استحکام پاکستان و بنیان مرصوص کانفرنس؛ علما کا پاک فوج سے اظہار یکجہتی
اشاعت کی تاریخ: 28th, May 2025 GMT
لاہور:
تحریک اتحاد بین مسلمین کے تحت لاہور میں پاک فوج کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ’’استحکام پاکستان و بنیان مرصوص کانفرنس‘‘ کا انعقاد کیا گیا۔
کانفرنس میں تمام مکاتبِ فکر کے ممتاز علمائے کرام نے شرکت کی۔ کانفرنس کی صدارت مولانا زبیر ورک نے کی جبکہ مہمان خصوصی سید اسامہ اجمل قاسمی تھے۔ استحکام پاکستان کانفرنس سے جماعت اہلحدیث، وفاقی وزرا اور ممتاز علمائے کرام نے خطاب کیا۔
مقررین نے کانفرنس کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’پاک فوج نے دشمن کو منہ توڑ جواب دے کر ثابت کیا کہ وہ دنیا کی پہلے نمبر کی فوج ہے۔‘‘
مقررین کا کہنا تھا کہ پاک فوج عالم اسلام کے دلوں کی دھڑکن بن چکی ہے اسلام دشمن قوتیں ہمیشہ ناکام رہیں گی، بھارت خطے میں دہشت گردی پھیلا کر اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل چاہتا ہے۔ پاک فوج نے ہمیشہ بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا، آئندہ بھی دشمن کو ایسا سبق سکھایا جائے گا کہ وہ دوبارہ جرات نہیں کر پائے گا۔
کانفرنس سے خطاب میں مقررین کا کہنا تھا کہ یہ ملک ہمارے آباؤ اجداد کی قربانیوں کا نتیجہ ہے، ہم اسے اتحاد و یگانگت سے سیسہ پلائی دیوار بن کر محفوظ رکھیں گے۔ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اس کو آزاد کروانا پاک فوج اور حکومت پر فرض ہو چکا ہے، جذبہ جہاد سے سرشار پاک فوج کے جوان کشمیر کی آزادی کا خواب پورا کریں گے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پاک فوج
پڑھیں:
خطے میں امن و استحکام کا خواب
پاکستان، ترکیہ اور آذربائیجان اعلیٰ اقدار، امن و انصاف کے لیے شانہ بشانہ کھڑے ہیں، سہ فریقی اجلاس ہمیں یکسوئی کے ساتھ آگے بڑھنے کا موقع فراہم کرتا ہے، ہم امن کے خواہاں ہیں اور بھارت کے ساتھ تمام تنازعات مذاکرات کے ذریعے حل کرنا چاہتے ہیں، بھارت پاکستان کا پانی روکنے میں کبھی کامیاب نہیں ہو پائے گا۔ ان خیالات کا اظہار وزیراعظم شہباز شریف نے لاچین میں سہ فریقی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
پاکستان ہمیشہ سے امن کا خواہاں رہا ہے اور خطے میں استحکام چاہتا ہے۔ مودی حکومت کی ہر اشتعال انگیزی کا جواب پاکستان نے نہایت سمجھداری اور بردباری سے دیا ہے۔ قومی یکجہتی، جمہوریت کی مضبوطی اور انسانی حقوق کا احترام وہ ہتھیار ہیں جو پاکستان کو عالمی سطح پر ایک مثبت کردار ادا کرنے کے قابل بناتے ہیں۔
حالیہ سیز فائر کے بعد دونوں ملکوں کے شہری امن عمل کی بحالی اور کشیدگی میں کمی کی توقع کر رہے ہیں تاہم بھارتی وزیراعظم اور ان کے رفقا کبھی مذاکرات نہ کرنے،کبھی سندھ طاس معاہدے کو بدستور ختم رکھنے اورکبھی بدلہ لینے جیسی باتیں کر کے صورتحال کو تناؤ میں رکھے ہوئے ہیں۔ اس وقت امریکی ثالثی کی کوشش کا بھارتی میڈیا مذاق اڑا رہا ہے۔ سیز فائرکو بھارت کے تاریخی موقف سے انحراف قرار دیا جا رہا ہے۔ یہ صورت حال دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کم کرنے اور تنازعات کو بات چیت سے طے کرنے کے امکانات کو متاثرکرسکتی ہے۔
بھارت کے اقدامات نے جارحیت کے لیے خطرناک مثال قائم کی ہے جو پورے خطے کو تباہی کے دہانے پر لے جا رہی ہے۔ چند روز قبل اقوام متحدہ نے ایک بیان میں کہا تھا کہ امریکا کی ثالثی میں پاک بھارت جنگ بندی ’’ برقرار‘‘ ہے اور دونوں جنوبی ایشیائی ہمسایہ ممالک کو اس موقعے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے درمیان ’’ زیر التوا مسائل‘‘ سے نمٹنا چاہیے، جب کہ امریکی صدر ٹرمپ نے کہا کہ انھوں نے نہ صرف جنگ بندی میں ثالثی میں مدد کی بلکہ ہمالیہ کے علاقے کشمیر میں جاری تنازع پر ثالثی کی پیش کش بھی کی جس پر ہندوستان اور پاکستان دونوں مکمل طور پر دعویٰ کرتے ہیں۔
