عرفانِ دعائے عرفہ، محمد علی سید کا تحقیقی کارنامہ
اشاعت کی تاریخ: 6th, June 2025 GMT
اسلام ٹائمز: محمد علی سید صاحب نے امام حسین (ع) کے الفاظ میں چھپے ہوئے علمی و سائنسی خزانے کو نہایت آسان زبان، دلائل اور مثالوں کے ذریعے عام فہم بنا دیا ہے۔ آج جب دنیا علم کے میدان میں برق رفتاری سے آگے بڑھ رہی ہے، ہمیں بھی دینی متون کی سائنسی جہات کو اجاگر کرکے نئی نسل کو یقین دلانا ہے کہ ہمارا دین فقط جذباتی یا تعبدی نہیں بلکہ علمی و تحقیقی بنیادوں پر استوار ہے۔ اس ضمن میں ''عرفان دعائے عرفہ'' ایک مضبوط حوالہ ہے، جسے دینی مدارس، تبلیغی مراکز اور علمی نشستوں میں بطور نصاب یا کم از کم مطالعہ کیلئے شامل کیا جانا چاہیئے۔ تحریر: آغا زمانی
دعائے عرفہ دعاؤں کے خزانے میں ایک بے مثال گوہر ہے۔ یہ وہ دعا ہے، جو نواسۂ رسول، حضرت امام حسین علیہ السلام نے 9 ذی الحج 58 ہجری کو میدانِ عرفات میں ادا کی۔ یہ صرف الفاظ کا مجموعہ نہیں، بلکہ خالقِ کائنات کی معرفت اس کے احسانات اور انسان کی تخلیق سے متعلق ایسی گہری باتیں سمیٹے ہوئے ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ امام حسین (ع) نے اس دعا میں اللہ کے وجود پر دلائل دیئے اس کی نعمتوں کا شمار کیا اور انسان کو اپنے اندر جھانک کر خدا کو پہچاننے کا راستہ دکھایا۔ یہی وجہ ہے کہ دعائے عرفہ کو دعائیہ ادب کا ایک عقلی، روحانی اور سائنسی شاہکار بھی کہا جا سکتا ہے۔ معروف محقق اور مفکر محمد علی سید صاحب نے دعائے عرفہ کے صرف 34 کلمات کو بنیاد بنا کر ایک حیرت انگیز سائنسی تحقیق پیش کی۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ صرف اتنے کم کلمات ہی کیوں منتخب کیے تو ان کا جواب تھا، ''کیونکہ میرے علم کی حد وہیں تک تھی'' لیکن یہی مختصر حصہ سائنسی لحاظ سے اتنا وسیع نکلا کہ حیرت ہوتی ہے۔
ان کلمات میں علمِ حیاتیات (Biology)، علمِ تشریح الاعضاء (Anatomy)، علمِ فعلیات (Physiology) اور حتیٰ کہ جینیات (Genetics) جیسے جدید ترین شعبوں کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے۔ امام حسین (ع) نے جسمانی اعضاء کے صرف نام نہیں لیے بلکہ ان کے باطنی افعال اور اندرونی ساخت کا بھی ذکر فرمایا۔ مثلاً: جگر نہیں کہا بلکہ "جگر اور اس کے اطراف کے خزانے" فرمایا۔ کان نہیں کہا بلکہ "کان کی جھلیاں" کہا۔ زبان نہیں بلکہ "زبان اور ذائقوں کی حس" کا ذکر۔ آنکھ نہیں بلکہ "نور کے راستے" فرمایا۔ دل نہیں بلکہ "دل کے پردے" کہہ کر اس کی گہرائی بیان کی۔ سانس نہیں بلکہ "نفس کے راستے" کہہ کر تنفس کے عمل کی طرف اشارہ دیا۔ یہ تفصیلات وہ ہیں، جن تک انسان کی سائنسی رسائی امام کے زمانے میں تو درکنار صدیوں بعد جا کر ممکن ہوئی۔ مثلاً 1540ء میں اٹلی کے ایک ماہر حیاتیات نے لاشوں کا پوسٹ مارٹم کرکے اعضاء کا مشاہدہ شروع کیا اور مشہور مصور و سائنسدان لیونارڈو ڈاونچی نے موم بتی کی روشنی میں انسانی جسم کے خاکے بنائے۔
