دہلی کے رام لیلا میدان میں کانگریس کی "ووٹ چور گدی چھوڑ" ریلی
اشاعت کی تاریخ: 14th, December 2025 GMT
ریلی سے خطاب کرتے ہوئے پارلیمنٹ میں حزبِ اختلاف کے لیڈر راہل گاندھی نے مودی حکومت پر سخت حملہ کیا اور کہا کہ ملک میں اصل لڑائی سچ اور اقتدار کے درمیان ہے۔ اسلام ٹائمز۔ کانگریس نے دہلی کے رام لیلا میدان میں "ووٹ چور گدی چھوڑ" کے عنوان سے ایک ریلی کا انعقاد کیا، جس میں ملک بھر سے پارٹی کے سینیئر قائدین، اراکینِ پارلیمنٹ اور بڑی تعداد میں کارکنان شریک ہوئے۔ ریلی کا مرکزی موضوع ووٹ چوری، انتخابی عمل میں شفافیت اور جمہوری اداروں کے تحفظ کا مطالبہ تھا۔ ریلی سے خطاب کرتے ہوئے پارلیمنٹ میں حزبِ اختلاف کے لیڈر راہل گاندھی نے مودی حکومت پر سخت حملہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں اصل لڑائی سچ اور اقتدار کے درمیان ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستانی تہذیب اور تمام مذاہب کی بنیاد سچ پر ہے لیکن آج اقتدار میں بیٹھی قوتیں سچ کے بجائے طاقت کو اہمیت دے رہی ہیں۔
راہل گاندھی نے الزام لگایا کہ حکومت ووٹ چوری کے سہارے اقتدار میں ہے اور انتخابات کے دوران پیسہ بانٹ کر اور ووٹر فہرستوں میں ہیر پھیر کر کے عوامی رائے کو متاثر کیا جاتا ہے۔ راہل گاندھی نے کہا کہ ووٹ چوری بھیم راؤ امبیڈکر کے آئین پر براہِ راست حملہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ووٹ چوری نہ ہو تو عوام چند منٹوں میں اس حکومت کو اقتدار سے ہٹا دیں۔ انہوں نے الیکشن کمیشن کی غیر جانبداری پر بھی سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمشنر ہندوستان کے ہوتے ہیں، کسی حکومت کے نہیں۔
ریلی میں کانگریس رہنما پرینکا گاندھی نے بی جے پی کو چیلنج دیتے ہوئے کہا کہ اگر وہ ایک بار بیلٹ پیپر پر ایماندارانہ اور غیر جانبدار انتخاب لڑ لے تو کبھی کامیاب نہیں ہو پائے گی۔ انہوں نے الزام لگایا کہ پارلیمنٹ میں ووٹ چوری اور ایس آئی آر جیسے اہم مسائل پر بحث سے گریز کیا گیا اور عوامی مسائل کو دبانے کی کوشش کی گئی۔ دیگر قائدین نے بھی ریلی سے خطاب کیا۔ دہلی کانگریس کے صدر دیویندر یادو نے کہا کہ پانچ کروڑ سے زیادہ لوگ "ووٹ چور، گدی چھوڑ" مہم کی حمایت کر چکے ہیں۔ سچن پائلٹ نے ووٹ چوری کے معاملے پر الیکشن کمیشن کی خاموشی پر سوال اٹھایا، جبکہ گورو گوگوئی نے کہا کہ کانگریس کارکن ہر بوتھ پر ووٹ کی حفاظت کے لئے کھڑے ہوں گے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: راہل گاندھی نے نے کہا کہ ووٹ چوری انہوں نے
پڑھیں:
خیبر پختونخوا: پی ٹی آئی سے دوری، کیا علی امین گنڈاپور پارٹی چھوڑ رہے ہیں؟
وزیرِاعلیٰ خیبر پختونخوا کے عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد پاکستان تحریکِ انصاف کے بانی عمران خان کے دیرینہ اور قابلِ اعتماد ساتھی سمجھے جانے والے اور عمران خان کی رہائی کے لیے احتجاجی تحریک چلانے والے علی امین گنڈاپور نہ صرف پارٹی رہنماؤں سے دور ہیں بلکہ عمران خان کی رہائی کے لیے ہونے والے احتجاج اور جلسوں میں بھی نظر نہیں آ رہے۔
یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی اندرونی اختلافات کا شکار، علی امین گنڈاپور کا پارٹی سے قطع تعلق، معاملہ کیا ہے؟
پارٹی جلسوں اور سیاسی منظرنامے سے مسلسل غائب رہنے کے باعث یہ خیال کیا جارہا ہے کہ علی امین گنڈاپور ممکنہ طور پر پارٹی چھوڑنے پر غور کررہے ہیں۔ کچھ اطلاعات کے مطابق وہ پی ٹی آئی کے اندر ہی ایک فارورڈ بلاک بنانے کی کوشش بھی کررہے ہیں۔
سابق وزیرِ اعلیٰ کے قریبی حلقوں کا کہنا ہے کہ علی امین گنڈاپور عمران خان اور پارٹی قیادت سے شدید ناراض ہیں، اور اسی وجہ سے وہ عمران خان کی رہائی کے لیے احتجاجی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لے رہے۔ ان کی سرگرمیاں اس وقت صرف اپنے آبائی ضلع تک محدود ہیں اور پارٹی سے ان کا رابطہ بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ ان کے ایک قریبی ساتھی کے مطابق علی امین کے پاس اس وقت کوئی عہدہ نہیں ہے۔
کیا علی امین واقعی پی ٹی آئی چھوڑ رہے ہیں؟
اگرچہ سابق وزیرِاعلیٰ علی امین گنڈاپور نے ابھی تک پارٹی کے خلاف کوئی بیان نہیں دیا، لیکن پی ٹی آئی کے اندر ان کے بارے میں شکوک و شبہات بڑھ رہے ہیں۔
پارٹی کے ایک سینئر رہنما کے مطابق علی امین عمران خان کے انتہائی قریبی اور قابلِ اعتماد ساتھی سمجھے جاتے ہیں، لیکن جس طرح بغیر کسی مشاورت کے انہیں ایک وکیل کی جانب سے اعلان کے ذریعے وزارتِ اعلیٰ سے ہٹایا گیا، اسے وہ اپنی بے عزتی سمجھ رہے ہیں۔ ان کے دوبارہ پارٹی سرگرم ہونے کے امکانات بھی بہت کم بتائے جارہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: علی امین گنڈاپور اور سہیل آفریدی میں کیا فرق ہے؟
رہنما کے مطابق جب عمران خان نے سہیل آفریدی کو وزیرِ اعلیٰ نامزد کیا تو پارٹی میں فکر تھی کہ کہیں علی امین گنڈاپور انکار نہ کریں یا کوئی فارورڈ بلاک نہ بنا دیں، لیکن اس وقت انہوں نے عمران خان کے فیصلے کو تسلیم کر لیا۔ تاہم اب بھی ان کے راستے جدا ہونے کا امکان موجود ہے۔
نوجوان صحافی محمد فہیم کے مطابق علی امین گنڈاپور کی سیاست عمران خان سے شروع ہوئی اور اب بھی عمران خان ہی ان کا سیاسی محور ہیں۔ ان کے مطابق فی الحال علی امین کے پارٹی چھوڑنے کے امکانات بہت کم ہیں کیونکہ ان کے پاس زیادہ آپشنز نہیں ہیں۔
فہیم کا کہنا ہے کہ علی امین ناراض ضرور ہیں اور جس طرح انہیں ہٹایا گیا وہ درست نہیں تھا، لیکن پارٹی چھوڑنا ان کے لیے اس سے بھی زیادہ نقصان دہ ہوگا۔
کیا علی امین کو کوئی پیشکش ہوئی ہے؟
سابق وزیرِ اعلیٰ کے قریبی ساتھی کے مطابق علی امین کو ہٹانے سے ایک ہفتہ قبل عمران خان سے ملاقات ہوئی تھی جس میں کابینہ میں ردوبدل کی اجازت دی گئی تھی، لیکن ہٹانے سے متعلق کوئی بات نہیں ہوئی تھی۔ عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد انہیں متعدد پیشکشیں ہوئیں، یہاں تک کہ وفاق کی جانب سے بھی رابطہ کر کے انہیں وزیرِ اعلیٰ برقرار رکھنے اور تعاون کی یقین دہانی کرائی گئی۔
