data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

 

اسلام آباد (نمائندہ جسارت+آن لائن+ صباح نیوز+مانیٹرنگ ڈیسک) وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے آئندہ مالی سال کے لیے17 ہزار 573 ارب روپے کا وفاقی بجٹ پارلیمنٹ میں پیش کر دیا، جس میں6501 ارب روپے خسارہ ہے، 8207 ارب سود کی ادائیگی پر خرچ ہوں گے، دفاع کے لیے 2550 ارب مختص کیے گئے ہیں، بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اور پنشن میں 7 فیصد اضافہ کیا گیا جب کہ سولرپینلز کی درآمد پر 18فیصد کا بھاری ٹیکس عایدکردیا گیا ہے۔ وفاقی حکومت کے نئے بجٹ میں 2 ہزار ارب روپے کے نئے ٹیکسز عاید کیے جانے کا امکان ہے جب کہ یوٹیوبرز اور فری لانسرز کو بھی ٹیکس نیٹ میں شامل کیے جانے کی تجویز ہے جب کہ نان فائلرز پر سختیاں مزید بڑھائی جائیں گی۔غیر رجسٹرڈ کاروبار کرنے والوں کو سخت سزائیں دینے کی تجویز ہے جب کہ آن لائن کاروبار کرنے والوں کو بھی اب ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔فاٹا اور پاٹا کو حاصل ٹیکس چھوٹ کو ختم کردیا گیا ہے۔قومی اسمبلی کا بجٹ اجلاس منگل کو شام 5 بجے طلب کیا گیا تھا تاہم تقریباً آدھے گھنٹے تاخیر سے شروع ہوا، وزیراعظم شہباز شریف بھی ایوان میں موجود تھے۔قومی اسمبلی بجٹ اجلاس کے دوران اپوزیشن لیڈر نے بات کی اجازت کا مطالبہ کیا، اجازت نہ ملنے پر احتجاج شروع کر دیا۔ اپوزیشن نے ایوان میں شور شرابہ، ڈیسک بجا کر نعرے لگا کر احتجاج کیا، اپوزیشن اراکین نے ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ دیں، اجلاس کے اختتام تک اپوزیشن اراکین نے مسلسل احتجاج، شور شرابہ جاری رکھا، مسلم لیگ ن کے اراکین نے وزیراعظم کے گرد حصار بنا دیا۔وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے بجٹ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے تنخواہ دار طبقے کو ریلیف دینے کے لیے انکم ٹیکس کی بعض سلیبز میں نرمی کی تجویز دی ہے۔ قومی اسمبلی میں بجٹ تقریر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ 6 لاکھ روپے سے 12لاکھ روپے تک سالانہ تنخواہ پانے والوں کے لیے ٹیکس کی شرح 5فیصد سے کم کر کے صرف ایک فیصد کر دی گئی ہے۔12لاکھ سالانہ آمدنی والے تنخواہ دار پر ٹیکس کی رقم کو 30,000 سے کم کر کے 6,000 کر دینے کی تجویز ہے۔جو لوگ 22 لاکھ روپے تک سالانہ تنخواہ لیتے ہیں اْن کے لیے کم سے کم ٹیکس کی شرح 15 فیصد کے بجائے 11 فیصد کرنے کی تجویز ہے۔ 22لاکھ روپے سے 32 لاکھ روپے تک سالانہ تنخواہ لینے والوں کے لیے ٹیکس کی شرح 25 فیصد سے کم کر کے 23 فیصد کرنے کی تجویز ہے مگر تنخواہ دار افراد نے اپنی بچت کے لیے بینکوں میں جو سیونگز اکاؤنٹس قائم کیے ہوئے ہیں، انہیں اس پر ٹیکس اب مزید بڑھا کردینا ہوگا۔حکومت نے شرح سود سے حاصل ہونے والی آمدن پر ٹیکس کی شرح 15 فیصد سے بڑھا کر 20 فیصد کرنے کی تجویز دی ہے۔ یعنی اگر سالانہ بچت سے ایک لاکھ روپے منافع مل رہا تھا اور اس پر 15 ہزار روپے ٹیکس کٹ رہا تھا، تو اب یہ 20 ہزار روپے ہوگا۔مگر وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ اس کا اطلاق نہ چھوٹے پیمانے پر بچت کرنے والوں پر ہوگا نہ قومی بچت کی اسکیموں پر۔وفاقی وزیر خزانہ نے بجٹ تقریر میں پیٹرولیم مصنوعات پر 2.

