پاکستان اور بنگلا دیش کو قریب لانے کیلئے کام کرنے کی ضرورت ہے: صدر مملکت
اشاعت کی تاریخ: 1st, June 2025 GMT
لاہور ( نیوزڈیسک) صدر مملکت آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ پاکستان اور بنگلا دیش کو ایک دوسرے کے قریب لانے کیلئے کام کرنے کی ضرورت ہے۔
صدر مملکت نے گورنر ہاؤس لاہور میں پاک بنگلا دیش کرکٹ ٹیموں کے اعزاز میں دیئے گئے استقبالیہ میں شرکت کی جہاں انہوں نے کرکٹرز اور دونوں ٹیموں کے آفیشلز کے ساتھ مصافحہ کیا، گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر اور چیئرمین پی سی بی محسن نقوی بھی موجود تھے۔
اس موقع پر آصف علی زرداری نے کہا کہ اسلام آباد اور ڈھاکہ کے درمیان حالیہ سیریز میں پاکستان کرکٹ ٹیم کی کارکردگی اچھی رہی، بنگلا دیش کرکٹ ٹیم بطور سفیر پاکستان کا دورہ کر رہی ہے، انہوں نے بھی اعلیٰ معیار کا کھیل پیش کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ میں اس نسل سے تعلق رکھتا ہوں جس نے ہمیں علیحدہ ہوتے دیکھا لیکن آج کل کی نسل علیحدگی کے درد کی کیفیت کو نہیں جان سکتی، کسی بھی طرح ہمیں اس درد کا مداوا کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان اور بنگلا دیش کو ایک دوسرے کے قریب لانے کیلئے کام کرنے کی ضرورت ہے بنگالی قوم خطے کی امیر ترین قوموں میں سے تھی، ہمیں دونوں ملکوں کے عوام کی فلاح و بہبود کیلئے کام کرنا ہوگا، مل کر ایسے اقدامات کرنا ہوں گے جس سے دونوں ملکوں کے عوام خوشحال ہوں۔
صدر مملکت نے مزید کہا کہ بنگلہ دیش دنیا میں ایک کامیاب ملک کے طور پر جانا جاتا ہے، اللہ تعالیٰ نے پاکستان کی طرح ڈھاکہ کو بھی وسائل سے نوازا ہے، دونوں ملکوں کے درمیان تعاون کے وسیع مواقع موجود ہیں۔ دونوں ملکوں کی نوجوان نسل کو باہمی رابطے بڑھانے کی ضرورت ہے، کھیل باہمی رابطوں کا اہم ذریعہ ہیں۔
Post Views: 4.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: دونوں ملکوں کی ضرورت ہے صدر مملکت بنگلا دیش کیلئے کام
پڑھیں:
پاکستان بھارت کشیدگی: دونوں ملکوں کے جرنیلوں کی ایک دوسرے کو تنبیہ
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 02 جون 2025ء) پاکستان اور بھارت کے اعلیٰ فوجی حکام، جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے چیئرمین جنرل ساحر شمشاد مرزا اور بھارت کے چیف آف ڈیفنس اسٹاف جنرل انیل چوہان نے سنگاپور میں ہونے والے شانگری لا ڈائیلاگ میں دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان بڑھتے ہوئے تناؤ کے درمیان انتباہات کا تبادلہ کیا۔
جس طرح دونوں ملک جغرافیائی طور پر ایک دوسرے سے ملحق ہیں، اسی طرح ان کے یہ اعلیٰ فوجی جنرل سنگاپور میں کانفرنس کے دوران ایک دوسرے کے پاس بیٹھے اور دفاعی اختراع کے حل سے لے کر علاقائی بحران سے نمٹنے کے طریقہ کار تک کے موضوعات پر ہونے والے اجلاسوں میں حصہ لیا۔
پاک، بھارت کشیدگی: پاکستانی اعلیٰ اختیاراتی وفد غیرملکی دورے پر
بھارتی جنرل نے کیا کہا؟تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بھارت کے جنرل انیل چوہان نے پاکستان کے خلاف اپنے حالیہ 'آپریشن سندور' کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ "بھارت نے جو کچھ کیا، سیاسی طور پر، اس نے دہشت گردی کے خلاف عدم برداشت کی ایک نئی سرخ لکیر کھینچ دی ہے۔
(جاری ہے)
"بھارتی خبر رساں ادارے پی ٹی آئی نے انیل چوہان کے حوالے سے لکھا، "مجھے امید ہے کہ یہ خاص آپریشن، بنیادی طور پر یہ فوجی ڈومین میں ہے، جس سے ہمارے مخالف کو بھی کچھ سبق ملنا چاہیے اور امید ہے کہ وہ سیکھیں گے کہ یہ بھارت کی برداشت کی حد ہے۔"
ان کا مزید کہنا تھا، "ہم تقریباً دو دہائیوں اور اس سے بھی زیادہ عرصے سے دہشت گردی کی اس پراکسی جنگ کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔
