وفاقی حکومت کی جانب سے آئندہ مالی سال 26-2025 کا بجٹ جون کے اوائل میں پیش کرنے کا امکان ہے۔

26-2025 کے وفاقی بجٹ کی تیاریوں کے ساتھ ہی پاکستانی خواتین کی نظریں حکومتی پالیسیوں پر مرکوز ہیں جو ان کی روزمرہ زندگی کو براہِ راست متاثر کرتی ہیں۔ خواتین اس بجٹ سے اہم ریلیف کی توقع کر رہی ہیں، خاص طور پر ان اشیا پر ٹیکسز میں کمی کا مطالبہ کیا جارہا ہے جو ان کی ضروریات میں شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں وفاقی بجٹ کی تاریخ میں تبدیلی کا امکان، 2 دن کی توسیع پر غور

خواتین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں پہلے ہی کپڑوں کی قیمتیں بہت زیادہ ہیں اور ان پر مزید ٹیکسز کا بوجھ ناقابل برداشت ہے۔ اسی طرح میک اپ کی اشیا، لیدر کے بیگز اور دیگر خواتین سے متعلقہ مصنوعات بھی مہنگی ہیں جن کی قیمتوں میں کمی ہونی چاہیے۔

’کپڑوں پر ٹیکس میں کمی ہونی چاہیے‘

سارہ احمد کا تعلق راولپنڈی سے ہے، جنہوں نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ سب سے پہلے کپڑوں پر ٹیکس میں کمی کی خواہشمند ہیں، کیوںکہ پاکستان میں کپڑے خریدنا اب ایک لگژری بن گیا ہے۔

انہوں نے کہاکہ عام درمیانے طبقے کی خواتین کے لیے اچھے کپڑے خریدنا بہت مشکل ہوچکا ہے کیوںکہ کپڑوں کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پہلے کپڑوں کا جو سوٹ 7 سے 8 ہزار روپے میں مل جایا کرتا تھا، اب اس کی قیمت قریباً 20 سے 25 ہزار ہو چکی ہے۔

’میں ایک پرائیویٹ اسکول میں ٹیچر ہوں، اور میری آمدنی محدود ہے، اس لیے میں چاہتی ہوں کہ حکومت اس پر توجہ دے۔ اگر کپڑوں پر ٹیکس کم ہوگا تو خواتین کے لیے مناسب قیمت پر اچھے کپڑے دستیاب ہوں گے، اور وہ زیادہ بہتر طریقے سے اپنی ضروریات پوری کر سکیں گی۔‘

ایک سوال کے جواب میں سارہ کا کہنا تھا کہ پاکستان میں قریباً تمام برانڈز نے مہنگائی کی حد کردی ہے۔ مڈل کلاس طبقے کے لیے اب ان برانڈز سے کپڑے خریدنا بہت مشکل ہو چکا ہے۔ کپڑوں کی قیمتیں ان کی حیثیت سے دگنی ہو چکی ہیں۔ ڈیزائنرز نے من مانی قیمتیں رکھی ہوئی ہیں، اور پھر حکومت کی جانب سے ٹیکسز کے بعد تو کپڑے خریدنا ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔

’میک اپ کی اشیا پر ٹیکس میں کمی ناگزیر‘

28 سالہ عائشہ محمود ایک بیوٹیشن ہیں، جنہوں نے کہاکہ وہ اس بجٹ میں میک اپ کی اشیا پر ٹیکسز میں نمایاں کمی کا مطالبہ کرتی ہیں۔

عائشہ کا کہنا تھا کہ میک اپ اب صرف ایک خوبصورتی کی چیز نہیں رہی بلکہ یہ خواتین کی خود اعتمادی اور پروفیشنل لائف کا بھی حصہ بن چکا ہے۔ اچھی ملازمتوں کے لیے یا عوامی سطح پر خواتین کو اپنی ظاہری شخصیت پر بھی توجہ دینی پڑتی ہے، اور میک اپ اس میں اہم کردار ادا کرتا ہے، لیکن یہ اشیاء بہت مہنگی ہیں۔ خاص طور پر ان خواتین کے لیے تو اور بھی زیادہ مسئلہ ہے جو بیوٹیشن سروسز یا پھر اپنے پارلرز چلاتی ہیں۔

انہوں نے کہاکہ خاص طور پر برانڈڈ میک اپ جو باہر سے آتا ہے، اگر اس پر ٹیکس کم ہوگا تو یہ خواتین کے لیے زیادہ بہتر ہوگا، اور بجٹ کے اندر رہتے ہوئے اپنی ضروریات پوری کرنے میں آسانی ہوگی۔

