Daily Ausaf:
2025-11-03@19:16:32 GMT

بارود اور دلیل کا چراغ

اشاعت کی تاریخ: 6th, June 2025 GMT

برصغیرکی زمین نے نجانے کتنے ہی لشکروں کے نقوش اپنے دامن پرسجارکھے ہیں۔کبھی خنجرکی جھنکارنے امن کی فضاکو چیرڈالا،اورکبھی الفاظ کی تاثیرنے خونریزی کے طوفان کوروک لیا۔آج جب تاریخ ایک اورموڑپرکھڑی ہے،سوال یہ ہے کہ آیا ماضی کاخوں آشام سایہ پھرہمارے حال پرمنڈلارہاہے؟
ہندوستان اورپاکستان کے درمیان کشیدگی نہ صرف ایک علاقائی تنازع ہے بلکہ جنوبی ایشیاکے امن،ترقی،اوربقاء کے لئے ایک مسلسل خطرہ بن چکاہے۔ پہلگام کے فالس فلیگ آپریشن کے بعد یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ موجودہ طاقت کاتوازن کہاں کھڑاہے، بھارت کن داخلی بحرانوں میں گھراہوا ہے،اورمودی ہمیشہ کی طرح اب بھی اپنی عوام کوپاکستان اورچین کی طرف سے شدید خطرات کامنظرنامہ دکھاکراپنے آئندہ انتخابات میں جیتنے کے لئے فالس فلیگ جیسے ڈراموں کاسہارالے کر اس خطے کومیدانِ جنگ بنانے پرتلاہواہے۔ مستقبل میں جنگی تبدیلیوں کاکیامنظرنامہ ممکن ہوسکتاہے،تاریخی ودستاویزی حقائق اورعالمی ردعمل پرمبنی شواہد قارئین کے سامنے رکھنے کی کوشش کررہاہوں۔
تاریخ کے صفحات اگرچہ خون سے ترہیں،مگروہ ہمیں ہرصفحہ پرامن کاسبق بھی دیتے ہیں۔موجودہ حالات میں،دونوں ممالک کے بیانات اور اقدامات اگرچہ مخاصمت کی بورکھتے ہیں،مگریہ کہناقبل ازوقت ہوگاکہ جنگ یقینی ہے۔ہاں،تصادم کاخدشہ ضرورموجود ہے۔ سرحدوں پربڑھتی ہوئی کشیدگی، سفارتی سطح پرتلخ بیانی اورعسکری مشقیں ایک نئے محاذکی پیش خیمہ ہوسکتی ہیں۔سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان اوربھارت میں ایک اورتصادم متوقع ہے؟
عقل سلیم گواہی دیتی ہے کہ جنگ کوئی کھیل نہیں،اورتصادم محض تلواروں کے جھپٹنے کانام نہیں، بلکہ دوقوموں کی بقا،معیشت اورتہذیب کافیصلہ کن لمحہ ہوتاہے۔موجودہ حالات میں بارودکی بوفضامیں رچی بسی محسوس ہوتی ہے،جیسے خاموش دریاکے نیچے تندوتیزلہریں چھپی ہوں۔اگرمتعصب ہندومودی نے عقل وتدبرکو ترک کیااورجذبات کوسازشوں کے ہاتھ گروی رکھ دیا تو یہ تصادم بعیدنہیں۔
بھارتی حکمرانوں کی طرف سے تند وتیزبیانات کے بعدیقینایہ سوال اٹھتاہے کہ کیابھارت اپنی شکست کابدلہ لینے کی تیاری کررہا ہے؟نہ صرف سیاسی بیانات، بلکہ دفاعی بجٹ میں اضافہ اوراسرائیل وامریکا سے اسلحہ کی خریداری اس امرکی دلیل ہیں کہ بھارت خطے میں بالادستی کاخواب دیکھ رہاہے۔تاریخ شاہدہے کہ زخم خوردہ اناجب عقل پرغالب آتی ہے تو بسااوقات اقوام کوہلاکت کے دہانے پرلاکھڑاکرتی ہے۔تاریخ کاسبق یہی ہے کہ جوطاقت شکست سے دوچارہو،وہ خاموش نہیں رہتی،بلکہ انتقام کی آگ میں اندر ہی اندرجلتی ہے۔بھارت کاعسکری تیور،اسرائیل کے ساتھ دفاعی معاہدے،اورپاکستان کے خلاف مسلسل بیان بازی یہ ظاہرکرتی ہے کہ وہ پھرسے آزمانے کے درپے ہے لیکن قومی غیرت کا تقاضایہ ہے کہ پاکستان ہوشیار،تیاراورپرامن رہے،مگرفوری جواب میں کمزوری ہرگزنہ دکھائے۔