یہ وہ سچائیاں تھیں، جنہیں ریڈیالوجی اور مائیکرو بیالوجی جیسے علوم کی مدد سے آج کا سائنسدان سمجھتا ہے، جبکہ امام حسین علیہ السلام نے چودہ سو سال پہلے ان کا ذکر کر دیا۔ محمد علی سید کی تحقیقی و تخلیقی صلاحیت نے ان نکات کو سائنسی انداز میں بیان کرکے ثابت کیا کہ قرآن، اہل بیت (ع) اور سائنس ایک دوسرے کے مخالف نہیں بلکہ ایک ہی حقیقت کے مختلف زاویئے ہیں۔ ان کی 14 کتابیں اسی موضوع پر شائع ہوچکی ہیں، جن میں عرفانِ دعائے عرفہ ایک شاہکار ہے۔ چاہے وہ جسم کے عجائبات ہوں، ڈی این اے۔ جسم کی کتابِ ہدایت، ثقلین اور سائنس ہو، یا پانی کے عجائبات۔۔۔ ہر کتاب کا بنیادی پیغام یہی ہے: "خود شناسی کے ذریعے خدا شناسی تک رسائی ممکن ہے۔"
دعائے عرفہ کو ہمیشہ ایک روحانی، عرفانی اور دعائیہ متاع کے طور پر پڑھا گیا ہے، لیکن محمد علی سید صاحب وہ پہلی شخصیت ہیں، جنہوں نے 1400 سال بعد اس عظیم دعا کو سائنس کی روشنی میں دیکھنے اور پرکھنے کی کوشش کی۔ ان کا تحقیقی کارنامہ صرف ایک کتاب نہیں بلکہ ایک نئی جہت کی دریافت ہے۔ ایک ایسا دروازہ جو امام حسین علیہ السلام کے علمِ لدنی کو سائنسی نظر سے دیکھنے کے لیے کھولا گیا۔ حضرت امام حسین علیہ السلام نے جس وقت جسمِ انسانی کی تخلیق، اعضائے بدن کے افعال اور ان کی ساخت کا ذکر دعائے عرفہ میں فرمایا، اس وقت تو سائنس کا نام و نشان بھی نہ تھا۔ لیکن یہ امام کا کمال علم تھا کہ انہوں نے ایسی تفصیلات بیان فرمائیں، جنہیں جدید سائنس ہزار سال بعد جا کر دریافت کر پائی۔
محمد علی سید نے دعائے عرفہ کے ان منتخب کلمات کو نہ صرف سمجھا بلکہ ان میں چھپے ہوئے سائنسی اور طبی رازوں کو اس طرح کھولا کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ ''عرفانِ دعائے عرفہ'' کے ذریعے انہوں نے ان رازوں کو عام فہم انداز میں قارئین تک پہنچایا۔ یہ ایسا پہلو تھا، جس پر اس سے پہلے شاید ہی کسی نے توجہ دی ہو۔ ہم دعائے عرفہ پڑھتے تو رہے، مگر اس میں چھپی میڈیکل سائنس اور جینیات کی زبان کو کبھی نہ سمجھ پائے۔ یہی وجہ ہے کہ محمد علی سید کا یہ کام نہ صرف ایک دینی خدمت ہے، بلکہ سائنسی دنیا کے لیے بھی ایک دعوتِ مطالعہ ہے۔ ان کی تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ امام حسین (ع) نے کچھ ایسی باتیں بیان فرمائیں، جو صرف وہی ہستی بیان کرسکتی ہے، جس کے پاس ماورائی علم ہو۔ ایسا علم جو سینکڑوں سال بعد انسان کے سائنسی تجربات سے ثابت ہوا۔
مثال کے طور پر، کتاب کے چوتھے باب میں محمد علی سید نے نوزائیدہ بچوں کے دودھ کے بننے کے عمل کو جس وضاحت سے بیان کیا ہے، وہ میڈیکل سائنس کی گہرائی کو عام فہم میں منتقل کرنے کی ایک عمدہ مثال ہے۔ چھٹے باب میں اللہ کی عطا کردہ بصارت کو جس سادہ اور واضح انداز میں بیان کیا گیا ہے، وہ انداز نہ صرف اسلامی کتب میں نایاب ہے بلکہ سائنسی کتب میں بھی کم کم دکھائی دیتا ہے۔ باب 34 میں شیر خوار بچوں کے دوران جسمانی نشوونما کے جس پہلو پر امام حسین (ع) نے روشنی ڈالی، اسے محمد علی سید نے موجودہ سائنسی علم سے جوڑ کر بڑے سلیقے سے بیان کیا ہے۔ لحمیات (پروٹین) کی بناوٹ، ایمینوایسڈز کی زنجیر اور ان کے آپس میں جڑنے کے عمل کو "قالین بافی" سے تشبیہ دے کر نہایت خوبصورت انداز میں سمجھایا گیا ہے۔
