مالی گنجائش میں رہتے ہوئے تنخواہ دار طبقے کو ریلیف دیا، برآمدات کو بھی فائدہ ہوگا، وزیر خزانہ
اشاعت کی تاریخ: 11th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ حکومت نے مالی گنجائش میں رہتے ہوئے تنخواہ دار طبقے کو ریلیف دیا ہے جب کہ حکومتی اقدامات سے ملکی برآمدات کو بھی فائدہ پہنچے گا۔
وفاقی دارالحکومت میں پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے گزشتہ روز نئے مالی سال کا بجٹ پیش ہونے کے بعد سے پیدا ہونے والے سوالات پر وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ حکومت نے اپنی مالی استطاعت کے اندر رہتے ہوئے عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف فراہم کرنے کی کوشش کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کی اولین ترجیح برآمدات پر مبنی معیشت کا فروغ ہے اور اسی حکمت عملی کے تحت 7 ہزار ٹیرف لائنز میں سے 4 ہزار پر کسٹمز ڈیوٹی مکمل طور پر ختم کر دی گئی ہے۔ ان کے مطابق گزشتہ 3 دہائیوں میں اس نوعیت کی اصلاحات نہیں دیکھی گئیں اور یہ اقدامات برآمد کنندگان کو براہ راست فائدہ پہنچائیں گے۔
محمد اورنگزیب نے دعویٰ کیا کہ بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کو خاطر خواہ ریلیف دیا گیا ہے جو وزیراعظم شہباز شریف اور ان کی اپنی خواہش بھی تھی۔ انہوں نے کہا کہ مہنگائی کے تناسب سے پنشن اور تنخواہوں میں اضافہ کیا گیا ہے تاکہ عوام کو ریلیف فراہم کیا جا سکے۔
ان کا کہنا تھا کہ مالی طور پر حکومت کے پاس صرف دو راستے تھے۔ یا تو ٹیکسوں میں اضافہ کیا جائے یا مؤثر انفورسمنٹ کے ذریعے موجودہ ٹیکس نیٹ کو بہتر بنایا جائے۔ اسی لیے حکومت نے انفورسمنٹ کے ذریعے 400 ارب روپے سے زائد کا ٹیکس جمع کیا، جو ایک اہم پیش رفت ہے۔
انہوں نے کہا کہ تنخواہ دار طبقے کو مختلف سلیبز میں تقسیم کیا گیا ہے تاکہ ریلیف کی تقسیم زیادہ منصفانہ اور مؤثر ہو۔ وزیر خزانہ نے مزید بتایا کہ سپر ٹیکس میں 0.
محمد اورنگزیب کا کہنا تھا کہ حکومت نے ٹرانزیکشن کاسٹ کو کم کرنے کے لیے مختلف اقدامات کیے ہیں تاکہ خریداروں کو بھی قیمتوں میں کمی کا فائدہ ہو۔ اس مقصد کے لیے فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی (ایف ای ڈی) کو بھی بعض شعبوں میں ختم کر دیا گیا ہے۔
زرعی شعبے کے حوالے سے انہوں نے واضح کیا کہ چھوٹے کسانوں کے لیے قرضہ سہولتیں فراہم کی جائیں گی اور اس شعبے پر ایڈیشنل ٹیکس نہ لگانے کے حوالے سے ایف بی آر اور متعلقہ بورڈ سے مشاورت ہو چکی ہے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ حکومت آئندہ برسوں میں ٹیرف میں مزید کٹوتی کا ارادہ رکھتی ہے اور آئندہ سال اس نظام میں مزید 4 فیصد کمی متوقع ہے۔ ان کے مطابق یہ تمام اقدامات اسٹرکچرل ریفارمز کے بڑے منصوبے کا حصہ ہیں۔
وزیر خزانہ نے وفاق اور صوبوں کے درمیان ہم آہنگی کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ این ایف سی ایوارڈ اکتوبر میں متوقع ہے، اس سے قبل کسی بھی تبدیلی کی توقع نہ رکھی جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ تمام اخراجات اور محصولات سے متعلق معاملات باہمی مشاورت سے ہی آگے بڑھیں گے۔
