علی ساہی : محکمہ ایکسائز  نےپہلی مرتبہ 50 ارب روپے کا ہدف عبور کر لیا، اور مجموعی وصولیوں میں 50 ارب 60 کروڑ روپے کا نیا ریکارڈ قائم کیا گیا۔ 

50ارب کا ہدف عبور، 55 ارب روپے کا نیا ہدف مقرر کر دیا۔تمام ملازمین کی 30 جون تک چھٹیاں منسوخ کردی گئیں۔ڈی جی ایکسائز عمر شیر کی زیر صدارت ڈائریکٹرز کانفرنس کاانعقاد کیا گیا۔تمام ریجنل ڈائریکٹرز نے ویڈیو لنک کے ذریعے کانفرنس میں شرکت کی۔کانفرنس میں ٹیکس ریکوری، فیلڈ سائنمنٹ اور اہداف پر تفصیلی بریفنگ دی گئی۔

 یو ای ٹی کے اے کلاس ملازمین اور اساتذہ کیلئے مالی امداد کی منظوری

ڈی جی عمر شیر کی افسران کو فیلڈ میں مسلسل موجودگی یقینی بنانے کی ہدایت کر دی۔سالانہ بنیادوں پر ٹیکس وصولیوں میں 30 فیصد سے زائد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔محکمہ ایکسائز کی پالیسی کے مطابق  ڈیجیٹل ٹولز اور محنت سے ریونیو میں مسلسل اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔

 ڈی جی ایکسائز محمد عمر شیر  کا کہنا تھا کہ 55ارب کانیاہدف رواں مالی سال میں مکمل کر لیا جائے گا، سالانہ بنیادوں پر ٹیکس وصولیوں میں 30 فیصد سے زائد اضافہ ہوا ہے،محکمہ ایکسائز رواں مالی سال میں ریونیو میں مزید نمایاں بہتری لائے گا، پنجاب کا ریونیو بڑھانے میں محکمہ ایکسائز کا کلیدی کردار ہے۔

 

محکمہ بلدیات نے480ارب کی ترقیاتی سکیموں کا بجٹ تیار کرلیا

.

ذریعہ: City 42

پڑھیں:

سول ہسپتال کوئٹہ میں مالی بے ضابطگیوں کا انکشاف

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں سول ہسپتال کوئٹہ کے آڈٹ کے دوران ادویات کے ریکارڈ میں انحراف اور 537 روپے کے آکیسجن سلینڈر کیلئے 40 ہزار ادا کرنے سمیت دیگر بے ضابطگیوں کا انکشاف ہوا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ بلوچستان اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں سنڈیمن پرووینشل (سول) ہسپتال کوئٹہ میں کروڑوں روپے کی مالی بے ضابطگیوں اور سنگین انتظامی بدنظمی کا انکشاف ہوا ہے۔ کمیٹی کے چیئرمین اصغر علی ترین کی زیر صدارت اجلاس میں پیش کی گئی اسپیشل آڈٹ رپورٹ کے مطابق مالی سال 2017 تا 2022 کے دوران اسپتال انتظامیہ نے 3 کروڑ روپے مالیت کی ادویات خریدیں، لیکن سپلائی آرڈرز اور بلز میں شدید تضاد پایا گیا۔ ریکارڈ کے مطابق آرڈر ایک کمپنی کو جاری کیا گیا، جبکہ ادائیگی کسی دوسری کمپنی کو کی گئی۔ اس کے علاوہ اسٹاک رجسٹر اور معائنہ کی رپورٹس بھی موجود نہیں ہیں۔

رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا کہ مالی سال 2019-20 کے دوران سول ہسپتال کے مرکزی اسٹور سے دو کروڑ 28 لاکھ روپے مالیت کی ادویات غائب ہو گئیں۔ اس سنگین غفلت پر مؤقف اختیار کیا گیا کہ سابقہ فارماسسٹ نے بیماری کے باعث بروقت انٹریاں درج نہیں کیں۔ تاہم تشویشناک بات یہ ہے کہ مذکورہ فارماسسٹ کی جانب سے آج تک مکمل ریکارڈ جمع نہیں کرایا گیا۔ اس کے علاوہ آکسیجن سلنڈرز کی زائد نرخوں پر خریداری سے حکومتی خزانے کو ساڑھے 13 لاکھ روپے کا نقصان پہنچایا گیا۔

آڈٹ رپورٹ میں بتایا گیا کہ معاہدے کے تحت سلنڈرز کی قیمت 537 روپے مقرر تھی، لیکن وبائی دور میں مارکیٹ سے 40 ہزار روپے فی سلنڈر کے ناقابل یقین نرخ پر خریداری کی گئی۔ مزید یہ کہ تمام کوٹیشنز ایک ہی تحریر میں تیار کی گئی تھیں، جس سے شفافیت پر سنگین سوالات کھڑے ہو گئے ہیں۔ کمیٹی نے ان تمام معاملات پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے وضاحت کو غیر تسلی بخش قرار دیا اور ذمہ دار افسران کی شناخت اور غفلت کے مرتکب اہلکاروں کے خلاف کارروائی اور انکوائری کرکے ایک ہفتے میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی۔

متعلقہ مضامین

  • چیئرمین ایف بی آر نے منی بجٹ کے کسی امکان کو مسترد کردیا
  • اے ٹی ایم اور بینک سے رقم نکلوانے پر چارجز میں نمایاں اضافہ
  •   ایف بی آر کو جولائی تا اکتوبر 270 ارب روپے کے ریونیو شارٹ فال کا سامنا
  • ڈونلڈ ٹرمپ نے مالی سال 2026ء کیلئے تارکین وطن کو ویزا دینے کی حد مقرر کر دی
  • سول ہسپتال کوئٹہ میں مالی بے ضابطگیوں کا انکشاف
  • نمبر پلیٹس کی تبدیلی،گاڑی مالکان کو مزید دو ماہ کی مہلت مل گئی
  • سندھ میں گاڑیوں کی نمبر پلیٹس کی تبدیلی کی تاریخ میں ایک بار پھر توسیع
  • سندھ میں گاڑیوں کی نمبر پلیٹس کی تبدیلی میں مزید توسیع کردی گئی
  • ایک سال میں حکومتی قرضوں میں 10 ہزار ارب روپے کا اضافہ، مجموعی قرض 84 ہزار ارب سے تجاوز کر گیا
  • ٹیکس ریٹرنز جمع کرانے والوں میں نمایاں اضافہ