’لیدر بیگز پر ٹیکس میں کمی سے خواتین کا اہم مسئلہ حل ہوگا‘

فاطمہ زہرا سافٹ ویئر انجینیئر ہیں، جنہوں نے بتایا کہ وہ لیدر کے بیگز پر ٹیکس میں کمی کی توقع کرتی ہیں۔ کہتی ہیں کہ انہیں لیدر برینڈڈ بیگز بہت پسند ہیں، کیونکہ لیدر کے بیگز پائیدار ہوتے ہیں، اور اچھا بیگ خواتین کی شخصیت کو مزید نکھارتا ہے۔ ’میں سمجھتی ہوں آپ چاہے کام پر جا رہے ہوں، خریداری کر رہے ہوں یا کسی تقریب میں جا رہے ہوں، ایک اچھے معیار کا بیگ ضروری ہوتا ہے۔‘

انہوں نے کہاکہ لیدر کے بیگز کی قیمتیں بہت زیادہ ہیں کیونکہ ان پر بھاری ٹیکس عائد ہوتا ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ حکومت اس پر غور کرے اور ٹیکس میں کمی کرے تاکہ خواتین کے لیے پائیدار اور معیاری بیگز مناسب قیمت پر دستیاب ہو سکیں۔ اس سے نہ صرف خواتین کو آسانی ہوگی بلکہ مقامی لیدر انڈسٹری کو بھی فروغ ملے گا۔

یہ بھی پڑھیں آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے ہونا ابھی باقی، وفاقی بجٹ کی تیاری تاخیر کا شکار

خواتین کی جانب سے یہ مطالبات اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ وہ معاشی دباؤ کا شکار ہیں اور حکومتی سطح پر ریلیف کی منتظر ہیں۔ آئندہ بجٹ میں یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ حکومت خواتین کی ضرورت کی چیزوں پر کس حد تک غور کرتی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews ٹیکس حکومت پاکستان خواتین کپڑے لیدر بیگز مطالبات میک اپ سامان وزارت خزانہ وزیر خزانہ وفاقی بجٹ وی نیوز.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: ٹیکس حکومت پاکستان خواتین کپڑے لیدر بیگز مطالبات میک اپ سامان وفاقی بجٹ وی نیوز پر ٹیکس میں کمی خواتین کے لیے لیدر کے بیگز کپڑے خریدنا وفاقی بجٹ کی قیمتیں خواتین کی انہوں نے نے کہاکہ میک اپ

پڑھیں:

نہ کہیں جہاں میں اماں ملی !