دونوں ممالک کشمیر پر دو جنگیں لڑچکے ہیں، جسے طویل عرصے سے علاقائی نیوکلیئر فلیش پوائنٹ قرار دیا جاتا رہا ہے۔ ٹرمپ نے کہا کہ انھوں نے دونوں فریقوں کو جنگ بندی قبول کرنے پر قائل کرنے کے لیے تجارت کو فائدے کے طور پر استعمال کیا۔ پاکستان نے ٹرمپ کے دعوؤں کی حمایت کی ہے، لیکن نئی دہلی ان سے اختلاف کرتا ہے۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے جنگ بندی کو مسترد کرتے ہوئے اسے لڑائی میں ’’ تعطل‘‘ قرار دیا تھا۔ نئی دہلی نے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی ٹرمپ کی پیش کش کو بھی مسترد کردیا۔ صورتحال کی نزاکت کے پیش نظر پاکستان کے دفتر خارجہ نے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ حالیہ جنگ بندی کے بعد آنے والے دنوں میں بھارت کے اقدامات پرکڑی نظر رکھے۔
’’ورنہ میری گولی تو ہے ہی‘‘ یہ الفاظ کسی ریاست کے سربراہ کے نہیں ہوسکتے۔ باوقار لوگ جنگ بھی وقار سے لڑتے ہیں، ریاستوں کے کچھ اصول ہوتے ہیں، حکمرانوں کی کوئی توقیر ہوتی ہے۔ نریندر مودی کے اشتعال انگیز بیان کے باوجود پاکستان تحمل کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ بھارت کے وزیراعظم، حالیہ دنوں میں اپنے اشتعال انگیز بیانات اور اقدامات کے ذریعے پاکستان کے خلاف فضا کو مسلسل کشیدہ کر رہے ہیں۔ ان کی تقاریر، فوجی نقل و حرکت اور پاکستان پر بلا ثبوت الزامات نہ صرف خطے میں امن کو خطرے میں ڈال رہے ہیں بلکہ عالمی برادری کو بھی الجھن میں ڈال رہے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ مودی اس جارحانہ حکمت عملی سے آخرکیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ بھارت میں اس وقت متعدد داخلی مسائل سنگین صورت اختیارکرچکے ہیں۔ متعدد بھارتی ریاستوں میں علیحدگی کی تحریکیں زور پکڑ رہی ہیں۔ عوام کے لیے مودی حکومت کی معاشی پالیسیاں ناکام ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔ مہنگائی اور بے روزگاری نے عام آدمی کی زندگی مشکل بنا دی ہے۔ زرعی اصلاحات کے خلاف کسانوں کی طویل احتجاجی تحریک، اقلیتوں پر مظالم اور مذہبی انتہا پسندی میں اضافہ، یہ سب مسائل مودی حکومت کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہیں۔
ان حالات میں حکومت کے لیے سب سے آسان راستہ ایک بیرونی دشمن کی تخلیق ہے تاکہ عوام کی توجہ داخلی مسائل سے ہٹائی جا سکے، اور اس کے لیے پاکستان کو بار بار نشانہ بنایا جاتا ہے۔ مودی حکومت کی سیاست کا مرکز مذہبی شدت پسندی اور قوم پرستی ہے۔ پاکستان کے خلاف سخت موقف اپنانا اور جنگی جنون کو ہوا دینا بھارتی عوام کے ایک بڑے طبقے میں مقبولیت کا باعث بنتا ہے۔ مودی اس بیانیے کو انتخابات کے دوران بارہا استعمال کرچکے ہیں۔ ہرموقع پر انھوں نے قومی جذبات کو بھڑکانے کی کوشش کی۔
اس کا مقصد واضح ہے، عوامی حمایت حاصل کرنا اور اپنی سیاسی طاقت کو مضبوط کرنا۔مودی حکومت کی اشتعال انگیزی پاکستان کے لیے یقیناً ایک بڑا چیلنج ہے، لیکن اگر اس کا سامنا دانش مندی اور تدبر سے کیا جائے تو یہ ایک موقع بھی بن سکتا ہے۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ سفارتی محاذ پر بھارت کی جنگجویانہ پالیسی کو بے نقاب کرے۔