امریکی صدرٹرمپ اپنے سرپرسیزفائر کا سہر اسجائے ساری دنیامیں یہ اعلان کررہے ہیں کہ مئی کے اوائل میں دونوں ممالک ایٹمی جنگ کے دہانے پرپہنچ چکی تھیں،میں نے فوری مداخلت کرتے ہوئے ایٹمی جنگ سے اس خطے کوبچالیا،کیاواقعی ایسا ہی ہے جیساکہ وائٹ ہاس کے نئے فرعون کابیانیہ ہے؟جوکچھ ہوا،وہ صرف عسکری تصادم نہ تھا،بلکہ خطے کے مستقبل کوایٹمی دھویں میں لپیٹ دینے کی سنگین علامت تھا۔ایک غلطی،ایک ناقص فیصلے کانتیجہ کروڑوں زندگیاں ہوسکتی تھیں۔اگرچہ سفارتی ذرائع نے وقتی طورپرآگ بجھائی، مگر راکھ میں چنگاری باقی ہے۔یقیناجو لمحہ گزرا،وہ صرف تاریخ کاایک صفحہ نہیں،بلکہ انسانیت کی پیشانی پرلکھاوہ سیاہ دھبہ ہے،جسے اگردوبارہ دہرایاگیاتو نہ تاریخ بچے گی،نہ پیشانی۔ دونوں ممالک ایک دوسرے کے خلاف جنگی تیاریوں میں تھے اورجوہری ہتھیاروں کے سائے تلے ہم سب ایستادہ تھے۔یہ لمحہِ عبرت تھا،مگرافسوس کہ سیکھنے والے کم اوردہرانے والے زیادہ ہیں۔
اقوامِ عالم،بالخصوص اقوامِ متحدہ،امریکا،چین اورروس نے فوری طورپرکشیدگی میں کمی کی اپیل کی مگران بیانات میں سنجیدگی کم،سفارتی رسمیت زیادہ دکھائی دی۔گویادنیابرصغیرکو میدانِ جنگ بننے سے روکناچاہتی ہے،مگرسنجیدہ ثالثی کے لئے قدم پیچھے کھینچ لیتی ہے۔لیکن جونہی پاکستان نے بھارتی جارحیت کاجواب دیاتوفوری طورپرگھنٹیاں بجنے لگیں اورفوری سیز فائرکے لئے بے تابی بڑھ گئی۔عالمی تجزیہ نگاربھی تسلیم کرچکے ہیں کہ سیزفائرکے لئے امریکااوربرطانیہ میں سیزفائرکے لئے فوری سنجیدگی کے پیچھے کئی اورعوامل بھی پنہاں تھے کہ وہ امریکاجس نے اعلانیہ اس جنگ سے لاتعلقی کااظہار کیا مگرپاکستانی جواب کے بعد اس سرعت کے ساتھ کیوں حرکت میں آگیا اور اس سیزفائرمیں اب مسئلہ کشمیر کاایک مرتبہ پھر ذکرکرکے پاکستان کولالی پاپ سے بہلانے کی لالچ بھی دی گئی۔
ہم سب جانتے ہی کہ بھارتی جارحیت پرعالمی طاقتیں وہ خاموش تماشائی بن گئیں،جیسے کوئی ظالم فلم کاناظرہو،اوراس کاضمیر محض’’تشویش‘‘کے بیانات دے کرمطمئن ہوجائے۔ اقوامِ متحدہ نے چندرسمی جملے ادا کیے،مگرمؤثراقدام ندارد۔صرف پاکستان سے دوستی نبھانے والے چین،ترکی اورچنددیگرممالک پہلے دن سے پاکستان کے ساتھ کھڑے ہوگئے تھے اوراس سلسلے میں پاکستان کی سفارتی کارکردگی کے چرچے بھی شروع ہوگئے ۔دنیا کو چاہیے تھاکہ ثالثی کافعال کرداراداکرتی، مگراکثر طاقتور، امن کونفع کے ترازومیں تولتے ہیں ۔ اگرآئندہ ایٹمی خطرہ پیداہوگیاتو دنیاکے ہاتھوں میں صرف مذمتی بیانات ہوں گے اورزمین پرلاشیں۔ایٹمی جنگ کی لپیٹ میں آنے والے صرف لاہوریادہلی نہیں ہوں گے، بلکہ اس کازہر ہواں میں گھل کرلندن، نیویارک،ماسکوتک پہنچے گا۔اگرخدانخواستہ آئندہ ایٹمی خطرہ درپیش ہوتودنیا کی خاموشی ایک مجرمانہ غفلت تصورکی جائے گی۔عالمی برادری کوچاہیے کہ محض تشویش کااظہار کرنے کی بجائے تدبیر اختیارکرے۔یہ وقت ہے کہ دنیافیصلہ کرے، خاموش رہنا ہے یاضمیرکوبیدارکرنا ہے؟
پانی حیات کی علامت ہے اورجب یہی آبِ حیات کوہتھیاربنادیاجائے تویہ ظلمِ عظیم ہے۔سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی پاکستان کی زراعت،معیشت اورخودمختاری پروار کے مترادف ہے۔بھارت کی یہ روش نہ صرف معاہداتی اصولوں کی پامالی ہے بلکہ یہ پانی کوایک نئی جنگ کامحرک بنانے کی کوشش ہے۔جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ پانی زندگی ہے، اورزندگی کابہاروک دینا ظلمِ عظیم ہے۔بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی صرف قانونی نہیں،اخلاقی اورانسانی جرم بھی ہے۔ پاکستان کی زراعت، صنعت،اورخودمختاری کا دارو مدار انہی دریاں پرہے۔ پانی کی جنگ،بارود سے زیادہ خوفناک ہوسکتی ہے۔
(جاری ہے)