آواز
ایم سرور صدیقی

وفاقی حکومت نے جناتی اندازکا نیا بجلی کا سلیب سسٹم جاری کردیاہے جوطلسم ِ ہوشربا سے کم نہیں ہے۔ سمجھ نہیں آتی اشرافیہ عوام کے ساتھ کیا کھیل کھیل رہی ہے؟ شاید عوام کو چکر پہ چکر دینامقصودہے کہ عام آدمی سکھ کا سانس بھی نہ لے پائے ۔کہا یہ جارہاہے کہ بجلی ٹیرف کا پہلے جو 200 یونٹ والا رعایتی نظام تھا وہ ختم کر دیا گیا ہے۔ اب اسے بڑھا کر 300 یونٹ کر دیا گیا ہے لیکن اس میں اصل چالاکی چھپی ہے یعنی مرے کو مارے شاہ مدار۔بجلی ٹیرف کے پرانے نظام میںپہلے 100 یونٹس پر ریٹ 9 روپے فی یونٹ تھا ۔اس کے بعد کے یونٹس (100) پر ریٹ ہوتا تھا 13 روپے فی یونٹ اور اگر آپ کا بل 200 یونٹ سے اوپر چلا جاتا تو صارفین کو 34 روپے فی یونٹ کا اضافی ادا کرناپڑتے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی شرط عائد تھی کہ اگر آپ 6 مہینے تک دوبارہ 200 یونٹ سے کم پر آ جائیں تو صارفین کے بجلی کاریٹ واپس 9 روپے فی یونٹ کے ریٹ پر آ جاتا تھا۔ مطلب اگر کوئی صارف کچھ مہینے زیادہ بجلی خرچ کر گیا تو اسے دوبارہ سستے ریٹ پر آنے کا موقع ملتا تھا۔ اب جناتی اندازکے نئے بجلی کے سلیب سسٹم میں 1 یونٹ سے لے کر 300 یونٹس تک کا ریٹ سیدھا 33 روپے فی یونٹ کر دیا گیا ہے(ہور چوپو)صاف صاف ظاہرہے اب کوئی سلیب سسٹم نہیں بچا کوئی 6 مہینے کی رعایت یا واپسی کا راستہ نہیں بچا ۔جو صارف پہلے تھوڑا احتیاط کر کے 200 یونٹ سے نیچے رہ کر بچ جاتا تھا۔ اب اس کو بھی وہی مہنگا ریٹ بھرنا پڑے گا ۔اس کا نتیجہ ہے کہ 300 یونٹ کے نام پر عوام کو ایک طرف سے ریلیف کا دھوکا دیا گیا ہے کہ 300 یونٹ تک رعایت ہے لیکن حقیقتاً اب سب صارفین کو یکساں مہنگی بجلی خریدنی پڑے گی پہلے تھوڑی بہت امید بچ جاتی تھی 6 مہینے بعد سستے ریٹ کی اب وہ امید بھی حکومت نے چھین لی ہے یہ تو سراسر عوام کے ساتھ زیادتی ہے، سنگین مذاق ہے، اور معاشی قتل کے مترادف ہے اس لئے حکمرانوںکا مطمح نظرہے کہ بھاری بل آنے والے پرجو کم وسائل، غریب اور مستحقین ہے وہ خودکشی کرتے ہیں تو کرتے پھریں ہمیں کوئی پرواہ نہیں ۔صارفین کو اب احتیاط بچت یا کم خرچ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔واپڈا کے ” سیانوں” نے عوام کو ہر حال میں لوٹنے کا سسٹم بنا دیا گیا ہے ۔یہ پہلے سے بھی بڑا ظلم ہے ۔اس پر کون آواز اٹھائے گا کوئی نہیں جانتا ۔دوسری طرف بجلی بلوں کی تقسیم کا نیا نظام رائج کرتے ہوئے حکومت نے خسارے میں چلنے والے محکمہ پاکستان پوسٹ کو اہم ذمے داری سونپ دی گئی ملک بھر میں بجلی بلوں کی پرنٹنگ اور تقسیم کے حوالے سے اہم پیشرفت سامنے آئی ہے، جس کے تحت تمام بجلی تقسیم کار کمپنیوں (ڈسکوز) کے بل اب پاکستان پوسٹ کے ذریعے تقسیم کیے جائیں گے۔ابتدائی مرحلے میں یہ نظام آزمائشی بنیادوں پر شروع کیا جائے گا۔ ہر ڈسکوز کے ایک سب ڈویژن میں پاکستان پوسٹ کا عملہ بجلی بل تقسیم کرے گا۔ پائلٹ پراجیکٹ کی کامیابی کی صورت میں اسے مرحلہ وار پورے ملک تک توسیع دی جائے گی۔ آئندہ چھ ماہ میں بلوں کی مکمل تقسیم کا نظام پاکستان پوسٹ کے حوالے کر دیا جائے گا، جبکہ حتمی مرحلے میں بجلی بلوں کی چھپائی کا عمل بھی پاکستان پوسٹ انجام دے گا۔ اس نئے نظام کے نفاذ کے سلسلے میں تمام ریجنل پوسٹ ماسٹر جنرلز کو ضروری ہدایات جاری کر دی گئی ہیں، تاکہ عملہ پیشگی تیاری کر سکے۔
اس کے ساتھ ساتھ کراچی میں کے الیکٹرک کے ساتھ بھی بجلی بلوں کی تقسیم کے حوالے سے بات چیت جاری ہے۔یہ اقدام بلوں کی بروقت ترسیل، شفافیت اور لاگت میں کمی کے لئے حکومت کی ایک بڑی اصلاحاتی کوشش قرار دی جا رہی ہے۔بہرحال یہ تو انتظامی ترجیحات ہیں لیکن بجلی کے بلوںکے حوالے سے عوام کے ساتھ جو کچھ ہورہاہے پوری دنیا میں ایسا ناروا سلوک کوئی حکومت اپنے ہم وطنوں کے ساتھ نہیں کررہی شاید اسی بناء پرایک مہینے کے دوران نیا ریکارڈ قائم ہواہے۔ صرف مئی میں تقریباً 60 ہزار پاکستانی ملک چھوڑ گئے، بیرون ملک جانے والوں کی تعداد میں اپریل کے مقابلے میں 12.7 فیصد اضافہ، سال کے پہلے 5 مہینوں میں ملک چھوڑنے والوں کی تعداد 2 لاکھ 85 ہزار سے تجاوز کر گئی۔ لاکھوںپاکستانی اپنا وطن چھوڑنے پرمجبور اس لئے ہورہے ہیں کہ بجلی کے بلوںمیں ایک درجن ٹیکسز دینے کے باوجودملک میں ان کا تحفظ، سیکیورٹی نہ ہونے کے برابرہے۔ صفائی کی صورت ِ حال ناگفتہ بہ ہے۔ گلی کوچوںمیں گندگی، اُبلتے گٹر وں نے الگ جینا عذاب بنارکھاہے ۔عام آدمی کے ساتھ ائیرپورٹ تھانوں اورکچہریوں میں جو سلوک ہوتاہے ،وہ کسی سے بھی ڈھکا چھپا نہیں۔ یہی عام آدمی سرکاری دفاتر میں روز ذلیل ہوتاہے۔ سڑکوں پر ٹریفک وارڈن اتنی عزت ِ نفس مجروح کرتے ہیں کہ انسان سوچتاہے اتنا بے عزت ہونے کی بجائے خودکشی کرلے تو بہترہے ۔ یہی عوام (1) انکم ٹیکس (2) جنرل سیلز ٹیکس (3) کیپیٹل ویلیو ٹیکس (4) ویلیو ایڈڈ ٹیکس (5) سینٹرل سیلز ٹیکس (6) سروس ٹیکس (7) فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز (8) پیٹرول لیوی (9) ایکسائز ڈیوٹی (10) کسٹمز ڈیوٹی (11) اوکٹرائے ٹیکس (میونسپل ایریا میں سامان کے داخلے پر عائد ٹیکس) (12) ٹی ڈی ایس ٹیکس (ٹیکس ڈیڈکشن ایٹ سورس) (13) ایمپلائمنٹ اسٹیٹس انڈیکیٹر ٹیکس (ESI ٹیکس) (14) پراپرٹی ٹیکس (15) گورنمنٹ اسٹیمپ ڈیوٹی (16) آبیانہ (زرعی زمین کے پانی پر ٹیکس) (17) عشر (18) زکوٰة (بینکوں میں موجود رقم سے کٹوتی) (19) ڈھال ٹیکس (20) لوکل سیس (21) ہرقسم لائسنس کی فیس (22) دفاتر،ہسپتالوں اور کئی قسمکی پارکنگ فیس (23) کیپیٹل گینز ٹیکس (CGT) (24) واٹر ٹیکس (25) فلڈ ٹیکس (یا اللہ! معاف فرما) (26) پروفیشنل ٹیکس (27) روڈ ٹیکس (28) ٹول گیٹ فیس (29) سیکیورٹیز ٹرانزیکشن ٹیکس (STT) (30) ایجوکیشن سیس (31) ویلتھ ٹیکس (32) ٹرانزیئنٹ اوکیوپینسی ٹیکس (TOT) (33) کنجیشن لیوی لازمی کٹوتی (34) سپر ٹیکس (3 سے 4%) (35) ودہولڈنگ ٹیکسز (36) ایجوکیشن فیس (5%) کے علاوہ (a) بھاری تعلیمی فیسیں (b) اسکولوں میں عطیات (c) ہر چوراہے پر بھکاریوں کی جذباتی بلیک میلنگ کے عوض کیا ملتاہے بے عزتی، رسوائی اورہوکے اور کچیچیاں ۔لگتاہے عوام اشرافیہ کو ٹیکسز دینے کے لئے ہی پیدا ہوئے ہیں شاید اقبال تو اس لئے کہا تھا
نہ کہیںجہاںمیں اماں ملی جو اماں ملی تو کہاں ملی؟