اقوام متحدہ، اسلامی تعاون تنظیم اور دیگر عالمی فورمز پر بھارت کے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اورکشمیر میں مظالم کو اجاگر کیا جائے۔ عالمی میڈیا کو حقائق فراہم کیے جائیں تاکہ مودی حکومت کی اصل تصویر دنیا کے سامنے آ سکے۔ پاکستان کو داخلی سطح پر بھی خود کو مضبوط کرنا ہوگا۔ معیشت کی بہتری، اداروں کی مضبوطی اور عوام کی فلاح و بہبود کے اقدامات بھارت کی جارحیت کا بہترین جواب ہیں۔ جب ایک قوم داخلی طور پر مضبوط ہوتی ہے توکوئی بیرونی دباؤ اسے کمزور نہیں کر سکتا۔ تاہم، ہماری مسلح افواج اور عوام ہر ممکن دفاع کے لیے تیار ہیں، اگر بھارت نے کبھی بھی جارحیت کی حد پار کی تو پاکستان اس کا منہ توڑ جواب دے گا۔
حالیہ دنوں امریکی حکام کے ساتھ سعودی عرب اور ایران نے کشیدگی کم کرنے کے لیے کردار ادا کیا۔ بھارت اگر برسوں پہلے پاکستان کے موقف کو تسلیم کرکے تیسرے ملک کی ثالثی قبول کرلیتا تو اب تک کئی تنازعات حل ہو چکے ہوتے۔ حالیہ جنگ صرف جوانوں نے سرحد پر جا کر نہیں لڑی بلکہ سرحدوں سے دور بیٹھ کر ٹیکنالوجی سے ہتھ جوڑی بھی کی گئی۔ ہائبرڈ جنگ سیاسی، روایتی، سائبر اور فاسد جنگوں کا مجموعہ ہے۔ ہائبرڈ جنگ نے لوگوں، حکومت اور ریاست کے اداروں کے لیے ایک چیلنج کا کام کیا ہے۔ پاکستان اور بھارت گنجان آباد، ثقافتی لحاظ سے متنوع خطہ ہیں۔
یہ خطہ ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس میں کئی ممالک سے پیچھے ہے۔ CPEC جیسے تجارت اور رابطے کے منصوبوں کے ذریعے پیداواری روابط خطے میں ہائبرڈ امن کے تصور کو متعارف کرانے کا ایک ممکنہ ذریعہ بن سکتا ہے۔ دو ایٹمی پڑوسی ممالک کے درمیان تنازعات کے حل کا موثر طریقہ کار ہی خطے کی ترقی کا واحد راستہ ہوگا۔ پاکستان اور بھارت سیاچن تنازعہ، سرکریک اور کشمیر کو حل کرنے میں ناکام رہے۔ اب ان میں سندھ طاس اور دہشت گردی کے امور بھی شامل ہوگئے ہیں۔ مسئلہ کشمیر برصغیر میں برطانوی نوآبادیاتی حکمرانی کی پیداوار ہے جو ایٹمی ہتھیار رکھنے والی دو ریاستوں کے درمیان تمام مروجہ تنازعات میں سب سے زیادہ خطرناک، مہلک اور مہنگا ہے۔
جنوبی ایشیا کو قدرتی وسائل کی فراوانی حاصل ہے۔ کیا جنگیں مسائل کا حل ہوتی ہیں؟ اگر یہ سوال دنیا کے کسی بھی باشعور انسان سے کیا جائے تو اس کا جواب یقینا نہیں میں ہوگا لیکن نجانے ہمسایہ ملک بھارت اور بھارتی میڈیا کی سمجھ میں یہ بات کیوں نہیں آ رہی؟ بھارت میں وقوع پذیر ہونے والے کسی بھی واقعے کو جواز بنا کر پاکستان سے جنگ کرنے کا راگ آلاپ دیا جاتا ہے۔ سردست پاکستان ہمیشہ کی طرح مذاکرات کی بات کر رہا ہے، کیونکہ تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ جنگیں مسائل کا حل نہیں ہوتیں بلکہ یہ تو مسائل کو جنم دیتی ہیں۔ جنگوں کے نتیجے میں تباہی و بربادیوں کی ایسی داستانیں رقم ہوتی ہیں کہ آنے والی نسلوں کو بھی مدتوں بادل نخواستہ یاد رکھنا پڑتا ہے اور مصائب جھیلنا پڑتے ہیں۔
پاکستان امن کا پرچار چاہتا ہے یہی وجہ ہے کہ ہمیشہ مذاکرات پر زور دیتا آیاہے۔ اب ایک طرف بھارت تمام تر اخلاقی حدوں کو پارکرنے کی کوشش میں رہتا ہے تو دوسری جانب پاکستان اپنے پرامن نقطہ نظر پر قائم ہے اور خطے میں امن کی فضا چاہتا ہے۔ دراصل معاملات کے حل کا واحد راستہ صرف مذاکرات ہیں۔ ترقی کے راستے پرگامزن ہونے کے لیے دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان اچھے تعلقات کا ہونا نہایت ضروری ہے جس کے لیے مذاکرات کے ذریعے ٹھوس حکمت عملی اپنائی جائے۔
یہاں عالمی برادری کی بھی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ بھارت کی اشتعال انگیزی کو روکے۔ جنوبی ایشیا میں دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان کشیدگی صرف دونوں ممالک کے لیے نہیں بلکہ پوری دنیا کے امن و استحکام کے لیے خطرہ ہے۔ اقوام متحدہ، امریکا، چین اور دیگر بڑی طاقتوں کو چاہیے کہ وہ بھارت کو اشتعال انگیز اقدامات سے باز رکھیں اور مسئلہ کشمیر سمیت تمام تنازعات کے حل کے لیے تعمیری کردار ادا کریں۔