نالائق عہدیداروں کا ذمے دار کون؟
اشاعت کی تاریخ: 3rd, June 2025 GMT
بانی تحریک انصاف کا ایک ٹوئٹ آیا ہے، انھوں نے کہا ہے کہ پارٹی کے تمام عہدیداروں کو پیغام ہے کہ جس میں دباؤ برداشت کرنے کی قوت نہیں ہے، وہ عہدے سے الگ ہو جائے۔ لہٰذا کم حوصلہ عہدیداران براہ مہربانی خود ہی پیچھے ہٹ جائیں تا کہ ان کی جگہ ہم دلیر اور نظریاتی ورکرز کو آگے لائیں جو قانون اور آئین کی بالا دستی اور حقیقی آزادی کے لیے ڈٹ کر کھڑا ہو سکیں۔
مجھے یہ ٹوئٹ سمجھ نہیں آیا۔ کیونکہ تحریک انصاف میں مطلق العنان ایک شخص کی حکومت ہے۔ وہ بانی پی ٹی آئی خود ہیں۔ جماعت میں کوئی نظام نہیں۔ فیصلہ سازی کے لیے کوئی فورم نہیں۔ عہدیداروں کو نامزد یا منتخب کرنے کا کوئی طریقہ نہیں۔ فرد واحد کے آگے سب سر تسلیم خم ہیں۔
وہ دن کو رات کہے تو رات ہے رات کو دن کہے تو دن ہے۔ نہ کوئی سوال ہو سکتا ہے، نہ کوئی جواب ہو سکتا ہے، ان کا حکم آخری حکم ہے۔ وہی عہدے تقسیم کرتے ہیں، وہی نامزدگیاں کرتے ہیں، وہی چاہیں تو اپنی جماعت میں کسی کو فرش سے عرش پر بٹھا دیں، چاہیں تو کسی کو عرش سے فرش پر بٹھا دیں۔ دوست سوال کریں گے کہ باقی سیاسی جماعتوں میں بھی یہی ہے تو اس وقت میں باقی سیاسی جماعتوں کی بات نہیں کر رہابلکہ تحریک انصاف کی بات کر رہا ہوں جو تبدیلی کے نام پر آئی تھی۔
تحریک انصاف میں تمام عہدے بانی تحریک انصاف نے کو د تقسیم کیے ہوئے ہیںاور سب کو خود نامزد کیا ہے، یہ سب ان کی ذاتی چوائس ہیں۔ اس لیے ان کے اچھے اور برے ہونے کے ذمے دار بھی بانی تحریک انصاف ہی ہیں۔ہمیں تو بتایا ہی یہ گیا تھا کہ کپتان کو ٹیم بنانی آتی ہے، وہ سفارش کو نہیں مانتا۔ وہ کمزور ٹیم کے ساتھ بھی میچ جیت لیتا ہے۔
اب کیاہوا ہے؟ کیا یہ ٹوئٹ ہمیں بتا رہا ہے کہ کپتان نے بری ٹیم بنائی ہے، سلیکشن میں غلطی ہوگئی ہے، نکمے کھلاڑی چن لیے ہیں۔ پھر سوال یہ ہے کہ کپتان گلہ کس سے کر رہا ہے؟اس ٹوئٹ کا مقصد کیا ہے؟ کیونکہ ان عہدیداروں کولگانے اور ہٹانے کا اختیار بھی صرف اور صرف کپتان کے پاس ہے۔ اس ٹوئٹ میں مجھے یہ بات بھی مضحکہ خیز لگی کہ ہم ان کی جگہ دلیر اور نظریاتی ورکرز کو آگے لائیں گے۔ سوال یہ ہے کہ آپ ابھی تک دلیر اور نظریاتی ورکر کو آگے کیوں نہیں لائے؟ انھیںکیوں نظر انداز کیا ہوا ہے۔ کیوں نالائق لوگوں کو عہدے دیے گئے؟ اس کے ذمے دار بھی کپتان خود ہیں۔
اب یہ بھی عجیب بات ہے کہ کپتان چاہتے ہیں کہ ان کے عہدیدار خود ہی خود کو کم حوصلہ قرار دیں اور عہدے سے الگ ہو جائیں۔ کون خود کو کم حوصلہ کہے گا، ہر ایک کے پاس کم یا زیادہ اپنی قربانیوں کی ایک داستان موجود ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ کپتان کے معیار سے کم ہے۔
لیکن اس بیچارے نے تو اپنی استطاعت کے مطابق قربانی دی ہے۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ یہ صرف ایک وارننگ ہے۔ سب تیار ہو جاؤ ورنہ بدل دوں گا۔ حالانکہ بدلنے کی بھی کوئی خاص آپشن موجود نہیں۔ وہی لوگ ہیں تحریک انصاف میں کوئی نئے تو آ سکتے نہیں۔ پہلے حسن روف کو ہٹا کر شیخ وقاص اکرم کو لگایا گیا۔ اب انھیں ہٹا کر واپس رؤف حسن کو لگانے کی بات ہو رہی ہے۔ اس لیے مجھے نہیں لگتا کہ کپتان کے پاس کوئی وسیع آپشن موجود ہیں۔