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: کے لئے ہیں کہ

پڑھیں:

نومبر، انقلاب کا مہینہ

نومبر کی شامیں جب دھیرے دھیرے اُترتی ہیں تو یورپ کے شمال میں سرد ہوا کے جھونکے صرف پتوں کو ہی نہیں، تاریخ کے اوراق کو بھی ہلا دیتے ہیں۔ 1917 نومبر میں جب پیٹرو گراڈ کی سڑکوں پر مزدوروں، کسانوں سپاہیوں اور طلبہ کے نعرے گونج رہے تھے۔

یہ وہ وقت تھا جب دنیا کی تاریخ ایک نئے موڑ پر آ کر ٹھہری۔ روس کے عوام نے صدیوں پر محیط ظلم جاگیرداری اور سامراجی جکڑ سے نکلنے کے لیے ہاتھوں میں سرخ پرچم تھام لیا۔ دنیا نے پہلی بار دیکھا کہ اقتدار محلات سے نکل کر کارخانوں اورکھیتوں کے بیٹے، بیٹیوں کے ہاتھ میں آیا۔

اکتوبر انقلاب جو ہمارے کیلنڈر میں نومبر میں آیا، صرف ایک سیاسی تبدیلی نہیں تھی، یہ انسان کی برابری، آزادی اور عزتِ نفس کے خواب کی تعبیر تھی۔

لینن اور ان کے رفقا نے جو راہ دکھائی وہ صرف روس کے لیے نہیں تھی۔ وہ ایک ایسی چنگاری تھی جس نے ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکا تک کے محکوم دلوں میں اُمیدکے چراغ روشن کیے۔

