نیب کی آٹھ کھرب چالیس ارب روپے کی ریکوری
اشاعت کی تاریخ: 28th, October 2025 GMT
سٹی 42: نیب نے 2 سال سات ماہ میں مجموعی طور پر آٹھ کھرب چالیس ارب روپے کی ریکوری کی ہے
چیئرمین نیب نے بتایا کہ نیب کو دو سال سات ماہ میں پندرہ ارب تیتیس کروڑ روپے کا بجٹ ملا ۔نیب نے ایک روپے کے خرچ کے عوض پانچ سو آڑتالیس روپے کی ریکوری کی ۔گذشتہ 23سالوں میں نیب نے مجموعی طور پر آٹھ سو تراسی ارب روپے کی ریکوری کی تھی ۔
نیشنل اکاونٹیبلٹی ایکٹ کی ایمینڈمننٹس کے بعد نیب میں اصلاحات کی گئیں ۔اصلاحات سے نیب میں بہترین اہداف حاصل کیے ہیں ۔نیب کا ادارہ اب تبدیل ہوگیا ہے ،جو غلطیاں تھیں انکی اصلاح کی ہیں ۔نیب میں ایس او پی وضع کردییے گئے ہیں ۔نیب میں جھوٹی اور بوگس شکایت درج کرانے والے خلاف کارروائی کا میکنزم بنایا گیا ہے۔
ایس او پی سے بوگس اور بلیک میلنگ کے لیے کی گئی شکایات کا خاتمہ ہوا ہے ۔نیب میں ایس او پی وضع کردیے گئے ہیں ۔نیب میں انٹرنل اکاونٹیبلٹی سیل قائم کردیا گیا ہے ۔تمام ریجنل بیور مہینے میں ایک دفعہ کھلی کچہری لگاتے ہیں ۔
شکایت کندہ کے لیے فیڈ بیک سسٹم بنا دیا گیا ہے اور پرفارما بنایا گیا ہےنیب ڈیجلائزیشن پر منتقل ہوگیا ہے ۔تفتیش کے لیے جدید آے آئی ٹولز استعمال کیے جارہے ہیں ۔مقدمے کے کسی بھی مرحلے پر ملزم کو سنے جانے کا حق دیا گیا ہے۔ہائی لیول کمیٹی بنائی گئی ہے جو ملزم کی شکایت پر اسکی تفتیش کا تفصیلی جائزہ لے گی ۔
لیسکو کی جانب سے سنگل فیز اسمارٹ میٹر کی قیمت مقرر
نیب میں شکایت کندہ کی سہولت کے لیے ان لائن بیان دینے کی سہولت متعارف کردی گئی ہے ۔نیب کا خوف جو ماضی میں تھا وہ ختم کیا جارہا ہے۔نیب اب گورنمنٹ آفیسرز ،پارلیمنٹیرین اور اسمبلی کے ممبران کو ڈائریکٹ نوٹس نہیں کرتا ہے ۔سرکاری آفسران کے خلاف شکایت کو متعلقہ چیف سیکرٹری یا سٹیبلشمنٹ کے ذریعے کیا جاتا ہے
کاروباری افراد کے ساتھ اعتماد سازی کی فضا قائم کی جارہی ہے ۔تمام چیمبر آف کامرس میں کے ساتھ قریبی روابط قائم کیے جارہے ہیں ۔وفاقی ،صوبائی اور عدالتوں کی جانب سے شکایات کو ترجیحی دی جاتی ہے
عوام الناس کے ساتھ فراڈ کی شکایت کو بھی ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جاتا ہے ۔صوبائی اور وفاقی محکموں کے ساتھ ملل کر سرکاری اثاثے واگزار کروائے جارہے ہیں ۔نیب اب تک پینتالیس لاکھ ایکٹر سے زائد سرکاری زمین واگزار کرا چکا ہے ۔جس میں سے تیس لاکھ بانوے ہزار پانچ تیتیس جنگلات کی جگہ ہے۔تیرہ لاکھ ننانوے ہزار تین سو سینتیس ایکڑ مینگورز لینڈ ہے۔اڑتیس ہزار چھ سو چوالیس ایکڑ ریونیو اتھارٹیز کی لینڈ ہے
