Nawaiwaqt:
2025-12-14@22:08:01 GMT

ٹیکس نیٹ سے باہر ہزاروں ڈاکٹروں کے خلاف ایف بی آر حرکت میں

اشاعت کی تاریخ: 14th, December 2025 GMT

ٹیکس نیٹ سے باہر ہزاروں ڈاکٹروں کے خلاف ایف بی آر حرکت میں

فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے ایسے افراد کے خلاف کارروائی تیز کرنے کا فیصلہ کیا ہے جن کی آمدنی تو اچھی خاصی ہے. لیکن وہ ابھی تک ٹیکس نیٹ سے باہر ہیں۔ اس دوران تقریباً 73 ہزار ایسے ڈاکٹرز اور دیگر افراد کی نشاندہی کی گئی ہے جو بھاری آمدن کے باوجود ٹیکس گوشوارے جمع نہیں کرا رہے۔ایف بی آر ذرائع کے مطابق ان افراد کی نشاندہی بینکنگ ڈیٹا، جائیداد ریکارڈز، مہنگی گاڑیوں کی ملکیت اور بڑے مالی لین دین کی بنیاد پر کی گئی ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کئی ڈاکٹرز نجی ہسپتالوں، کلینکس اور لیبارٹریز سے لاکھوں روپے ماہانہ کما رہے ہیں .

مگر باقاعدہ ٹیکس فائلر نہیں ہیں۔حکام کا کہنا ہے کہ نان فائلرز کے خلاف مرحلہ وار کارروائی کی جائے گی، جس میں نوٹسز، آڈٹ، بینک اکاؤنٹس کی جانچ اور قانونی سزائیں شامل ہو سکتی ہیں۔ ایف بی آر نے واضح کیا ہے کہ کسی بھی شعبے سے تعلق رکھنے والا فرد اگر آمدن رکھتا ہے تو ٹیکس دینا اس کی قانونی ذمہ داری ہے۔ایف بی آر حکام کے مطابق ٹیکس نیٹ کو وسعت دینا ملکی معیشت کے استحکام کے لیے ناگزیر ہے، جبکہ ایماندار ٹیکس دہندگان پر بوجھ کم کرنے کے لیے ٹیکس چوری کے خلاف سخت اقدامات کیے جا رہے ہیں۔حکام نے عندیہ دیا ہے کہ آئندہ دنوں میں دیگر پیشہ ور شعبوں سے تعلق رکھنے والے نان فائلرز کے خلاف بھی اسی نوعیت کی کارروائیاں کی جائیں گی۔

ذریعہ: Nawaiwaqt

کلیدی لفظ: ایف بی آر کے خلاف

پڑھیں:

ایف بی آر کا ٹیکس چوری میں ملوث ڈاکٹرز، میڈیکل کلینکس اور اسپتالوں کے خلاف گھیرا تنگ کرنے کا فیصلہ

فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر) نے کروڑوڑں روپے کی مبینہ ٹیکس چوری میں ملوث نجی پریکٹس کرنے والے ڈاکٹروں و میڈیکل کلینکس و نجی اسپتالوں کے خلاف گھیرا تنگ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

یہ فیصلہ ایف بی آر کو ڈیٹا اینالسز کے دوران موصول ہونیوالے تازہ ترین اعداد و شمار کی بنیاد پر کیا گیا ہے ملک میں ڈاکٹروں کا بڑے پیمانے پر مبینہ طور پر ٹیکس چوری میں ملوث ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔

قابل ٹیکس آمدنی رکھنے کے باوجود 73 ہزار سے زائد رجسٹرڈ ڈاکٹروں کا انکم ٹیکس گوشوارے جمع نہ کروانے کا بھی انکشاف ہوا ہے۔

فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر)حکام کے مطابقتازہ ترین ڈیٹا کے مطابق ملک بھر میں ایک لاکھ30 ہزار 243 ڈاکٹرز رجسٹرڈ ہیں لیکن رواں سال میں صرف 56ہزار287 رجسٹرڈ ڈاکٹروں نے انکم ٹیکس ریٹرن جمع کروائے ہیں جبکہ 73 ہزار سے زائد رجسٹرڈ طبّی ماہرین نے کوئی انکم ٹیکس ریٹرن جمع ہی نہیں کرائ۔

یہ ڈاکٹرزملک کے سب سے زیادہ آمدنی والے شعبوں میں مصروف کار ہیں یہ انکشافات نجی میڈیکل پریکٹسز کی واضح مصروفیات اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے سامنے ظاہر کی گئی آمدنی کے درمیان نمایاں تضادات کو اجاگر کرتے ہیں۔

اعداد و شمار سے معلوم ہوا ہے کہ2025 میں31 ہزار870 ڈاکٹرز نے نجی پریکٹس سے صفر آمدنی ظاہر کی ہے جبکہ 307 ڈاکٹروں نے نقصان ظاہر کیا ہے حالانکہ بڑے شہروں میں ان کے کلینکس مسلسل مریضوں سے بھرے رہتے ہیں۔