پریس کانفرنس میں چیئرمین ایف بی آر راشد لنگڑیال نے بھی شرکت کی اور بتایا کہ ملک میں دو طرح کی معیشت کام کر رہی ہیں جن میں سے ایک فارمل ریٹیل سیکٹر ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاور سیکٹر میں اصلاحات لائی جا رہی ہیں، تاہم فی الوقت ریٹ میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ عالمی مالیاتی ادارے ابتدا میں پاکستان کے مؤقف کو ماننے کو تیار نہیں تھے کہ یہاں مؤثر ٹیکس نظام رائج کیا جا سکتا ہے، اس لیے پچھلے سال اضافی ٹیکسز لگانا پڑے،لیکن اب 400 ارب سے زائد ٹیکس نفاذ کے ساتھ ثابت ہو چکا ہے کہ پاکستان میں بھی نظام کو مضبوطی سے نافذ کیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 22 کھرب روپے میں سے اضافی ٹیکسز صرف 312 ارب روپے کے ہیں، باقی اضافہ موجودہ نظام کی خودکار نمو اور بہتر نفاذ کی بدولت ممکن ہوا۔ آئندہ سال کے لیے جی ڈی پی کے مقابلے میں ٹیکس وصولی کا ہدف 10.9 فیصد مقرر کیا گیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر قانون سازی نہ ہوئی تو حکومت کو 400 سے 500 ارب روپے کے اضافی اقدامات کرنا پڑ سکتے ہیں، اس لیے پارلیمنٹ سے درخواست کی جائے گی کہ ٹیکس قوانین میں ضروری ترامیم کی منظوری دی جائے تاکہ موجودہ لیکیج کو روکا جا سکے۔
پریس کانفرنس کے اختتام پر محمد اورنگزیب نے کہا کہ ہم نے جو قدم اٹھایا ہے، وہ ایک سمت کا تعین ہے۔ اس سمت میں ہم تنخواہ دار طبقے کو تحفظ، برآمدی صنعت کو ترقی، اور مجموعی معیشت کو استحکام دینا چاہتے ہیں۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: تنخواہ دار طبقے کو انہوں نے کہا کہ محمد اورنگزیب ہے انہوں نے حکومت نے کہ حکومت کیا جا گیا ہے کو بھی کے لیے
پڑھیں:
برآمدات اور چکوال کا کلاؤڈ برسٹ
دنیا کی عالمی تجارتی منڈی ایک شوریدہ بازار ہے، جہاں ہر قوم اپنے ہنر، عقل، حکمت، ہاتھوں کی صفائی، دلکشی، رعنائی کو قیمت بنا کر پیش کرتی ہے، کہیں پیکنگ کو تجارتی سفارتکار دیکھ کر عش عش کر اٹھتے ہیں، کہیں کم قیمت سمجھ کر سیانا تاجر دل سے قبول کر لیتا ہے، کوئی ٹیکنالوجی کی بانسری بجا رہا ہے، جس کی دھن پر تاجر کروڑوں کا آرڈر دینے کے لیے تیار نظر آتا ہے اور کوئی زرعی پیداوار کے ڈھول پر ان امپورٹرز اور ایکسپورٹرز کو رقص کرواتا ہے۔
ان سب کے پیچھے کہیں کچھ پاکستانی تاجر دھول میں اٹے کپڑوں کے ساتھ کسی کے ہاتھ میں چاول کی تھال ہے، کسی نے بکرے کی ران نمائش کے لیے سنبھال رکھی ہے اور کوئی مختلف اقسام کی اشیا جوتے، لیدر گارمنٹ اور چند چیزیں لیے کھڑا ہے۔ ان میں ٹیکسٹائل ملوں کا وہ صنعت کار بھی ہے جس کے ہاتھ میں کچھ سلے کچھ ان سلے کپڑے اور دیگر اشیا موجود ہیں۔
اس تجارتی منڈی میں تاجر، صنعت کار، تجارتی سفارت کار درآمد اور برآمد کا کاروبار کرنے والے آتے ہیں، سامان دیکھتے ہیں اور پھر دوسرے ملکوں کو آرڈر دے دیتے ہیں، کسی کی برآمدات پاکستان سے دگنی کسی کی تگنی اور چوگنی والے بھی ہیں اور 10 گنا والے ویتنام جیسے بھی ہیں۔ جی ہاں ویتنام جنگ زدہ، جہاں امریکا نے 60 اور 70 کی دہائی میں دل کھول کر بمباری کی تھی، اپنے پیروں پر کھڑے ہو گئے لیکن اب ہم بھی تو مشرقی پڑوسی کو تگنی کا ناچ نچا کر فاتح ہو گئے اور تجارتی منڈی میں آنے کا وقت آ گیا ہے۔ امریکی صدر کے اس بیان کو ہم عالمی مارکیٹ میں اپنے حق میں کیش کرانے کا ہنر آزمانا ہوگا، جنھوں نے کہا ہے کہ 5 طیارے مار گرائے گئے اور جنگ بندی ہو گئی تو تجارت بڑھے گی انھوں نے راستہ بنا دیا۔
