مُودی کا ’’نیو نارمل‘‘ اور راکھ ہوتا سیندور!
اشاعت کی تاریخ: 3rd, June 2025 GMT
’’آپریشن سیندور‘‘ کی لاش،دَس مئی سے بےگوروکفن پڑی ہے۔ اَب تو اُس سے تعّفن بھی اُٹھنے لگا ہے۔ کھال ہڈّیاں چھوڑ رہی ہے۔ مُودی، بہار کے انتخابات جیتنے کے لئے گلی گلی محلّے محلّے جھوٹ کے سرکس سجارہا ہے۔ آپریشن سیندور کواپنی فتح قرار دیتے ہوئے جَنتاَ کو گمراہ کر رہا ہےاور اُس کی مسلح افواج کھُلے عام اپنی شکست کو تسلیم کرتے ہوئے مُودی کی راہ کھوٹی کر رہی ہیں۔
مُودی کا ایک دعویٰ یہ ہے کہ چار روزہ جنگ کے نتیجے میں ایک ’’نیونارمل‘‘ یا ’’معمول ِنو‘‘ تو جنم لےچکا ہے۔ دوسرا دعویٰ یہ کہ ’’آپریشن سیندور‘‘ بدستور جاری ہے۔ مُودی کے دونوں دعوے درست مان لئے جائیں تو بھی اُن کے معنی ومفہوم کو زمینی حقائق کی آنکھ سے دیکھنا ہوگا۔ دَرودِیوار پر لکھا سچ یہ ہے کہ اپنی پسند کا وقت، محاذ اور طریقِ جنگ چننے کے باوجود بھارت یہ جنگ ہار گیا۔ بُری طرح ہار گیا۔ ساری دنیا نے اس ہار پر مہرِ تصدیق ثبت کردی۔ابتدائی مرحلےمیں بھرپور تحمل کےساتھ پاکستان نےخود کو اپنے دفاع تک محدودرکھا۔ اورجب ’’بنیانُ المرصوص‘‘ کی باگیں ڈھیلی چھوڑدی گئیں تو صرف تین گھنٹے پینتیس منٹ میں مُودی کا سرِ پُرغرور، رزقِ خاک ہوگیا۔ اُس کے پاس کوئی چارہ نہ تھا کہ بارگاۂِ قِصرِ سفید پر دستک دیتا اور ڈونلڈ ٹرمپ کے حضور جنگ بندی کی عرضی گزارتا۔
بقول مُودی، اگر ’’آپریشن سیندور‘‘ جاری ہے، تو صرف اس قدر ہے کہ سوالات اُٹھ رہے ہیں اور میڈیا کا آتش کدہ دہک رہا ہے۔ فنِّ دروغ گوئی میں کمال مہارت کےباوجود مُودی کے لئے حقائق چھپانا مشکل ہو رہا ہے۔ پاکستان نے جنگ کے پہلے مرحلے میں ہی واضح اعلان کردیا تھاکہ رافیل سمیت بھارت کے پانچ طیارے تباہ کردئیے گئے ہیں۔ بھارت نے ایک بار بھی اس دعوے کی واضح تردید نہیں کی البتہ حیلےبہانےسے ’’چُنری‘‘ پہ لگا یہ داغ چھپانے کی کوشش کرتا رہا۔ 9 مئی کو جب بھارتی فضائیہ کے ڈی۔جی۔آپریشنز اے۔کے بھارتی سے طیاروں کی تباہی کے بارے میں سوال کیاگیا تو اُس نے الفاظ چباتے ہوئے کہا __ ’’نقصانات لڑائی کا حصّہ ہوتے ہیں۔ میں اس سے زیادہ کچھ نہیں بتا سکتا۔ ایسا کرنے سے فریقِ مخالف کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔‘‘ عالمی میڈیا، آزاد اور غیرجانبدار ذرائع سے پاکستانی دعوے کی تصدیق کرتا رہا۔ پھر مُودی کی جماعت بی۔جے۔پی کے سینئر راہنما اور سابق وزیر قانون سبرامینین سوامی نے لگی لپٹی رکھے بغیر بتایا کہ ’’جنگ میں پاکستان نے بھارت کے پانچ طیارے مار گرائے ہیں۔ مُودی کو چاہیے کہ وہ قوم کو سچائی سے آگاہ کریں۔‘‘ آخری اور حتمی اعتراف، چیف آف ڈیفنس سٹاف جنرل انیل چوہان کی طرف سے آیا۔ ’ بُلوم برگ‘ سے انٹرویو کے دوران، نشانہ بننے والے بھارتی طیاروں کی تعداد بتانے سے گریز کرتے ہوئے انیل چوہان نے یہ کہہ کر بھانڈا پھوڑ دیا کہ ’’طیارے گرنا زیادہ اہم نہیں، اہم یہ ہے کہ طیارے کیوں گرے؟‘‘ کیا بیانیہ ہے؟
