کئی برس پہلے جسٹن بیبر کے مقبول گانے "Baby" کو اپنی آواز میں گا کر عالمی سطح پر شہرت حاصل کرنے والی پاکستانی گلوکار بہنیں، ثانیہ اور مقدس، آج بھی انڈسٹری میں امتیازی سلوک کا سامنا کرنے پر دل گرفتہ ہیں۔

حال ہی میں ایک ٹی وی شو میں شرکت کے دوران دونوں بہنوں نے اپنی زندگی کے نشیب و فراز اور فنی سفر کے کئی اَن سنے پہلوؤں پر گفتگو کی۔

جسٹن بے بیز نے بتایا کہ اگرچہ وہ آج میوزک کی دنیا میں ایک پہچان رکھتی ہیں، لیکن انہیں اب بھی لوگوں کی طرف سے خاندانی پس منظر کا طعنہ سننا پڑتا ہے۔ مقدس نے شکوہ کیا کہ ان کی کامیابی کے باوجود معاشرہ انہیں ان کے پس منظر سے جوڑ کر دیکھتا ہے اور یوں ان کے ساتھ تفریق روا رکھی جاتی ہے۔ ان کے مطابق یہ امتیازی رویہ صرف محسوس ہی نہیں ہوتا، بلکہ وہ اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ چکی ہیں اور کانوں سے سن چکی ہیں۔ یہی وہ رویہ ہے جو ان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔

پروگرام میں دونوں نے بتایا کہ وہ ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں لیکن قسمت نے ان کا ساتھ دیا اور خدا کے کرم سے آج وہ ایک باعزت مقام پر ہیں۔ ثانیہ کے دو بچے ہیں، جن میں بڑا بیٹا آٹھ سال کا ہے، جبکہ مقدس تاحال ماں نہیں بن سکیں۔ دونوں نے بتایا کہ ان کی شادیاں کئی سال قبل خاندان کی رضامندی سے ہوئیں۔

جسٹن بے بیز نے یہ خواہش بھی ظاہر کی کہ وہ چاہتی ہیں کہ ان کی شہرت کا سفر اتنا بلند ہو کہ ان کے والدین اپنی زندگی میں ان کی کامیابی کا مشاہدہ کر سکیں۔ ان کا کہنا تھا کہ والدین کی عمر زیادہ ہوچکی ہے اور وہ ان کی موجودگی میں کامیابی کی اونچائیوں کو چھونا چاہتی ہیں۔

یاد رہے کہ 2015 میں جسٹن بیبر کے گانے "Baby" کی مقامی انداز میں گائی گئی ویڈیو نے ان دونوں بہنوں کو راتوں رات مشہور کر دیا تھا۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی اس ویڈیو کے بعد انہیں کوک اسٹوڈیو سمیت مختلف میوزک پلیٹ فارمز پر گلوکاری کے مواقع ملے، اور تب سے یہ دونوں ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے میوزک انڈسٹری کا حصہ ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

سپریم کورٹ کی پابندی کے باوجود مدارس کے خلاف کارروائی توہین عدالت ہے، ارشد مدنی

جمعیۃ علماء ہند کے صدر نے کہا کہ سپریم کورٹ کی اس پابندی کے باوجود مدارس، درگاہوں، عیدگاہوں اور قبرستانوں کے خلاف یک طرفہ کارروائی بلا روک ٹوک جاری ہے، سینکڑوں مدارس کو غیر آئینی قرار دیکر سیل کر دیا گیا ہے اور کئی مدارس کو مسمار بھی کر دیا گیا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ اترپردیش کے سرائے میر میں منعقدہ جمعیۃ علماء ہند کی آل انڈیا مدرسہ سکیورٹی کانفرنس کے دوران جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کی پابندی کے باوجود مدارس کے خلاف کارروائی توہین عدالت ہے۔ مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ مدارس کے تحفظ کے لئے ہماری لڑائی قانونی طور پر جاری رہے گی۔ اس دوران مولانا ارشد مدنی نے مدرسہ چلانے والوں سے دستاویزات درست کرنے کو کہا۔ آپ کو بتاتے چلیں کہ جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی کی درخواست پر 21 اکتوبر 2024ء کو سابق چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی قیادت والی تین رکنی بنچ نے مدارس کے خلاف کسی بھی کارروائی پر روک لگا دی تھی اور ان تمام نوٹسوں پر روک لگا دی تھی جو مختلف ریاستوں خصوصاً اترپردیش حکومت کی طرف سے مدارس کو جاری کئے گئے تھے۔ عدالت نے کہا تھا کہ جب تک عدالت کی طرف سے نوٹس جاری نہیں ہوتا، اگر اس سلسلے میں مرکزی یا ریاستی حکومت کی طرف سے کوئی نوٹس یا حکم جاری کیا جاتا ہے، تو اس پر بھی پابندی برقرار رہے گی۔

مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ سپریم کورٹ کی اس پابندی کے باوجود مدارس، درگاہوں، عیدگاہوں اور قبرستانوں کے خلاف یک طرفہ کارروائی بلا روک ٹوک جاری ہے۔ سینکڑوں مدارس کو غیر آئینی قرار دے کر سیل کر دیا گیا ہے اور کئی مدارس کو مسمار بھی کر دیا گیا ہے۔ حکومت کی یہ مہم سپریم کورٹ کے حکم کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ یہ مہم مسلمانوں کی مذہبی آزادی پر سنگین حملہ ہے۔ پہلے اتراکھنڈ اور اب اتر پردیش میں مدارس کو غیر آئینی قرار دے کر بند کرنے کی جو مہم شروع کی گئی ہے وہ بہت خطرناک ہے۔ نیپال کے سرحدی اضلاع میں کارروائی کے بعد حکومت اپنا دائرہ کار بڑھا سکتی ہے۔ جمعیت علماء ہند ایسی مہم کے خلاف قانونی جنگ لڑ رہی ہے۔ مولانا ارشد مدنی نے مدرسہ آپریٹرز سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنے مالی لین دین کے درست اکاؤنٹس رکھیں تاکہ انہیں کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے اور حکومت کوئی اقدام نہ کر سکے۔

سہارنپور اترپردیش میں غیر قانونی مدارس کے خلاف ہو رہی کارروائی سے اسلامی تنظیمیں ناراض ہیں، کئی تنظیمیں قانون سے لڑنے کے ساتھ ساتھ کارروائی کے خلاف سڑکوں پر آکر اپنے غصے کا اظہار کر رہی ہیں۔ جمعیت علماء ہند نے حکومت کے اس اقدام کو غیر قانونی قرار دیا ہے۔ دارالعلوم کے اعلیٰ ترین ادارے اور مجلس شوریٰ کے قومی صدر اور رکن مولانا ارشد مدنی نے مدارس کو بند کرنے کی مہم کو مسلمانوں کی مذہبی آزادی اور آئینی حقوق پر سنگین حملہ قرار دیا ہے۔ مولانا ارشد مدنی کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ مدارس مسلمانوں کی لائف لائن ہیں۔ حکومت ہماری لائف لائن کاٹنے کی سازش کر رہی ہے۔ نیز مدارس کو غیر آئینی قرار دینے اور ان کے خلاف کارروائی کی تازہ ترین مہم سپریم کورٹ کے فیصلے کی توہین ہے۔ سپریم کورٹ کو اس کا نوٹس لینا چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ ہم جمہوریت، آئین کی بالادستی اور مدارس کے تحفظ کے لئے قانونی اور جمہوری جدوجہد جاری رکھیں گے۔

متعلقہ مضامین

  • سپریم کورٹ کی پابندی کے باوجود مدارس کے خلاف کارروائی توہین عدالت ہے، ارشد مدنی
  • وزیراعظم کی ایف بی آر اصلاحات کی تھرڈ پارٹی ویلیڈیشن کیلئے عالمی شہرت یافتہ کمپنیوں کی خدمات حاصل کرنے کی ہدایت
  • نواز شریف خصوصی طیارے کے ذریعے لندن جانےکے لیے جاتی امرا سے ایئرپورٹ روانہ
  • کیا پاکستانی ٹیم بنگلادیش کا دورہ کرے گی؟ نیا شیڈول بھی منظر عام پر
  • غزہ کے کھنڈروں سے بلند ہوتی امید کی دھنیں
  • بھارتی مظالم کے باوجود کشمیریوں کا جذبۂ حریت جوان
  • ہائی بلڈ پریشر اور دل کی بیماریوں میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟ وجہ سامنے آگئی
  • بابراعظم سڑک پر نوجوان مداحوں سے الجھ پڑے، ویڈیو وائرل
  • جی جی اور بیلا حدید کی ایک اور بہن منظرِ عام پر آگئی