این ایچ اے کی بارہ سو اٹھائیس ایکڑ زمین واگزار کرائی گئی ہے ۔ای ایلون اسلام آباد میں انتیس ارب روپے کی اکاون ایکٹر زمین واگزار کروائی گئی ۔
مجموعی طور پر آٹھ سو ترپن ارب روپے کی زمین واگزار کروائی گئی ہے ۔بلوچستان کی دس لاکھ تیتیس ہزار آٹھ سو تیس ایکٹر زمین واگزار کرائی گئی ۔سندھ کی چونتیس لاکھ بہتر ہزار نو سو بیالیس ایکٹر زمین واگزار کرائی گئ
پنجاب کی چوبیس ہزار پانچ سو اٹھانوے ایکڑ زمین واگزار کرائی گئی ہے ۔کے پی کے گورمنٹ کی تیس سو بہتر کنال زمین واگزار کرائی گئی ۔
نیب نے ریکوری کی مدد فیڈرل اور صوبائی گورمنٹ چھ ارب ستاون کروڑ منتقل کردیے ہیں ۔ہاوسنگ سوسائٹیز ایک لاکھ اکیس ہزار چھ سو پیتیس متاثرین پیسے واپس دلوائے گئے ۔ہاوسنگ سوسائیٹز کے متاثرین میں مجموعی طور پر کو ایک سو چوبیس ارب چھیاسی کروڑ روپے واپس دلوائے گئے۔
چیئرمین نیب نے بتایا کہ آوٹ آف دی کورٹ سیٹلمینٹ میں عوام کا مفاد مقدم رکھا جاتا ہے ،سیٹلمنٹ میں کوڑیوں کے بھاو والا تاثر سراسر غلط ہے ،پاکستان سے بدعنوانی کا خاتمہ ہوجائے تو اس ملک کی کسی قرضہ کی ضروت نہیں ہے۔
امتحانات سے قبل ہی لاہور بورڈ کی نااہلی سامنے آگئی
.ذریعہ: City 42
کلیدی لفظ: زمین واگزار کرائی گئی روپے کی ریکوری ارب روپے کی ریکوری کی کے ساتھ گیا ہے گئی ہے کے لیے
پڑھیں:
ٹیکس چوری میں ملوث ڈاکٹرز‘ کلینکس اور اسپتالوں کیخلاف گھیرا تنگ کرنے کا فیصلہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251214-08-24
اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) ایف بی آر نے کروڑوں روپے کی مبینہ ٹیکس چوری میں ملوث نجی پریکٹس کرنے والے ڈاکٹرز و میڈیکل کلینکس و نجی اسپتالوں کے خلاف گھیرا تنگ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔یہ فیصلہ ایف بی آر کو ڈیٹا اینالسز کے دوران موصول ہونیوالے تازہ ترین اعداد و شمار کی بنیاد پر کیا گیا ہے ملک میں ڈاکٹروں کا بڑے پیمانے پر مبینہ طور پر ٹیکس چوری میں ملوث ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔قابل ٹیکس آمدنی رکھنے کے باوجود 73 ہزار سے زائد رجسٹرڈ ڈاکٹرز کا انکم ٹیکس گوشوارے جمع نہ کرانے کا بھی انکشاف ہوا ہے۔ایف بی آرحکام کے مطابق تازہ ترین ڈیٹا کے مطابق ملک بھر میں ایک لاکھ30 ہزار 243 ڈاکٹرز رجسٹرڈ ہیں لیکن رواں سال میں صرف 56ہزار287 رجسٹرڈ ڈاکٹروں نے انکم ٹیکس ریٹرن جمع کرائے ہیں جبکہ 73 ہزار سے زائد رجسٹرڈ طبّی ماہرین نے کوئی انکم ٹیکس ریٹرن جمع ہی نہیں کرائے۔یہ ڈاکٹرزملک کے سب سے زیادہ آمدنی والے شعبوں میں مصروف کار ہیں یہ انکشافات نجی میڈیکل پریکٹسز کی واضح مصروفیات اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے سامنے ظاہر کی گئی آمدنی کے درمیان نمایاں تضادات کو اجاگر کرتے ہیں۔