متعلقہ مضامین

  • پیسہ پیسہ کرکے!!
  • پنجاب میں لائیو اسٹاک آمدن پر زرعی ٹیکس ختم، ایگریکلچرل انکم ٹیکس ترمیمی بل 2025 قائمہ کمیٹی سے منظور
  • پبلک اکاؤنٹس کمیٹی: چینی کی درآمد کیلئے ٹیکسز کو 18 فیصد سے کم کرکے 0.2 فیصد کرنے کا انکشاف
  • ایف بی آر کی اصلاحات سے ٹیکس نظام کی بہتری خوش آئند ہے، وزیراعظم
  • چینی کی ایکسپورٹ کیلیے 4 طرح کے ٹیکسز کو صفر پر رکھا گیا، قائمہ کمیٹی میں انکشاف
  • مودی دور میں خواتین کے خلاف جرائم میں خطرناک اضافہ: بی جے پی رہنماؤں پر جنسی زیادتی کے الزامات
  • پنجاب ایگریکلچرل انکم ٹیکس ترمیمی بل 2025 متفقہ طور پر منظور
  • نہ کہیں جہاں میں اماں ملی !
  • وزیر اعظم کا اہم اقدام ،خواتین کیلئے’’ آن لائن ویمن پولیس اسٹیشن‘‘ قائم،صرف ایک فون کال پر کیا کیا سہولیات فراہم کی جائیں گی ؟ جانیے
  •  بجٹ تشویش اور بے چینی کا باعث بن گیا ہے!