حکومت پاکستان کی جانب سے جاری کیے گئے اقتصادی سروے 26-2025 میں بتایا گیا ہے کہ 24-2023 کی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی آبادی 24 کروڑ 15 لاکھ (یعنی 241.5 ملین) ہے۔ ملک میں مرد حضرات کی تعداد 12 کروڑ 43 لاکھ 20 ہزار جبکہ خواتین کی تعداد 11 کروڑ 71 لاکھ 50 ہزار کے لگ بھگ ہے۔

قومی اقتصادی سروے 2025-26 کے مطابق ایک سال میں ڈاکٹرز کی تعداد میں 20 ہزار سے زائد اضافہ ہوا ہے جس کے بعد رجسٹرڈ ڈاکٹروں کی تعداد 3 لاکھ 19 ہزار جبکہ ڈینٹسٹس کی تعداد 39 ہزار 88 تک پہنچ گئی ہے۔

مزید پڑھیں: ترقیاتی بجٹ: انفراسٹرکچر، تعلیم، پانی اور توانائی سمیت ترجیحی منصوبوں کے لیے کھربوں روپے مختص

ملک میں نرسز کی تعداد ایک لاکھ 38 ہزار، دائیوں کی تعداد 46 ہزار 801 اور لیڈی ہیلتھ ورکز کی تعداد 29 ہزار ہو گئی ہے۔ اقتصادی سروے کے مطابق ملک میں اسپتالوں کی تعداد 1696 اور بیسک ہیلتھ یونٹس کی تعداد 5 ہزار 434 ہو گئی ہے۔

پاکستان کی آبادی 24 کروڑ 15 لاکھ (یعنی 241.

5 ملین) ہے اور رجسٹرڈ ڈاکٹروں کی تعداد 3 لاکھ 19 ہزار ہے، یوں کتنے افراد کے لیے ایک ڈاکٹر، ڈینٹسٹ اور نرس کی سہولت موجود ہے؟ پاکستان میں 7 سو 57 افراد کے لیے صرف ایک ڈاکٹر 6 ہزار 178 افراد کے لیے صرف ایک ڈینٹسٹ اور ایک 7 سو 50 افراد کے لیے ایک نرس کی سہولت میسر ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اقتصادی سروے 26-2025 پاکستان حکومت پاکستان دندان ساز ڈاکٹر نرس

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اقتصادی سروے 26 2025 پاکستان حکومت پاکستان ڈاکٹر اقتصادی سروے افراد کے لیے کی تعداد

پڑھیں:

سابقہ دور حکومت میں 39 کروڑ سے زائد رقم کی عدم وصولی کی نشاندہی

رپورٹ میں بتایا گیا کہ حکومتی آمدن کا بھی درست طریقے سے تخمینہ نہیں لگایا جاسکا، محکمانہ اکاؤنٹس کمیٹیوں کے اجلاس باقاعدگی سے نہ ہونے پر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے فیصلوں کا نفاذ نہیں ہوسکا۔ اسلام ٹائمز۔ آڈیٹر جنرل پاکستان نے سابقہ دور حکومت میں صوبائی محکموں میں اندرونی آڈٹ نہ ہونے کے باعث 39 کروڑ 83 لاکھ سے زائد رقم وصول نہ ہونے کی نشان دہی کردی ہے۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی 2021-2020 کی آڈٹ رپورٹ میں حکومتی خزانے کو ہونے والے نقصان کی نشان دہی گئی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ پراپرٹی ٹیکس اور دیگر مد میں بڑے بقایا جات کی ریکوری نہیں ہوسکی۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ حکومتی آمدن کا بھی درست طریقے سے تخمینہ نہیں لگایا جاسکا، محکمانہ اکاؤنٹس کمیٹیوں کے اجلاس باقاعدگی سے نہ ہونے پر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے فیصلوں کا نفاذ نہیں ہوسکا۔

آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ صوبے میں ریونیو اہداف بھی حاصل نہیں کیے جارہے ہیں، رپورٹ میں مختلف ٹیکسز واضح نہ ہونے کے باعث حکومت کو 32 کروڑ 44لاکھ 20 ہزار روپے کے نقصان کی نشاندہی ہوئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق پراپرٹی ٹیکس، ہوٹل ٹیکس، پروفیشنل ٹیکس، موثر وہیکلز ٹیکس کے 9کیسز  کی مد میں نقصان ہوا، صرف ایک کیس ابیانے کی مد میں حکومتی خزانے کو 45 لاکھ 80 ہزار روپے کا نقصان ہوا۔ اسی طرح اسٹامپ ڈیوٹی اور پروفیشنل ٹیکس کی مد میں ایک کیس میں 15 لاکھ روپے کے نقصان کی نشاندہی ہوئی ہے۔ آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کم یا تخمینہ صحیح نہ لگانے سے انتقال فیس، اسٹمپ ڈیوٹی، رجسٹریشن فیس، کیپٹل ویلتھ ٹیکس، لینڈ ٹیکس، ایگریکلچر انکم ٹیکس اور لوکل ریٹ کے 5 کیسوں میں 4 کروڑ 40 لاکھ روپے کا نقصان ہوا۔

رپورٹ کے مطابق ایڈوانس ٹیکس کا تخمینہ نہ لگانے سے وفاقی حکومت کو دو کیسز میں ایک کروڑ 9 لاکھ روپے کا نقصان ہوا جبکہ 69 لاکھ 50 ہزار روپے کی مشتبہ رقم جمع کرائی گئی۔ مزید بتایا گیا ہے کہ روٹ پرمٹ فیس اور تجدید لائنسس فیس کے 2 کیسز میں حکومت کو 45 لاکھ روپے کا نقصان اور 14 لاکھ کی مشتبہ رقم بھی دوسرے کیس میں ڈپازٹ کرائی گئی۔ رپورٹ میں ریکوری کے لیے مؤثر طریقہ کار وضع کرنے اور کم لاگت ٹیکس وصول کرنے کے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کی سفارش کی گئی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • گڈو اور سکھر بیراج پر اونچے درجے کا سیلاب‘ متاثرین کی تعداد ایک لاکھ 81 ہزار سے متجاوز
  • پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں مثبت رجحان
  • مارخور کا غیر قانونی شکار، 5 کروڑ 7 لاکھ جرمانہ، ایک سال قید
  • خیبر پختونخوا کے محکمہ پبلک ہیلتھ انجینیئرنگ میں کروڑوں کی بے قاعدگیوں کا انکشاف
  • سابقہ دور حکومت میں 39 کروڑ سے زائد رقم کی عدم وصولی کی نشاندہی
  • ملالہ یوسف زئی کا پاکستان میں سیلاب متاثرہ طلبہ  کیلئے 2 لاکھ 30 ہزار ڈالر امداد کا اعلان
  • ’ کیا میں ایسی عورت لگتی ہوں؟‘ تنوشری دتہ نے 1 کروڑ 65 لاکھ روپے کی بگ باس آفر فوراً  ٹھکرا دی
  • تنوشری دتا کو بگ باس کیلئے کتنے کروڑ معاوضے کی آفر ہوئی؟
  •  خیبر پی کے میں45 کروڑ 19 لاکھ روپے کی مالی بے ضابطگیوں کا انکشاف
  • بیرون ممالک روزگار کے لیے جانے والے پاکستانیوں کی تعداد میں کمی کیوں ہو رہی ہے؟