غزہ میں امریکا کے خوراک کے تقسیم کے مراکز فلسطینیوں کیلیے موت کا پھندا بن گئے
اشاعت کی تاریخ: 2nd, June 2025 GMT
اسرائیلی فوج نے غزہ کے علاقے رفح میں امریکی حمایت یافتہ امدادی مراکز پر خوراک کے حصول کے لیے جمع ہزاروں فلسطینیوں پر اسرائیلی فوج نے فائرنگ کی تھی۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق جنوبی غزہ کے جن 2 امدادی مراکز پر فائرنگ کی گئی وہ غزہ ہیومینیٹیرین فاؤنڈیش (GHF) کے زیر انتظام تھے۔
خیال رہے کہ غزہ ہیومینیٹیرین فاؤنڈیش (GHF) امریکا اور اسرائیل کی حمایت امدادی تنظیم ہے جس کے مراکز کو سب سے محفوظ تصور کیا جاتا تھا۔
اس واقعے سے یہ تاثر ابھرا ہے کہ مظلوم فلسطینیوں کو ٹریپ کیا گیا اور جن مراکز کو وہ محفوظ سمجھ کر امداد کے لیے جمع ہوئے۔ وہیں اُن پر گولیاں برسائی گئیں۔
عینی شاہدین نے میڈیا کو بتایا کہ فائرنگ اسرائیلی فوجی ٹینکوں سے کی گئی جس میں 32 فلسطینی شہید اور 200 سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔
اسرائیلی فوج کی فائرنگ میں شہید اور زخمی ہونے والوں میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں۔ زخمیوں میں سے 10 سے زائد کی حالت نازک ہے۔
دوسری جانب اسرائیلی حکومت نے امدادی مراکز پر فائرنگ کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ نقاب پوش حملہ آوروں نے شہریوں کو نشانہ بنایا تھا۔
ادھر امریکی ادارہ "غزہ ہیومینیٹیرین فاؤنڈیشن" نے تو سرے سے ہی فائرنگ کے واقعے کی تردید کرتے ہوئے اسے "من گھڑت رپورٹنگ" قرار دیا۔
خیال رہے کہ اس تنظیم GHF نے غزہ میں 26 مئی سے اپنی امدادی سرگرمیوں کا آغاز کیا تھا لیکن ایگزیکٹو ڈائریکٹر اور سابق امریکی فوجی جیک ووڈز نے امداد کی تقسیم شروع ہونے سے قبل ہی استعفیٰ دے دیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ منصوبہ انسانی اصولوں بشمول غیر جانبداری، انسانیت اور آزادی کے مطابق قابل عمل نہیں ہے۔
اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی اداروں نے بھی GHF کو اسرائیل کے فوجی مقاصد کے حصول کا ذریعہ قرار دیتے ہوئے کسی قسم کی معاونت سے صاف انکار کر دیا تھا۔
اقوام متحدہ کے فلسطینی پناہ گزین ادارے کے سربراہ فلپ لازارینی نے کہا کہ امدادی مراکز اب فلسطینیوں کے لیے موت کا پھندا بن چکے ہیں۔
الجزیرہ کی رپورٹر ہند خضری نے بتایا کہ فلسطینی یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ امدادی مراکز متنازع اور قابل بھروسہ نہیں ہیں، صرف ایک وقت کے کھانے کے لیے اپنی جان خطرے میں ڈال رہے ہیں۔
رپورٹر نے مزید بتایا کہ ان علاقوں میں فلسطینیوں کے پاس اور کوئی چارہ نہیں بچا۔ خوراک کی شدید قلت ہے اور ایک کلو آٹے کی قیمت 20 امریکی ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔
یاد رہے کہ GHF کی تقسیم کردہ راشن کٹس میں صرف ایک کلو آٹا، چند پیکٹ پاستا، اور چند ڈبے فاوہ بینز کے شامل ہیں جو ایک خاندان کے لیے ناکافی اور غیرمتوازن غذا ہے۔
فلسطینی میڈیکل ریلیف سوسائٹی کے رہنما بَسّام زقوط نے بتایا کہ پرانی امدادی تقسیم کا نظام 400 مقامات پر مشتمل تھا، جو اب گھٹ کر صرف چار تک محدود کر دیا گیا ہے جہاں معمر افراد اور معذوروں کی ضروریات کا بھی خیال نہیں رکھا جاتا۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: امدادی مراکز بتایا کہ کے لیے
پڑھیں:
مودی خطے کیلیے بڑا خطرہ، سیاسی مفاد کیلیے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے، خواجہ آصف
اسلام آباد:وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ مودی خطے کے لیے بڑا خطرہ بن چکا ہے اور وہ اپنے سیاسی مفاد کی خاطر کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔
نجی ٹی وی کے پروگرام میں بات کرتے ہوئے وزیر دفاع خواجہ آصف نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو جنوبی ایشیا کے لیے غیر متوقع اور خطرناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ سیاسی فائدے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔
خواجہ آصف نے واضح کیا کہ نریندر مودی کی موجودگی میں پورا خطہ غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہے۔ مودی کا حالیہ طرز عمل صرف بھارت ہی نہیں بلکہ پورے خطے کے امن کو داؤ پر لگا رہا ہے۔
وزیر دفاع نے بھارتی فوجی مشقوں کو محض ایک سیاسی تماشا قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان اقدامات کا حقیقی مقصد بھارتی عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹانا اور مودی کی گرتی ہوئی مقبولیت کو وقتی سہارا دینا ہے۔
انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بھارت نے پہلگام واقعے کی کسی غیر جانبدار تحقیقات کا عندیہ تک نہیں دیا، بلکہ الزامات کا رخ براہ راست پاکستان کی جانب موڑ دیا گیا۔
خواجہ آصف نے مزید کہا کہ حالیہ تناؤ کے بعد پاکستان کا دہشت گردی کے خلاف بیانیہ عالمی سطح پر مزید مستحکم ہوا ہے۔ انہوں نے دفاعی بجٹ کے حوالے سے کہا کہ ملک کی سکیورٹی کو درپیش چیلنجز کے پیش نظر ہماری مسلح افواج کو وسائل کی اشد ضرورت ہے اور اسی لیے دفاعی بجٹ میں اضافہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔
سابق اور موجودہ فوجی قیادت کے حوالے سے سوال پر خواجہ آصف نے کہا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ اور موجودہ آرمی چیف کے طرز قیادت میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔
انہوں نے بھارت کی پانی بند کرنے کی دھمکیوں پر ردعمل دیتے ہوئے واضح کیا کہ پاکستان کا پانی روکنا بھارت کے لیے اتنا آسان نہیں جتنا وہ سمجھتا ہے۔ یہ معاملہ بین الاقوامی سطح پر قانونی اور سیاسی طور پر بھارت کے لیے ایک بڑا چیلنج بن سکتا ہے۔
خواجہ آصف نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی کشمیر سے متعلق بات کا بھی حوالہ دیا اور کہا کہ ٹرمپ کے صرف ایک بیان نے بھارت کو تلملا کر رکھ دیا تھا، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ کشمیر ایک ایسا تنازع ہے جو دبایا نہیں جا سکتا۔