اس ٹوئٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اب میں جیل سے بطور پارٹی سربراہ خود احتجاج کی قیادت کروں گا۔ یہ بھی عجیب بات ہے پہلے بھی وہ خود ہی قیادت کر رہے ہیں۔ انھوں نے اپنی جماعت میں کبھی کسی کو اتنا با اختیار بنایا ہی نہیں کہ وہ قیادت کر سکے۔وہ ڈھونڈ کر ڈمی عہدیدار نامزد کرتے ہیں، کمزور لوگوں کو عہدے دیتے ہیں۔ اس لیے سمجھ نہیں آرہی کہ گلہ کس سے کر رہے ہیں۔ وہ جیل سے کیسے قیادت کر سکتے ہیں۔
تحریک شروع کریں گے تو ملاقاتیں بند ہو جائیں گی۔ پھر کسی کو کچھ پتہ نہیں ہوگا کہ کیا کرنا ہے۔ پہلے بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ پھر بھی ایسا ہی ہوگا۔ حکومت اور اسٹبلشمنٹ کو سمجھ آگئی ہے کہ اگر تحریک انصاف کو بند گلی میں بندکرنا ہے تو ملاقاتیں بند کردیں۔ کسی کے پاس کوئی اختیار نہیں۔ ساری سیاست بند ہو جاتی ہے۔ کسی کو کچھ سمجھ نہیں آتی۔ اگر کوئی فیصلہ کر بھی لے تو اسے غدار کہہ دیا جاتا ہے کہ اس نے کپتان سے پوچھے بغیر فیصلہ کیا ہے۔ اس لیے آج تک تحریک انصاف کی ناکامیوں کی ایک بڑی وجہ یہی ہے کہ کپتان سب کچھ جیل سے کنٹرول کرنا چاہتے ہیں۔ اور یہ ممکن نہیں۔
مجھے لگتا ہے کہ کپتان جیل میں ڈپریشن میں ہے، مجھے ان کے حالیہ ٹوئٹ سے ناامیدی نظر آرہی ہے۔ وہ اپنے ساتھیوں سے ناامید ہیں، وہ بار بار تحریک چلانے کی کوشش کر چکے ہیں مگر ناکام ہوئے ہیں۔ اب پھر کوشش کرنا چاہتے ہیں ۔ لیکن کوئی گیم پلان سمجھ نہیں آرہا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: تحریک انصاف ہے کہ کپتان سمجھ نہیں ا قیادت کر ہے کہ ا کسی کو اس لیے خود ہی کے پاس
پڑھیں:
ہونیاں اور انہونیاں
پاکستان میں نظام انصاف میں معاشرے سے زیادہ تقسیم نظر آرہی ہے۔ اب صرف باہمی اختلاف نہیں بلکہ عدم برداشت والا تاثر ابھر رہا ہے۔ اسے ملکی نظام انصاف کی کوئی خوشنما شکل قرار نہیں دیا جاسکتا ہے۔ اس سے لوگوں کا نظام انصاف پر اعتماد جو پہلے ہی ڈگمگاہٹ کا شکار ہے، مزید ڈگمگانے کے خدشات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتاہے۔
پاکستان کے لوگ پہلے ہی سیاستدانوں کی لڑائیوں سے تنگ ہیں۔ اگر نظام انصاف کے بارے میں وہ یہی تاثر لیتے ہیں، تو یہ کوئی اچھا شگون نہیں ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں تو جو کچھ چل رہا ہے، یہ سب کچھ چونکا دینے والا ہے۔ حال میں جو تین واقعات ہوئے ہیں، ان پر ججز پر بحث و مباحثہ شروع ہے جو اچھی روایت نہیں ہے۔ ہمارے لیے تو عدلیہ کا احترام لازم ہے۔ ججز کے لیے ایسا ہی ہے۔ عوام میں یہ تاثر نہیں پیدا ہونا چاہیے کہ ججز اور وکلا تو کچھ بھی کرسکتے ہیں لیکن عوام ایسا نہیں کرسکتے۔
