ٹیکس بل پر اختلافات کے بعد ایلون مسک نے ٹرمپ کی حکومت سے استعفیٰ دے دیا
اشاعت کی تاریخ: 29th, May 2025 GMT
امریکی صدر کے مشیر اور ٹیک ارب پتی ایلون مسک نے سوشل میڈیا پر اعلان کیا ہے کہ وہ ٹرمپ انتظامیہ میں اپنے عہدے سے مستعفی ہو رہے ہیں، وائٹ ہاؤس نے بھی ان کے استعفے کی تصدیق کردی ہے۔
برطانوی اخبار ’دی گارجین‘ کی رپورٹ کے مطابق ایلون مسک نے ’ایکس‘ پر لکھا کہ ’ایک خصوصی سرکاری ملازم کے طور پر میری طے شدہ مدت کے اختتام پر میں صدر @realDonaldTrump کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ انہوں نے مجھے فضول اخراجات کو کم کرنے کا موقع دیا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ڈپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشنسی (DOGE) مشن وقت کے ساتھ مضبوط ہوتا جائے گا، کیونکہ یہ حکومت میں ایک طرزِ زندگی بن جائے گا۔‘
ایک وائٹ ہاؤس اہلکار نے ’رائٹرز‘ کو بتایا کہ یہ درست ہے کہ مسک انتظامیہ چھوڑ رہے ہیں اور ان کا ’آف بورڈنگ‘ آج رات سے شروع ہوگا۔
ایک ایسے شخص کا اچانک اور غیر رسمی طور پر جانا، جس نے خود کو ٹرمپ کا ’پہلا دوست‘ قرار دیا تھا، غیر متوقع تھا، معاملے سے واقف ذرائع کے مطابق مسک نے استعفیٰ دینے سے قبل ٹرمپ سے باقاعدہ بات چیت نہیں کی اور ان کا فیصلہ ’سینئر اسٹاف کی سطح پر‘ کیا گیا تھا۔
دنیا کے امیر ترین شخص ایلون مسک نے ایک غیر منتخب عہدیدار کے طور پر اپنے کردار کا دفاع کیا، جنہیں ٹرمپ نے امریکی حکومت کے بعض حصے ختم کرنے کے لیے بے مثال اختیارات دیے تھے، ٹرمپ انتظامیہ میں ایلون مسک کی 130 دن کی مدت 30 مئی کو مکمل ہو رہی تھی۔
ایلون مسک نے ٹرمپ کے ٹیکس بل پر اختلاف کے بعد امریکی حکومت کے عہدے سے استعفیٰ دیا ہے۔
مسک اور انتظامیہ دونوں نے کہا ہے کہ ڈوج کے حکومت کو از سر نو ترتیب دینے اور سکڑنے کی کوششیں جاری رہیں گی۔
ایلون مسک پورا ہفتہ واشنگٹن سے واپسی اور اپنے کاروباری منصوبوں میں واپسی کے عزم کا اشارہ دیتے آرہے تھے، انہوں نے ٹرمپ کے اخراجاتی منصوبے پر شدید تنقید کی اور محکمہ برائے حکومتی کارکردگی کی کوششوں کے ردعمل پر مایوسی کا اظہار کیا۔
انہوں نے صدر کے اہم ٹیکس بل کو بہت مہنگا قرار دیا اور کہا کہ یہ حکومت کو مؤثر بنانے کی ان کی کوششوں کو نقصان پہنچائے گا۔
ایلون مسک نے ’واشنگٹن پوسٹ‘ کو بتایا تھا کہ وفاقی بیوروکریسی کی صورتحال میری توقعات سے کہیں بدتر ہے، لگتا تھا کہ کچھ مسائل ہیں لیکن ڈی سی میں بہتری لانے کی کوشش ایک مشکل جنگ ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ڈوج (DOGE) کو ’قربانی کا بکرا‘ بنا دیا گیا جسے ٹرمپ انتظامیہ میں کسی بھی ناکامی کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔
ایلون مسک نے نجی طور پر کابینہ کے چند اعلیٰ سطح کے حکام سے اختلاف کیا اور پبلک میں وائٹ ہاؤس کے تجارتی مشیر پیٹر ناوارو کو ’بیوقوف‘ کہا، کیونکہ انہوں نے امریکا اور یورپ کے درمیان زیرو ٹیرف کی مسک کی تجویز کو مسترد کیا تھا۔
مسک نے حال ہی میں وائٹ ہاؤس حکام سے ابوظبی اور اوپن اے آئی کے درمیان ہونے والے معاہدے پر بھی مایوسی کا اظہار کیا تھا، انہوں نے اس سے پہلے اس معاہدے کو اس وقت تک روکنے کی کوشش کی تھی جب تک کہ ان کی کمپنی کو اس میں شامل نہ کیا جائے۔
نیویارک ٹائمز نے مزید بتایا کہ ایلون مسک کی سیاست سے حالیہ ’مایوسی‘ کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وسکونسن میں ان کا پسندیدہ عدالتی امیدوار ناکام ہو گیا، حالانکہ مسک نے اس مہم میں ڈھائی کروڑ ڈالر خرچ کیے تھے۔
رائٹرز کے ایک جائزے کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ اور ڈوج نے وفاقی سول ورک فورس میں سے تقریباً 12 فیصد یعنی 23 لاکھ میں سے 2 لاکھ 60 ہزار ملازمین کو نکال دیا ہے جو بنیادی طور پر برطرفی کی دھمکیوں، بائی آؤٹ اور قبل از وقت ریٹائرمنٹ کی پیشکشوں کے ذریعے ممکن ہوا۔