یہ اسلوب صرف تحقیق نہیں بلکہ تدبیر ہے۔ ایک ایسی تدبیر جو خود شناسی سے خدا شناسی تک لے جاتی ہے۔ محمد علی سید کی یہ کوشش ثابت کرتی ہے کہ امام حسین (ع) کی دعائیں صرف زبانی نہیں بلکہ ان میں علم، حکمت اور سائنسی بنیادیں بھی پنہاں ہیں۔ "عرفان دعائے عرفہ" دراصل ایک دعوتِ فکر ہے۔ ایک ایسی بصیرت بخش صدا جو علم، سائنس اور روحانیت کے درمیان مضبوط پل قائم کرتی ہے۔ یہ وقت ہے کہ ہم امام حسین علیہ السلام کی دعاؤں کو صرف تلاوت یا ترجمے کی سطح پر نہ رکھیں بلکہ ان میں پوشیدہ فکری، سائنسی اور عرفانی نکات پر غور و فکر کریں۔ محمد علی سید کی کتاب "عرفان دعائے عرفہ" اس سلسلے میں ایک تاریخی پیش قدمی ہے۔ ایک ایسی تحقیقی کاوش جو نہ صرف دعائے عرفہ کے مفاہیم کو اجاگر کرتی ہے، بلکہ اسے جدید علمِ حیاتیات، جینیات، میڈیکل سائنس اور فزیالوجی کی روشنی میں ایک زندہ معجزہ ثابت کرتی ہے۔
محمد علی سید صاحب نے امام حسین (ع) کے الفاظ میں چھپے ہوئے علمی و سائنسی خزانے کو نہایت آسان زبان، دلائل اور مثالوں کے ذریعے عام فہم بنا دیا ہے۔ آج جب دنیا علم کے میدان میں برق رفتاری سے آگے بڑھ رہی ہے، ہمیں بھی دینی متون کی سائنسی جہات کو اجاگر کرکے نئی نسل کو یقین دلانا ہے کہ ہمارا دین فقط جذباتی یا تعبدی نہیں بلکہ علمی و تحقیقی بنیادوں پر استوار ہے۔ اس ضمن میں ''عرفان دعائے عرفہ'' ایک مضبوط حوالہ ہے، جسے دینی مدارس، تبلیغی مراکز اور علمی نشستوں میں بطور نصاب یا کم از کم مطالعہ کے لیے شامل کیا جانا چاہیئے۔ اگر دعائے عرفہ کے ذریعے امام حسین (ع) کے علمِ لدنی اور ان کے فہم کو سمجھنے کی کوشش کریں گے تو نہ صرف دین کی وسعت بلکہ انسان کی عظمت بھی آپ پر آشکار ہوگی۔ آئیے، اس کتاب کو صرف ایک قاری کی حیثیت سے نہ دیکھیں، بلکہ اسے اپنے خطبوں، دروس اور درسی مجالس کا محور بنائیں، تاکہ آج کا نوجوان یہ جان سکے کہ اہل بیت علیہم السلام کا علم الہیٰ کتنا بلند، عمیق اور سائنسی بنیادوں پر استوار ہے۔ (جمعرات: 5 جون 2025ء/8 ذی الحجہ 1446ھ)
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: امام حسین علیہ السلام محمد علی سید صاحب عرفان دعائے عرفہ دعائے عرفہ کے نہیں بلکہ اور سائنس کے ذریعے بلکہ ان کرتی ہے عام فہم اور ان
پڑھیں:
بھارت کی انتہا پسندی کرکٹ میدان میں بھی
پروفیسر شاداب احمد صدیقی
کرکٹ کی تاریخ میں ایک نہایت منفرد اور افسوسناک لمحہ اس وقت سامنے آیا جب ایشیا کپ کے ایک میچ کے بعد بھارتی کھلاڑیوں نے روایت سے ہٹ کر پاکستانی کھلاڑیوں سے مصافحہ کرنے سے گریز کیا۔ یہ واقعہ اس کھیل کی اصل روح پر ایک کاری ضرب ہے ، کیونکہ کرکٹ کو ہمیشہ "جنٹل مینز گیم” کہا جاتا رہا ہے ، جہاں نہ صرف کھیل کے اصول بلکہ باہمی احترام اور تعلقات کی نزاکت بھی اہم سمجھی جاتی ہے ۔ لیکن بھارت کے کھلاڑیوں کا یہ رویہ اس بات کا ثبوت ہے کہ انتہا پسندی کی لہر نے وہاں کھیل کے میدانوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ۔ یہ محض ایک لمحاتی رویہ نہیں تھا بلکہ ایک سوچ اور بیانیہ کی عکاسی تھی جسے بھارتی میڈیا اور سیاستدان بڑی شدت کے ساتھ پروان چڑھا رہے ہیں۔پاکستان اور بھارت کے درمیان کرکٹ ہمیشہ سے محض کھیل نہیں بلکہ ایک بڑے اعصابی معرکے کے طور پر دیکھی جاتی ہے ۔ دونوں ملکوں کے عوام کا جوش و خروش اپنی جگہ، لیکن کھیل کے بعد کھلاڑیوں کا ایک دوسرے کے ساتھ مصافحہ اور خوشگوار ملاقات ہمیشہ ہی ایک مثبت پیغام دیتی رہی ہے ۔ چاہے ماضی میں کتنے ہی کشیدہ حالات کیوں نہ رہے ہوں، کرکٹ نے دونوں ملکوں کے عوام کو قریب لانے کا ایک ذریعہ فراہم کیا ہے ۔ لیکن حالیہ رویہ اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارت میں کھیل کی روایات بھی نفرت کی سیاست کے سامنے دم توڑ رہی ہیں۔
اس سے بھی زیادہ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ پاکستان کے ساتھ کھیلنے سے پہلے ہی بھارتی میڈیا نے ایک عجیب ہنگامہ برپا کیا۔ "گودی میڈیا”کہلانے والے بھارتی چینلز نے یہ بحث چھیڑ دی کہ بھارت کو پاکستان سے کھیلنا ہی کیوں چاہیے ؟ گویا کھیل کی دنیا میں بھی تعلقات کو دشمنی اور سیاست کی عینک سے دیکھنے کی عادت بن گئی ہے ۔ بھارتی میڈیا کا یہ کردار نہ صرف کھیل کو نقصان پہنچا رہا ہے بلکہ بھارتی عوام کے ذہنوں میں بھی نفرت اور دوریاں بڑھا رہا ہے ۔ کرکٹ جیسے کھیل کو جنگ کا متبادل بنانے کی کوشش دراصل ایک خطرناک رجحان ہے ۔
یہ حقیقت ہے کہ جنگ اور کھیل میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے ۔ کھیل ایک ایسا ذریعہ ہے جو دشمنی کے بادل چھانٹ کر امن کا پیغام دیتا ہے ، جب کہ جنگ تباہی اور بربادی لاتی ہے ۔ کھیل کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ دونوں ملکوں کے عوام ایک دوسرے کو قریب سے جان سکیں، تعلقات میں نرمی پیدا ہو اور اعتماد کی فضا قائم ہو۔ لیکن بھارت کی موجودہ انتہا پسندانہ روش نے اس فرق کو مٹا کر کھیل کو بھی نفرت کا اکھاڑا بنانے کی کوشش کی ہے ۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان کرکٹ کی تاریخ شاندار لمحوں سے بھری ہوئی ہے ۔ 1987ء میں جب بھارتی ٹیم پاکستان آئی تو جنرل ضیاء الحق نے "کرکٹ ڈپلومیسی” کے تحت راجیو گاندھی سے ملاقات کی، جس نے دونوں ملکوں کے تعلقات میں وقتی بہتری پیدا کی۔ اسی طرح 2004ء میں جب بھارتی ٹیم پاکستان کے دورے پر آئی تو لاہور، کراچی اور راولپنڈی کے عوام نے بھارتی کھلاڑیوں کو بے مثال محبت دی۔ حتیٰ کہ شائقین نے بھارتی کھلاڑیوں کے لیے تالیاں بجائیں، ان کی کارکردگی کو سراہا اور دنیا کو دکھایا کہ کھیل کس طرح دشمنیوں کو مٹا سکتا ہے ۔ لیکن آج کا بھارت اپنی اسی تاریخ کو بھلا بیٹھا ہے اور کھیل کو بھی سیاست کی بھینٹ چڑھا رہا ہے ۔
