کے پی اور بلوچستان میں معدنیات کے شعبے میں بے پناہ مواقع موجود ہیں، فیصل کریم کنڈی
اشاعت کی تاریخ: 28th, May 2025 GMT
پشاور:
گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی نے کہا ہے کہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں معدنیات کے شعبے میں بے پناہ مواقع موجود ہیں، تیل اور گیس سمیت دیگر قدرتی وسائل سے بھرپور ہیں اور اس سے فائدہ اٹھا کر ملک کی معیشت کو مضبوط کیا جا سکتا ہے۔
گورنر ہاؤس پشاور میں امریکی نژاد پاکستانی انجنیئر ذیشان شاہد، کینیڈا کے ہائی کمیشن میں ٹریڈ کمشنر ذوہیب احمد خان اور معروف سماجی شخصیت احتشام سمیت ایک وفد نے فیصل کریم کنڈی سے ملاقات کی۔
اے پی پی کی رپورٹ کے مطابق وفد کی ملاقات کے دوران ملک میں توانائی کے مختلف شعبوں، خاص طور پر گرین انرجی، مائننگ اور آئل سیکٹر میں سرمایہ کاری کے مواقع پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
گورنر فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ پاکستان میں قدرتی وسائل کے بڑے ذخائر موجود ہیں جنہیں بروئے کار لا کر توانائی بحران پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا کے پہاڑی اور معدنیاتی علاقوں میں قیمتی دھاتوں اور معدنیات کے ذخائر موجود ہیں، جن کی تلاش اور ترقی سے مقامی روزگار کے مواقع بڑھائے جا سکتے ہیں۔
گورنر کے پی نے گرین انرجی کے شعبے میں سرمایہ کاری کو وقت کی اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے کہا کہ ماحول دوست توانائی کے ذرائع سے نہ صرف ملک کی توانائی کی ضروریات پوری ہوں گی بلکہ ماحولیاتی آلودگی میں بھی کمی آئے گی۔
ملاقات میں خیبرپختونخوا کے طلبہ کے لیے بیرون ممالک اسکالر شپ کے حصول اور سیلاب متاثرین کو سہولیات کی فراہمی کی تجاویز پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: فیصل کریم کنڈی موجود ہیں
پڑھیں:
جرگے کی بنیاد پر فیصلے اور قتل جیسے اقدامات کسی صورت قبول نہیں، وزیر صحت بلوچستان بخت کاکڑ
بلوچستان میں غیرت کے نام پر قتل کے حالیہ واقعات کے حوالے سے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے صوبائی وزیر صحت بخت کاکڑ نے کہا کہ جرگے کی بنیاد پر فیصلے اور قتل جیسے اقدامات کسی صورت قابلِ قبول نہیں، موجودہ دور میں کہ جب قانون موجود ہے، 2 متوازی نظام نہیں چل سکتے۔
صوبائی وزیر کے مطابق ماضی میں جب ریاستی ادارے یا عدالتی نظام موجود نہیں تھے تو جرگہ ایک مقامی سطح پر انصاف فراہم کرنے والا نظام تھا، جو مخصوص قبائلی حالات میں اپنی افادیت رکھتا تھا۔ ’تاہم اب، چونکہ ملک میں باقاعدہ عدالتی نظام اور قانون موجود ہے، لہٰذا کسی کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ بغیر تفتیش یا عدالتی کارروائی کے کسی فرد کو موت کی سزا دے۔‘
صوبائی وزیرصحت بخت کاکڑ کا کہنا تھا کہ اگر کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو اس کے لیے قانونی دائرہ کار موجود ہے، تفتیش ہونی چاہیے اور عدالتی کارروائی کے بعد ہی فیصلہ کیا جانا چاہیے، کیونکہ جرگہ بٹھا کر محض الزام کی بنیاد پر کسی کو قتل کر دینا معاشرے کے لیے ایک خطرناک رجحان ہے۔
ایک سوال کے جواب میں بخت کاکڑ نے کہا کہ قانون تو موجود ہے، لیکن مسئلہ اُس وقت پیدا ہوتا ہے جب مقدمات کی پیروی اور تفتیش اس معیار پر نہیں ہوتی جیسا کہ ہونی چاہیے۔ ’اکثر اوقات مقتول کے قریبی رشتہ دار، خاص طور پر اہم خاندانی گواہ، عدالت میں پیش نہیں ہوتے، جس سے کیس کمزور ہو جاتا ہے اور ملزمان قانونی سقم کا فائدہ اٹھا کر بچ نکلتے ہیں۔‘
صوبائی وزیرصحت کا کہنا تھا کہ ڈگاری واقعے کے بعد حکومت نے فوری ردعمل دیتے ہوئے مؤثر کارروائیاں کیں، اور وزیراعلیٰ بلوچستان، سرفراز بگٹی، نے کھلے الفاظ میں سرداری نظام اور جرگوں پر سوال اٹھائے جو کہ ایک خوش آئند اقدام ہے۔
’جب تک ہم معاشرتی سطح پر ان معاملات پر کھل کر بحث و مباحثہ نہیں کریں گے، اس وقت تک مؤثر قانون سازی اور اصلاحات بھی ممکن نہیں ہو سکیں گی۔
‘
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بخت کاکڑ جرگہ غیرت قتل وزیر صحت