اس انقلاب نے بتایا کہ تاریخ کے پہیے کو صرف طاقتور نہیں گھماتے، کبھی کبھی محروم مزدور اور مفلس بھی اُٹھ کر دنیا کا نقشہ بدل دیتے ہیں۔ اکتوبر انقلاب نے دنیا کو یہ سکھایا کہ کوئی سماج اس وقت تک آزاد نہیں ہو سکتا جب تک اس کے مزدور اورکسان زنجیروں میں جکڑے ہوں۔ مگر ہر انقلاب کے بعد وقت کی گرد بیٹھتی ہے۔

خوابوں کی روشنی مدھم پڑ جاتی ہے اور نئے تضادات جنم لیتے ہیں۔ سوویت یونین کے انہدام کے ساتھ یہ سوال بھی ابھرا کہ کیا انقلاب محض ایک رومانی تصور تھا یا تاریخ کا ایسا موڑ جس نے انسان کو وقتی طور پر یقین دلایا کہ وہ اپنی تقدیر خود لکھ سکتا ہے؟

نومبرکی یاد ہمیں یہ سوچنے پر مجبورکرتی ہے کہ انقلاب محض بندوقوں یا قلعوں کی فتح نہیں ہوتا بلکہ ذہنوں اور دلوں کی آزادی کا نام ہے۔ وہ سماج جو اپنے فکری اور اخلاقی سانچوں کو بدلنے سے گریزکرے، وہ انقلاب کے قابل نہیں ہوتا۔

روس نے یہ جرات کی اس نے بتوں کو توڑا، بادشاہت کو ختم کیا اور محنت کش انسان کو تاریخ کے مرکز میں لا کھڑا کیا۔ مگر جب ہم اس روشنی کو اپنے وطن پاکستان کے تناظر میں دیکھتے ہیں تو دل کسی اداس شام کی طرح بھاری ہو جاتا ہے۔

یہاں مزدور اب بھی اپنی مزدوری کے لیے ترستا ہے، کسان اب بھی زمین کا بوجھ اُٹھائے فاقہ کرتا ہے اور تعلیم یافتہ نوجوان بے روزگاری کے اندھیروں میں بھٹکتا ہے۔ ہمارے ہاں بھی انقلاب کے نعرے گونجے۔ ہماری زمین پر جنم لینے والی ترقی پسند تحریکیں چاہے، وہ مزدور تحریک ہو، کسان کمیٹی ہو یا طلبہ کی جدوجہد سب کسی نہ کسی موڑ پر ریاستی جبر، نظریاتی تقسیم اور مایوسی کا شکار ہوئیں۔

ایک زمانہ تھا جب کراچی کی فیکٹریوں سے لے کر پنجاب کے کھیتوں تک سرخ جھنڈا ہوا میں لہرا کرکہتا تھا کہ ’’ دنیا بھر کے مزدور ایک ہو جاؤ‘‘ مگرآج وہ آواز مدھم ہے، نہ وہ جلسے رہے نہ وہ عزم، شاید اس لیے کہ ہماری سیاست نے نظریے کو نکال پھینکا اور موقع پرستی کو گلے لگا لیا۔

جو لوگ مزدوروں کے حق کی بات کرتے تھے، وہ خود سرمایہ داروں کے دربار میں جا بیٹھے، جو قلم عوام کی جدوجہد کا ہتھیار تھا، وہ اب اشتہار کا آلہ بن گیا ہے۔ پاکستان میں انقلابی جدوجہد کی کمزوری دراصل ہمارے اجتماعی احساسِ زیاں کی علامت ہے۔

ہم نے خواب دیکھنے چھوڑ دیے ہیں، وہ نسلیں جو کبھی لینن چی گویرا یا فیض کے الفاظ سے آگ پاتی تھیں، آج کسی موبائل اسکرین پر عارضی غم اور مصنوعی خوشی کی پناہ ڈھونڈتی ہیں۔ یہ وہ خلا ہے جو صرف فکر سے یقین سے اور اجتماعی جدوجہد سے پُر ہو سکتا ہے۔