ایلون مسک کی سیاسی سرگرمیوں نے مظاہروں کو جنم دیا اور کچھ سرمایہ کاروں نے مطالبہ کیا کہ وہ ٹرمپ کے مشیر کے طور پر کام چھوڑ کر ٹیسلا پر زیادہ توجہ دیں۔
گزشتہ سال ٹرمپ کی صدارتی مہم اور دیگر ریپبلکن امیدواروں کے لیے تقریباً 30 کروڑ ڈالر خرچ کرنے کے بعد انہوں نے اس ماہ کے شروع میں کہا تھا کہ وہ اپنی سیاسی فنڈنگ کو نمایاں طور پر کم کریں گے، قطر میں اقتصادی فورم سے خطاب میں انہوں نے کہا تھا کہ ’میرے خیال میں، میں کافی کچھ کر چکا ہوں‘۔
اگرچہ مسک نے اس سال ٹرمپ کے مشیروں سے کہا تھا کہ وہ 2026 کے وسط مدتی انتخابات سے قبل صدر سے منسلک گروپوں کو 10 کروڑ ڈالر دیں گے، تاہم نیویارک ٹائمز کے مطابق یہ رقم اس ہفتے تک فراہم نہیں کی گئی ہے۔
Post Views: 4.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: ایلون مسک نے وائٹ ہاو س انہوں نے کے مطابق ٹرمپ کے مسک کی تھا کہ
پڑھیں:
اینٹی ٹیرف اشتہار پر صدر ٹرمپ سے معافی مانگ لی، کینیڈین وزیرِاعظم
کینیڈین وزیرِاعظم مارک کارنی نے ہفتے کے روز تصدیق کی کہ انہوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ایک ’اینٹی ٹیرف اشتہار‘ پر معافی مانگی ہے، جس میں سابق امریکی صدر رونالڈ ریگن کو دکھایا گیا تھا جب کہ انہوں نے اونٹاریو کے وزیرِاعلیٰ ڈگ فورڈ کو یہ اشتہار نشر نہ کرنے کا مشورہ دیا تھا۔
غیر ملکی خبررساں اداروں ’اے ایف پی‘ اور ’رائٹرز‘ کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے اس اشتہار کو ’جعلی اینٹی ٹیرف مہم‘ قرار دیتے ہوئے کینیڈین اشیا پر مزید 10 فیصد ٹیرف عائد کرنے اور تمام تجارتی مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔
مارک کارنی نے جنوبی کوریا کے شہر گیونگجو میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میں نے امریکی صدر سے معافی مانگی تھی کیوں کہ وہ اس اشتہار سے ناراض تھے۔
صحافی کی جانب سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ تجارتی مذاکرات اس وقت دوبارہ شروع ہوں گے جب امریکا تیار ہوگا۔
کینیڈا کے وزیراعظم نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ انہوں نے اشتہار نشر ہونے سے پہلے ڈگ فورڈ کے ساتھ اس کا جائزہ لیا تھا مگر اسے استعمال کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں اس اشتہار کو نشر کرنے کے حق میں نہیں ہوں۔
یاد رہے کہ یہ اشتہار کینیڈا کی ریاست اونٹاریو کے وزیرِاعلیٰ نے تیار کرایا تھا، جو ایک قدامت پسند سیاستدان ہیں اور جن کا موازنہ اکثر ٹرمپ سے کیا جاتا ہے، اس اشتہار میں ریگن کا ایک بیان شامل کیا گیا ہے، جس میں وہ کہتے ہیں کہ ’ٹیرف تجارتی جنگوں اور معاشی تباہی کا باعث بنتے ہیں‘۔
مارک کارنی نے مزید کہا کہ چینی صدر شی جن پنگ کے ساتھ ان کی گفتگو دوطرفہ تعلقات میں ایک اہم موڑ ثابت ہوئی، اور انہوں نے اس دوران غیر ملکی مداخلت جیسے حساس معاملات پر بھی بات کی۔
کینیڈا کے چین کے ساتھ تعلقات مغربی ممالک میں سب سے زیادہ کشیدہ رہے ہیں، تاہم اب دونوں ممالک ٹرمپ کی جانب سے عائد کردہ ٹیرف کے دباؤ کا سامنا کر رہے ہیں، حالانکہ شی اور ٹرمپ نے جمعرات کے روز کشیدگی کم کرنے پر اتفاق کیا تھا۔
چین اور کینیڈا نے جمعے کو 2017 کے بعد پہلی بار اپنے رہنماؤں کے درمیان باضابطہ مذاکرات کیے۔
کینیڈین وزیراعظم کا صحافیوں سے گفتگو میں مزید کہنا تھا کہ ہم نے اب ایک ایسا راستہ کھول لیا ہے جس کے ذریعے موجودہ مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ شی جن پنگ کی طرف سے ’نئے سال میں‘ چین کے دورے کی دعوت قبول کر لی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ میں نے اپنے وزرا اور حکام کو ہدایت دی ہے کہ وہ باہمی تعاون سے موجودہ چیلنجز کے حل تلاش کریں اور ترقی و اشتراک کے نئے مواقع کی نشاندہی کریں۔