data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
حاجی جب مقامِ ابراہیم پر نوافل ادا کرتا ہے تو اس کے کانوں میں باپ بیٹے کی دعائیں گونجنے لگتی ہیں۔ قرآن میں ہے:
’’اور یاد کرو، ابراہیم ؑ اور اسماعیل ؑ جب اس گھر کی دیواریں اُٹھا رہے تھے تو دعا کرتے جاتے تھے: اے ہمارے رب! ہم سے یہ خدمت قبول فرما لے، تو سب کی سننے اور سب کچھ جاننے والا ہے۔ اے رب! ہم دونوں کو اپنا مسلم (مطیع فرمان) بنا۔ ہماری نسل سے ایک ایسی قوم اُٹھا جو تیری مسلم ہو، ہمیں اپنی عبادت کے طریقے بتا، اور ہماری کوتاہیوں سے درگزر فرما، تو بڑا معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ اور اے رب! ان لوگوں میں سے خود انھی کی قوم سے ایک رسول اُٹھائیو جو انھیں تیری آیات سنائے، ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دے اور ان کی زندگیاں سنوارے، تو بڑا مقتدر اور حکیم ہے‘‘ (البقرہ: 137-139)۔
حاجی اس دعا کی صداے بازگشت سنتے ہوئے یہ نکتہ پا لیتا ہے کہ جس گھر کی تعمیر کا ذکر ہے، وہ حرم ہے جو اس کے سامنے ہے۔ یہ توحید پر استوار ہوا ہے۔ یہ سچے خدا پرستوں کا ایک مرکز دل و نظر ہے، یہ امن کا ایک سرچشمہ ہے، انسانیت کی پناہ گاہ ہے اور اس کی یہ شان برقرار رکھنا اصلاً اللہ تعالیٰ کے اپنے اہتمام سے ہے، لیکن ظاہری طور پر رسولؐ کے بعد پوری اُمت محمدیؐ کا فریضہ ہے کہ وہ خدا کے اس گھر کو طواف، اعتکاف اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے ہر قسم کے شرک کی آلایش اور ہر قسم کے فساد کی رکاوٹ سے پاک رکھیں۔
پھر اس دعا میں یہ آرزو کی گئی ہے کہ دعا کرنے والوں کو مسلم بنا۔ ایک حاجی کو بھی یہ جذبہ ان فضائوں سے نچوڑ کر لانا چاہیے کہ وہ مسلم بن کر رہے، وہ خدا کا مطیع فرمان ہو، وہ نہ بغاوت و سرکشی اختیار کرے، نہ شرک و نفاق کی راہیں نکالے۔ مسلم ہو تو حنیف ہو، یک سُو ہو، ایک ہی رب سے لو لگا لے اور ایک ہی الٰہ کے جلوئوں سے دل کے پنہاں خانے کو روشن کرلے۔
دعا کرنے والوں نے صرف اپنے لیے ہی نعمتِ اسلام نہیں مانگی، بلکہ اپنی نسل سے بننے والی قوم کے لیے یہ درخواست بھی کی کہ اس کو اپنا مسلم و مطیع بنایئے گا اور اُس کے اندر سے اپنا رسول مبعوث فرما کر ان کو بھی صحیح راہِ عبادت اور طریقۂ اسلام بتائیے گا۔ معلوم ہوا کہ خدا کے رسولؐ کا دامن تھامے بغیر اور اُس کی لائی ہوئی الہامی تعلیم کو قبول کیے بغیر زندگی میں نہ عبادت کا رنگ پیدا کیا جاسکتا ہے، نہ مسلم بن کے جینا ممکن ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ رسولؐ آئے اور خدا کی آیات بندوں تک پہنچائے، ہدایت اُن کو پڑھ کر سنائے، خدا کی کتاب اور حکمت ِ دین کی اُن کو وسیع تر تعلیم دے۔ پھر اُن کی زندگیوں کو فکری و اعتقادی لحاظ سے اور اخلاقی، معاشی اور سیاسی لحاظ سے بھی سنوارے۔
اب تو سوال صرف یہ ہے کہ ہم سب مسلمان اس تعلیم کتاب و حکمت اور تزکیۂ حیات سے سبق لے کر اپنی اور معاشرے کی زندگی کو کیسے اسلامی زندگی بناتے ہیں؟
میرے محترم حجاج بھائیو! یہ فریضہ آپ سے دوسروں کے مقابلے میں زیادہ توجہ چاہتا ہے۔ کیا آپ اس فریضے کی ادایگی کے لیے تیار ہیں؟
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
غزہ میں انسانی بحران پر خاموش تماشائی نہیں بن سکتے، اسرائیلی ماہرین تعلیم
اسرائیلی اخبار کے مطابق 341 اسرائیلی ماہرین تعلیم نے اپنے پیغام میں اسرائیلی حکومت، فوج اور عوام کو مخاطب کیا اورکہا ہماری طرف سے کیے جانے والے اقدامات عالمی پیمانے پر تباہی کا سبب بن سکتے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ اسرائیل کے 300 سے زائد ماہرین تعلیم نے غزہ مظالم کے خاتمے اور امداد کی بحالی کا مطالبہ کردیا۔ اسرائیلی اخبار کے مطابق 341 اسرائیلی ماہرین تعلیم نے اپنے پیغام میں اسرائیلی حکومت، فوج اور عوام کو مخاطب کیا اور کہا ہماری طرف سے کیے جانے والے اقدامات عالمی پیمانے پر تباہی کا سبب بن سکتے ہیں۔ اسرائیلی ماہرین تعلیم کا کہنا تھا کہ ہم اس پر خاموش تماشائی نہیں بن سکتے، غزہ میں انسانی بحران فوری روکا جائے، طبی امداد، خوراک، پانی غزہ کے اندر جانے دی جائے اور نہتے شہریوں پر فائرنگ بند کی جائے۔