ساتھی کے مطابق علی امین نے متعدد پیش کشوں کے باوجود عمران خان سے وفاداری نبھائی اور کوئی پیش کش قبول نہیں کی۔
یہ بھی پڑھیں: وزارت اعلیٰ سے ہٹنے کے بعد اب علی امین گنڈاپور کیا کررہے ہیں؟
محمد فہیم بھی اس موقف سے اتفاق کرتے ہیں۔ ان کے مطابق سہیل آفریدی کی نامزدگی کچھ حلقوں کے لیے پریشانی کا باعث تھی، اور علی امین اگر چاہتے تو وزیرِ اعلیٰ رہ سکتے تھے، لیکن اب وقت گزر چکا ہے۔ ان کے مطابق علی امین اس وقت صرف موقع کے انتظار میں ہیں۔
سینئر صحافی عارف حیات بھی فہیم سے کچھ حد تک اتفاق کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ علی امین جانتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے بغیر ان کی سیاست مشکل ہے، کیونکہ جو لوگ پی ٹی آئی سے الگ ہوئے، ان کی سیاست تقریباً ختم ہو گئی۔
علی امین کے پاس کیا آپشنز ہیں؟
عارف حیات کے مطابق علی امین گنڈاپور سیاسی طور پر مضبوط ہو چکے ہیں اور حلقے میں ان کا ووٹ بینک موجود ہے۔ ان کے مطابق اگرچہ پی ٹی آئی کا ووٹ عمران خان کا ہے، لیکن علی امین آزاد حیثیت میں بھی الیکشن لڑ سکتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ علی امین اس وقت اپنے حلقے میں بہت فعال ہیں اور اپنی پوزیشن بہتر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہیں اندازہ ہو چکا ہے کہ ووٹ اب ان کا اپنا ہونا چاہیے، عمران خان کا نہیں۔
یہ بھی پڑھیں: عمران خان نے وزارت اعلیٰ سے کیوں نکالا؟ علی امین گنڈاپور نے خاموشی توڑ دی
عارف کے مطابق علی امین دیگر جماعتوں میں بھی جانے کی گنجائش رکھتے ہیں اور انہیں وہاں قبول بھی کیا جائے گا، لیکن شاید وہ خود ایسا نہ کریں۔ اس وقت ان کے پاس سب سے بہتر آپشن اپنی سیاسی پوزیشن مضبوط کرنا ہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ علی امین نے عمران خان کے ذریعے ہی ڈی آئی خان میں جگہ بنائی اور جے یو آئی اور پیپلز پارٹی کو سخت ٹف ٹائم دیا۔
علی امین کے ترجمان کیا کہتے ہیں؟
سابق وزیرِ اعلیٰ کے ترجمان فراز مغل علی امین کی پارٹی سے دوری کی خبروں کی تردید کرتے ہیں۔ ان کے مطابق علی امین پارٹی میں سرگرم ہیں اور ان دنوں اپنے آبائی ضلع ڈی آئی خان میں موجود ہیں۔ 20 ماہ کی مصروفیت کے دوران وہ حلقے کو وقت نہیں دے سکے تھے اور اب اپنی توجہ وہاں مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ ترجمان کے مطابق علی امین آج بھی عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں اور اگر عمران خان کی رہائی کے لیے کال دی گئی تو وہ سب سے آگے ہوں گے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news پی ٹی آئی خیبرپختونخوا سابق وزیراعلیٰ سہیل آفریدی علی امین گنڈاپور عمران خان فارورڈ بلاک