مودی کے ’’نیو نارمل‘‘ یا ’معمولِ نو‘ کا ایک پہلو یہ ہے کہ بات چھ طیاروں کے زمین بوس ہونے تک محدود نہیں رہی ۔ اس نے دنیا بھر کے دفاعی اور جنگی حکمت کاروں کے چوپالوں میں ارتعاش پیدا کر دیا ہے۔ اس سوال کی گونج بڑھتی جا رہی ہے کہ کیا چین نے، سائبر اور اے۔آئی (مصنوعی ذہانت) کے بل پر نئی اختراعات کے ذریعے اپنے طیاروں کی ضرب اور دشمن کے فضائی دفاعی نظام کو مفلوج کردینے میں مغربی ٹیکنالوجی پر برتری حاصل کرلی ہے؟ اس سوال میں خطےہی نہیں، پوری دنیا کے نظامِ دفاع وجنگ میں، نئے مضمرات کے امکانات انگڑائی لے رہے ہیں۔
مُودی کے ’نیونارمل‘ کا دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ وہ اس چار روزہ جنگ میں شدید نوعیت کی عالمی تنہائی کا شکار نظر آیا۔ اُس کے پرانے اتحادیوں یا دوستوں سمیت، کوئی ایک ملک بھی سینہ تان کر اُس کے پہلو بہ پہلو کھڑا دکھائی نہیں دیا۔ پاکستان کے دوست ڈٹ کر اس کے ساتھ کھڑے رہے۔ عسکری میدان کے بعد سفارتی میدان میں یہ شکست، بھارت میں موضوعِ بحث بنی ہوئی ہے۔ جنگ بندی کے بعد مُودی کو نہ پارلیمنٹ کا سامنا کرنے کا حوصلہ ہے نہ دنیا کو منہ دکھانے کا یارا۔ پاکستان کے وزیراعظم شہبازشریف اور آرمی چیف، فیلڈ مارشل سید عاصم منیر ابھی ابھی ایران، ترکیہ، آذربائیجان اور تاجکستان کے دورے سے واپس آئے ہیں۔ وہ جہاں بھی گئے، پاکستان کی فتحِ مبین کا بانکپن میزبانوں کے چہروں پر بھی شفق بکھیرتا نظر آیا۔ اِس ماہ وہ سعودی عرب اور چین کے دوروں پر جا رہے ہیں۔ اس سے قبل نائب وزیراعظم اوروزیرخارجہ اسحاق ڈار نے چین کا نہایت اہم دورہ کیا جہاں افغانستان کے وزیرخارجہ کو بھی خصوصی دعوت پربلایا گیا۔ چین کے توسط سےپاک افغان تعلقات میں جمود ٹوٹنے لگا ہے۔ دونوں ممالک نے اپنے اپنے ناظم الامورکادرجہ، سفیر تک بڑھا دیا ہے۔ مستقبل قریب میں سفارتی رابطوں میں تیزی آنے والی ہے۔
’معمولِ نو‘ کا تیسرازوایہ، امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ کا نپاتُلا اور متوازن روّیہ ہے جو بھارت کےلئے لمحہ فکریہ ہے۔ بھارت کو اس جنگ کے دوران امریکی حمایت کا کامل یقین تھا۔ ایسا نہ ہوا۔ ٹرمپ کوئی ایک درجن بار بطور فخر اپنے ’’مدبرانہ کردار‘‘ کا ذکر کرتے ہوئے کہہ چکا ہے کہ ’’میں نے دونوں ممالک کے مابین ایٹمی جنگ ٹالی۔‘‘ اس تاثر کی نفی بھی نہیں ہو پا رہی کہ ’’بنیان المرصوص‘‘ کے برق رفتار ردّعمل کے بعدبھارت کے ہاتھ پائوں پھول گئے اور اس نے امریکہ سے جنگ بندی کی التماس کی۔بھارت کو یہ بات بھی ہضم نہیں ہو رہی کہ ٹرمپ نے اپنے ٹویٹ میں مسئلہ کشمیر کے حل کا ذکر کیوں کیا؟ تجارتی اور ٹیرف معاملات پر پاک امریکہ مذاکرات کا سلسلہ پہلے ہی شروع ہوچکا ہے۔