سب سے پہلے ایمان مزاری اور اسلام آباد ہا ئی کورٹ کے چیف جسٹس سرفراز ڈوگر کا معاملہ دیکھ لیں۔ کھلی عدالت میں ایک معاملہ ہوا۔ ججز صاحب نے اگلے دن معذرت مانگ لی۔ یہ معاملہ غصہ میں ہوئی گفتگو سے زیادہ کچھ نہیں تھا۔
میری رائے ہے کہ ایمان مزاری کو معذرت قبول کرلینی چاہیے تھی۔ محترم جج صاحب نے انھیں بیٹی بھی کہا۔ لیکن ایمان مزاری نے اس واقعہ پر سیاست کرنی شروع کر دی جو زیادہ افسوسناک بات ہے۔
ایمان مزاری نے اسلام آباد ہا ئی کورٹ میں جج ثمن رفعت کو چیف جسٹس صاحب کے خلاف ہراسگی کی درخواست دے دی، اس درخواست پر فورا ً تین جج صاحبان پر مشتمل کمیٹی بنا دی۔ یوں صورتحال کس رخ پر جارہی ہے، وہ ہم سب کے سامنے ہے۔
اس سے پہلے اسلام ا ٓباد ہائی کورٹ کے رولز بنانے پر بھی قانونی لڑائی سب کے سامنے تھی۔ سپریم کورٹ میں بھی صورتحال سب کے سامنے ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک ڈبل بنچ نے جسٹس طارق جہانگیری کو کام کرنے سے روک دیا ہے۔ ان کی ڈگری کا معاملہ ہے۔ میں سمجھتا ہوں جج کی ڈگری ایک حساس معاملہ ہوتی ہے۔
حال ہی میں ایک رکن قومی اسمبلی جمشید دستی کی ڈگری جعلی نکلی ہے تو الیکشن کمیشن نے اسے ڈس کوالیفائی کر دیا ہے۔ یہ قانونی پہلو بھی درست ہے کہ کسی بھی جج کے خلاف کاروائی کرنے کا واحد فورم سپریم جیوڈیشل کونسل ہے۔
بہرحال قانونی نکات اور تشریحات کے معاملات قانون دان ہی بہتر سمجھ سکتے ہیں اور ججز ہی ان پر فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔
پاکستان میں خط میں تو ساتھی ججز کوچارج شیٹ کرنے کا طریقہ تو عام ہو چکا ہے۔ اس حوالے سے میڈیا میں خبریں بھی آتی رہی ہیں۔ بہر حال رٹ پٹیشن میں کسی جج صاحب کو کام کرنے سے روکنے کا اپنی نوعیت کا یہ پہلا معاملہ ہے۔
لیکن میرا خیال ہے کہ آئین وقانون میں جعلی ڈگری کے ایشو پر کسی جج کوکام سے روکنے کی کوئی ممانعت بھی نہیں ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ آئین اس کی اجازت دیتا ہے۔ اس لیے مجھے فیصلہ میں کوئی قانونی رکاوٹ نظر نہیں ہے۔ لیکن پھر بھی یہ ایک پنڈورا بکس کھول دے گا۔
پاکستان میں سیاسی تقسیم بہت گہری ہے اور حالیہ چند برسوں میں اس تقسیم میں نفرت ‘عدم برداشت اس قدر بڑھی ہے کہ معاملہ دشمنی کی حدود میں داخل ہو چکا ہے۔ خصوصاً پی ٹی آئی نے جس انداز میں مہم جوئیانہ سیاست کا آغاز کیا ‘اس کا اثر پاکستان کے تمام مکتبہ ہائے فکر پر پڑا ہے۔
پاکستان میں نظام انصاف کے حوالے سے باتیں ہوتی رہتی ہیں تاہم یہ باتیں زیادہ تر سیاسی و عوامی حلقے کرتے تھے ‘زیادہ سے زیادہ وکلا حضرات ذرا کھل کر بات کرتے تھے لیکن نظام انصاف کے اندر اختلافات اور تقسیم کی باتیں باہر کم ہی آتی تھیں لیکن حالیہ کچھ عرصے سے جہاں بہت سی چیزوں میں بدلاؤ آیا ہے ‘یہاں بھی صورت حال میں تبدیلی آئی ہے۔
اب پاکستان کے عام شہری کو بھی بہت سے معاملات سے آگاہی مل رہی ہے کیونکہ بحث و مباحثہ مین اسٹریم میڈیا میںہی نہیں بلکہ سوشل میڈیا تک پہنچ چکے ہیں۔ سوشل میڈیا کے بارے میں تو آپ کو پتہ ہے کہ چھوٹی سی بات بھی کتنی بڑی بن جاتی ہے اور گلی محلوں تک پھیل جاتی ہے۔