5 روپے فی لیٹر کی شرح سے کاربن لیوی عاید کی جائے گی جو اگلے سال بڑھا کر 5روپے فی لیٹر کر دی جائے گی جب کہ پیٹرول یا ڈیزل استعمال کرنے والی تمام گاڑیاں بشمول ہائبرڈ کاروں پر سیلز ٹیکس کی شرح بڑھا کر18 فیصد کر دی گئی ہے۔یاد رہے کہ اس وقت 1800 سی سی تک کی ہائبرڈ گاڑیوں پر 18 فیصد کے بجائے ساڑھے 8فیصد سیلز ٹیکس عائد ہے۔دوسری طرف 850 سی سی سے کم ہارس پاور کی نئی گاڑی، مثلاً سوزوکی آلٹو، پر بھی سیلز ٹیکس کی شرح ساڑھے 12 فیصد سے بڑھ کر اب 18 فیصد ہوجائے گی۔ایک اندازے کے مطابق سیلز ٹیکس میں اضافے سے آلٹو کی قیمت میں قریب ایک لاکھ 70 ہزار روپے تک کا اضافہ ہو سکتا ہے۔آئندہ سال کے بجٹ میں نان فائلر کے خلاف بظاہر گھیرا مزید تنگ کیا جا رہا ہے۔ وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ صرف وہی افراد گاڑیاں، گھر، اسٹاکس یا میوچل فنڈ خرید سکیں گے جو ٹیکس فائل کرتے ہیں اور اپنی ویلتھ سٹیٹمنٹ ایف بی آر کو جمع کرواتے ہیں۔اس کے علاوہ نان فائلرز پر بینک اکاؤنٹس کھولنے پر بھی پابندی ہوگی جب کہ نقد رقم نکلونے پر 0.6 فیصد کی بجائے ایک فیصد ٹیکس وصول کیا جائے گا۔وزیر خزانہ نے واضح کیا ہے کہ ’لوگوں کے لیے ضروری ہو گا کہ ایف بی آر کے پورٹل کے ذریعے اپنی مالی حیثیت اور آمدنی، تحائف، قرضے اور وراثت جیسے مالی ذرائع کے دستاویزی ثبوت ظاہر کریں، دیانت دار ٹیکس دہندگان کو مالیاتی لین دین کرنے کا اہل کرنے کے لیے ٹیکس کا گوشوارہ بھرنے کا آپشن دیا جائے گا۔بجٹ میں کم آمدن طبقے کے لیے گھروں کی خریداری یا تعمیر پر سستے قرضوں کی نئی اسکیم کا وعدہ کیا گیا ہے جس کا اعلان جلد اسٹیٹ بینک کی جانب سے کیا جائے گا۔وزیر خزانہ نے اس حوالے سے بتایا کہ کم لاگت کے گھروں کی تعمیر کے لیے قرض فراہم کرنے کی حوصلہ افزائی کے لیے 10مرلے تک کے گھروں اور 2 ہزار مربع فٹ تک کے فلیٹس پر ٹیکس کریڈٹ متعارف کرایا جا رہا ہے۔’حکومت مورگیج فنانسنگ کو فروغ دے گی اور اس سلسلے میں جامع نظام متعارف کرایا جائے گا۔‘اپنی تقریر میں محمد اورنگزیب نے کہا کہ جایداد کی خریداری پر ودہولڈنگ ٹیکس کے مختلف سلیبز میں کمی کی ہے، یعنی 4 فیصد سے کم کر کے 2.5 فیصد، 3.5 فیصد سے کم کر کے 2 فیصد اور 3 فیصد سے کم کر کے 1.5 فیصد کرنے کی تجویز ہے۔مزید یہ تجویز بھی شامل ہے کہ ’تعمیرات کے شعبے کے بوجھ کو مزید کم کرنے کے لیے کمرشل جایدادوں، پلاٹس اور گھروں کی منتقلی پر گزشتہ سال عاید کی جانے والی 7فیصد تک کی فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی ختم کرنے کی بھی تجویز ہے۔ بجٹ تقریر کے مطابق’اسلام آباد کی حدود میں جائیداد کی خریداری پر aسٹامپ پیپر ڈیوٹی 4فیصد سے کم کر کے ایک فیصد کی تجویز ہے جب کہ وفاقی حکومت کو امید ہے کہ صوبے بھی غیر منقولہ جایداد کی منتقلی پر عاید بھاری ٹیکسز میں کمی کریں گے۔ سولر پینلز کے حوالے سے وزیرِ خزانہ کا کہنا تھاکہ درآمد شدہ اور مقامی طور پر تیار کردہ سولر پینلز کے درمیان مسابقت میں برابری کو یقینی بنانے کے لیے سولر پینلز کی درآمدات پر 18 فیصد کی شرح سے ٹیکس عاید کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ بی بی سی کے مطابق پاکستان میں اس سے قبل درآمد شدہ سولر پینلز پر 17 فیصد سیلز ٹیکس کی شرح ہے۔دوسری طرف حکومت نے بجلی کی قیمت سستی کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ ’حکومت نے سستی بجلی کے حصول کے لیے جامع منصوبہ بندی کر لی ہے جس سے آنے والے دنوں میں سستی بجلی کا حصول ممکن ہوگا۔اس منصوبے کے تحت اب تک 4 ہزار ارب روپے سے زاید کی بچت کی ہے اور 9000 میگا واٹ گنجائش کے مہنگے بجلی گھر جنہیں نیشنل گرڈ میں شامل کیا جانا تھا ترک کر دیا ہے۔حکومت کا تخمینہ ہے کہ سرکاری ملکیت میں بجلی گھروں کو بند کر کے سرکاری خزانے پر 7ارب روپے کا بوجھ ختم کیا جاسکتا ہے۔سول انتظامیہ کے اخراجات کے لیے 971 ارب روپے مختص کیے جا رہے ہیں،جن میں وفاقی وزارتیں، محکمے اور سول بیوروکریسی کے آپریشنل اخراجات شامل ہیں۔