’معمولِ نو‘ نے بھارت میں ایک اور بڑے قضیے کو جنم دیا ہے۔ اس قضیے کا نام ہے بھارت کی سیاسی اور عسکری قیادت میں بڑھتی ہوئی خلیج اورمتضاد بیانیے۔ دونوں کے ہاتھ ایک دوسرے کے گریبان پر ہیں۔ دونوں راکھ بن جانے والا سیندور، ایک دوسرے پہ پھینک رہے ہیں۔ مُودی، بہار کے انتخابات کے پیشِ نظر ڈگر ڈگر ’فتح‘ کی ڈگڈگی بجا رہا ہے اور اس کی اپنی مسلح افواج کے اعلی عہدیدار، پانچ طیارے گرائےجانے کا اعتراف کرتے ہوئے، بھارتی شکست کا نوحہ پڑھ رہے ہیں۔
’’معمولِ نو‘‘ کا ایک اہم پہلو یہ ہےکہ اگر ’آپریشن سیندور‘ جاری ہےتو اَب اِس کا رُخ پاکستان کی طرف نہیں، خودمُودی کی طرف مُڑ گیا ہے۔ جوں جوں، مُودی اور اُسکے دروغ گو میڈیا کی کہانیوں کا پول کھُل رہا ہے، توں توں جَنتاَ کا اشتعال بڑھ رہا ہے۔ گیارہ برس بعد مُودی کے چہرے کے حقیقی خدوخال نمایاں ہو رہے ہیں۔ وہ کھلی شکست سے فتح کشید کرنے کے جتن کررہا ہے اوراُس کی اپنی سپاہ، اُس کے بیانیے کی دھجّیاں اُڑا رہی ہے۔ جنرل انیل چوہان کا یہ انکشاف کوئی عام سی بات نہیں کہ دو دِن تک بھارتی فضائیہ معطل ومفلوج ہوکر رہ گئی۔ اُدھر کانگرس سمیت تمام اپوزیشن جماعتوں نےحکومت اور مسلح افواج دونوں کو نشانے پر رکھ لیا ہے۔ بلاشبہ شکست ہمیشہ بانجھ اور لاوارث رہتی ہے لیکن بھارتی فوج اور سیاسی قیادت کے درمیان شرمناک ہزیمت کی ذمہ داری ایک دوسرے کے سَر تھوپنے کی جنگ وہ ’’معمولِ نو‘‘ ہے جو کسی بھی حادثے کو جنم دے سکتا ہے۔
یہ ڈراما دکھائے گا کیا سین
پردہ اُٹھنے کی منتظر ہے نگاہ
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: کرتے ہوئے بھارت کے یہ ہے کہ م ودی کے رہے ہیں رہا ہے
پڑھیں:
بھارتی کرکٹ ٹیم یا بی جے پی کا اشتہاری بورڈ
پاکستان اور بھارت کا کرکٹ میچ ہواور بھارتی کوششوں سے اس میں سیاست نہ گھسیٹی جائے؟ یہ ایسے ہی ہے جیسے بریانی بنے اور اس میں گوشت نہ ہو۔ فرق صرف یہ ہے کہ بریانی خوشبو دیتی ہے اور بھارت کی سیاست میدان میں بدبو۔
آخر کب تک پاکستان ہی کھیلوں میں ’مہان اسپورٹس مین اسپرٹ‘ دکھاتا رہے اور بھارت بار بار سیاست کی جھاڑو پھیرتا رہے؟
ذرا کھیلوں کے مقابلوں کی ایک فہرست تو بنائیں اور دیکھیں کہ جہاں جہاں پاکستان کی شرکت ہوتی ہے تو کیسے بھارتی حکام کھیل سے کھلواڑ میں لگ جاتے ہیں۔ اور کرکٹ میں سیاست تو بھارتیوں کو محبوب مشغلہ بن چکا ہے۔
لگتا ہے بھارتی بورڈ نے کرکٹ کے ضابطے کی کتاب کو الماری میں رکھ کر سیاست کا منشور لا کر پڑھنا شروع کر دیا ہے۔ ٹاس کے وقت ہاتھ ملانے سے انکار، میچ کے بعد کھلاڑیوں کو ڈریسنگ روم میں بند کرنا اور پھر فتح کو فوج کے نام کر دینا۔ یہ کھیل کم اور نالی کے کنارے لگایا گیا سیاسی پوسٹر زیادہ لگتا ہے۔
اینڈی پائی کرافٹ یا بھارتی پائی کرافٹ؟پی سی بی کا موقف بالکل درست ہے۔ میچ ریفری اینڈی پائی کرافٹ کھیل کی اسپرٹ کے بجائے بھارتی ’اِسپرٹ‘ میں زیادہ ڈوبے نظر آئے۔
جب ریفری ہی ڈرامہ کرے تو پھر کھیل کہاں بچے گا؟ اسی لیے پاکستان نے دو ٹوک کہہ دیا کہ، صاحب! اگر یہ میچ ریفری تبدیل نہ ہوا تو ہم بھی میچ کھیلنے نہیں آئیں گے۔ یعنی پہلی بار پاکستان نے کرکٹ کے میدان میں وہی رویہ اپنایا جو بھارت دہائیوں سے اپنا رہا ہے، بس فرق یہ ہے کہ پاکستان کی منطق میں وزن ہے، بھارت کی سیاست میں صرف خالی برتن کا ڈھکن۔
