بھارتی سرکار کا ایک اور متنازع قدم، کرنل صوفیہ کے خاندان کو مودی روڈ شو میں شرکت پر مجبور کیا گیا
اشاعت کی تاریخ: 1st, June 2025 GMT
مودی حکومت کی جانب سے ایک اور متنازع قدم اٹھایا گیا ہے، جس کے تحت بھارتی فوج کی مسلمان خاتون آفیسر کرنل صوفیہ قریشی کے اہل خانہ کو زبردستی وزیر اعظم نریندر مودی کے روڈ شو میں شرکت پر مجبور کیا گیا۔
اطلاعات کے مطابق، کرنل صوفیہ کی بہن نے انکشاف کیا ہے کہ ’’مقامی کلیکٹر آفس سے فون کر کے اہلِ خانہ کو باضابطہ بلایا گیا اور انہیں پھول برسانے پر مجبور کیا گیا۔‘‘
یہ واقعہ اس وقت منظرِ عام پر آیا ہے جب مودی سرکار پہلے ہی کرنل صوفیہ قریشی کے خلاف مذہبی تعصب کی بنیاد پر الزامات لگانے کے باعث تنقید کی زد میں ہے۔
یاد رہے کہ بی جے پی کی جانب سے اس سے قبل کرنل صوفیہ کو اُن کی مذہبی شناخت کی بنیاد پر نشانہ بنایا گیا اور ان پر ملک دشمن عناصر سے تعلق کے بے بنیاد الزامات عائد کیے گئے تھے، حالانکہ وہ ایک تجربہ کار اور باوقار فوجی افسر ہیں جن کی پیشہ ورانہ خدمات مسلمہ ہیں۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ کرنل صوفیہ کے خاندان کو ایک سیاسی شو میں ’’نمائش‘‘ کے طور پر پیش کرنا نہ صرف بے حس عمل ہے بلکہ یہ بی جے پی کے ہندوتوا نظریے اور اقلیت مخالف پالیسیوں کو بھی واضح کرتا ہے۔
انسانی حقوق کے کارکنوں اور اپوزیشن رہنماؤں نے اس عمل کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے ’’اخلاقی پستی کی انتہا‘‘ قرار دیا ہے، اور مطالبہ کیا ہے کہ حکومت فوجی اہلکاروں کے خاندانوں کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا بند کرے۔
معاملے نے سوشل میڈیا پر بھی شدید ردعمل کو جنم دیا ہے، جہاں صارفین کرنل صوفیہ کے ساتھ ہونے والے اس رویے کو بی جے پی کے دوہرے معیار کا ثبوت قرار دے رہے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کرنل صوفیہ
پڑھیں:
سیکولر بھارتی فوج کے سربراہ کی’ متنازع انتہا پسند گرو‘کے آشرم میں حاضری: وردی ہندوتوا کے آگے جھک گئی
بھارتی فوج کا نام نہاد سیکولر چہرہ بے نقاب ہوگیا جب کہ بھارتی فوج کے سربراہ نے متنازع ، سخت انتہا پسند "بابا" جگدگرو رام بھدر آچاریہ کے آشرم میں حاضری دی اور وردی ہندوتوا کے آگے جھک گئی۔
رپورٹ کے مطابق بھارتی فوج کے سربراہ جنرل اوپندر دویدی کا مکمل فوجی وردی میں متنازع ہندو مذہبی شخصیت جگدگرو رام بھدرآچاریہ کے آشرم کا دورہ بھارتی فوج کی دیرینہ سیکولر شناخت، آئینی وفاداری اور پیشہ ورانہ غیرجانبداری کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
یہ واقعہ مذہبی قوم پرستی کے عسکری اداروں پر غلبے کا ثبوت بن چکا ہے اور اس کے خطے کے امن و استحکام پر تباہ کن اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
جنرل اوپندر دویدی نے مکمل فوجی وردی میں متنازع ہندو شخصیت رام بھدرآچاریہ کے آشرم کا دورہ کیا، جو متنازع رام جنم بھومی ایودھیہ تحریک کا انتہا پسند حامی ہے۔
رام بھدرآچاریہ وہ متنازعہ گرو ہے جو بابری مسجد کیس کے کلیدی گواہ، دلت مخالف اور مذہبی انتہا پسندی کا چہرہ ہے، جو اکژمسلمانوں، عیسائیوں اور سیاسی مخالفین کے خلاف زہر افشانی کرتا ہےجو غیر قانونی زمینوں پر قبضہ کر کے ہندو تقاریب کا جشن منا کر ریاستی اعزازات سیاسی وفاداری کے صلے میں حاصل کرتا ہے۔