صرف24 ہزار 137 ڈاکٹروں نے کوئی کاروباری آمدنی ظاہر کی ہے جو ڈاکٹرز انکم ٹیکس ریٹرن جمع کراتے بھی ہیں۔

ان کا ظاہر کردہ ٹیکس ان کی ممکنہ آمدنی کے مقابلے میں انتہائی کم ہے، سترہ ہزار442 ڈاکٹرز ایسے ہیں جن کی آمدنی 10 لاکھ روپے سے زائد تھی، انہوں نے یومیہ اوسطاً 1,894 روپے ٹیکس ادا کیا جبکہ دس ہزار922 ڈاکٹرز ایسے ہیں جن کی سالانہ آمدنی 10 سے 50 لاکھ روپے کے درمیان تھی، انہوں نے یومیہ صرف 1,094 روپے ٹیکس ادا کیا۔

تین ہزار312 ڈاکٹرز ایسے ہیں جن کی آمدنی 50 لاکھ سے ایککروڑ روپے کے درمیان تھی انہوں نے یومیہ 1,594 روپے ٹیکس ادا کیا جبکہ ایسے بہت سے ڈاکٹرز ہیں جو فی مریض دو ہزارسے دس ہزار روپے تک فیس وصول کرتے ہیں۔

روزانہ ایک مریض کی فیس کے برابر ٹیکس بھی ظاہر نہیں کر رہے سب سے زیادہ آمدنی والے 3,327 ڈاکٹرز جن کی آمدنی ایک کروڑ روپے سے زیادہ تھی، انہوں نے یومیہ صرف ساڑھے پانچ ہزار روپے ٹیکس ادا کیاجبکہ38 ہزار 761 ڈاکٹرز ایسے ہیں جنہوں نے 10 لاکھ روپے سے کم آمدنی ظاہرکی ہےان کا یومیہ ادا کردہ ٹیکس صرف 791 روپے تھا۔

اس کے علاوہ 31 ہزار524 ڈاکٹرز نے صفر آمدنی ظاہرکی ہے مگر مجموعی طور پر 1.3 ارب روپے کے ٹیکس ریفنڈز کے دعوے دائرکئے ہیں۔

یہ اعداد و شمار اس زمینی حقیقت سے شدید متصادم ہیں کہ ہر شام ملک بھر میں نجی کلینکس مریضوں سے بھرے ہوتے ہیں اور فی مریض فیس خاصی زیادہ ہوتی ہے اگرموازنہ کیا جائے تو گریڈ سترہ اور اٹھارہ کا ایک سرکاری افسر اس سے کہیں زیادہ ماہانہ ٹیکس ادا کرتا ہے جتنا بہت سے ڈاکٹر پوری سہہ ماہی میں ادا کرتے ہیں اس کے باوجود کہ سرکاری ملازمین کے پاس آمدنی چھپانے کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔

اس صورت حال سے ایک بنیادی سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ملک اْن طبقات کے ٹیکسوں پر چل سکتا ہے جن کی آمدنی چھپ نہیں سکتی جبکہ زیادہ آمدنی والے شعبے یا تو آمدنی کم ظاہر کر رہے ہیں یا بالکل ظاہر ہی نہیں کرتے؟

یہ انتہائی افسوس ناک بات ہے کہ زیادہ آمدنی والے طبقات نہایت کم آمدنی ظاہر کرتے ہیں کمپلائنس کا یہ ابھرتا ہوا خلا ٹیکس نظام میں انصاف کی بحالی کے لیے موٴثرانفورسمنٹ اقدامات کی فوری ضرورت کی نشاندہی کرتا ہے۔

زیادہ آمدنی والے پیشوں میں کمپلائنس اب کوئی اختیاری امر نہیں رہایہ قومی استحکام کے لیے ناگزیر ہو چکا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • مٹیاری میں اتائی ڈاکٹروں کی بھرمار
  • روس کا یوکرین پر ہائپر سونک میزائل سے حملہ، شہری تنصیبات کو نقصان
  • ایف بی آر کا ٹیکس چوری میں ملوث ڈاکٹرز، میڈیکل کلینکس اور اسپتالوں کے خلاف گھیرا تنگ کرنے کا فیصلہ
  • ٹیکس چوری میں ملوث ڈاکٹرز اور نجی طبی اداروں کے خلاف ایف بی آر کا سخت کریک ڈاؤن
  • نئی دلی، عدالت نے لال قلعہ دھماکہ کیس میں گرفتار 3 ڈاکٹروں کو 12روزہ عدالتی تحویل میں دے دیا
  • امریکا میں مقیم 2 ہزار افغان شہریوں کے دہشتگرد تنظیموں سے ممکنہ روابط کا انکشاف
  •   فیض حمید کے خلاف قانون اور آئین کا حرکت میں آنا ناقابل تصور تھا، طارق فضل چوہدری
  • افغانستان سے باہر عسکری سرگرمیاں کرنے والوں کے خلاف کارروائی ہوگی: امیر متقی
  • وزیراعظم کا ٹیکس نیٹ میں توسیع اور محصولات کے ہدف کے حصول کے لیے ہدایات