یہ دنیا ہے یہاں کچھ غنودگی کے عالم میں ہوں گے ان کو باور کرایا جائے پانچ یا 6 طیارے دراصل ہم نے گرائے ہیں اور اب ہم تجارتی منڈی میں فتح کرنے آئے ہیں، لیکن اس سے قبل ہم اپنی برآمدی کیفیت کو دیکھ لیتے ہیں۔ پاکستان کی برآمدات برائے 2024-25 محض 32 ارب ڈالر جس میں 3 ارب 35 کروڑ 30 لاکھ ڈالرز کے چاول فروخت کیے۔ 16 کروڑ65 لاکھ ڈالرز کے تمباکو بیچ دیے، 49 کروڑ51 لاکھ ڈالرز کا گوشت دنیا کو فروخت کیا ہے، ٹیکسٹائل گروپ کی برآمدات کا حجم رہا 17 ارب 88 کروڑ70 لاکھ ڈالرز۔ اور 4 ارب 23 کروڑ ڈالرز کی دیگر مصنوعات جس میں لیدر گارمنٹس، فٹ ویئر، قالین، گلوز، سرجیکل آئٹمز، کھیلوں کا سامان اور دیگر اشیا شامل ہیں۔
دنیا نے 10 مئی کے بعد پاکستان کو خوب بدلا ہوا سمجھ لیا۔ صدر ٹرمپ یوں ہی بار بار ہماری فتح کے شادیانے نہیں بجا رہے۔ اب ہمیں آگے بڑھ کر تجارتی منڈی میں بھی اپنا لوہا منوانا ہے۔ حکومت اپنی سمجھ کے مطابق کوئی بھی ہدف مقرر کرے کہ 2025-26 کا برآمدی ہدف 35 یا 37 ارب سمجھا جائے، ہم نے اس سے بھی آگے جانا ہے۔
60 سے 70 ارب ڈالر فی الحال۔ یہ سب ممکن ہے، چند دن تیاری کے لیے لیں اور اب گیارہ ماہ باقی ہیں۔ لیکن ذرا ٹھہریے58 ارب ڈالرز کی درآمدات آخر ایسا کیوں، سوائے پٹرولیم مصنوعات کے ہم اپنی زیادہ تر درآمدات ان ملکوں سے منگواتے ہیں جو صنعتی ممالک ہیں، امیر ترین ہیں لیکن اسرائیل جو غزہ میں درندگی سے باز نہیں آ رہا، اس کے زبردست مواقع پیدا ہوں گے اور پاکستان کے معاشی مسائل کا حل یہی ہے کہ برآمدات سے زیادہ درآمدی بل سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کریں۔
گزشتہ دنوں چکوال میں کلاؤڈ برسٹ کے باعث ایسا معلوم ہوا جیسے آسمان برس پڑا ہو۔ پھر چند ہی لمحوں میں ایسا طوفانی ریلا آیا جس سے ہزاروں درخت اکھڑ گئے، مویشی بہہ گئے، چکوال شہر کا زیادہ تر حصہ ڈوب گیا، 9 پل ٹوٹ گئے، 5 سڑکیں تباہ ہوگئیں، نصف درج ڈیمز ٹوٹ گئے۔ یہ کوئی فطری حادثہ نہیں تھا یہ ایسی ماحولیاتی بغاوت تھی جسے خود عوام نے بلایا تھا۔ ہر طرف تباہی کا منظر تھا ایسے میں کئی نوجوان اور ادھیڑ عمر افراد نے لوگوں کی مدد کے لیے دن رات ایک کر دیا۔ سوشل میڈیا کے ذریعے معلوم ہوا کہ متعدد رضاکار پانی میں اتر گئے۔
درجنوں افراد کو بروقت نکالا۔ ہر طرح کی امداد گھر گھر پہنچائی، ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ موسمیاتی ریڈار سسٹم لگایا جائے۔ بارش کے پانی کا قدرتی بہاؤ محفوظ کیا جائے، اسی طرح راولپنڈی اور اسلام آباد بھی شدید متاثر ہوئے۔ نالہ لئی تو ہر سال بپھر جاتا ہے جس کا صحیح انتظام کیا جائے۔ اسی طرح پنجاب کے دیگر شہر خصوصاً لاہور شدید بارشوں سے متاثر ہوا۔ موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے حکومت اس سلسلے میں فوری طور پر تمام ممکنہ حل پر عملدرآمد کرے جس میں رضاکاروں کی تربیت بھی نہایت ہی اہم ہے۔