بجٹ میں پنشن کی ادائیگیوں کے لیے 1055 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ یہ ادائیگیاں ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کو کی جائیں گی، اور اس مد میں ہر سال اضافہ حکومتی مالیاتی دباؤ کا اہم جزو بنتا جا رہا ہے۔سبسڈی کے طور پر حکومت نے مختلف شعبوں، بالخصوص بجلی کے شعبے میں 1186ارب روپے مختص کیے ہیں۔گرانٹس کی مد میں 1928ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ وزیر خزانہ نے بتایا کہ بھارتی جارحیت اور سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کے پیش نظر پاکستان نے پانی کو اسٹور کرنے اور ضیاع کو روکنے کے لیے وزارت آبی وسائل کے لیے آئندہ مالی میں 133 ارب روپے مختص کیے ہیں۔حکومت نے مالی سال 2025-2026 ء میں کراچی میں پانی کے منصوبے کے فور کے لیے 3.2 ارب روپے مختص کیے ہیں۔دیا مر اور بھاشا ڈیم کے لیے 32.7 ارب روپے، مہمند کے لیے 35.7 ارب، آوران پنجگور سمیت بلوچستان کے دیگر 3 ڈیمز کے لیے 5 ارب مختص کیے گئے ہیں۔وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے قومی اسمبلی میں بتایا کہ آئندہ مالی سال میں صحت کے شعبے کے لیے 14.3 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے جس سے جاری 21 منصوبوں پر کام مکمل کیا جائے گا ،مجوزہ فنڈز سے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ایک نیا کینسر اسپتال بھی قائم کیا جائے گا۔وزیر خزانہ نے بتایا کہ اعلیٰ تعلیم کے فروغ کے لیے ہائر ایجوکیشن کمیشن کے تحت 170 ترقیاتی منصوبوں کے لیے مجموعی طور پر 39.5 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، جن میں سے 38.5 ارب روپے جاری منصوبوں پر خرچ کیے جائیں گے۔تعلیم کے شعبے میں ایک اور اہم قدم کے طور پر حکومت نے دانش اسکولوں کی تعمیر کے لیے 9.8 ارب روپے مختص کیے ہیں۔ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں چپس، بسکٹ، کولڈڈرنکس، آئس کریم، تیار خوراک سمیت متعدد اشیاء پر ایکسائز ڈیوٹی لگانے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔جن میں فروزن فوڈز، چپس، کولڈ ڈرنکس، نوڈلز، آئس کریم اور بسکٹس پر ایکسائز ڈیوٹی کی تجویز ہے، فروزن گوشت، ساسز اور تیار شدہ خوراک پر بھی5 فیصد ایکسائز ڈیوٹی کی تجویز ہے۔آئندہ مالی سال کے بجٹ میں دودھ سے فرنیچر تک ہر چیز مہنگی کردی گئی، بجٹ میں ڈیری، میڈیکل اور سرجیکل شعبے کی مشینری پر ٹیکسوں میں نمایاں اضافہ کر دیا گیا۔وفاقی بجٹ میں کینولا تیل ، دودھ ،دہی ،گوشت مرغی، انڈے ،پنکھے فرنیچر،صحت کی سہولیات مہنگی کردی گئی ہیں اور دودھ پروسیسنگ پلانٹس، مویشی و پولٹری شیڈز، اور جانوروں کی فیڈ مشینری پر 2 فیصد اضافی ٹیکس عاید کردیا گیا ہے۔ بجٹ میں ڈیری کی مشینری اور پنکھوں پر 3 فیصد ٹیکس تجویز کیا گیا ہے، اسی طرح کینولا، سرنج، آگ بجھانے والے آلات اور جم کے سامان پر بھی 3 سے 5 فیصد ٹیکس عائد کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ دودھ کے پروسیسنگ پلانٹس کی درآمد پر ٹیکس میں 2 فیصد اضافہ تجویز کیا گیا ہے، اس طرح مویشیوں اور پولٹری کے شیڈز پر 2 فیصد، اور ملک فلٹرز پر بھی 2 فیصد اضافی ٹیکس لگے گا۔ان ٹیکس اقدامات کی وجہ سے ملک میں مہنگائی کا نیا طوفان آئے گا اور مہنگائی کے بوجھ تلے عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا۔وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے بجٹ تقریر میں کہا کہ جتنا ریلیف دے سکتے تھے دے دیا ہے، حکومت کو سخت فیصلے کرنا پڑے۔ علاوہ ازیں قومی اسمبلی کی ہاؤس بزنس ایڈوائزری کمیٹی میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ بجٹ اجلاس 27جون تک جاری رہے گا،بجٹ پر بحث13جون کو شروع ہوگی،بحث 21 جون تک جاری رہے گی اور26 جون کو فنانس بل کی قومی اسمبلی سے منظوری ہوگی ۔مزید برآں بجٹ دستاویزات سینیٹ میں بھی پیش کردی گئی ہیں۔