بھارتی فوج کے سربراہ جنرل اوپندر دویدی اور انتہا پسند گرو کی ملاقات کے دوران رام بھدرآچاریہ نے "دکشینا" (نزرانہ)کے طور پر پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر مانگا، جسے جنرل نے قبول کیا۔ یہ فوجی غیرجانبداری کا خاتمہ اور عسکری ادارے کو مذہبی ایجنڈے کا آلہ کار بنانے کی مثال ہے۔
اس کا مطلب یہ ہواکے انڈیا جب تک ٓزاد کشمیر پر قبضہ نہیں کر لیتا پاکستان پر حملے ہوتے رہیں گے۔
یہ ملاقات "آپریشن سیندور" کے پس منظر میں ہوئی، جو پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر پر ممکنہ حملے سے جڑی ہوئی ہے - ایک ایسا خفیہ عسکری منصوبہ جس کا ہدف مبینہ طور پر پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر تھا۔ حیرت انگیز طور پر چھ ماہ قبل ہی رام بھدرآچاریہ نے ایک متنازع پیشگوئی کر دی تھی کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر جلد بھارت کا حصہ بن جائے گا۔
گویا رام بھدرآچاریہ کی پیشگوئی نہ صرف ممکنہ فالس فلیگ آپریشن کی پیشگی تیاری تھی بلکہ ایک منظم حکمتِ عملی کے تحت مذہبی تائید کے ساتھ پاکستان کے خلاف حملے کی راہ ہموار کی گئی جو اس امر کی نشاندہی کرتی ہے کہ بھارت میں ہندو شدت پسند مذہبی قیادت اور فوجی منصوبہ بندی کے درمیان گٹھ جوڑ موجود ہے۔
بھارتی فوج ہندوتوا، ذات پات اور آمرانہ سیاست میں لپٹی جا رہی ہے، اور بی جے پی و آر ایس ایس کے اثر میں “مودی کی سینا” میں بدل رہی ہے۔
ڈاکٹر جیسن فلپ جیسے نامور تجزیہ کار کے مطابق آرمی چیف کی یونیفارم میں مذہبی رہنما سے ملاقات بھارت کے سیکولر تصور کا خاتمہ ہے۔ بلکہ سابق فوجی افسر کرنل پاون نیئر نے اسے فوجی اصولوں کی خلاف ورزی قرار دیا جبکہ سیاسی تجزیہ کار سشانت سنگھ نے شدید حیرت کا اظہار کیا۔
فوجی وردی میں رام بھدرآچاریہ جیسے ہندو انتہا پسند سے ملاقات مذہبی جارحیت اور پیشہ ورانہ عسکری شناخت کے درمیان حد کو مٹا دیتی ہے۔
یہ عمل صرف داخلی سیاست یا مذہبی ایجنڈے کی ترویج تک محدود نہیں بلکہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی اور علاقائی امن کے لیے سنگین خطرہ ہے۔جب مذہبی پیشگوئیاں فوجی عزائم کا تعین کرنے لگیں تو یہ ریاستی دہشتگردی کا نیا ماڈل بن جاتا ہے۔
بھارتی فوجی سربراہ کا رام بھدرآچاریہ جیسے متعصب فرد سے تعلق فوجی ادارے میں ہندوتوا کے گہرے نفوذ کی علامت ہy.
فوج اب حکمران جماعت کی عسکری ملیشیا بن چکی ہے، “مودی کی سینا” کا لیبل حقیقت بن چکا ہے، اور فوجی تاریخ کو مذہبی اساطیر سے بدل دیا گیا ہے۔بھارتی فوج، جو کبھی سیکولر زم کی علامت تھی، اب ہندتوا رنگ میں رنگی، سیاست زدہ اور مذہبی انتہا پسندی کا آلہ بن چکی ہے۔ یہ صورت حال پورے خطے اور بین الاقوامی امن کے لیے ایک سنجیدہ چیلنج ہے۔
فوج کا سربراہ جب ایک مزیب کا رنگ اوڑھ لے تو باقی فوج میں یقیناً بددلی پھیلتی ہے۔ اور وہ یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ کیا وہ اپنی جانیں زغفرانی فوج کے لئے دے رہے ہیں؟