالیسی کی تائید نہیں بلکہ مظلوموں کے ساتھ عملی ہمدردی اور ظالم کے خلاف ڈٹ جانے کا عزم ہیں۔ یہ بیانات نہ صرف پاکستان کے عوام کے جذبات کی عکاسی کرتے ہیں، بلکہ عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کی ایک سنجیدہ کوشش بھی ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے امتِ مسلمہ کے ایک ذمہ دار راہنماء کی حیثیت سے جو آواز بلند کی ہے، وہ آج کے شور زدہ اور دباؤ زدہ عالمی ماحول میں ایک تازہ ہوا کا جھونکا ہے۔

ہم بطور پاکستانی، وزیراعظم کے ان جرات مندانہ بیانات پر فخر محسوس کرتے ہیں اور دعا گو ہیں کہ برادر اسلامی ملک ایران کے ساتھ تعلقات مزید مضبوط ہوں اور عالمِ اسلام مظلوموں کے حق میں ایک صف میں کھڑا ہو کر عالمی انصاف کے لیے مؤثر کردار ادا کرے اور یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ شہباز شریف کا یہ رویہ محض ایک رسمی ملاقات کا حصہ نہیں بلکہ پاک ایران تعلقات کی روحانی گہرائیوں کی ایک جھلک ہے، جو آنے والے وقت میں دونوں ممالک کے لیے خیر و برکت کا ذریعہ بن سکتی ہے۔(منگل، 27 مئی 2025ء ، 29 ذیقعدہ 1446ھ)

متعلقہ مضامین

  • تہران کیساتھ جوہری معاہدے پر بات چیت کے دوران اسرائیلی حملہ مناسب نہیں ہوگا، ڈونلڈ ٹرمپ
  • پاکستان کو ایٹمی قوت بنے 27 سال مکمل، یوم تکبیر آج ملی جوش و جذبے کے ساتھ منایا جا رہا ہے
  •  طاقت کے نشے میں چور مودی نے بالآخر ٹرمپ کے پائوں پکڑ کر جنگ بندی کا اعلان کیا، محمد اظہر مغل 
  • پاکستان سے جنگ میں شکست کے بعد امریکی صدر ٹرمپ بھارتی میڈیا کے نشانے پر
  • پی۔ٹی۔آئی اور ’معمولِ نو (NEW NORMAL)
  • وزیراعظم پاکستان کا ایران کے حق میں جرات مندانہ مؤقف
  • ڈونلڈ ٹرمپ کی نیتن یاہو سے گرما گرمی، ٹیلیفونک گفتگو کشیدگی میں بدل گئی
  • پی۔ٹی۔آئی  اور ‘معمولِ نو ‘  (NEW NORMAL)
  • نقشِ وفا،داستانِ جبر