اعداد و شمار سے معلوم ہوا ہے کہ2025ء میں31 ہزار870 ڈاکٹرز نے نجی پریکٹس سے صفر آمدنی ظاہر کی ہے جبکہ 307 ڈاکٹرز نے نقصان ظاہر کیا ہے حالانکہ بڑے شہروں میں مذکورہ داکٹرزکے کلینکس مسلسل مریضوں سے بھرے رہتے ہیں۔صرف24 ہزار 137 ڈاکٹروں نے کوئی کاروباری آمدنی ظاہر کی ہے جو ڈاکٹرز انکم ٹیکس ریٹرن جمع کراتے بھی ہیں۔ان کا ظاہر کردہ ٹیکس ان کی ممکنہ آمدنی کے مقابلے میں انتہائی کم ہے،17 ہزار442 ڈاکٹرز ایسے ہیں جن کی آمدنی 10 لاکھ روپے سے زائد تھی، انہوں نے یومیہ اوسطاً 1,894 روپے ٹیکس ادا کیا جبکہ10 ہزار922 ڈاکٹرز ایسے ہیں جن کی سالانہ آمدنی 10 سے 50 لاکھ روپے کے درمیان تھی، انہوں نے یومیہ صرف 1,094 روپے ٹیکس ادا کیا۔3312 ڈاکٹرز ایسے ہیں جن کی آمدنی 50 لاکھ سے 1 کروڑ روپے کے درمیان تھی، انہوں نے یومیہ 1,594 روپے ٹیکس ادا کیا جبکہ ایسے بہت سے ڈاکٹرز ہیں جو فی مریض 2 ہزارسے10 ہزار روپے تک فیس وصول کرتے ہیں۔روزانہ ایک مریض کی فیس کے برابر ٹیکس بھی ظاہر نہیں کر رہے، سب سے زیادہ آمدنی والے 3,327 ڈاکٹرز جن کی آمدنی ایک کروڑ روپے سے زیادہ تھی، انہوں نے یومیہ صرف ساڑھے 5 ہزار روپے ٹیکس ادا کیاجبکہ38 ہزار 761 ڈاکٹرز ایسے ہیں جنہوں نے 10 لاکھ روپے سے کم آمدنی ظاہرکی ہے، ان کا یومیہ ادا کردہ ٹیکس صرف 791 روپے تھا۔اس کے علاوہ 31 ہزار524 ڈاکٹرز نے صفر آمدنی ظاہرکی ہے مگر مجموعی طور پر 1.3 ارب روپے کے ٹیکس ریفنڈ کے دعوے دائرکیے ہیں۔یہ اعداد و شمار اس زمینی حقیقت سے شدید متصادم ہیں کہ ہر شام ملک بھر میں نجی کلینکس مریضوں سے بھرے ہوتے ہیں اور فی مریض فیس خاصی زیادہ ہوتی ہے اگرموازنہ کیا جائے تو گریڈ 17اور18 کا ایک سرکاری افسر اس سے کہیں زیادہ ماہانہ ٹیکس ادا کرتا ہے، جتنا بہت سے ڈاکٹر پوری سہہ ماہی میں ادا کرتے ہیں، اس کے باوجود کہ سرکاری ملازمین کے پاس آمدنی چھپانے کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔اس صورت حال سے ایک بنیادی سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ملک ان طبقات کے ٹیکسوں پر چل سکتا ہے، جن کی آمدنی چھپ نہیں سکتی جبکہ زیادہ آمدنی والے شعبے یا تو آمدنی کم ظاہر کر رہے ہیں یا بالکل ظاہر ہی نہیں کرتے؟۔یہ انتہائی افسوس ناک بات ہے کہ زیادہ آمدنی والے طبقات نہایت کم آمدنی ظاہر کرتے ہیں، کمپلائنس کا یہ ابھرتا ہوا خلا ٹیکس نظام میں انصاف کی بحالی کے لیے موثرانفورسمنٹ اقدامات کی فوری ضرورت کی نشاندہی کرتا ہے۔زیادہ آمدنی والے پیشوں میں کمپلائنس اب کوئی اختیاری امر نہیں رہا،یہ قومی استحکام کے لیے ناگزیر ہو چکا ہے۔