 نومبرکا مہینہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ انقلاب ایک دن میں نہیں آتا۔ وہ برسوں کے صبر، قربانی اور شعور سے جنم لیتا ہے۔ روس کے مزدور اگر محض اپنی بھوک کے خلاف اُٹھتے تو شاید تاریخ نہ بدلتی۔ مگر انھوں نے صرف روٹی نہیں، عزت، علم اور انصاف کا مطالبہ کیا۔

یہی مطالبہ آج بھی زندہ ہے ماسکو سے کراچی تک انسان کے دل میں۔ ہمیں یہ مان لینا چاہیے کہ انقلاب کا خواب اگر دھندلا بھی جائے تو اس کی چنگاری باقی رہتی ہے۔ وہ چنگاری جو کسی طالب علم کے ذہن میں سوال بن کر جنم لیتی ہے، کسی مزدورکے نعرے میں صدا بن کر گونجتی ہے یا کسی ادیب کے قلم میں احتجاج بن کر ڈھلتی ہے، یہی چنگاری آنے والے کل کی روشنی ہے۔

یہ مہینہ ہمیں یہ بھی یاد دلاتا ہے کہ ہر وہ سماج جو ظلم اور نابرابری کو معمول سمجھ لے وہ اپنے زوال کی طرف بڑھ رہا ہوتا ہے، اگر روس کے عوام اپنی خاموشی توڑ سکتے تھے تو ہم کیوں نہیں؟ ہم کیوں اپنی تقدیر کے فیصلے چند طاقتور ہاتھوں میں چھوڑ دیتے ہیں؟

شاید اس لیے کہ ہم نے انقلاب کو صرف کتابوں میں پڑھا زندگی میں نہیں جیا۔وقت گزر چکا مگر تاریخ کے اوراق کبھی بند نہیں ہوتے۔ شاید کسی اور نومبر میں کسی اور زمین پر نئی نسل پھر سے وہی سرخ پرچم اُٹھائے اورکہے ہم اس دنیا کو بدلیں گے اور جب وہ دن آئے گا تو ماسکو سے کراچی تک ہر انقلابی روح ایک لمحے کے لیے مسکرائے گی۔

آج کے عہد میں جب دنیا ایک بار پھر معاشی ناہمواری، ماحولیاتی تباہی اور جنگوں کی لپیٹ میں ہے تو اکتوبر انقلاب کی گونج نئے سوال اٹھاتی ہے۔ کیا انسان پھر سے وہی جرات کرسکتا ہے کیا طاقتورکے خلاف کھڑے ہوکر نظام کو بدلنے کا خواب دیکھا جاسکتا ہے؟

شاید یہی سوال نومبر کی ہوا میں بسا ہوا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ سرمایہ داری کے بت پہلے سے زیادہ مضبوط ہیں مگر ساتھ ہی دنیا کے ہر گوشے میں کوئی نہ کوئی مزدور طالب علم یا ادیب اب بھی انصاف اور برابری کے خواب کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔

وہ شاید تھکے ہوئے ہیں مگر ہارے نہیں۔ شاید آنے والے برسوں میں یہ بکھری ہوئی چنگاریاں مل کر پھر سے ایک روشنی بن جائے۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان میں جگر کے ایک ہزار ٹرانسپلانٹس مکمل کرکے پی کے ایل  آئی نے تاریخ رقم کردی
  • آزاد کشمیر و گلگت بلتستان میں ٹیکنالوجی انقلاب، 100 آئی ٹی سیٹ اپس کی تکمیل
  • ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کیلیے پاکستانی امیدوں کا چراغ پھر روشن ہونے لگا
  • پاکستان اور افغانستان، امن ہی بقا کی ضمانت ہے
  • نومبر، انقلاب کا مہینہ
  • تاریخ کی نئی سمت
  • پاکستان۔ بنگلا دیش تعلقات میں نئی روح
  • غزہ نسل کشی میں اسرائیل سمیت 63 ممالک ملوث
  • میں گاندھی کو صرف سنتا یا پڑھتا نہیں بلکہ گاندھی میں جیتا ہوں، پروفیسر مظہر آصف
  • سید مودودیؒ: اسلامی فکر، سیاسی نظریہ اور پاکستان کا سیاسی شعور