اسلام آباد: وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب قومی اسمبلی میں وفاقی بجٹ پیش کررہے ہیں

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے ارب روپے مختص کیے ہیں فیصد کرنے کی تجویز وفاقی وزیر خزانہ فیصد سے کم کر کے ا ئندہ مالی سال ایکسائز ڈیوٹی گا وزیر خزانہ قومی اسمبلی کیا جائے گا کی تجویز ہے کی تجویز دی ٹیکس کی شرح سولر پینلز کیا گیا ہے بجٹ اجلاس لاکھ روپے سیلز ٹیکس وفاقی بجٹ فیصد ٹیکس ٹیکس عاید دی گئی ہے حکومت نے بتایا کہ ہے جب کہ دیا گیا کے شعبے بڑھا کر گئے ہیں روپے تک فیصد کر پر ٹیکس کر دیا کیے جا مد اور سال کے کے لیے پر بھی کیا جا

پڑھیں:

صارفین پر بوجھ ڈالے بغیر 1.2 کھرب روپے کا گردشی قرضہ ختم کر رہے ہیں، وزیر توانائی

اسلام آباد(نیوز ڈیسک)وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری کا کہنا ہے کہ ملکی تاریخ میں پہلی بار صارفین پر بوجھ ڈالے بغیر 1.2 کھرب روپے کا سرکلر ڈیٹ ختم کیا جا رہا ہے۔

اسلام آباد میں وزیر خزانہ اور وزیر مملکت آئی ٹی کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے اویس لغاری نے کہا کہ حکومت بجلی کی خرید و فروخت کے کاروبار سے باہر آرہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کی ہدایت پر انڈسٹری کے لیے بجلی 16 روپے فی یونٹ سستی کی گئی۔ سرپلس بجلی عوام کو 7.5 روپے فی یونٹ کے حساب سے پیشکش کی جا رہی ہے۔

اویس لغاری نے کہا کہ پاور پلانٹس کے مالکان سے مذاکرات کے ذریعے 2058 تک 3600 ارب روپے کی اضافی ادائیگی روکی گئی۔

وزیر توانائی کا کہنا تھا ہمیں مہنگی بجلی وراثت میں ملی، جس کی لاگت 9.97 روپے فی یونٹ ہے۔ روپے کی بے قدری اور کیپیسٹی چارجز کے باعث بجلی مہنگی ہوئی۔

متعلقہ مضامین

  • آئی ایم ایف بھی مان گیا کہ پاکستان میں معاشی استحکام آ گیا ہے، وزیرخزانہ
  • صارفین پر بوجھ ڈالے بغیر 1.2 کھرب روپے کا گردشی قرضہ ختم کر رہے ہیں، وزیر توانائی
  • نئے ٹیکس نہیں لگانے پڑیں گے، ایف بی آر چیئرمین کا مؤقف
  • چیئرمین ایف بی آر نے منی بجٹ کے کسی امکان کو مسترد کردیا
  • اے ٹی ایم اور بینک سے رقم نکلوانے پر چارجز میں نمایاں اضافہ
  • ایف بی آرکاٹیکس وصولیوں میں شارٹ فال 274ارب روپے تک پہنچ گیا
  • وفاقی حکومت کا بڑا فیصلہ: سرکاری ملازمین کے ہاؤس رینٹ سیلنگ میں 85 فیصد اضافہ منظور
  • ایک سال میں حکومتی قرضوں میں 10 ہزار ارب روپے کا اضافہ، مجموعی قرض 84 ہزار ارب سے تجاوز کر گیا
  • ٹیکس ریٹرنز جمع کرانے والوں میں نمایاں اضافہ
  • وفاقی ملازمین کے ہائوس رینٹ سیلنگ میں 85 فیصد اضافہ منظور