اصل مسئلہ بھارت کی اندرونی سیاست میں پنہاں ہے ۔ بھارتی حکمران جماعت نے اپنے ووٹ بینک کو مضبوط کرنے کے لیے پاکستان دشمنی کو ایک بیانیہ بنا لیا ہے ۔ انتخابی مہمات ہوں یا روزمرہ کی سیاست، پاکستان کے خلاف زہر اگلنا بھارتی رہنماؤں کے لیے ایک آسان ہتھیار ہے ۔ اس بیانیے کو بھارتی میڈیا نے مزید ہوا دی ہے ۔ ہر میچ کو ایک جنگ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور ہر پاکستانی کھلاڑی کو ایک دشمن کے طور پر دکھایا جاتا ہے ۔ نتیجہ یہ ہے کہ عوام کے ذہنوں میں یہ نفرت اس حد تک رچ بس گئی ہے کہ کھیل کے بعد ایک مصافحہ بھی انہیں گوارا نہیں ہوتا۔یہ رویہ صرف پاکستان کے ساتھ تعلقات کو ہی نقصان نہیں پہنچا رہا بلکہ بھارت کے اپنے کھیل کی ساکھ کو بھی متاثر کر رہا ہے۔ دنیا بھر میں کھیل کو امن اور دوستی کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے ، لیکن بھارتی کھلاڑیوں کا یہ طرزِ عمل دنیا کو یہ پیغام دے رہا ہے کہ بھارت کھیل کو بھی اپنی انتہا پسندی کے رنگ میں رنگنا چاہتا ہے ۔ بین الاقوامی سطح پر اس سے بھارت کی شبیہ متاثر ہو رہی ہے ، کیونکہ کرکٹ کے شائقین دنیا کے کسی بھی کونے میں ہوں، وہ کھیل کے اندر دوستی اور عزت کو سب سے زیادہ پسند کرتے ہیں۔
پاکستانی کھلاڑیوں نے ہمیشہ اپنی طرف سے کھیل کی اقدار کا احترام کیا ہے ۔ چاہے جیت ہو یا ہار، انہوں نے بھارتی کھلاڑیوں کے ساتھ مثبت رویہ اپنایا۔ لیکن بھارت کی جانب سے یہ سرد مہری اور غیر روایتی رویہ اس بات کا اظہار ہے کہ کھیل کو نفرت سے آلودہ کر دیا گیا ہے ۔ اس کا نقصان صرف پاکستان کو نہیں بلکہ خود بھارت کو بھی ہوگا، کیونکہ جب کھیل سے رواداری ختم ہو جاتی ہے تو اس کے بعد کھیل کا اصل حسن باقی نہیں رہتا۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کا حل کیا ہے ؟ سب سے پہلے تو یہ ضروری ہے کہ کھیل کے میدانوں کو سیاست اور نفرت سے پاک رکھا جائے ۔ کرکٹ بورڈز کو چاہیے کہ وہ کھلاڑیوں کو کھیل کی اصل روح یعنی باہمی احترام اور رواداری کی تربیت دیں۔ بین الاقوامی ادارے مثلاً آئی سی سی اور اے سی سی اپنی ذمہ داری ادا کریں اور کھیل میں غیر اخلاقی رویوں کے خلاف سخت اقدامات کریں۔ میڈیا کو یہ سمجھنا ہوگا کہ کھیل کو سیاست کا میدان نہ بنایا جائے بلکہ اسے امن اور بھائی چارے کا ذریعہ بننے دیا جائے ۔ پاکستان اپنی کرکٹ ڈپلومیسی کو مزید فعال کرے اور دنیا کو یہ باور کرائے کہ کھیل کو سیاست سے بالاتر سمجھنا چاہیے ۔ دونوں ملکوں کے عوام کو یہ شعور دینا ہوگا کہ کھیل دشمنی نہیں بلکہ تعلقات بہتر بنانے کا ذریعہ ہے ۔آخر میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ جنگ اور کھیل میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔ کھیل دلوں کو جوڑتا ہے ، جب کہ جنگ دلوں کو توڑتی ہے ۔ اگر بھارت واقعی ایک بڑی قوم بننا چاہتا ہے تو اسے کھیل کے میدانوں میں بھی بڑے پن کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ پاکستان کے ساتھ کھیلنا کوئی کمزوری نہیں بلکہ ایک موقع ہے کہ دونوں قومیں قریب آئیں اور نفرت کی دیواریں توڑیں۔ کرکٹ کو نفرت کا نہیں بلکہ محبت اور امن کا ذریعہ بنانا وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے ۔