بھارتی کپتان کی اسپیچ یا فلمی ڈائیلاگ؟سوریہ کمار یادو کی تقریر تو ایسے لگ رہی تھی جیسے کوئی کچرا فلمی ولن ڈائیلاگ مار رہا ہو
’یہ جیت ہم بھارتی افواج کے نام کرتے ہیں۔۔۔‘
صاحب! اگر کرکٹ بھی جنگی بیانیہ بنانی ہے تو میدان میں گیند کے بجائے توپ گولے لے آئیں۔ خیر پاکستانی عوام نے سوشل میڈیا پر خوب یاد دلایا کہ اصل جنگوں میں بھارت کے ’جیت کے ڈائیلاگ‘ کہاں گم ہو گئے تھے۔
کیا وقت آگیا بھارت کو کرکٹ کے ذریعے فوجی فتوحات کا سہارا لینا پڑ رہا ہے۔ شاید بھارتی فوجی تاریخ اتنی پھیکی اور شکست خوردہ بن چکی ہے کہ اب اس کے لیے فلموں کے بعد کھیل میں بھی کمزور ’اسپیشل افیکٹس‘ ڈالنے پڑ گئے ہیں۔
کھیل کی روایات بمقابلہ بھارتی اناہاتھ ملانے کی روایت بھارت کے لیے انا کا مسئلہ بن گئی۔ کھیل ختم ہوا تو کھلاڑی ہاتھ ملانے کے بجائے سیدھے ڈریسنگ روم بھاگ دوڑے اور پھر حیرت کرتے ہیں کہ پاکستان نے تقریبِ اختتامیہ کا بائیکاٹ کیوں کیا؟
بھائی، آئینہ دکھانے کا مزہ تب ہی آتا ہے جب سامنے والا بد شکل خود کو دیکھنے کے لیے تیار ہو۔
اصل نقصان کس کا؟یہ سب جان لیں کہ پاکستان سے نہ کھیلنے کا سب سے زیادہ نقصان بھارت کو ہوگا پاکستان کو نہیں؟ کیونکہ اسپانسرشپ کا خزانہ پاک-بھارت میچز میں ہی سب سے زیادہ بہتا ہے۔
پاکستان اگر دبنگ اعلان کر دے کہ ’بھارت کھیل کو کھیل سمجھو ورنہ ہم کھیلنا چھوڑ دیں گے‘ تو سب سے بڑا دھچکا بھارت کے ان بڑے اسپانسرز کو لگے گا جو صرف پیسے کے لیے ’مہان کرکٹ‘ کا ڈرامہ رچاتے ہیں۔
پاکستان کو اب واقعی اسپورٹس مین اسپرٹ کی اسپرٹ چھوڑ کر بھارت کو اسی کی زبان میں جواب دینا ہوگا۔ پاک بھارت کرکٹ نہیں ہوگی تو کوئی قیامت نہیں آجائے گی۔
المیہ یہ ہے کہ پاکستان کی اسپورٹس مین اسپرٹ کو کرکٹ کھیلنے والے ممالک اور تجزیہ کار قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھتے۔
بھارت کو پیغامبھارت کو یاد رکھنا چاہیے کہ کرکٹ رن سے جیتا جاتا ہے، ڈرامے سے نہیں۔ پاکستان نے عزت و وقار کی قیمت پر کھیلنے سے انکار کر کے بتا دیا ہے کہ کھیل کی اصل روح ابھی زندہ ہے۔
بھارت جتنا مرضی سیاست کے پتھر پھینکے، پاکستان کے پاس جواب میں کرکٹ کی گیند اور میزائل دونوں موجود ہیں۔
اب گیند بھارت کے کورٹ میں ہے، کھیلنا ہے تو کھیل کے اصولوں پر، ورنہ سیاست کے اسٹیج پر جا کر ڈھول پیٹ کر اپنی عوام کو خوش کرتے رہو۔
خیر اس کا جواب بھی ویسا ہی ملے گا جو مئی میں ملا تھا جس پرابھی تک بھارت تلمائے ہوئے ہے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
سفیان خان کئی اخبارات اور ٹی وی چینلز سے وابستہ رہے ہیں۔ کئی برسوں سے مختلف پلیٹ فارمز پر باقاعدگی سے بلاگز بھی لکھتے ہیں۔
wenews ایشیا کپ پاک بھارت میچ پی سی بی وی نیوز