ہم نے بہت سے لوگوں کو کھو دیا ہے۔۔۔۔ ہم اسے ختم کرنا چاہتے ہیں۔"جمعہ سے اتوار تک چلنے والے اس اعلیٰ عالمی دفاعی فورم کے اجلاس کے دوران دونوں پڑوسیوں کے درمیان جاری حالیہ کشیدگی بھی توجہ کا مرکز رہی۔
پاکستان اور بھارت میں ڈرونز کی جنگ، ایشیا میں ہتھیاروں کی نئی دوڑ
پاکستانی فوجی جنرل نے کیا کہا؟اپنے خطاب میں پاکستان کے جنرل ساحر شمشاد مرزا نے عارضی انتظام کرنے کے بجائے تنازعات کے حل کی طرف بڑھنے کی ضرورت پر زور دیا۔
انہوں نے خبردار کیا کہ اس کی عدم موجودگی تباہ کن کشیدگی کے اضافے کا باعث بن سکتی ہے۔'علاقائی بحران کے انتظام کے طریقہ کار' کے عنوان سے ایک پینل میں بحث کے دوران، مرزا نے کہا، "تنازعات کا انتظام کرنے سے آگے بڑھ کر تنازعات کے حل کی طرف بڑھنا ناگزیر ہو چکا ہے۔ یہ پائیدار امن اور بحران کے حتمی انتظام کو بھی یقینی بنائے گا۔
"اس کے بعد انہوں نے زور دے کر کہا کہ جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق اور عوام کی امنگوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کا جلد از جلد حل بہت ضروری ہے۔
پاکستان کی طرف سے سفارتی تعلقات بہتر کرنے پر کابل کا خیرمقدم
ان کا کہنا تھا، "بھارتی پالیسیوں کے مد نظر۔۔۔ بحران سے نمٹنے کے طریقہ کار کی عدم موجودگی کے سبب عالمی طاقتوں کو دشمنی کو موثر طور پر ختم کرانے کے لیے مداخلت کرنے کا کافی وقت بھی نہیں دے سکیں گی۔
نقصان اور تباہی سے بچانے کے لیے شاید ان کوششوں کو بہت دیر ہو چکی ہو گی۔" مسئلہ کشمیر تنازعے کا مرکزی موضوعمرزا نے کہا کہ "جب کوئی بحران نہیں ہوتا ہے، تو کشمیر پر کبھی بات تک نہیں کی جاتی ہے اور جیسا کہ ہم ہمیشہ سے کہتے رہے ہیں کہ یہ کشمیر کے لوگوں کی امنگوں کے مطابق اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق یہ مسئلہ کشمیر کا حل ہے، جو بہت سے مسائل کو حل کر دے گا۔
"انہوں نے کہا کہ "پاکستان اور بھارت کے درمیان رہ جانے والا مرکزی مسئلہ کشمیر ہے۔"
مرزا نے کہا کہ جب تک دونوں ممالک "تنازعات کے حل میں داخل نہیں ہوتے"، مسائل یونہی "ہمیشہ پھوٹتے رہیں گے۔"
مستقبل کی کسی بھی پاکستانی جارحیت کا جواب بھارتی بحریہ دے گی، راج ناتھ سنگھ
پاکستان کے اعلیٰ فوجی جنرل نے مزید کہا کہ فوجی تنازعے کے بعد، "جنگ کے دہانے تک پہنچے کی حد خطرناک حد تک زیادہ ہو گئی ہے، جس سے اب صرف متنازعہ علاقوں تک ہی نہیں بلکہ پورے بھارت اور پاکستان کے لیے خطرہ بڑھ گیا ہے۔
"مرزا نے زور دے کر کہا، "مغرب کی طرف سے بھارت کو خالص سکیورٹی فراہم کنندہ کے طور پر دیکھنے کی وجہ سے، بھارت کو جہاں تقویت ملتی ہے، وہیں علاقائی بالادستی بننے کی اس کی خواہش بھی اسے تنازعات کے انتظام کے اختیارات میں شامل ہونے کی ترغیب دے رہی ہے۔"
مرزا نے یہ بھی کہا کہ حالیہ پاک بھارت فوجی تصادم کے بعد اسٹریٹجک استحکام کی دہلیز کو "خطرناک سطح" تک کم کر دیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا، "ہم جو روایتی جنگ کی بات کرتے ہیں، اس کے تھیرشولڈ میں نمایاں طور کمی آ گئی ہے۔"پاکستانی وفد تجارتی مذاکرات کے لیے امریکہ آئے گا، ٹرمپ
واضح رہے کہ بھارت کے زیر انتظام متنازعہ خطے کشمیر کے پہلگام میں 22 اپریل کو حملہ ہوا تھا، جس میں 26 شہری ہلاک ہو گئے تھے۔ بھارت نے اس کا الزام پاکستان پر عائد کیا، جبکہ اسلام آباد اس میں ملوث ہونے سے انکار کرتا ہے اور اس نے اس کی تفتیش کا مطالبہ کیا تھا۔
تاہم بھارت نے اس الزام کے تحت ہی پاکستان کے خلاف فضائی حملے شروع کر دیے، جس کا پاکستان نے بھی جواب دیا اور دونوں میں کشیدگی عروج پر پہنچ گئی تھی۔ پھر امریکہ کی ثالثی کے بعد دونوں نے دس مئی کو جنگ بندی کا اعلان کیا۔